Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

پاکستانی طالبان کون ہیں؟

test-ghori

test-ghori

13 جنوری, 2015
لفظ طالب یا طالبان سنی مسلک سے وابستہ ان جنگجووں کے لیے استعمال ہوتاہے جنہوں نے ملا محمد عمر کی قیادت میں 2001تک افغانستان پر حکومت کی۔ نو گیارہ کے بعد جب نیٹو اور امریکی افواج نے افغانستان پہ حملہ کیا تو بہت سارے افغان طالبان اور القاعدہ رہنما پاکستانی وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے میں پناہ گزیں ہو ئے، ان جنگجووں میں افغان طالبان کے ساتھ ساتھ القاعدہ سےوابستہ بہت سے عرب،ازبک اور چیچن جہادی بھی شامل تھے۔
پاکستان کا افغانستان سے منسلک یہ قبائلی علاقہ سات ایجنسیوں پر مشتمل ہے جہاںساٹھ کے قریب قبائل رہائش پذیر ہیں ، ان قبائل کی اکثریت سنی وہابی مسلک سے وابستہ پختونوں کی ہے ۔ان کے علاوہ یہاں ایک قلیل تعداد شیعہ پختونوں اور سکھوں کی بھی ہے۔
تحریک طالبان پاکستان فاٹا میں سب سے مضبوط اور طاقتور نیٹ ورک رکھنے والی تنظیم بن کر سامنے آئی ہے، ایک اندازے کے مطابق اس تنظیم میں 30 تیس سے زائد چھوٹے بڑےجہادی گروہ شامل ہیں۔
افغان طالبان اور قبائلیوں کے مابین نہ صرف مسلکی ہم آہنگی ہے بلکہ پختون ولی یا روایتی پختون ضابطہ حیات کی قدر بھی مشترک ہے۔ فاٹا اور افغان پختون قبائل کے قریبی و تاریخی روابط اور اسی کی دہائی میں اس علاقہ کو جہادیوں اور پناہ گزینوں کے بیس کیمپ کی حیثیت سے استعمال کرنے کی وجہ سے فاٹا کے بعض قبائل افغان طالبان اور القاعدہ کے ہمدرد رہے ہیں۔ ان جنگجووں اور پاکستانی قبائل کے مابین مسلکی مماثلت اور شادی بیاہ کے علاوہ مقامی افراد کے معاشی مفادات بھی ان جنگجووں کے ساتھ وابستہ رہے ہیں جس کی وجہ سے افغان طالبان کو فاٹا میں پناہ ملنا ایک فطری عمل تھا۔ اس امر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستانی عسکری اداروں نے بھی نو گیارہ کے بعدطالبان اور القاعدہ کےجنگجووں کو ان علاقوں میں پناہ دینے میں اہم کردار اد ا کیا۔ بین الاقوامی دباو کے باوجود پاکستانی افواج نے افغان طالبان کی پشت پناہی جاری رکھی اورمحض ان جنگجووں کے خلاف کارروائی کی جو پاکستانی افواج پر حملہ کر نے میں ملوث تھے۔
قبائلی علاقوں سمیت ملک بھر میں طالبان کے لیے پائی جانے والی ہمدردی اور شریعت کے نفاذ جیسے نعروں کے باعث پاکستان میں طالبان کی حمایت میں نو گیارہ کے بعد بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔”برے طالبان” کے خلاف کارروائی اور مشرف دور میں جہادی تنظیموں کو کالعدم قرار دیے جانے کے ردعمل کے طور پر پاکستانی افواج ، ریاستی اداروں اور عام لوگوں پر طالبان حملوں میں اضافہ ہوا۔ ڈرون حملوں میں ہونے والے جانی نقصان کے باعث بھی پاکستانی فوج کے خلاف مقامی شدت پسندوں میں پاکستان مخالف جذبات بڑھے۔اپنی جہادی کارروائیوں کا دائرہ پاکستان تک بڑھانے کے حامی طالبان کے منحرف ارکان نے دسمبر 2007 میں ایک مضبوط ایگزیکٹو کونسل بنائی جس نے آج تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی ) کی صورت اختیار کر لی ہے، رفتہ رفتہ اس تنظیم میں لشکر طیبہ، لشکر جھنگوی اور دیگر جہادی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے ارکان نے بھی شمولیت اختیار کرلی ۔ تحریک طالبان پاکستان فاٹا میں سب سے مضبوط اور طاقتور نیٹ ورک رکھنے والی تنظیم بن کر سامنے آئی ہے، ایک اندازے کے مطابق اس تنظیم میں 30 تیس سے زائد چھوٹے بڑے جہادی گروہ شامل ہیں۔اس تنظیم کا پہلا امیر بیت للہ محسو د اور نائب حافظ گل بہادر کو بنایاگیا۔
تحریک طالبان پاکستان کا مقصد پاکستان میں افغان طالبان کی سخت گیر شریعت کا نفاذاور پاکستان اور افغانستان میں موجود “کافروں “کے خلاف جہاد فی سبیل اللہ ہے۔تحریک طالبان پاکستان میں سابق افغان طالبان کے ساتھ پنجاب میں فعال کالعدم فرقہ وارانہ تنظیموں کی شمولیت کے باعث اس تنظیم کی کارروائیوں کا دائرہ شیعہ ٹارگٹ کلنگ سمیت بریلوی مزارات پر حملوں تک پھیل گیا ہے۔ٹی ٹی پی کی تشکیل میں اہم کردار شمالی اورجنوبی و زیرستان کے دو اہم قبائل محسود اور وزیر قبائل نے ادا کیا۔ اگست 2009 میں امریکی ڈرون حملے میں بیت اللہ محسودکی ہلاکت کے بعد حکیم اللہ محسود کو ٹی ٹی پی
کا نیا امیر بنایا گیا،اس موقع پر قیادت کے حصول پر اختلافات کے باعث وزیر قبائل سے تعلق رکھنے والے دو اہم کمانڈر حافظ گل بہاد ر اور مولوی نذیر نے تحریک طالبان پاکستان سے علیحدگی اختیار کر لی۔بعض ماہرین کے نزدیک تحریک طالبان پاکستان کی تقسیم پاکستانی اداروں کی کارستانی تھی کیونکہ ملا نذیر گروپ اور حا فظ گل بہادر پاکستان سے بات کرنے کے حامی تھے۔بعد ازاں علیحدہ ہونے والے گروہوں نے پاکستان کے خلاف کارروائیاں بھی بند کردیں لیکن تحریک طالبان پاکستان نے نے اپنی کارروائیاں جاری رکھیں۔
تحریک طالبان پاکستان کی قبائلی علاقوں میں مقبولیت کی بڑی وجہ پاکستانی حکومت کی طرف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دوہرا کردار اور ڈرون حملے رہے ہیں ۔ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے مقامی لشکروں کے ذریعے کارروائی کے بعد ان امن لشکروں کو تنہا چھوڑ دینے کی حکمت عملی نے بہت سے قبائل کو پاکستان حکومت کی بجائے طالبان کی جانب دیکھنے پر مجبور کر دیا۔تحریک طالبان پاکستان نے متاثرہ علاقوں میں سولہ سے تیس ہزار ماہوار تنخواہ پر مقامی افراد کو اپنے لشکروں میں بھرتی کرنا شروع کردیا جس کے باعث فاٹا، سوات ، خیبرپختونخواہ اور جنوبی پنجاب کے علاقے جو قبل ازیں افغان جہاد کے لیے بھرتی کے علاقے رہے ہیں ، سے مذہب کی طرف رحجان رکھنے والے نوجوانوں نے اس تنظیم میں شمولیت اختیار کی۔ حکومت پاکستان کی جانب سے پسماندہ علاقوں کی ترقی اور قدرتی آفات سے متاثر ہونے والے افراد کی بحالی میں ناکامی کے باعث بھی اس تنظیم کے اثرورسوخ میں اضافہ ہوا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان نے پاکستانی افواج کے خلاف کاروایوں کے ساتھ ساتھ کرم ایجنسی کے شیعہ پختونوں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔بعض ماہرین ٹی ٹی پی کے اس عمل کو کرم ایجنسی پر اپنے قبضے اور کابل تک آسان رسائی کے ذریعے اپنی کارروائیوں کو وسعت دینے کی حکمت عملی کے طور پر بھی دیکھ رہے ہیں۔
سیکیورٹی فورسز کی جانب سے مقامی لشکروں کے ذریعے کارروائی کے بعد ان امن لشکروں کو تنہا چھوڑ دینے کی حکمت عملی نے بہت سے قبائل کو پاکستان حکومت کی بجائے طالبان کی جانب دیکھنے پر مجبور کر دیا۔
تحریک طالبان پاکستان اگرچہ خود کو افغان طالبان کا حصہ قرار دیتی ہے اور ملا محمد عمر کو اپنا امیر المومنین بھی مانتی ہے لیکن اس کے باوجود اس تنظیم اور اس میں شامل جنگجو گروہوں کا ایجنڈاافغان طالبان سے قدرے مختلف ہے۔افغان طالبان اور حقانی گروپ اپنی جنگ افغانستان تک محدود رکھتے ہوئے غیر ملکی افواج کے انخلاء اور افغانستان پر قبضے تک رکھنا چاہتے ہیں جب کہ ٹی ٹی پی نیٹو اور امریکی افواج کے ساتھ ساتھ پاکستان کے خلاف بھی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے تاہم شریعت کے نفاذ کے حوالے سے دونوں طالبان دھڑوں کا ایک ہی موقف ہے۔ٹی ٹی پی پاکستان میں سخت گیر شریعت رائج کرنا چاہتی ہے جس کے لیے اس تنظیم نے فاٹا کے کچھ علاقوں میں موسیقی ، وڈیو سی ڈیز کی دکانوں،داڑھی منڈوانے اور عورتوں کے گھروں سے نکلنے پر پابندی عائد کی تھی ۔ایسی شریعت کے نفاذ کی پہلی کوشش ٹی ٹی پی کے موجودہ امیر ملا فضل اللہ کی تنظیم تحریک نفاذ شریعت محمدی نے سوات میں کی تھی اور وہاں سخت گیر شرعی قوانین نافذ کیے تھے۔
ستمبر 2010 کو امریکہ نےتحریک طالبان پاکستان کو Foreign Terrorist Organization F.T.O قرار دے کر اس کے خلاف کارروائیاں تیز کردی تھیں، نومبر2013 میں ٹی ٹی پی کے امیر حکیم اللہ محسود ڈرون حملے میں مارے گئے جس کے بعد ملا فضل اللہ کو امیر بنایا گیا جواس تنظیم کا پہلا ایسا امیر تھا جس کا تعلق فا ٹا سے نہیں تھا۔ملافضل اللہ کے محسود نہ ہونے اور ان کی افغانستان میں موجودگی کی وجہ سے تحریک طالبان پاکستان میں شدید اختلافات سامنے آئے۔ فروری 2014 میں مولانا عمر قاسمی کی قیادت میں علیحدگی اختیار کرنے والے جنگجووں نے الحرا رالہند کے نام سے علیحدہ جماعت بنائی جو پاکستان کے ساتھ بات چیت کی سخت مخالف تنظیم سمجھی جاتی ہے ۔ محسود قبائل سے تعلق رکھنے والے بعض جہادیوں نے بھی ٹی ٹی پی سےعلیحدگی اختیار کرکے تحریک طالبان ساؤتھ وزیرستان کے نام سےاپنا علیحدہ دھڑا بنایا ہے جس کا امیر خالد محسود کو بنایا گیاہے۔ اگست 2014 میں عمر خالد خراسانی کی قیادت میں ایک اور گروپ نے علیحدگی اختیار کرلی اور اپنا نام جماعت الحرار رکھ دیا۔اسی دوران تحریک طالبان پاکستان کی سابق اتحادی تنظیم تحریک طالبان پنجاب یا پنجابی طالبان کے امیر عصمت اللہ معاویہ نے بھی پاکستان کے خلاف کارروائیاں روکنے کا اعلان کیا ہے ۔اختلافات کے باوجودپاکستانی طالبان نے ملا فضل اللہ کی قیادت میں پاکستان میں اپنی کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔
تحریک طالبان پاکستان کی دہشت گرد کارروائیوں کے باوجود دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے فوجی کارروائی کی مخالفت کے باعث ٹی ٹی پی کے خلاف موثر کارروائی کا عمل تاخیر کا شکار رہا ہے۔
تحریک طالبان پاکستان کی دہشت گرد کارروائیوں کے باوجود دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے فوجی کارروائی کی مخالفت کے باعث ٹی ٹی پی کے خلاف موثر کارروائی کا عمل تاخیر کا شکار رہا ہے۔تاہم 8 جون2014 کو جناح انٹرنیشنل ائرپورٹ کراچی پر تحریک طالبان پاکستان اوراسلامک موومنٹ آف ازبکستان کے حملے بعد پاکستانی فوج نے شمالی وزیرستان میں پہلا بھرپور فوجی آپریشن شروع کر دیا۔ پاکستان میں طالبان کے خلاف رائے عامہ صحیح معنوں میں پہلی مرتبہ فوجی آپریشن کے شروع ہونے کے تین ماہ بعد 16 دسمبر 2014 کو آرمی پبلک سکول پشاور پر تحریک طالبان کے وحشتناک حملے کے بعد ہوئی ہے۔ اس حملے کے بعد آپریشن کا دائرہ کار پورے ملک میں پھیلا دیا گیا ہے، تاہم اس وقت اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا سیکیورٹی فورسز کی کارروائی کے ساتھ ساتھ طالبان اور مذہبی دہشت گردی کو شکست دینے کے لیے شدت پسند مذہبی فکر کی ترویج روکنے کی بھی کوشش کی جائے گا یا نہیں۔ تحریک طالبان پاکستان سے علیحدگی اختیار کرنے والے طالبان اور جہادی گروہوں کی جانب سے ابو بکر البغدادی اور داعش سے وفاداری اور بیعت کا اعلان ایک ایسا خدشہ ہے جسے تحریک طالبان کی جانب سے اپنا مستقبل محفوظ بنانے اور ایک وسیع عالم گیر جہاد کے آغاز کی کوشش کے طور پر دیکھا جا سکتاہے تاہم ٹی ٹی پی کا مستقبل بہت حد تک آپریشن ضرب عضب کے نتائج اور پاکستان میں طالبان ہمدرد مدارس کے خلاف کارروائی سے مشروط ہے۔