Laaltain

نولکھی کوٹھی – پندرہویں قسط

15 جون، 2017

[blockquote style=”3″]

علی اکبر ناطق کا خاندان 1947کے فسادات میں فیروز پور سے ہجرت کر کے وسطی پنجاب کے شہر اوکاڑہ کے نواحی گاؤں 32ٹو ایل میں آباد ہوا۔ یہیں علی اکبر ناطق 1977 میں پیدا ہوئے اور اسی گاؤں میں موجود ہائی سکول میں میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ انگریز دور میں یہ مثالی گاؤں تھا۔ایف اے کا امتحان گورنمنٹ کالج اوکاڑ ا سے پاس کیا۔اُس کے بعدمعاشی حالات کی خرابی اور کسمپرسی کی وجہ سے بی اے اور ایم اے کے امتحانات پرائیویٹ طور پر بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پاس کیے۔ ناطق نے تعلیم کے ساتھ مزدوری کا سلسلہ جاری رکھا اور بطور میسن پندرہ سال تک کام کیا۔ اسی دوران اُن کا اردو نثر، شاعری، تاریخ اور سماج کا مطالعہ بھی جاری رہا۔ 1998 میں کچھ عرصے کے لیے مزدوری کے سلسلے میں سعودی عرب اور مڈل ایسٹ بھی رہے۔ اِس سفر میں اُنھوں نے بہت کچھ سیکھا۔ اسی دوران ایک افسانہ (معمار کے ہاتھ) لکھا، جو بہت مقبول ہوا اور اُس کا محمد حنیف نے انگریزی ترجمہ کیا، جو امریکہ کے مشہور ادبی میگزین گرانٹا میں شائع ہوا۔ ناطق 2007 میں اسلام آباد آ گئے، یہاں اِن کی ملاقات افتخار عارف سے ہوئی، جو اُن دنوں اکادمی ادبیات کے چیئر مین تھے، انھوں نے ناطق کو اکادمی میں ایک چھوٹی سی ملازمت دے دی، جو افتخار عارف کے اکادمی چھوڑ جانے کے بعد ختم ہو گئی۔ پھر تین سال کے لیے مقتدرہ قومی زبان میں رہے اور اُس کے بعد فیڈرل ڈائریکٹوریٹ ایجوکیشن میں چلے گئے۔ اب ایک نجی یونیورسٹی میں اُردو پڑھاتے ہیں۔

 

ناطق ادبی طور پر 2009میں اُس وقت اچانک دنیا کے سامنے آیا، جب کراچی کے مؤقر ادبی رسالے،”دنیا زاد “نے اُن کی ایک دم دس نظمیں شائع کیں اور ادبی رسالے”آج”نے پانچ افسانے چھاپے۔ ناطق کی تخلیقات نے اچھوتے اور نئے پن کی وجہ سے لوگوں کو فوراً اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ 2010 میں اُن کا پہلا شعری مجموعہ “بے یقین بستیوں میں “ آج،کراچی سے چھپا اور یو بی ایل ایوارڈ کے لیے نامزد بھی ہوا۔ 2012میں اُن کا پہلا افسانوی مجموعہ “قائم دین “ چھپا،جسے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا اور اِسے بھی یو بی ایل ایوارڈ ملا، 2013میں ان کا دوسرا شعری مجموعہ “ یاقوت کے ورق “آج کراچی سے چھپا۔ یہ تمام کتابیں انگلش اور جرمن میں ترجمہ ہو چکی ہیں اور پینگوئن انڈیا شائع کرچکا ہے۔ علی اکبر ناطق کے ناول “نولکھی کوٹھی” نے ادبی حلقوں میں ہلچل مچائی ہے، پینگوئن انڈیا اسے انگلش میں چھاپ رہا ہے، ہم لالٹین قارئین کے لئے یہی ناول سلسلہ وار شائع کر رہے ہیں۔

[/blockquote]

علی اکبر ناطق کے ناول “نولکھی کوٹھی” کی مزید اقساط پرھنے کے لیے کلک کیجیے۔

 

(29)

 

مولوی کرامت سکول کے بڑے دروازے میں داخل ہوتے ہی اُس کی بلندو بالا سُرخ عمارت کی ہیبت میں دب کر کھڑا ہو گیا۔ سامنے پہاڑ جیسی سرخ عمارت بڑی بڑی حویلیوں کا سر نیچا کر رہی تھی۔ جس کے کئی کئی دالان اور بیسیوں کمرے اِدھر اُدھر پھیلتے چلے گئے تھے۔ دائیں بائیں کے کمروں کے اندر راہداریاں اور راہ داریوں میں بلند و بالا تیس درجے کی ڈاٹ والے در۔ اِن دروں کے ستون گول اور اونٹوں کی قامت سے دگنے تھے۔ واقعی انگریز سرکار نے بڑے پیسے خرچ کر کے یہ عمارت بنائی تھی۔ جس کے ایک کونے میں چھوٹا سا گرجا بھی تھا۔ بڑے بڑے گھاس کے میدان اور اُن کے کناروں پر لگے ہوئے ٹاہلیو ں،نیم،پیپل اور شریہنہ کے درخت چھاؤں کیے ہوئے تھے۔ کچھ بچے قطار بنا کر ایک کمرے سے دوسرے کمرے کی طرف جا رہے تھے۔ اُن سب نے ملیشیے کی سیاہ رنگ کی قمیضیں اور شلواریں پہن رکھی تھیں۔ بچوں کے سروں پر پگڑیاں تھیں۔ کچھ ٹوپیاں پہنے ہوئے۔ ایک دو بچے ننگے سر بھی نظر آئے۔ مولوی کرامت کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ اب کس سے ملے اور کیا کرے ؟ وہ دیر تک گیٹ کے اندر داخل ہو کر سکول کے اُس چوکیدار کے پاس کھڑا رہا،جو گیٹ پر ڈیوٹی کے لیے بیٹھا تھا۔ چوکیدار اپنی ہی ذات میں مگن،سر نیچا کیے،کچھ منہ کے اندر ہی اندر گنگنا تا رہا اور نظر اُٹھا کر مولوی کی طرف دیکھا بھی نہیں۔ یہ چوکیدارایک سکھ نوجوان لڑکا تھا،جس کے سر پر اتنی بڑی پگڑی تھی کہ پورے جسم کو دبا رہی تھی۔ جب اُس نے مولوی پر کچھ توجہ نہ دی تو مولوی کرامت نے ڈرتے ڈرتے پوچھا،سردار صاحب،ہیڈ منشی صاحب سے ملنا ہے اور جیب سے نکال کر وہ رقعہ دکھایا،جو تُلسی داس نے مولوی کرامت کو دیا تھا اور کہا تھا کہ جا کر منشی بھیم داس کو دکھا دینا۔ باقی وہ سب کچھ تمھیں سمجھا دے گا۔ چوکیدار نے مولوی کی آواز پر پہلی دفعہ سر اُٹھا کر غور سے دیکھااور اُس کے لباس،داڑھی،پگڑی اور چہرے کی سادگی اور نفاست سے متاثر ہو کر بولا، شاہ جی کیہ کہنا ہیڈ منشی نوں؟

 

مَیِں یہاں منشی بن کے آیا ہوں،اُسے رپورٹ کرنی ہے۔

 

یہ سُن کر وہ جلدی سے اُٹھا اور بِنا کچھ بولے مولوی کے آگے چل دیا۔ مولوی کرامت اُس نوجوان کے پیچھے پیچھے چلتا رہا،یہاں تک کہ ایک کمرے کے سامنے جا کر،جس کی چھت پر دو جھنڈے لگے تھے۔ ایک برطانیہ سرکار کا اور دوسرا پنجاب ایجوکیشن منسٹری کے مونو گرام کا،وہاں پہنچ کر نوجوان نے مولوی کرامت سے کہا،مولوی صاحب ہیڈ ماشٹر صاحب اندر بیٹھے آ۔
یہ کہ کر وہ وہیں سے اُلٹے قدموں واپس ہو گیا۔ جبکہ مولوی کرامت آگے بڑھ کر کمرے میں داخل ہو گیا اور جھٹ اسلام و علیکم کہ دیا۔ اندردوتین منشی اور بھی بیٹھے تھے لیکن مولوی کرامت نے اندازہ لگا لیا تھا کہ ہیڈ منشی وہی ہے جو میز کی دوسری طرف بیٹھا ہے۔ کمرہ اندر سے کافی کھلا اور صاف ستھرا تھا۔ جس میں آٹھ دس لکڑی کی کرسیاں تھیں۔ ایسی کرسیاں وہ پہلے بھی ولیم کے دفتر میں دیکھ چکا تھا۔ سامنے ایک چوکور لکڑی کی ہی میز تھی،جس پر نیلے رنگ کا میز پوش بچھا تھا۔ اُسی میز کی دوسری طرف ہیڈ منشی صاحب بیٹھے تھے۔ آنکھیں چھوٹی چھوٹی،جن پر بڑے اور موٹے شیشوں کی عینک چڑھی تھی۔ رنگ سیاہی مائل مٹیا لااور سر پر سفید رنگ کی دوپًلی ٹوپی اِس طرح دبا کے جمائی تھی کہ پورا سر اُس میں چھپ گیا تھا۔ منشی صاحب خود بھی کرسی پر بیٹھے میز کے پیچھے گویا چھپے ہوئے تھے۔ صرف اُن کی گردن سے اُوپر کا حصہ ہی نظر آ رہا تھا۔ اُس کے اس طرح بیٹھے ہونے سے قامت کااندازہ بھی ہو رہا تھا کہ ساڑھے چار فٹ سے زیادہ نہیں ہو گا۔ لیکن آنکھوں سے اطمنان اور سکون صاف جھلکتا تھا۔ اِس بات سے ثابت ہو رہا تھا کہ ہیڈ منشی کو ہرطرف سے مکمل سکون ہے اوراُن کے خانگی اور روزی روٹی کے معاملات صحیح چل رہے تھے۔ مولوی کرامت نے سوچا کہ اب اُس کے حالات بھی جلد ہی اللہ نے چاہا تو اِسی منشی جیسے ہو جائیں گے۔

 

رقعہ ابھی تک مولوی کرامت کے ہاتھ ہی میں تھا۔ اِس سے پہلے کہ ہیڈ منشی صاحب سلام کا جواب دیتا،مولوی کرامت نے وہ رقعہ اُن کے سامنے میز پر رکھ دیا۔ منشی نے رقعہ اُٹھا کر کھولااور جیسے ہی اُس کی تحریر پڑھی،اُٹھ کر مولوی کرامت سے ہاتھ ملایا اور کہا،بیٹھیں مولوی صاحب،آپ کے بارے میں مجھے دو دن پہلے اطلاع مل چکی تھی اور میں آپ کا انتظار ہی کر رہا تھا۔ پھر ایک کُرسی کی طرف اشارہ کر کے،مولوی صاحب تشریف رکھیں۔

 

مولوی کرامت ہیڈمنشی کا اشارہ پا کر ایک کُرسی پر بیٹھ گیا لیکن اضطراری طور پر اِس طرح بیٹھا جیسے جمعے کا خطبہ دینے کے لیے منبر پر بیٹھا ہو۔ ہیڈ منشی صاحب بڑے کائیاں تھے فوراً بھانپ گئے اور بولے،مولانا آپ کہیں پیش امام تھے؟

 

جی حضور،تین پشتوں سے ہم یہی کرتے ہیں،ضلع قصور کے ایک گاؤں راڑے میں پیش امامت کرتا ہوں۔

 

تعلیم کی سرکار میں کوئی واقف تھا،جس نے آپ کی سفارش کی ؟

 

بس سرکار خدا واقف تھا،یا ہماری سرکار انگریز بہادر کمشنر صاحب کی مہربانی تھی۔ ورنہ اس عاجز کو کون جانتا تھا۔

 

ہیڈ منشی سمجھا مولوی کرامت کی انکساری اصل میں اپنی سفارش کو چھپانے کے لیے ہے۔ ورنہ اسسٹنٹ کمشنر سے تو ملنا ہی ناممکن ہے۔ کجا وہ خود سردردی لے کر اُسے سرکار میں منشی رکھیں۔ اس کے پیچھے لازماًکسی نواب کا ہاتھ ہو گا یا کوئی چال ہے۔ بہر حال جو بھی ہے تلسی داس نے بھی خبردار کر دیا تھا کہ مولوی کرامت کا خیال رکھنا صاحب کا خاص آدمی ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ اس کے ساتھ تعاون ہی کیا جائے اور اسی کی مرضی کے مطابق کام بھی دیا جائے۔ کہیں شکایت کر کے ہماری نوکری کو ہی نہ لے ڈوبے۔

 

آپ کون سے درجے کو پڑھانا چاہیں گے ؟

 

حضور،میں تو نوکر ہوں۔ جہاں سے کہیں گے،بچوں کو پڑھا دوں گا۔ درجوں کا تو مجھے حساب نہیں۔ اِس معاملے میں صاف کورا ہوں۔

 

ٹھیک مولانا،آپ آٹھویں کے درجے کو فی الحال فارسی اور عربی گرائمر کی مبادیات کا درس دے دیا کریں۔

 

بہتر سرکار،مولوی کرامت نے بے چینی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلو بدلا۔

 

ٹھیک ہے مولوی صاحب،آپ اب آرام سے گھر جائیں۔ کل اتوار کی چھٹی ہے۔ پرسوں تشریف لے آئیں،ذکاء اللہ صاحب ہمارے ایک عربی اور فارسی کے منشی ہیں،وہ آج چھٹی پر ہیں،پرسوں وہ بھی آ جائیں گے۔ وہ آپ کا تعارف بچوں سے کرا دیں گے اور پڑھانے کے طور طریقے بھی بتا دیں گے۔ آج سے آپ کی حاضری اور تنخواہ شروع ہوگئی ہے (ایک رجسٹر مولوی صاحب کے سامنے کرتے ہوئے ) اپنا نام مولوی صاحب اِس رجسٹر پر درج کر کے انگوٹھا بھی لگا دیں۔
مولوی کرامت نے ہیڈ منشی کے کہنے پر تمام کام نپٹا دیا،پھر کہا،حضور اب جاؤں ؟
جی مولوی صاحب لیکن پرسوں ضرور تشریف لے آئیں۔

 

جی سرکار،اور اُٹھ کھڑا ہوا لیکن گھبراہٹ میں گرتے گرتے بچا۔

 

مولوی کرامت سکول کے بڑے دروازے سے باہر نکلا تو اُسے محسوس ہوا کہ وہ گویا ایک جیل سے باہر نکلا ہے۔ ہیڈ منشی کے کمرے میں اُس کا دم گھُٹنے لگا تھا۔ پہلی بار سرکاری رجسٹر پر دستخط کرتے ہوئے اُسے لگ رہا تھا کہ شاید اپنی قید کے پروانے پر دستخط کر رہا ہے۔ اِسی وجہ سے گھبراہٹ شروع ہو گئی تھی۔ اب دروازے سے باہر نکلا تو گھبراہٹ کا تاثر فوراً ہی زائل ہو گیا۔

 

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

مولوی کرامت نے سکول جانے کے لیے کھدر کا سفید کُرتہ،سفید ہی کھدر کی چادر پہن لی۔ کبھی شادی بیاہ یا ختم درود کے لیے مولوی کرامت کی بیوی نے اُس کے لیے بنا کر لکڑی کے صندوق میں رکھے ہوئے تھے لیکن سال ہا سال سے اُن کے استعمال کا وقت نہیں آیا تھا۔ یا یہ کہیں کہ استعمال کرنے کو جی نہیں چاہا تھا کہ پھر کون روز روز اس طرح کے کپڑے بنائے گا۔ ویسے بھی کسی نہ کسی کے ہاں سے سال میں ایک لُنگی اور کُرتا فوتگی یا شادی پر مل ہی جاتا تھا۔ اِتنے سال پڑے رہنے کے بعد کپڑوں کی تہیں اِتنی جم گئیں اور سلوٹیں اتنی سخت ہو گئیں تھیں،جو کسی استری سے بھی جلد نہیں نکل سکتی تھیں۔ جس کا وجود ویسے بھی وہاں نہیں تھا۔ بلکہ مولوی کرامت نے تو ابھی تک استری کا نام بھی نہیں سنا تھا۔ اِن بے شمارسلوٹوں کے باوجود مولوی کے کُپڑوں میں صفائی اور نفاست موجود تھی۔ صافہ بھی بالکل نیا تھا،جو کل ہی جلال آباد کے بازار سے خریدا تھا۔ جوتے البتہ پُرانے ہی تھے۔ ویسے بھی جوتوں کو جب تک وہ نہ ٹوٹیں،کون پُرانا کہتا ہے۔ یہ جوتے انتہائی موٹے چمڑے کے تھے،جنہیں موچی نے سخت قسم کے دھاگے سے سیا تھا۔ تین سال گزرنے کے باوجود یہ نہ تو پھٹے تھے اور نہ ہی سلائی اُدھڑی تھی۔ پگڑی میں بھی کئی کئی پیچ دیے اور طرہ بھی چھوڑا۔ داڑھی ویسے بھی سفید ہوگئی تھی،جس کی وجہ سے سفید لباس اور بھی جچ رہا تھا۔ القصہ مولوی پہلے دن بن ٹھن کے سکول میں گیا کہ سب دیکھنے والے اُس کے لباس اور چال ڈھال سے بہت متاثر ہوئے۔

 

مولوی یوں تو فارسی،عربی اور اردو کے ابتدائی اور بنیادی گرائمر اور زبان کے بارے میں کافی سُدھ بدھ رکھتا تھا لیکن اُسے سکول میں بچے پڑھانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ ہر چند وہ اپنی معلمی کے تمام کمالات فضل دین پر آزما کر اِس کام میں ماہر ہو چکا تھا لیکن دوسروں کے بچوں کو پڑھانے کا موقع پہلی ہی دفعہ ہی ملا تھا۔ اس لیے بہت زیادہ ڈرا ہوا تھا کہ خدا جانے کیا غضب ہو جائے۔ خاص کر اُسے سکول کے ہیڈ منشی سے انگریز افسر کی نسبت زیادہ خوف تھا۔ لیکن جب مولوی نے بچوں کو پڑھانا شروع کیا تو کام بہت آسان لگا۔ کیونکہ جو کتابیں مولوی کرامت کو بچوں کو پڑھانے کے لیے دی گئیں تھیں،وہ اِتنی آسان اور سادہ تھیں کہ اُنہیں فضل دین بھی پلک جھپکنے میں فر فر پڑھ جاتا۔ بلکہ پڑھانے پر بھی قادر تھا۔ یہ کتابیں عربی کے ابتدائی افعال اور گردانوں کے صیغوں پر مشتمل تھیں،جس میں چھوٹے چھوٹے جملوں کا استعمال تھا اور اُن کے اردو میں استعمال کے طریقے بتائے گئے تھے۔ مولوی کرامت کے سامنے فضل دین کی مثال موجود تھی۔ یہاں بھی وہی طریقہ لگاتے ہوئے سبق شروع کیا اور بچوں کو وہ وہ نقطے بتائے کہ وہیں بیٹھے بیٹھے اُنہیں پورا پورا سبق یاد ہو گیا۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ اُس کے منہ سے ایسی گالی نکل جاتی جس میں پنجابی کا ایک گُوڑا رچاہو ہوتا کہ بچے پڑھنے کے ساتھ محظوظ بھی ہوتے رہے۔ آہستہ آہستہ اِسی وقت کے دوران مولوی کرامت کی ایک تو جھجھک بھی دور ہو گئی،دوم آگے کے لیے رستہ صاف آسان ہو گیا۔ مولوی کرامت نے سوچا اگر یہی پڑھانا کہتے ہیں تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ چھٹی ہوئی تو مولوی اتنا خوش تھا کہ بغلیں بجاتا ہوا گھر تک گیا۔

 

(30)

 

ولیم کے کمرے میں تمام تحصیل کابینہ جمع تھی۔ پولیس آفیسر لوئیس،ایجوکیشن آفیسر تُلسی داس،محکمہ مال کے آفیسر،محکمہ نہر کے آفیسراور دوسرے آٹھ دس آفیسر مزید کرسیوں پر لکڑی کی لمبی میز کے دو طرفہ اپنی اپنی فائلوں کوسامنے رکھے مکمل تیاری کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ یوں تو یہ سب دیسی اور انگریزی افسر اپنے کام کو احسن طریقے سے سمجھتے تھے اور اُسے پورا کرنے کا تجربہ بھی کسی بڑے افسر سے کہیں زیادہ تھاکہ اگر اُن کو آزادی سے کام انجام دینے کی اجازت مل جائے تو منٹوں میں نپٹا دیں لیکن بیوروکریسی اِس با ت کو نہیں مانتی۔ عموماً تحصیل جلال آباد میں ایسے افسر آتے رہے جو خود تو خیر کام کو سمجھتے نہیں تھے،اگر ماتحت کام کرنے کی صلاحیت رکھتا بھی تھا تو اُسے ایسی پیچیدہ اور نافہم قسم کی ہدایات میں اُلجھا دیتے کہ ایک آسان سا کام بھی اقلیدسی قاعدوں اور کلیوں کا اچھا خاصا تماشا بن جاتا۔ پھر یا وہ کام فائلوں ہی میں دب کر مر جاتا ورنہ نہایت بے کار حالت میں انجام پاتا اور بالآخر اُس کمشنر کا تبادلہ کہیں اور ہو جاتا۔ اِس طرح تحصیل کی ترقی ہو تو رہی تھی لیکن کچھوے کی چال سے۔ مگر ولیم کا معاملہ اور تھا اور یہ بات پچھلے عرصے کے دوران تمام افسر بھی جان گئے تھے کہ اُن کو ہرن کی قلانچوں کے حساب سے دوڑنا پڑے گا ورنہ ولیم آگے نکل جائے گا،وہ پیچھے رہ جائیں گے اور ولیم سے پیچھے رہ جانے کا مطلب نوکری سے فارغ ہونا تھا،جو کسی طرح بھی گوارا نہ تھا۔ ابھی ولیم صاحب کمرے میں داخل نہیں ہوئے تھے لیکن افسروں پر اس طرح خاموشی چھائی تھی جیسے جنازے کی دعا میں بیٹھے ہوں۔ ہر ایک اپنی فائل پر نظریں جمائے ولیم کے انتظار میں متوقع سوالات کا جواب سوچنے میں مگن تھا۔ سب افسران کو بیٹھے ہوئے پندرہ منٹ ہوچکے تھے اور اب کچھ ہی دیر میں ولیم صاحب کمرے میں داخل ہونے والے تھے۔ پھرچند ثانیوں بعد وہ وقت آگیا جب نجیب شاہ نے باہر سے ولیم کے لیے دروازہ کھولا۔ اُس نے بڑے احترام سے دروازے کے ایک طرف کھڑے ہو کردائیں ہاتھ اُس کا ایک پٹ کھول دیا اور اُسی لمحے ولیم سُرمئی رنگ کے تھری پیس سوٹ میں اندر داخل ہو گیا۔ تمام افسر اُٹھ کر تعظیماً کھڑے ہو گئے۔ نجیب شاہ نے دروازہ آہستہ سے بند کر دیا۔ ولیم نے افسروں کو ہاتھ کے اشارے سے سلام کیا اور دیر سے آنے پر سوری کرتے ہوئے لیڈنگ کُرسی پر بیٹھ گیا۔ یوں تو ولیم نے مسکراتے ہوئے اپنی دیر آید پر معذرت کی تھی لیکن سب جانتے تھے کہ یہ اُن وی آئی پی تکلفات میں سے ایک تکلف ہے جو ہر افسر کا اپنے جونیئر سے فرق واضح کرتا ہے۔ جس کا وہ خود بھی عملی طور پر اکثر مظاہرہ کرتے ہیں۔

 

ولیم کے کُرسی پر بیٹھنے سے پہلے ہی تمام لوگ اٹین شن ہوچکے تھے کیونکہ یہ ایک اہم میٹنگ تھی،جو فائلوں سے آگے عملی طور پر کام کرنے کے لیے بُلائی گئی تھی۔ اِس میٹنگ میں اصلاً وہی کام ڈسکس ہونے تھے،جن کے بارے میں ولیم ڈی سی صاحب سے بات کر چکا تھا۔ اُس نے لیڈنگ چیئر پر بیٹھ کر ایک دفعہ تمام آفیسر زپر ایک طائرانہ نظر ماری پھر سب سے پہلے ڈی ایس پی لوئیس سے مخاطب ہوا،لوئیس صاحب پہلے آپ بتایے،کیابنا سردار سودھا سنگھ اور عبدل گجر کے حوالے سے؟

 

سوال کے دوران ولیم کا لہجہ اتنا سپاٹ اور دو ٹوک تھا جس سے محسوس ہو رہا تھا کہ آج صاحب بہادر کا معذرت قبول کرنے کا کوئی ارادہ نہیں اور یہ لوئیس صاحب کی خو ش بختی تھی کہ اُس نے پچھلے تین دن میں اِس معاملے میں کافی کچھ کام کر لیا تھا۔ جس پر ولیم داد کے سوا کچھ کرنے پر قادر نہیں ہو سکتا تھا۔

 

لوئیس نے فائل سے سر اُوپر اُٹھاکر ایک بار ولیم کو دیکھا اور بولا،سر مَیں نے سردار سودھا سنگھ اور عبدل گجر کے لیے باقاعدہ پولیس کارروائی کو عملی جامہ پہنا کر کچھ لوگوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ جو گرفتار نہیں ہو سکے اُن کا مال بحق سرکار ضبط کر لیا گیا ہے۔ اِن گرفتار ہونے والوں میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو شاہ پور اور جودھا پور کے واقعات میں ملوث تھے۔ اُن کے ملوث ہونے کا ثبوت مخبروں اور دیگر ذرائع کی ہم آہنگی سے مہیا کیا گیا ہے۔ جس کے لیے سی آئی ڈی آفیسر متھرا اور تھانیدار بلرام کے علاوہ تین سب انسپیکٹر بھی شامل تھے۔ اِس سے بڑھ کر یہ کہ ملزموں نے اقرار جرم بھی کر لیا۔ جھنڈووالا میں مَیں خود پولیس کے ساتھ تھا جبکہ عبدل گجر کی طرف انسپیکٹر ڈیوس کو بھیجا گیا۔ اُس نے نہایت کامیابی سے آپریشن کیا ہے۔ فی الحال واقعات کے مرکزی ملزم سردار سودھا سنگھ،عبدل گجر اور شریف بودلہ گرفتار نہیں ہوسکے۔ اُمید ہے اُنہیں بھی جلد ہی قانون کے چاک پر بٹھا دیا جائے گا (پھر فائل ولیم کی طرف بڑھاتے ہوئے )سر اِس فائل میں کیس کی تمام تفصیلات،گرفتار ملزمان اورمال کی ضبطی کے متعلق اہم معلومات موجود ہیں۔

 

لیکن لوئیس صاحب،ولیم نے فائل کو دیکھتے ہوئے کہا،اِس بات کا کیا ثبوت ہے کہ وہی مرکزی ملزم جنہیں آپ ابھی تک گرفتار نہیں کر سکے،وہ جلد ہی کوئی دوسری کارروائی نہ کریں گے ؟اگر اِسی طرح کی ایک اور کارروائی ہوگئی تو اِس کا مطلب ہے ہم اپنی جڑیں خود ہی کاٹ رہے ہیں۔

 

سر اب ایک اور کارروائی نہیں ہوگی،لوئیس نے انتہائی پُر اعتماد لہجے سے جواب دیتے ہوئے کہا،مزید کارروائی کے لیے نہ تو اُن کے پاس آدمی ہیں اور نہ ہی ہمت۔ تیسری ضر ب مَیں نے اُن پر اخلاقی بے توقیری کی لگائی ہے۔ میں نے اُن کو اِس طرح ذلیل کیا ہے کہ اب اُنہیں اپنے وقار کو سمیٹنے میں زمانے لگیں گے۔ (ولیم کے ہاتھ کے نیچے پڑی فائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) سر اِس فائل میں کارروائی کی تمام تفصیلات درج ہیں۔ آپ اِس کا آرام سے مطالعہ کر کے میرے لیے مزید جو حکم چھوڑیں گے،مَیں اُس پر عمل کرنے کا پابند ہوں گا۔
ولیم نے لوئیس کی کارروائی پر اطمنان کا اظہار کرتے ہوئے کہا،گُڈ،مرکزی ملزم کب تک گرفتار ہوں گے؟

 

لوئیس نے اپنا دایاں کان کھجا کر ولیم کی طرف دوبارہ دیکھا اورکہا،سر اُس کے لیے میں نے مہاراجہ پٹیالا کو سردار سودھا سنگھ کے وارنٹ گرفتاری کے ساتھ خط بھیج دیا ہے۔ اب صورتِحال یہ ہے کہ مہاراجہ نے سودھا سنگھ کی گرفتاری نہ بھی دی،جس کی ہمیں عین توقع ہے،تو ہم اُس کا عدالت میں انتظار کریں گے۔ وہ لامحالہ عدالت سے اپنی عبوری ضمانت کروائے گا،جب ہم اُسے گرفتار تو نہ کر سکیں گے۔ لیکن اُس کے فرار کی راہیں بھی مسدود ہو جائیں گی۔ اِس طرح وہ عدالت میں حاضر ہونے کا پابند ہوگا۔ اگر وہ عدالت میں حاضر نہ ہوا تو مجرم قرار پا کر اشتہاری ہو جائے گا۔ اشتہاری ہونے کی وجہ سے مہاراجہ اُس کی کوئی مدد نہیں کر پائے گا لیکن بات یہاں تک نہیں پہنچے گی۔ عبوری ضمانت پر حاضری کے وقت اُس کی ضمانت منسوخ ہو جائے گی اور ہم اُسے گرفتار کر لیں گے۔ یہی کچھ عبدل گجر اور شریف بودلہ کا معاملہ ہے۔ ہم نے کچھ اُن کے بندے پکڑے ہیں۔ وہ خود اُن کے خلاف ثبوت ہیں۔ یہ لوگ بھی عبوری ضمانت کے بعد عدالت میں حاضر ہونے کے پابند ہیں۔ کیونکہ انہیں بھی مقدمے کا سامنا تو بہر حال کرنا ہے،جو چند ہی روز میں شروع ہو جائے گا۔ بھاگ یہ اِس لیے نہیں سکتے کہ یہاں ان کی زمین،گھر بار،اولاد اور رشتے داریاں ہیں۔ یہ سب کچھ اتنی جلدی گنوانے کی حماقت نہیں کریں گے اور یہیں رہیں گے۔ (مسکرا کر ) زیادہ سے زیادہ حج پر چلے جائیں گے لیکن واپس یہیں آئیں گے۔

 

ویل ڈن مسٹر لوئیس،ولیم نے سنجیدہ لہجے میں لوئیس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ پھر کچھ لمحے سوچنے کے بعد سوالیہ انداز میں پوچھا،غلام حیدر کی کیا خبر ہے آپ کے پاس ؟ میرا خیال ہے اُس پر ہمیں نظر رکھنی چا ہیے۔ یہ اُس پر دوسرا حملہ ہے اور ایسے میں کوئی شخص کچھ بھی غلط کارروائی کر سکتا ہے۔ آپ کیا کہتے ہیں اِس بارے میں ؟

 

سر آپ کی بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے،لوئیس تائید میں بولا،احتیاط کا تقاضا تو یہی ہے،اُسے بھی عینک میں رکھا جائے۔ آپ جو بھی اُس کے بارے میں فرمائیں گے،اُس پر بھی غور ہو سکتا ہے۔

 

لوئیس،ولیم نے فائل کو بند کرتے ہوئے دو ٹوک کہا،غلام حیدر کے پاس سُنا ہے ایک ریفل ہے۔ آپ اُس سے وہ ریفل فوراً تین ماہ کے لیے قبضے میں لے لیں اور اُسے پیغام بھیج دیں،وہ اپنے آدمیوں کا اسلحہ بھی کچھ دنوں کے لیے گورنمنٹ کو جمع کروا دے۔

 

جی بہت بہتر،لوئیس پوری فرمانبرداری سے بولا،یہ ہو جائے گا سر۔

 

کوئی اور بات ؟ ولیم نے لوئیس سے بات قریباً ختم کرتے ہوئے پوچھا۔

 

نو سر،لوئیس نے جواب دیا

 

اوکے،لیکن اس کیس کے بارے میں جو بھی اہم پیشرفت ہو،آپ مجھے اُس سے مطلع کرنے کے پابند ہو ں گے،ولیم یہ کہ کر اب تحصیل ایجوکیشن تُ افسرتلسی داس کی طرف متوجہ ہوا،جو گول شیشوں کی عینک لگائے اپنی فائل کے اُوپر قریب قریب گرا ہوا تھا۔

 

تُلسی داس آپ بتائیں،آپ کی طرف سے کیا پرفارمنس ہوئی ؟ابھی تک،مجھے سب سے زیادہ تشویش آپ کے محکمے کی طرف سے ہے۔ جس کی کارکردگی خوردبین سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
تُلسی داس نے فائل ولیم کی طرف سرکا کر اپنی عینک کو اُتارا اور بات شروع کی،سر میں نے آپ کے حکم کے مطابق ایک تعلیمی پالیسی اس طرح ترتیب دی ہے کہ جلال آباد کے جتنے گاؤں ہیں،اُن کو دس پر تقسیم کیا گیا ہے اور ہر دس گاؤں کا ایک مرکزی گاؤں بنا دیا ہے۔ جس میں ایک آٹھویں درجے کا اسکول ہو گا۔ اُس میں پورے دس گاؤں کے بچے آ کر پڑھا کریں گے۔ اِسی طرح ہر پانچ گاؤں کے لیے ایک پانچویں درجے کا اسکول بنایا جائے گا۔ یوں تحصیل میں آٹھویں درجے کے مزید تیس سکول بنیں گے اور پانچویں درجے کے ساٹھ اسکول ہوں گے۔ جن پر کل لاگت اوراسکولوں کے مقام کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے،جو اس فائل میں درج ہے۔ اِسی طر ح دسویں درجے کے اسکول کے بارے میں بھی رپورٹ تیار کر لی گئی ہے جن کی تعداد مزید چار تک بڑھا دی گئی ہے۔ یہ تمام کام دو سال کے عرصے میں مکمل ہو سکتا ہے۔
گُڈ تُلسی داس،ولیم نے خوش ہو کر تُلسی داس کو شاباش دی،۔ ہم یقیناً اِس کے لیے اپنے پورے وسائل استعمال کریں گے اور جلد ہی گورنمنٹ سے اِس کے لیے فنڈ منظور کرا لیں گے۔ تم کام کرنے کے لیے تیار رہو۔ یہ بتاؤ مسلمان بچوں کی اسکول میں حاضری پوری کرنے کے لیے کیا حل نکالا ہے آپ نے ؟

 

سر یہ ایک ٹیڑھی کھیر ہے،تُلسی داس نے معذرت دارانہ لہجے میں اپنی وضاحت پیش کی،جب تک مسلمان مولوی راستے میں حائل ہے،یہ کام مشکل نظر آتا ہے۔ لوگ کسی بھی طرح اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے پر تیار نہیں ہوتے۔ ہم نے لاکھ طرح سے کوشش کر کے دیکھ لی ہے۔ آپ ہی کچھ اِس بارے میں حکم دیں یا پھر پولیس کے ذریعے جبر سے اُنہیں لایا جائے اور جرمانے یا سزا کا عمل دخل کیا جائے۔

 

اوں ! ولیم تھوڑی دیر کے لیے خموشی سے تُلسی داس کی بات پر غور کرنے لگا پھر سر اوپر اُٹھا کر بولا،تُلسی داس! مَیں نے آپ کے حوالے ایک مولوی صاحب کو کیا تھا،وہ کہاں ہے ؟
اُسے سر آپ کے حکم پر جلال آباد کے مرکزی ہائی اسکول میں فارسی اور عربی کا مُنشی رکھ لیا ہے تیس روپے ماہانہ پر۔

 

تُلسی داس،ولیم بولا،مولوی،کیا نام ہے اُ س کا؟
کرامت سر،تُلسی داس نے یاد دلایا

 

ہاں کرامت،مولوی کرامت۔ تُلسی داس اُسے آپ ٹارگٹ دو کہ سرکار کے اسکولوں میں مسلمان بچوں کو داخلے کے لیے لے کر آنا اُس کی ذمہ داری ہے۔ اُسے بتاؤ،وہ جس قدر مسلمان بچوں کی تعداد میں اضافہ کرے گا،سرکار اتنا ہی اُس کی تنخواہ میں اضافہ کرے گی۔ اِس لیے فی الحال اُس کا کام لوگوں کو اس بات پر تیار کرنا ہے۔ یقینایہ کام وہی کر سکتے ہیں۔ آپ اِس فارمولے کو آزماؤ۔ اِس کے علاوہ اِس طرح کے مزید پانچ مولوی جلال آباد تحصیل کے ہی رہنے والے ملازم رکھ لو اور اِس مولوی کو اُن کا ہیڈ بنا دو۔ میرا خیال ہے،اِس طرح سے اچھے نتائج برآمد ہوں گے۔

 

ولیم کی اِس انوکھی ترکیب پر تُلسی داس سمیت سب ہلکا سا مسکرا دیے۔ یہ ایک ایسا نکتہ تھا،جو ابھی تک کسی کو بھی نہ سوجھا تھا اور ولیم ہی کا خلاق ذہن تھا،جو ایسا بے ضرر اور زود اثر حل نکال سکتا تھا۔ مولویوں کو سرکاری اسکول کی ملازمت دے کر اور اُنہیں مسلمان بچوں کے داخلے پر نامزد کر کے حقیقت میں ایک تیر سے دو کام لیے جا سکتے تھے کہ جو روکنے والے تھے،وہ اب دعوت دینے والے ہوجاتے اور لوہے سے لوہا کا ٹنا نہایت ہی آسان ہو جاتا۔

 

تُلسی داس سے فارغ ہو کر ولیم نے تحصیل دار مالیکم کی طرف رخ کیا اور بولا،جی مالیکم صاحب آپ اور ڈیوڈ صاحب کا کام قریب قریب مشترک ہے۔ آپ کے کام میں کیا پیچیدگیاں ہیں؟ آخر جلال آباد میں ہر طرف اُڑتی ہوئی خاک اور گردو غبار کا کیا علاج ہے ؟ مجھے حیرت ہے آپ پچھلے دو سال سے یہاں موجود ہیں لیکن یہاں کی مٹی جم نہیں پائی اور خاکی میدانوں نے سبزی کا لباس نہیں پہنا۔ آج یہ طے ہو جائے کہ اس تحصیل کے چہرے پر کب رونق آئے گی۔

 

مالیکم صاحب،جو بے چینی سے میٹنگ کا دورانیہ لمبا ہوتے دیکھ رہے تھے،نے آگے کی طرف ہوتے ہوئے وضاحت کی،سر اصل میں ہندوستانیوں کی جہالت کا علاج مشکل ہے۔ ورنہ تو چھ ماہ میں ہی خربوزوں کے کھیت اور آموں کے باغ لہلہااُٹھیں۔

 

وہ کون سی جہالت ہے جس کا علاج نہیں ؟ولیم حیرانی سے بولا،اگر گورنمنٹ جہالت دور کرنے پر قادر نہیں تو ہمیں کوئی حق نہیں ملازمت کرنے کا۔ ہم آرام سے بستر سمیٹیں او ر برطانیہ کی سردی میں آگ تاپیں اور دُھند سے لطف اُٹھا ئیں۔

 

مالیکم ولیم کے اِس تُرش جواب سے گھبرا گیا اور شرمندگی سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ اُسے مشکل سے نکالنے کے لیے ڈیوڈ نے اپنی عینک اُتاری اور بات آگے بڑھائی،سر مالیکم کی بات کا مقصد ہے کہ عوام ساتھ نہیں دیتی۔ مثلاً بیلداروں اور نہری سُپر وائزروں نے ہمیں بتایا کہ لوگ نہر سے نکالے گئے کھالوں کے نگال میں مٹی اور کوڑا کرکٹ بھر دیتے ہیں اور نہر کا پانی فصلوں کو لگنے نہیں دیتے۔ اُن کے خیال میں گورنمنٹ نے نہر کے پانی میں ایسی دوائی ملا رکھی ہے،جس سے فصلوں میں بیماری پیدا ہو جاتی ہے۔ جب اُس فصل کا غلہ لوگ استعمال کرتے ہیں تو وہ بیماری لوگوں میں پھیل جاتی ہے۔ یعنی انسان نامرد ہو جاتا ہے اور نسل آگے نہیں بڑھتی۔ اِس لیے یہ لوگ نہر کا پانی ہی فصلوں کو لگنے نہیں دیتے اور مکمل طور پر بارشوں کے سہارے رہتے ہیں۔

 

ڈیوڈ کی بات سے حوصلہ پا کر مالکم نے مزید وضاحت کی،سر ایک بات اور ہے۔ زمیندار سمجھتے ہیں گورنمنٹ اُن سے اِس پانی کا معاوضہ لے گی،جو اُن کی فصلوں کی قیمت سے بھی زیادہ ہو گا۔ اِسی ڈر سے ایک زمیندر نے اپنی بیسیوں ایکڑ کھڑی چاول کی فصل کاٹ کر اپنے مویشیوں کو کھلا دی تاکہ نہ ہو بانس نہ بجے بانسری۔ اب ایسے میں بتائیے کیا کیا جائے ؟
ولیم ان کی باتوں پر حیرانی کے ساتھ ہنس دیا،پھر تحمل سے بولا،مالیکم صاحب آپ مجھے بتایے اگر یہ قوم اتنی جاہل اور سادہ نہ ہوتی تو کیا ہم پندرہ بیس ہزار لوگ اِن کروڑوں گدھوں پر حکومت کر سکتے تھے ؟اِن کی یہی جہالت تو آپ کے لیے نعمت ثابت ہوئی۔ لیکن اب ہمی نے اِن کو تعلیم دینی ہے،اِنہیں سکھانا ہے۔ اِن کی معاشی اور ذہنی ترقی کی ذمہ داری ہم پر ہے۔ میں نے نہری منصوبے کی فائل لاہور تک پہنچا دی ہے۔ جلد واپس آ جائے گی۔ چھ مہینے تک میں یہاں ایک مزید نہر دیکھنا چاہتا ہوں۔ اُس سے پہلے آپ پر ایک بھاری ذمہ داری یہ ہے کہ جن کا پانی منظور ہو چکا ہے،اُن کی ٖفصلوں تک پانی لے جانے کے ذمہ دار آپ دونوں ہیں۔ نہری پانی کے علاقوں کا دورہ کرو اور تمام زمینداروں کی حلقہ وار میٹنگ بلاؤ۔ انہیں بتاؤ،آیندہ کسی نے اپنا الاٹ شدہ پانی ضایع کیا تو اُس کو بھاری جرمانہ کیا جائے گا اور سزا بھی دی جائے گی۔ اپنے مالی اور نہری پٹواریوں کو اِس کا بنیادی طور پر پابند بناؤ۔ وہ اپنے اپنے علاقے کے گوشوارے ہر مہینے آپ کو جمع کرائیں۔ جو کچھ مالیے یا خراج کا حساب ہو اُسے تحصیل میں آ کر کانو گووں سے پاس کروائیں۔ میں دو مہینے کے اندر یہ تمام کام درست دیکھنا چاہتا ہوں۔ مجھے یہاں آئے چھٹا مہینہ ہے اور کارکردگی صفر ہے،جومجھے منظور نہیں( پھر لوئیس صاحب کی طرف منہ کر کے )لوئیس صاحب آپ اس معاملے میں جو کچھ مدد اِن کو در کار ہو،بلا چون و چرا دیجیے گا۔

 

لوئیس نے فقط،ہاں،میں سر ہلانے پر اکتفا کی۔ کچھ دیر توقف کے بعد ولیم دوبارہ بولا،مَیں چار روز کے لیے چھٹی پر جا رہا ہوں۔ آج سے پانچویں روز واپس آؤں گا۔ آپ اِس عرصے میں اپنی تمام بریفنگ تیار کر لیں۔ مَیں نہیں جانتا،مجھے کتنے دن تحصیل جلال آباد میں کام کرنے کا موقع ملے گا لیکن میں چاہتا ہوں،جب یہاں سے جاؤں،لوگ خوشحال ہو چکے ہوں اور گورنمنٹ کا خراج بیس گنا زیادہ ہو چکا ہو۔ اِس گفتگو کے بعد ولیم نے میٹنگ کو ختم کرنے کا اعلان کیا اور اُٹھ کھڑا ہوا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *