Laaltain

امن کے عالمی دن پر ہندوستانی ہمسائے کے نام خط

21 ستمبر، 2016
ہندوستانی ہمسائے کے نام مزید خطوط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

 

میرے ہمسائے!

 

ہو سکتا ہے تمہاری رائے میرے بارے میں تبدیل ہو گئی ہو، اور ہو سکتا ہے کہ اب تم میرے خط کو وصول کرنے سے انکار کر دو۔ دیکھو مجھے کسی کے فوجی کے مرنے کی کوئی خوشی نہیں ہوتی تمہارے اٹھارہ فوجی مرے، مجھے ان کے مرنے کا دکھ ہے۔ مگر ایک ایسے وقت میں ہی تو امن کی بات کرنا زیادہ اہم ہو جاتا ہے، اس پاگل پن کے بیچ ہی تو ہمیں دانشمندی کے حق میں دلائل دینے ہیں۔

 

اگر کل کلاں کو میرے اور تمہارے ملک کے مابین جنگ ہوئی تو میں ابھی تک فیصلہ نہیں کر سکا کہ میں تم پر بندوق تان سکوں گا کہ نہیں۔
ایک ایسے وقت میں امن کی بات کرنا جب ایک طرف سے جنگ کی للکار ہو اور دوسری طرف ہر حملے کا سامنا کرنے کے عزم کا اظہار معلوم نہیں کس قدر دانشمندی ہے لیکن مجھے ابھی تک فیصلہ کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اگر کل کلاں کو میرے اور تمہارے ملک کے مابین جنگ ہوئی تو میں ابھی تک فیصلہ نہیں کر سکا کہ میں تم پر بندوق تان سکوں گا کہ نہیں۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ میرے لیے بہر طور انسانیت اپنے ملک سے محبت ور تمہارے ملک سے دشمنی نبھانے سے زیادہ اہم ہے اور میں کسی ایسے پاگل پن کا حصہ نہیں بن سکتا جو حب الوطنی، مذہب یا قومیت کی بنیاد پر رچایا جائے۔ میں جنگ نہیں چاہتا اور اگر جنگ ہوئی تو میرے لیے کسی کے بھی خلاف بندوق اٹھانا ممکن نہیں ہو گا سوائے اپنے۔ میں کسی بھی اور شخص پر خواہ وہ میرے دشمن ملک سے ہی ہو گولی چلانا ممکن نہیں۔ سو اگر کبھی ہمارے درمیان جنگ ہوئی اور اگر کبھی ہم دونوں کے ملکوں کی فوجیں ایک دوسرے کو نابود کرنے کو ایک دوسرے پر چڑھ دوڑیں تو جان لینا کہ میں تب تک خود کو مار چکا ہوں گا۔

 

میرے اور تمہارے دیس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں اور ہم پلک جھپکتے میں ایک دوسرے کے ملکوں کو راکھ کر سکتے ہیں۔ ہم اربوں کی آبادیاں جھلسا سکتے ہیں اور ہمارے میزائل ایک دوسرے کو لمحوں میں ہمیشہ کے لیے بنجر کر سکتے ہیں۔ مگر سوچو کہ دونوں طرف ایک دوسرے کی اس تباہی کا جشن منانے کو بھی کوئی نہیں بچے گا۔ وہ بھی نہیں جو اس وقت “جنگ کرو، برباد کر دو، دشمن کو منہ توڑ جواب دو” کی گردان کر رہے ہیں۔ موت کے لیے اتنے اسباب مہیا کرنے کو دفاع کا نام کیسے دیا جا سکتا ہے؟ کیا اپنے دفاع کے لیے ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ملکوں کو تباہ کرنے کے ہتھیار جمع کر لیں اور اتنی فوجیں اکٹھی کر لیں کہ ہمارے لیے سانس لینا مشکل ہو جائے؟

 

ہم صرف اس لیے ایک دوسرے کے بچوں اور ماوں کو قتل کرنے اور ان پر بارود برسانے کو تیار ہیں کیوں کہ ہم ایک دوسرے کو جانتے نہیں اور ہمیں ایک دوسرے سے نفرت کرنے کے سوام کوئی اختیار ہمارے ملکوں نے نہیں دیا
ہمارے جوہری ہتھیار، ہمارے میزائل، ہمارے طیارے، ہمارا گولہ بارود اور ہمارے لشکر کیا یہ سب کچھ ہی ہمارے وطنوں کی نمائندگی کرتے ہیں؟ کیا ہمارے پاس ایک دوسرے کو دینے کے لیے دھکمیوں کے سوا کچھ بھی نہیں؟ یہ کہاں کی دانشمندی ہے کہ ہم ڈیڑھ ارب انسانوں کو ایک ایسی تباہی میں جھونکنے کو ہمہ وقت تیار رہیں جس کا ماتم کرنے والے بھی باقی نہیں رہیں گے؟

 

کیا ہمارے سکولوں میں یوم دفاع اور جنگوں میں جیت کے مقدموں کی بجائے امن کی اہمیت اور افادیت کے مضامین شامل نہیں کیے جا سکتے؟ کیا ہم ا پنے وسائل جو ایک دوسرے کو موت کو گھاٹ اتارنے کے لیے بارود کے انبار کھڑے کرنے کو صرف کر رہے ہیں وہ ہماری زندگیوں کو بہتر بنانے پر خرچ نہیں کر سکتے؟ کیا یہ ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے کو دشمن قرار دینے کے لیے اپنے ٹی وی چینلوں کی زبانیں دراز کر لیں، ایک دوسرے سے نفرت کرنے کے لیے ایک دوسرے سے انجان رہنے کو ترجیح دینے لگیں؟ مگر میرے لیے یہ آسن نہیں۔ آخر میں ایک ایسے شخص کو کیسے دشمن تسلیم کر لوں جو مجھ سے سینکڑوں میل دور رہتا ہے اور جس سے مجھے کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچا، جس نے مجھے کبھی دیکھا ہی نہیں اور جسے میں جانتا تک نہیں اور تم کس طرح ایک ایسے شخص سے نفرت کر سکتے ہو جس سے تم واقف نہیں؟ ہم صرف اس لیے ایک دوسرے کے بچوں اور ماوں کو قتل کرنے اور ان پر بارود برسانے کو تیار ہیں کیوں کہ ہم ایک دوسرے کو جانتے نہیں اور ہمیں ایک دوسرے سے نفرت کرنے کے سوام کوئی اختیار ہمارے ملکوں نے نہیں دیا، ہمیں یہی کہا گیا ہے کہ جنگ ہی واحد حل ہے۔ مگر ہمیں نفرت کے علاوہ بھی کچھ منتخب کرنے کا حق ملنا چاہیئے، ہمیں جنگ کے سوا بھی کوئی حل تلاش کرنا چاہیئے۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *