وہ مشرق کی بیٹی تھی۔ وہ مشرق جو ہر صبح نئی امید کی تمازت اور سرگرم عمل رہنے کی حدت بخشنے والے مسیحاکو روز اپنی کوکھ سے جنم دیتا ہے۔ ایساجنم جس کے پیچھے تاریکی کے لمحات میں اس زمین کی کتنی آہیں اس حاملہ آسمان تک پہنچتی ہیں کتنی اذیتوں بھرے کرلاتے ہوۓ زخم تمام رات رِستے ہیں، ہاتھ اٹھتے ہیں دعاؤں کے لیے تب جا کےسحر کی امید جاگتی ہے، کہ بس آنے ہی والا ہے وہ روشن پیشانی والا مسیحا شاید آج کی صبح وہ اپنے ساتھ کچھ نیا کچھ بہترین لاۓ، کچھ ایسا کہ تمام رِستے زخموں پر پھاہے دھرے جائیں۔ وہ مشرق کی روشنی کی امیدرکھتی تھی مگر خالی دامن رہتی۔ مشرق کی کوکھ سے جنم لینے والا خورشید نہ اس کے لیے کوئی نئے دن لاتا نہ ہی کوئی معجزہ مگر وہ پھر بھی امید لیے ہوئے تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بس اڈے پر پہنچ کر وہ تیزتیز قدموں سے جا رہی تھی ہرطرف سے عجیب نظریں اس کا طواف کر رہی تھیں۔ وہ جانتی تھی کہ اسے کیا سمجھا جا رہا ہو گا مگر وہ اس سب کے لیے تیار تھی کہ اگر وہ خود کو اس سب کے لیے آمادہ نہ کرتی تویہ قدم کیسے اٹھاتی؟ کب تک پتنگ بنی رہتی جس کی ڈور کبھی رشتوں کے ہاتھ تھمائی جاتی اور کبھی ٹوٹتی، روتی، بلکتی نام نہاد عزت کے، کبھی سماج کے اصولوں کے اور کبھی مذہب کے اس حصے کے جس میں مرد کو عورت پہ فوقیت دی گئی ہے. وہ پتنگ بنی اڑتی تو تھی مگر اس آسمان پر جہاں دوسرے اسے اڑانا چاہتے تھے جب اس کی اڑان جوبن پہ ہوتی اور وہ اور اڑنا چاہتی، اسے زمین پر واپس بلا لیا جاتا۔ آج وہ یہ ڈور کاٹ آئی تھی، آج وہ جہاں چاہتی اڑتی پھرتی کسی پنچھی کی مانند۔۔۔۔۔۔ اور وہ جانتی تھی اڑنے اور ہچکولے کھا کر زمین بوس ہونے میں فرق ہے۔ یہ فرق اسے تعلیم نے سمجھایا، اس کے ذی شعور ذہن نے نتائج اخذ کیے تب ہی اس نے اڑان بھری۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتنی ہی جائز خواہشات کے خون میں نہاۓ آنسو اس نے رات کے سیاہ چولے پہ کاڑھے تھے، کتنے ہی سمجھوتوں کے کانٹے اس کی خواہشوں کے پیروں میں چبھے ہوئے تھے، کتنی آس اور امید سے وہ ان ماں باپ کے چہرے تکا کرتی تھی جو خدا کے بعد اس کا آخری سہارا ہوتے مگر وہ تو مشرق کی بیٹی تھی اور بیٹی کے سر پہ باپ کی لاج کا تاج دھرا رہتا ہے، ماں کا دوشالہ اس کے کاندھے سے ٹکا ہوتا ہے اس نازک جائیداد کی حفاظت توبیٹی نے ہی کرنی ہوتی ہے۔ مشرق کی تمام بیٹیوں کی وراثت میں بہت سے کٹے ہوئے پر، ٹوٹے ہوئے خواب اور سمجھوتے لکھے جا چکے ہیں اور اس کی وراثت بھی یہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھڑکی کے پار مناظر ہر لحظہ بدل رہے تھے، وہ تمام اس کی نگاہ کا مرکز تھے مگر اس کے خیال کا محور تواس کےگھرکا وہ کمرہ تھا جس کی میز پہ وہ ایک رقعہ چھوڑ آئی تھی، اس کمرے کے ساتھ ایک اور کمرہ تھا جس میں شاید اس وقت اس کی ماں نماز پڑھ رہی ہو گی۔ فجر کی اذانیں ہو چکی ہیں اورپھر وہ اسے نماز کے لیے اٹھانے آۓ گی اورپھر جب اسے بستر پر نہ پاۓ گی تو اس کو آوازیں دیتی غسل خانے تک جاۓ گی جس کاکھلادروازہ اس کا منہ چڑائے گا۔ وہ صحن میں، رسوئی میں، دالان میں، چھت پر۔۔۔۔۔ ہر جگہ دیکھے گی اور پھر جب اسے تلاش نہیں کر سکے گی تو دل پکڑ کر بیٹھ جاۓ گی۔ پھر۔۔۔۔ پھر سب کو معلوم ہو جاۓ گا۔ پھر وہ منحوس ٹھرائی جاۓ گی، بدذات کہلاۓ گی، کوئی اس کی وکالت نہیں کرے گا، ماں سب جانتے ہوۓ بھی کچھ نہیں کہے گی، وہ جس نے جنا وہ چپ رہے گی کیوں کہ وہ بھی مشرق کی بیٹی ہونے کے بوجھ تلے پیدا ہوئی، پلی بڑھی، بیاہی گئی اور حاملہ کی گئی تھی۔ درپردہ وہ یہ سب کرنےکاسوچتی رہی ہو گی جو اس کی بیٹی نے کیا، وہ ایسا کوئی قدم اٹھانے کا سوچتے سوچتے بوڑھی ہو گئی ہو گی مگر اپنے اندر اتنی ہمت پیدا نہیں کر پائی ہو گی۔۔۔۔ مگراس کی بیٹی زندہ تھی اور وہ زندہ رہنا چاہتی تھی، وہ کر گزری، وہ سب جو اس کی ماں کرنے کا بس سوچتی ہی رہی تھی۔ اچانک ہی بس کو بریک لگا اور وہ اپنے حواسوں میں آئی نہ جانے وہ کدھر جا رہی تھی مگر جدھر بھی جا رہی تھی کبھی نہ واپس آنے کے لیے جا رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیارے امی ابو!
شایدآپ میری شکل زندگی میں دوبارہ نہ دیکھنا چاہیں اور اگر آپ دیکھنا بھی چاہیں تو نہ دیکھ پائیں کیونکہ زمانے کے ڈر سے آپ یہ نہ کر سکیں گے۔ میں غلط ہوں گی، میں بےغیرت بھی کہلاوں گی، لوگ قیاس آرائیاں کریں گے، کئی نام لیں گے، میرے ساتھ کئی قصے منسوب کریں گے کہ لیکن مجھے کوئی عشق ومحبت کی زنجیر سے باندھ کر، باندی بنا کر اپنے ساتھ لے کر نہیں جا رہا، میں اپنی آنکھوں کے لیے جا رہی ہوں تا کہ وہ دیکھنا سیکھ سکیں، میں اپنے لیے تازہ ہوا تلاش کرنے نکلی ہوں تاکہ سانس لینا سیکھ سکوں، میں اپنے پیروں پر چلنے کے لیے زمین ڈھونڈنا چاہتی ہوں۔
شایدآپ میری شکل زندگی میں دوبارہ نہ دیکھنا چاہیں اور اگر آپ دیکھنا بھی چاہیں تو نہ دیکھ پائیں کیونکہ زمانے کے ڈر سے آپ یہ نہ کر سکیں گے۔ میں غلط ہوں گی، میں بےغیرت بھی کہلاوں گی، لوگ قیاس آرائیاں کریں گے، کئی نام لیں گے، میرے ساتھ کئی قصے منسوب کریں گے کہ لیکن مجھے کوئی عشق ومحبت کی زنجیر سے باندھ کر، باندی بنا کر اپنے ساتھ لے کر نہیں جا رہا، میں اپنی آنکھوں کے لیے جا رہی ہوں تا کہ وہ دیکھنا سیکھ سکیں، میں اپنے لیے تازہ ہوا تلاش کرنے نکلی ہوں تاکہ سانس لینا سیکھ سکوں، میں اپنے پیروں پر چلنے کے لیے زمین ڈھونڈنا چاہتی ہوں۔
پیارے امی ابو!
ہمارے ہاں سے سورج نکلتا ہے نا؟ ہم یہ امید کرتے ہیں نا کہ کل کا دن آج کے دن سے بہتر ہوگا مگر یہ کیسا سورج ہے جو میرے لیے صدیوں سے ایک جیسا ہے؟؟ کیوں غلامی کا تعفن زدہ احساس میرا دم گھونٹتا ہے؟ کیوں مجھے محسوس کروایا جاتا ہے کہ میں ایک مشین ہوں جس کو چلانے کا ہنراور اختیار کسی اور کے پاس ہے؟ میں کل کا سورج اپنے لیے خود بدلوں گی، میں اس کی تمازت سے زندگی کشید کروں گی میں اکیلی ہوں مگرمیں حق پر ہوں۔۔۔۔۔
آپ کی بیٹی
ہمارے ہاں سے سورج نکلتا ہے نا؟ ہم یہ امید کرتے ہیں نا کہ کل کا دن آج کے دن سے بہتر ہوگا مگر یہ کیسا سورج ہے جو میرے لیے صدیوں سے ایک جیسا ہے؟؟ کیوں غلامی کا تعفن زدہ احساس میرا دم گھونٹتا ہے؟ کیوں مجھے محسوس کروایا جاتا ہے کہ میں ایک مشین ہوں جس کو چلانے کا ہنراور اختیار کسی اور کے پاس ہے؟ میں کل کا سورج اپنے لیے خود بدلوں گی، میں اس کی تمازت سے زندگی کشید کروں گی میں اکیلی ہوں مگرمیں حق پر ہوں۔۔۔۔۔
آپ کی بیٹی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باپ نے ہاتھ میں پکڑا رقعہ پرزے پرز ے کیا، ماں کو دیکھا اور دھاڑا “ایسی اولاد پیدا کرنے سے پہلے تو ہی مر جاتی کتیا، بے غیرت چلی گئی ہو گی اپنے کسی عاشق کے ساتھ۔۔۔۔مر گئی وہ ہمارے لیے۔۔۔ تُو بھی کان کھول کے سن لےآج کے بعد اس کا نام لیا تو تجھے بھی فارغ کر دوں گا”۔ مغلظات بکتا، دروازے کو ٹھوکر لگاتا باپ چل دیا اور ماں خالی آنکھیں، خالی ذہن لیے درودیوار کو تکتی بیٹی کے وجود کو محسوس کرتی پرسکون اندازمیں مسکرا دی۔۔۔۔