Laaltain

پاکستان پر شامی جنگ کے خون آشام سائے

19 دسمبر، 2015
ہفتہ بھر پہلے آدھی رات کے لگ بھگ جرمن خبر رساں ادارے کی جانب سے ایک تحقیقی مضمون شائع ہوا جس میں ایرانی پاسداران کی جانب سے شام کی لڑائی میں پاکستان سے اہل تشیع کو بھیجے جانے کی تفصیلات درج تھیں۔ امتیاز احمد صاحب نے اس تحریر کو بہت تلاش و تحقیق کے ذریعے مکمل کیا تھا۔ بتایا گیا تھا کہ اس سارے معاملے کو ایرانی پشت پناہی حاصل ہے اور جو افراد پاکستان سے گئے ہیں ان میں پاراچنار کے رہائشیو ں کی تعداد زیادہ ہے۔ اسی وقت یہ اندازہ تو ہو ہی گیا تھا کہ اس خبرکا ردعمل پاراچنار پر حملے کی صورت میں ظاہر ہو گا اور حالیہ دھماکہ اندیشہ درست کرگیا۔

 

پاکستان میں منظم دہشت گردی کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے اور اس کی جڑیں سوویت افغان جنگ اور ایران میں شیعہ اسلامی انقلاب میں پیوست ہیں۔
پاکستان میں منظم دہشت گردی کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے اور اس کی جڑیں سوویت افغان جنگ اور ایران میں شیعہ اسلامی انقلاب میں پیوست ہیں۔ فروری 1979 کا شیعہ اسلامی انقلاب خطے میں موجود دیگر بااثر سنی ریاستوں کے لیے تب شدید خطرے کی شکل اختیار کر گیا جب ایرانی حکومت نے نظریہ ولائت فقیہ کی پیروی کو تمام شیعہ مسلمانوں کے لیے لازم قرار دے دیا۔ ایک سیاسی نظریہ ضرورت کو جب مذہب و مسلک کا تحفظ میسر آیا اور اسے حکومتی آشیرباد ملی تو عوام کی کثیر تعداد اسے اذن الٰہی سمجھنے لگی۔ رفتہ رفتہ ایران کے بااثر مذہبی دانشور مرتضیٰ مطہری کی تحریریں اثر کرتی گئیں اور انقلاب کے لیے فکری بنیادیں طے کرنے والے ڈاکٹر علی شریعتی کی علمی فکر پس منظر میں چلی گئی۔ خوش قسمتی یا شومئی قسمت آٹھ سال تک جاری رہنے والی ایران عراق جنگ کے خاتمے پر ایرانی حکومت کی انقلابی شکل برقرار رہنے سے مشرقِ وسطیٰ کے عام شیعہ مسلمان پر بہت گہرا اثر ہوا اور ایران سے باہر رہنے والے شیعہ مسلمانوں نے اپنے شناختی تحفظ کے لیے ایران سے ایک خاص طرح کی روحانی وابستگی جوڑ لی۔ ایرانی حکومت نے بھی بانہیں پھیلا کر ان توقعات کا خیرمقدم کیا۔ سوویت افغان جنگ کے نتیجے میں پر پھیلائے ہوئے سعودی عرب کے لیے خطے میں بدلتی ہوئی یہ صورت حال کسی طرح قابل قبول نہیں تھی اور یوں خطے میں باقاعدہ سنی شیعہ سیاسی تنازع سر اٹھانے لگا جوپہلے صرف عربوں اور ایرانیوں کے روایتی نسلی اور مسلکی اختلاف تک محدود تھا۔

 

لواء زینبیوان نامی فیس بک صفحہ شامی لڑائی کے لیے شیعہ بھرتی کی غرض سے استعمال کیا جا رہا ہے
لواء زینبیوان نامی فیس بک صفحہ شامی لڑائی کے لیے شیعہ بھرتی کی غرض سے استعمال کیا جا رہا ہے
انیس سو نوے کی دہائی کے آغاز میں لبنان پر اسرائیلی قبضے کے خلاف حزب اللہ کی بڑھتی ہوئی کامیابیوں نے مشرق وسطیٰ کے مستقبل کی تصویر اس وقت واضح کرنی شروع کردی جب امریکی قیادت میں عالمی اتحاد نے کویت کو آزاد کروانے کے لیے ایران کے مضبوط مخالف صدام حسین کے پر کاٹ دیئے تھے۔ یہ منظر تو واضح ہو چلا تھا کہ جلد یا بدیر صدام کی رخصتی کے بعد ایران عراق اور شام کے رستے لبنان میں ایک مضبوط تزویزاتی گڑھ قائم کر لے گا اور اس طرح اسرائیل کو واضح طور پر دھمکانے سے وہ مشرقِ وسطیٰ کے مسلمانوں کا سپہ سالار بن بیٹھے گا۔ ایران کی مذہبی حکومت کے لیے یہ سارا راستہ سیدھا تھا اور اس سیدھے رستے میں رکاوٹیں ڈالنا ان تمام ممالک کے لیے لازم تھا جنہیں خطے میں بڑھتے ہوئے ایرانی اثرورسوخ سے براہ راست خطرات لاحق تھے۔ عراق پر امریکی قبضے کے بعد فلوجہ کی پہلی بغاوت، انصار السنہ کا قیام، عراق میں منظم فرقہ واریت کے پانچ سال، عراق میں امریکہ کا کیمپ بوکا، شام کی عوامی بغاوت میں القاعدہ کی شمولیت اور اب داعش ۔

 

ہمارے دونوں برادر اسلامی ممالک نے اپنے مفادات کے لیے ہمارے ملک کو میدان جنگ بنایا اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔
لواء زینبیوان نامی فیس بک صفحہ شامی لڑائی کے لیے شیعہ بھرتی کی غرض سے استعمال کیا جا رہا ہے بین الریاستی تعلقات کسی سماج میں قائم انفرادی یا اجتماعی تعلقات کی طرح تو ہوتے نہیں ہیں کہ اخلاقی پابندیوں کو ملحوظ رکھا جائے۔ محدود وسائل پر ریاستوں کے باہم دست وگریباں تعلق میں حق پر وہی ہے جو آخرش کار فاتح ہو۔ اس طرح مشرق وسطی کے مائی باپ بننے کی لڑائی نے پچھلے تیس سالوں میں پاکستان کے علاوہ بھی جس جس میدان کو رنگین کیا ہے اس کے دھبے پاکستان تک پہنچےہیں۔ حالیہ قصہ شام کا ہے۔ نوے کی دہائی کے اواخر جب موجودہ چہرے ہی حکمران تھے پاکستان میں فرقہ واریت عروج پر تھی ایک مخصوص فرقے کے نمایا ں افراد آئے روز قتل ہورہے تھے اور یہ واضح تھا کہ اس ٹارگٹ کلنگ کا ردعمل ہوگا اور اسی انداز میں ہوگا۔ اور وہ ہوا ہمارے دونوں برادر اسلامی ممالک نے اپنے مفادات کے لیے ہمارے ملک کو میدان جنگ بنایا اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔ پارا چنار میں نوے کی دہائی میں ہی جب فرقہ وارانہ قتل و غارت عروج پہ تھا تو ایرانی اور سعودی مہربانیوں کی بنا پر ہدف بنا کر قتل کرنے کی وارداتیں جنگ کی صورت اختیار کر گئیں۔ اور بظاہر امن کے زمانے میں بھی مسجد و منبر انہی علماء کے تسلط میں رہا جومذہبی عبادت گاہوں سے سیاسی مقاصد پورے کرنے کے لیے وہاں موجود تھے۔
ہمارے مغرب میں موجود برادر ہمسایہ اسلامی جمہوریہ سے فارغ التحصیل علمائے کرام نے اسی زمانے میں اسلامی جمہوریہ کے سیاسی مقاصد کو مقاصدِ امام کا نام دیتے ہوئے اپنے ہم مسلک نوجوانوں کو ہتھیار وں کا رستہ دکھایا اور جس کا جہاں داؤ چلا، کی کہانی شروع ہوئی۔ اب جو مظلومیت کے پیرو تھے وہ بھی ظالم بننے لگے اور جو ظالم کہلاتے تھے وہ بھی مظلوم ہوگئے۔

 

ریاض اور جدہ سے نوجوان بھرتی ہو کر شام لڑنے جارہے ہیں۔ یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا سے بھی شام میں جہاد کا شوق بلانے والوں کو بلائے جاتا ہے وسط ایشیائی بھی پیچھے نہیں، لبنانی اور عراقی بھی وہاں ہیں۔ ایران ایک گروہ کا سرخیل ہےتو سعودی عرب دوسرے کا۔ پڑھتے دونوں کلمہ ہیں ذرا گہری نظر سے جھانکو تو علم ہوتا ہے کہ اگر ایک گھر دو لاکھ روپے پاکستانی تنخواہ دیتا ہے تو دوسرا ایک لاکھ بیس ہزار۔ اور یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ بھوکے کا دین روٹی ہے۔

 

کہنے والے کہتے ہیں کہ پاکستان سے جہاد کے شوقین شیعہ مسلمانوں کا بھرتی دفتر ایران کے شہر قم میں کھلا ہوا ہے۔ جہاں 18 سے 35 سال تک کے سالم مردوں کی ضرورت ہے آنکھوں اور دیگر اعضاء کی صحت مندی کا جائزہ لیا جائے گا، ایک لاکھ بیس ہزار روپے بطور ‘ہدیہ’ ہر ماہ ملیں گے اگر ‘شہادت ‘ نصیب ہوئی تو ‘شہید’ کی بیوہ اور بچوں کو وظیفہ اور دیگر اخراجات دیئے جائیں گے۔ ۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ پاکستان سے جہاد کے شوقین شیعہ مسلمانوں کا بھرتی دفتر ایران کے شہر قم میں کھلا ہوا ہے۔ جہاں 18 سے 35 سال تک کے سالم مردوں کی ضرورت ہے آنکھوں اور دیگر اعضاء کی صحت مندی کا جائزہ لیا جائے گا، ایک لاکھ بیس ہزار روپے بطور ‘ہدیہ’ ہر ماہ ملیں گے اگر ‘شہادت’ نصیب ہوئی تو ‘شہید’ کی بیوہ اور بچوں کو وظیفہ اور دیگر اخراجات دیئے جائیں گے۔ زیارات مقامات مقدسہ کروائی جائے گی اور دوسرا انعام آخرت ہے۔
بلانے کا نعرہ صدائے استغاثہ ہے جو امام عالی مقام کی بہن کا ہے یہاں کے لوگ ان کے بھائی علمدار کی نسبت سے ان کے مزار کی حفاظت کو جارہے ہیں۔ ایک ہزار پہنچے ہوئے ہیں کچھ مارے گئے کچھ لڑ رہے ہیں۔ اس سے قبل داعش کے ساتھ لڑنے کے شوقین بھی پاکستان سے بھرتی کیے جاتے رہے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان گزشتہ تین دہائیوں سے جہادیوں کے لیے زرخیر خطہ رہا ہے۔

 

اگر نیشنل ایکشن پلان والے یہ پڑھ رہے ہیں تو عرض ہے کہ فیس بک پہ ‘لواء زینبیون‘ کا صفحہ ہے جہاں سے یہ بھرتی جاری ہے قم میں کس کو ملنا ہے ؟ اس کا رابطہ نمبر اس صفحے پر درج ہے۔ چار دن پہلے کے اعلان پر کوئی بیس کے لگ بھگ افراد نے جانے کی حامی بھری ہے جانے والے ایک نوجوان کا فیس بک پروفائل دیکھا تو ایک سیلفی اپ لوڈ تھی اس تبصرے کے ہمراہ ‘جہاد مقدس پہ جانے سے پہلے، ممکن ہے یہ میری آخری سیلفی ہو’۔

 

قانون نافذ کرنے والے اگر ابھی یہ سلسلہ روک لیں تو بھلائی ہے ورنہ جو شام کے ان مزارات )ان مزارات کی تاریخی حیثیت سے قطع نظر( کی حفاظت کے لیے مرنے جارہے ہیں وہ اگر جنت البقیع کے مزارات کو سنبھالنے پہنچ گئے تو کیا ہوگا؟ نہ وہاں موجود مزارات کی صحت پہ کسی کو کوئی شک ہے اور نہ ہی برادر اسلامی ممالک کی ترجیحات پوشیدہ ہیں!!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *