علاقے کے عمائدین اور منتخب بلدیاتی اراکین شکایت کررہے ہیں کہ ضلعی انتظامیہ بالخصوص ڈی سی چترال او راسسٹنٹ کمشنر مستوج سوچے سمجھے منصوبے کے تحت امدادی کاموں میں غیر ضروری رخنہ ڈال رہے ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق انتظامیہ من پسند افراد کو نواز رہی ہے۔
آپ کے رسالے کی وساطت سے میں 26 اکتوبر کو آنے والے زلزلے کے بعد حکومت کی جانب سے متاثرین کی امداد میں برتی جانے والی کوتاہی اور متاثرین زلزلہ کی عزت نفس مجروح کرنے کے عمل کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں۔26اکتوبر کے تباہ کن زلزلے کو 2 ہفتے گزرچکے ہیں لیکن متاثرین کی بروقت امدا د کے حکومتی دعوے تاحال محض اعلانات تک ہی محدودہیں۔گزشتہ دو ہفتے سے چترال کے دوردراز علاقوں کے عوام شدید سردی میں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور حکومت کی طرف سےابھی تک سروے کے نام پر ہر روز مختلف ٹیمیں متاثرہ علاقوں کا دورہ کررہی ہیں۔علاقے کے عمائدین اور منتخب بلدیاتی اراکین شکایت کررہے ہیں کہ ضلعی انتظامیہ بالخصوص ڈی سی چترال او راسسٹنٹ کمشنر مستوج سوچے سمجھے منصوبے کے تحت امدادی کاموں میں غیر ضروری رخنہ ڈال رہے ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق انتظامیہ من پسند افراد کو نواز رہی ہے۔ سرکاری اہلکار اپنے منظور نظر افراد کے علاوہ باقی غریب اوربے گھر لوگوں کو سروے میں شامل ہی نہیں کر رہے۔ ویلج کونسل بونی کے ناظم سلامت نے بتایاکہ زلزلے کے بعد حکومتی امداد نہ ملنے کے باعث اس علاقے کے اکثر متاثرین اپنی مدد آپ کے تحت تباہ شدہ مکانات کی دوبارہ تعمیر کرچکے ہیں۔ سلامت کا کہنا تھا کہ اب سروے ٹیمیں ان متاثرین کے نام یہ کہتے ہوئے فہرستوں سے نکال رہی ہیں کہ چونکہ ان کے گھر درست حالت میں ہیں لہٰذا انہیں امداد کی کوئی ضرورت نہیں۔ اسی بہانے سینکڑوں متاثرین زلزلہ کو امداد سے محروم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سلامت نے اس امر کا الزام ڈی سی اور اسسٹنٹ کمشنر پر عائد کیا۔
زلزلہ متاثرین کا کہنا ہے کہ آئے روز نت نئی سروے ٹیمیں توثیق کے نام پر من مانیوں میں مصروف ہیں۔متاثرین کا یہ بھی کہناتھا کہ حکومت اور ضلعی و تحصیل انتظامیہ متاثرین کی بروقت امدادکی بجائے سروے کے نام پر عوام کی زخموں پر نمک پاشی کررہے ہیں۔ متاثرین نے حکومت پر ناکافی اور تاخیر سے امداد فراہم کرنے کا الزام بھی عائد کیا۔ زلزلے کے ایک ہفتے بعد حکومت کی جانب سے متاثرین کو ایک بوسیدہ خیمہ،ایک کمبل اور ایک چٹائی دی گئی تھی، بعض مقامات پر البتہ راشن کے نام پر ایک کلوگھی، 20 کلوآٹااورو ایک ایک پاؤچینی بھی فراہم کی گئی۔ لیکن اس ابتدائی کھیپ کے بعد متاثرین کی کوئی مدد نہیں کی گئی۔
زلزلے کے ایک ہفتے بعد حکومت کی جانب سے متاثرین کو ایک بوسیدہ خیمہ،ایک کمبل اور ایک چٹائی دی گئی تھی، بعض مقامات پر البتہ راشن کے نام پر ایک کلوگھی،20 کلوآٹااورایک ایک پاؤچینی بھی فراہم کی گئی۔ لیکن اس ابتدائی کھیپ کے بعد متاثرین کی کوئی مدد نہیں کی گئی۔
چترال کے بالائی حصوں میں گزشتہ تین چار دنوں سے برف باری جاری ہے ۔ کئی علاقوں میں ایک فٹ سے زائد برف پڑی چکی ہے ایسی حالت میں انتظامیہ اور حکومت کی بے حسی کی وجہ سے متاثرین انتہائی بے سروسامانی کی حالت میں زندگی بسرکرنے پر مجبورہیں۔ شدید سردی اور برف پڑنے کی وجہ سے متاثرہ علاقوں میں مختلف بیماریاں پھیل رہی ہیں لیکن متاثرین کو کسی قسم کی طبی امداد مہیا نہیں کی گئی ہے۔صوبائی اوروفاقی حکومت کی جانب سے ذرائع ابلاغ پر متاثرین زلزلہ کی بحالی کے بلندوبانگ دعوے تو کیے جارہے ہیں لیکن عملی طورپر کوئی کام نہیں ہورہاہے۔ چترال کے بالائی حصے یعنی سب ڈویژن مستوج کے مختلف علاقوں میں پہاڑی اور مٹی کے تودے گرنے کی وجہ سے راستے بھی بند ہو چکے ہیں، مقامی لوگون نے اپنی مدد آپ کے تحت راستوں کو جزوی طورپر آمدورفت کے قابل بنا لیا گیاہے لیکن تاحال حکومت کی جانب سے ان راستوں کی مکمل بحالی کاکوئی بندوبست نہیں ہوسکا۔ متاثرین نے حکام سے جلدازجلد امداد کی فراہمی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
فقط
کریم اللہ
چترال
فقط
کریم اللہ
چترال