Laaltain

میں جانتا ہوں جہنم کہاں ہے

6 دسمبر، 2016
میں جانتا ہوں جہنم کہاں ہے
معمول کی کوئی خبر سن کر بھی
جب خاموشی کا بوجھ میرے سینے میں اٹکنے لگے
میری ہتھیلیاں آپس میں جڑ جائیں
انگوٹھے اُن کی پشت اور کلائی پر جمنے لگیں
میں ہتھیلیوں کو آہستگی سے الگ کرتا ہوں
اور پھر ایک اضطراب میں
وقفے وقفے سے
بے اختیار اُنہیں رگڑنے لگتا ہوں
پہلے آہستہ آہستہ
پھر تیز
پھر اور تیز
میں بے دھیانی میں اُنہیں رگڑتا چلا جاتا ہوں
ایک الاؤ کے بھڑکنے تک
شعلوں کےاس جنگل میں
میری روح اور جسم اکھٹے اترتے ہیں
اُس شام کی طرح
جس کے سنگم پر
دن اور رات کا محتسب دھندلکا
خون میں تیرتا رہتا ہے
اس جنگل میں کچھ جلتا ہے
جس کی راکھ سے وقت ایسے پرندے بناتا ہے
جو مجھ میں چاروں طرف اڑتے
اور میری ذات کی دیواروں پرپیہم ٹھونگیں مارتے ہیں
میں نقرئی آگ کے سمندر میں
نمک کی طرح پگھلتا
اور ساحل کی ہوا سے ہمکلام ہوتے ہوئے
خوابوں کا گرم موم اپنے سر پر ٹپکتا محسوس کرتا ہوں
اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو دیکھتا ہوں
اور ڈر جاتا ہوں
کہ اُن کی پوریں
تعبیروں کے اس پُل کی طرح ہیں
جس کی ریلنگ کے حصے
بصارت سے محروم آنکھوں سے بنے ہوں
اور جو سر کٹے بھتنوں کی طرح
مجھ پر دانت نکوسنے میں مصروف ہوں
جنگل کی بھڑکتی آگ میں
بن بلائے موسم شعلے پھلانگتے
زندگی کا قرض چکانے
کہیں دور نکل جاتے ہیں
اُن تمناؤں،امیدوں اور یادوں سے دور
جو اپنے اعمال کا بوجھ اٹھائے
گیلی لکڑیوں کی طرح سلگتی رہتی ہیں
میں سارے ایندھن کا شور
خود میں انڈیل لینا چاہتا ہوں
افق پر لہو میں تیرتا دھندلکا
میرے کسی ہم نفس کو پکارتا ہے
اور میرے تلووں تلے انگارے سر اٹھا کر کہتے ہیں
یہاں تمہارے سوا کوئی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو پھر
یہ جہنم
جو میری ہتھیلیوں میں چھپی ہے؟

Image: Dgigliello

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *