Laaltain

اونگھ

28 فروری، 2016

[blockquote style=”3″]

عاصم بخشی کی یہ نظم اس سے قبل “اشارات” پر بھی شائع ہو چکی ہے، عاصم بخشی کی اجازت سے یہ نظم لالٹین پر شائع کی جا رہی ہے۔

[/blockquote]
[vc_row full_width=”” parallax=”” parallax_image=””][vc_column width=”2/3″][vc_column_text]

اونگھ

[/vc_column_text][vc_column_text]

آنکھ لگ جاتی ہے
نیلا سا دھواں
جوفِ تصور سے نکلتا ہے
کہر بنتا ہے

 

تن وہ خیمہ ہے جو سر ڈھانپے
تو پیروں کو
عیاں کرتا ہے

 

دل وہ خنجر کہ جو
سینے میں ترازو ہے
دھڑکتا ہے
تو دم گھٹتا ہے

 

آنکھ اک ننھا سا بچہ ہے
جو منظر کی دُھلی قاشوں پہ
تیزی سے لپکتا ہے
نگلتا ہے
ہراک لحظہ دہن بھرتا ہے

 

وقت مزدور ہے لاغر سا
جو لمحات کی گٹھڑی لئے
تاریخ کی گلیوں میں
ازل دن سے
پھرا کرتا ہے

 

نطق اک حاملہ بڑھیا ہے
جو صدیوں سے
بس اک لفظِ مکمل ہی کو جننے کی طلب
دل میں لئے
تکیۂ امکاں سے
لگی بیٹھی ہے
اور کوکھ میں
حرفوں کا الاؤ سا سلگتا ہے
بدن جلتا ہے

 

عشق وہ سرحدِ افلاکِ تمنا پہ کھڑا
طائرِ کوتاہ
جو پھیلائے اگر پنکھ
زمانوں میں سما جائے
مگر ڈرتا ہے

 

آنکھ کھل جاتی ہے

[/vc_column_text][/vc_column][vc_column width=”1/3″][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row][vc_row][vc_column][vc_column_text]

[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *