[blockquote style=”3″]
وجاہت مسعود کی یہ نظم معروف ادبی جریدے ‘تسطیر’ میں شائع ہو چکی ہے، لالٹین قارئین کے لیے اسے مدیر تسطیر نصیر احمد ناصر کی اجازت سے شائع کیا جا رہا ہے۔
[/blockquote]
تسطیر میں شائع ہونے والی مزید تخلیقات پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
اب کوئی آواز آتی نہیں
بچپن اور جوانی کے بیچ
میں بہت دن اداس رہا
جوانی مجھے ڈراتی تھی
اپنی اور کھینچ کر
یوں بھینچتی تھی
مانو جوانی بیوہ کی رات ہے
میں بہت دن اداس رہا
جوانی مجھے ڈراتی تھی
اپنی اور کھینچ کر
یوں بھینچتی تھی
مانو جوانی بیوہ کی رات ہے
کھلے میں برف پر آہستہ آہستہ پاؤں رکھتا
بھیڑیا ہے
غسل خانے میں پانی گرنے کی آواز ہے
اور صابن کے اس ٹکڑے کی خوشبو
جسے تم نے ابھی ابھی
اپنے کندھوں کے بیچ ملا تھا
میں نے دیکھا تو نہیں
بس مجھے یونہی محسوس ہوا تھا
بھیڑیا ہے
غسل خانے میں پانی گرنے کی آواز ہے
اور صابن کے اس ٹکڑے کی خوشبو
جسے تم نے ابھی ابھی
اپنے کندھوں کے بیچ ملا تھا
میں نے دیکھا تو نہیں
بس مجھے یونہی محسوس ہوا تھا
جوانی سے کچھ پہلے
ناک بہت تیز ہو جاتی ہے
خوشی کو
تنگ گلیوں میں
پرانے مکانوں میں
اور نیم روشن کھڑکیوں کے پار
سونگھ لیتی ہے
الگنی سے لٹکی اترن
اور ملے دلے بستر کے سرہانے رکھے دوپٹے میں
ڈھونڈ نکالتی ہے
لیکن کچھ ایسا ہوا
کہ جوانی مجھ پہ آئی ہی نہیں
بس بہت سی بیزارکن تکان
میرے کندھوں
اور گردن میں اتر آئی
بیوہ کی رات کی طرح
ناک بہت تیز ہو جاتی ہے
خوشی کو
تنگ گلیوں میں
پرانے مکانوں میں
اور نیم روشن کھڑکیوں کے پار
سونگھ لیتی ہے
الگنی سے لٹکی اترن
اور ملے دلے بستر کے سرہانے رکھے دوپٹے میں
ڈھونڈ نکالتی ہے
لیکن کچھ ایسا ہوا
کہ جوانی مجھ پہ آئی ہی نہیں
بس بہت سی بیزارکن تکان
میرے کندھوں
اور گردن میں اتر آئی
بیوہ کی رات کی طرح
کیا اب بھی وہ راتوں کو چونک کر
دالان پرکان لگائے
جاگتی رہتی ہے
دالان پرکان لگائے
جاگتی رہتی ہے
جوانی کے کچھ بعد
کان بہت تیز ہو جاتے ہیں
بس ناک اور کان کے بیچ
جھولتا ہوا پل
منہدم ہو جاتا ہے
اور کوئی آواز نہیں آتی!
کان بہت تیز ہو جاتے ہیں
بس ناک اور کان کے بیچ
جھولتا ہوا پل
منہدم ہو جاتا ہے
اور کوئی آواز نہیں آتی!
Image: Tai-Shan Schierenberg