Laaltain

یمنی خانہ جنگی کے خاتمے کا ایک سنہری موقع

19 اکتوبر، 2015
یمن میں جاری خانہ جنگی اور سعودی اتحاد یوں کے طرف سے یمن پر مسلط کردہ جنگ کے خاتمے کی طرف ایک مثبت پیش رفت نظر عمان میں روس کے تعاون سے ہونے والے معاہدے کی صورت میں سامنے آئی جسے یمنی حوثیوں اور سابق صدر عبداللہ صالح نے مشروط طور پر قبول کرنے پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔ عمان امن منصوبے میں طے پایا تھا کہ کس طرح یمن میں جاری جنگ کو روکا جا سکتا ہے اور کس طرح وہاں سیاسی عمل کی داغ بیل ڈالی جا سکتی ہے۔ عمان میں ہونے والے امن منصوبے کو ایران اور سعودی عرب کا تعاون بھی حاصل تھا تاکہ بات چیت کے ذریعے یمن میں جاری جنگ کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔ عمان کی سربراہی اور روسی حکومت کے تعاون سے ہونے والے امن منصوبے کے سات بنیادی نکات پراتفاق ہوا تھا :
1۔ یمن کے شہری علاقوں سے حوثی جنگ جو اور سابق صدر عبداللہ صالح کی وفادار فوج نکل کر جنگ سے پہلے والی حالت پر واپسی
2۔ مفرور صدر منصور ہادی اور خالد بحاح کی حکومت کی بحالی
3۔پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کا فوری انعقاد
4۔ تمام یمنی سیاسی جماعتوں کے درمیان مشترکہ معاہدہ پر دستخط
5۔ انصاراللہ تحریک کو ایک سیاسی جماعت میں تبدیل کرنا
6۔ تمام عطیہ کنندگان کی یمن کی تعمیر نو کے لیے امدادی کانفرنس میں شرکت
7۔ یمن کی خلیجی تعاون کونسل میں شمولیت
حوثی قبائل نے اقوام متحدہ کے موثر کردار کو یقینی بنائے بغیر سات نکاتی امن منصوبہ قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا، وہ اپنے مقبوضہ شہری علاقوں سے اقوام متحدہ کی موثر نگرانی کے بغیر نکلنے پر تیار نہیں تھے

 

حوثی قبائل نے اقوام متحدہ کے موثر کردار کو یقینی بنائے بغیر سات نکاتی امن منصوبہ قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا، وہ اپنے مقبوضہ شہری علاقوں سے اقوام متحدہ کی موثر نگرانی کے بغیر نکلنے پر تیار نہیں تھے۔ حوثی اس معاہدے میں اقوام متحدہ کے کردار کو زیادہ موثر اور فعال بنانے پر مصر تھے۔عمان امن منصوبے کو کئی ماہ گزرنے کے بعد بالاآخر حوثی قبائل اور سابق صدر عبداللہ صالح نے مشروط طور پراس منصوبے کو قبول کرنےپر رضا مندی ظاہر کی ہے۔ سباء (یمنی نیوز ایجنسی) کی رپورٹ کے مطابق انصار اللہ موومنٹ کے ترجمان عبدالسلام نے اپنے حالیہ بیان میں عمان میں طے پانے والے سات نکاتی ایجنڈے پر اپنی مشروط آمادگی کا اظہار ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا۔ یاد رہے کہ یمنی صدر اور وزیراعظم اپنی پوری کابینہ کے ساتھ جنوری میں شدید عوامی ردعمل کے سامنے حکومت سے علیحدگی اختیار کر چکے ہیں، جبکہ اس وقت کی اسمبلی نے وزیراعظم اور اسکی کابینہ کے استعفے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں یورپی ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ سعودی اور اس کے عرب اتحادیوں کو اسلحے کی فراہمی فوری طور پر بند کریں تاکہ یمن میں انسانی جانوں کے ضیاع کو ممکن حد تک روکا جا سکے۔
موجودہ صورت حال کے تناظر میں اس پیش کش کےجواب میں دیکھنا یہ ہے کہ یمن کے مفرور صدر اور مستعفی وزیر اعظم خالد بحاح کس طرح کا ردعمل دیتے ہیں۔ اس سے پہلے مفرور صدر یمن پر سعودی عرب اور اس کےاتحادیوں کے فوجی حملوں کی مسلسل تائید کرتے آئے ہیں اور امن عمل پر کوئی خاص آمادگی ظاہر کرتے ہوئے نظر نہیں آتے تھے۔
خطے کی پیچیدہ صورت حال کے پیش نظر حوثیوں کی امن عمل پر رضا مندی ایک انتہائی مثبت پیش رفت نظر آ رہی ہے ۔ اس حوالے سے عالمی برادری بالخصوص عرب قیادت کو متوجہ ہونے کی اشد ضرورت ہےتاکہ جنگ زدہ عرب ملک یمن میں امن قائم ہوسکے۔ دوسری طرف ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں یورپی ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ سعودی اور اس کے عرب اتحادیوں کو اسلحے کی فراہمی فوری طور پر بند کریں تاکہ یمن میں انسانی جانوں کے ضیاع کو ممکن حد تک روکا جا سکے۔ اب تک کے اعدادو شمار کے مطابق 5000 کے لگ بھگ افراد اس جنگ میں لقمہ اجل بن چکے ہیں اور ہزاروں افراد ادویات کی شدید قلت کے سبب زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں۔

 

یمن میں امن قائم ہونے کی صورت میں اس کے مثبت اثرات پوری عرب دنیا پر پڑیں گے اور اس سے دہشت گرد گروہوں کے خلاف جاری عالمی کوششوں کو بھی تقویت ملے گی۔اس سے یمنی قوم اپنی توجہ یمن کی تعمیرو ترقی، سیاسی عمل کی پائیداری اور القاعدہ اور داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کے خاتمے پر مرکوز کر سکے گی تاکہ یمنی سرزمین سے دہشت گردی کاقلع قمع کیا جا سکے۔ یمن جیسا غریب ملک اور اس کے پسماندہ عوام اس خونی ریزی کے سلسلے کو زیادہ دیر برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ تمام فریق لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے بات چیت کے عمل سے اس مسئلے کا سیاسی راہ حل تلاش کرنے پر اکٹھے ہو جائیں ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *