کسی بھی ریاست کی ترقی کا دارومدار اُس کے کے باشندوں کی انفرادی کارکاردگی پر منحصر ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بہترین انفرادی کارکردگی کیوں کر ممکن ہو سکتی ہے؟ ارسطو کے مطابق ریاست کی اکائی خاندان ہے گویا افراد کا براہِ راست تعلق خاندان سے ہے۔ لہذا انفرادی ترقی کے سوال کا جواب خاندان کے حوالے سے کی جانے والی قانون سازی ہے۔
تیس ستمبر کو 12 سالہ انیقہ کا اپنے ہی باپ اور بھائی کے ہاتھوں بہیمانہ قتل ، اور وہ بھی محض اس لیے کہ وہ ننھا پھول گول روٹی بنانے کے قابل نہیں تھا، جہاں پاکستانی خاندانی نظام کی بد حالی کا پردہ چاک کرتا ہے وہیں اس کے غیر موثر اور غیر فعال ہونے کا واضح ثبوت ہے۔
تیس ستمبر کو 12 سالہ انیقہ کا اپنے ہی باپ اور بھائی کے ہاتھوں بہیمانہ قتل،اور وہ بھی محض اس لیے کہ وہ ننھا پھول گول روٹی بنانے کے قابل نہیں تھا، جہاں پاکستانی خاندانی نظام کی بد حالی کا پردہ چاک کرتا ہے وہیں اس کے غیر موثر اور غیر فعال ہونے کا واضح ثبوت ہے۔ یہ صرف ایک بد نصیب انیقہ کی دل سوز کہانی نہیں ہے۔ یہا ں ہر روز کئی انیقہ نام نہاد خاندانی نظام پر اپنی جان کا قیمتی اثاثہ قربان کرتی ہیں۔جیسے چند روز قبل کراچی میں بیٹے نے اپنی ماں کے دونوں ہاتھ کاٹ ڈالے۔۔۔ گھریلو تشدد کے بیشترواقعات میں خواتین کو ہی خاندانی روایات کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مردوں کی نسبت خواتین کے خلاف گھریلو تشدد کے اعداد و شمار ہولناک حد تک زیادہ ہیں۔ ایسے تمام واقعات کی روشنی میں ہمارا خاندانی نظام ایک ایسا گورکھ دھندا معلوم ہوتا ہے، جہاں آکر انسان، فرد، انسانی فکر، انتخابِ عمل، فکری ارتقاءاور ریاستی ترقی جیسے تمام تصورات معدوم ہو جاتے ہیں۔
خاندان سے متعلق قانون سازی کے سوال سے پہلے یہ ضروری ہے کہ خاندان کے تصوراوراس کے مقصد کی وضاحت کی جائے۔ کیا خاندان سے مراد افراد کا بے ہنگم گٹھ جوڑ ہے، جہاں سب باہمی طور پر طفیلیے کا کردار ادا کر سکیں؟ اس کے برعکس کیا خاندان کا معنی بنیادی سہولت کاری کے نظام کے طور پر نہیں لیا جانا چاہیے؟ کیا اس کا مقصد آزاد و خود مختار انسان اور افراد کی افزائش نہیں ہونا چاہیے؟ جو خدا کی وسیع و عریض کائنات کو بغیر کسی حجت کے تسخیر کر سکیں، اور بحیثیت سر گرم شہری ریاستی ترقی کا حصہ بنیں۔ کیا ہمارا طرزِ خاندان ان متعلقہ اور نا گزیر لوازم کا حامل ہے؟
کیا ہم نے طرزِ خاندان کے حوالے سے ان لوازم کو ذہن میں رکھتے ہوئے کوئی با قاعدہ قانون سازی کر رکھی ہے؟ کیا ہم نے کوئی ایسا لائحہ عمل تیار کر رکھا ہے، جس کی رو سے خاندان کے افراد مرد و زن کے تعصب اور ہر طرح کے جذباتی جبر سے آزاد ہوکر اپنی شخصیت و عینیت کا سفر مکمل کر سکیں ، ایک اعلیٰ فکری و عقلی زندگی بسر کرنے کے مجاز ہو سکیں؟ اور ایک دوسرے کے معاون و مددگار بھی ثابت ہوں۔
حیف کہ ہم ابھی تک اس مغالطہ میں زندگی بسر کر رہے ہیں کہ خاندانی نظام کا تعلق نام نہاد جذباتی اور ہیجانی وابستگی سے ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو جاننے اور تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ انسانی رشتوں کا تحفظ اور بقا صرف اور صرف خاندانی نظام کے ضمن میں کی جانے والی باقاعدہ قانون سازی کے عمل سے وابستہ ہے۔ لا قانونیت کی صورت میں محض جذباتی، ہیجانی اور نام نہاد خلوص کی بناء پر رشتے اور خاندان ترتیب نہیں پاتے۔
خاندان سے متعلق قانون سازی کے سوال سے پہلے یہ ضروری ہے کہ خاندان کے تصوراوراس کے مقصد کی وضاحت کی جائے۔ کیا خاندان سے مراد افراد کا بے ہنگم گٹھ جوڑ ہے، جہاں سب باہمی طور پر طفیلیے کا کردار ادا کر سکیں؟ اس کے برعکس کیا خاندان کا معنی بنیادی سہولت کاری کے نظام کے طور پر نہیں لیا جانا چاہیے؟ کیا اس کا مقصد آزاد و خود مختار انسان اور افراد کی افزائش نہیں ہونا چاہیے؟ جو خدا کی وسیع و عریض کائنات کو بغیر کسی حجت کے تسخیر کر سکیں، اور بحیثیت سر گرم شہری ریاستی ترقی کا حصہ بنیں۔ کیا ہمارا طرزِ خاندان ان متعلقہ اور نا گزیر لوازم کا حامل ہے؟
کیا ہم نے طرزِ خاندان کے حوالے سے ان لوازم کو ذہن میں رکھتے ہوئے کوئی با قاعدہ قانون سازی کر رکھی ہے؟ کیا ہم نے کوئی ایسا لائحہ عمل تیار کر رکھا ہے، جس کی رو سے خاندان کے افراد مرد و زن کے تعصب اور ہر طرح کے جذباتی جبر سے آزاد ہوکر اپنی شخصیت و عینیت کا سفر مکمل کر سکیں ، ایک اعلیٰ فکری و عقلی زندگی بسر کرنے کے مجاز ہو سکیں؟ اور ایک دوسرے کے معاون و مددگار بھی ثابت ہوں۔
حیف کہ ہم ابھی تک اس مغالطہ میں زندگی بسر کر رہے ہیں کہ خاندانی نظام کا تعلق نام نہاد جذباتی اور ہیجانی وابستگی سے ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو جاننے اور تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ انسانی رشتوں کا تحفظ اور بقا صرف اور صرف خاندانی نظام کے ضمن میں کی جانے والی باقاعدہ قانون سازی کے عمل سے وابستہ ہے۔ لا قانونیت کی صورت میں محض جذباتی، ہیجانی اور نام نہاد خلوص کی بناء پر رشتے اور خاندان ترتیب نہیں پاتے۔
انیقہ کا قتل بلاشبہ متفرق وجوہ کی جانب اشارہ کرتا ہے جن میں طاقت کے اظہارکا مسئلہ، مردانہ تسلط و ملکیت کا جواز اور کمزور عدالتی نظام شامل ہیں۔
انیقہ قتل کیس اور اس نوعیت کے دیگر واقعات مذکورہ مغالطہ کا ہی نتیجہ ہیں۔ انیقہ کا قتل بلاشبہ متفرق وجوہ کی جانب اشارہ کرتا ہے جن میں طاقت کے اظہارکا مسئلہ، مردانہ تسلط و ملکیت کا جواز اور کمزور عدالتی نظام شامل ہیں۔ تاہم یہ تمام وجوہات ضمنی ہیں جن کا مرکزی جواز ہمارا ناقص طرزِ خاندان، اور اس سے متعلقہ ناگزیر قانون سازی کا فقدان ہے۔
بحیثیت استاد مجھے یہ کہنے میں بھی تامل نہیں مرد و زن کے تعصب اور مردانہ ملکیت و تسلط جیسے مسائل کا حل صرف تعلیم عام کرنے،یا حقوقِ نسواں کے حوالہ سے احتجاج کرنے، یا ان سے متعلق بیانات دینے میں نہیں ہے۔ ایسا کرنا صرف ہائیڈرا کا سر کاٹنے کے مترادف ہے۔ ان مسائل کے حل کے لیے خاندان کے تصور اور اس کے مقصد کو سمجھتے ہوئے، اس سے متعلق باقاعدہ قانون سازی کرنے میں ہے۔
بحیثیت استاد مجھے یہ کہنے میں بھی تامل نہیں مرد و زن کے تعصب اور مردانہ ملکیت و تسلط جیسے مسائل کا حل صرف تعلیم عام کرنے،یا حقوقِ نسواں کے حوالہ سے احتجاج کرنے، یا ان سے متعلق بیانات دینے میں نہیں ہے۔ ایسا کرنا صرف ہائیڈرا کا سر کاٹنے کے مترادف ہے۔ ان مسائل کے حل کے لیے خاندان کے تصور اور اس کے مقصد کو سمجھتے ہوئے، اس سے متعلق باقاعدہ قانون سازی کرنے میں ہے۔