
مڈنائٹس چلڈرن جہاں تاریخ اور تخیل کے ملاپ سے” آدھی رات کے وہ بچے "جنم لیتے ہیں جو کہانی کے تانے بانے میں بار بار الجھتے اور بچھڑتے ہیں،اور تاریخ اگر برصغیر کی یا موجودہ پاکستان اور ہندوستان کی ہو تو خوا مخواہ تخیل بھٹک کر کبھی کرم کے پھیروں میں گردش کرتا ہے توکبھی جادو ٹونے، قسمت اور وہم اوہام کی پر اسراریت تلے بالکل رکا ہوا محسوس ہو تا ہے۔مڈنائٹس چلڈرن ان بچوں کی کہانی ہے جو ہندوستان کی آزادی اور تقسیم کی رات کو پیدا ہوئے۔ ٹھیک بارہ بجے جب نیتا لوگ تقریریں کر رہے تھے اور کارکن گلیوں میں لوٹ مار ؛ تب ہی جنم ہوا تھا سلیم اور شیوا کا، ہندوستان اور پاکستان کا۔سلیم اور شیوا اپنی جنم کنڈلی کے کارن نہیں بلکہ ایک اینگلو انڈین نرس کے ہاتھوں اپنی قسمت پاتے ہیں جب پیدائش کے وقت نرس ان دونوں کو آپس میں بدل دیتی ہے اور پھر تمام عمر اس کا کفارہ ادا کرتی ہے۔ سلیم اور شیوا کے کردار اپنی ذات میں اتنے مضبوط نہیں ہیں جتنے ان کے آس پاس کے حالات انہیں اہم اور ضروری بنا د یتے ہیں۔ یہ کردار ایک بڑی کا پزل کے مختلف حصے ہیں جن کے اندر تاریخ اور حالات حاضرہ دونوں اپنی علامتوں کے ساتھ اپنا اظہار کرتے ہیں۔سلیم اور شیوا اور وہ تمام بچے جو اس رات پیدا ہوئے غیر مرئی طاقتیں رکھتے ہیں اور ان میں سلیم ان سب کرداروں کو اکٹھا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور شیوا اپنے ساتھ ہونے والے نامناسب سلوک کا بدلہ لینے واسطے ان سب بچوں کو استعمال کرنا چاہتا ہے۔سلیم اور شیوا ، پاکستان اور ہندوستان کہانی میں بار بار ٹکراتے ہیں ، سن سینتالیس کی تقسیم میں، سن اکہتر کی جنگ میں ، سن ستتر کی ایمرجنسی میں۔ مگر جہاں فلم کے واقعات کا تعلق ہندوستان ، پاکستان اور بنگلہ دیش سے ہے، وہیں اس فلم کی عکس بندی کا کام سری لنکا میں ہونا اس فلم اور اس کے بنانے والوں کے خلاف موجود عوامی رد عمل کے خوف کا پتہ دیتا ہے۔ تاہم فلم میں دکھائے گئے مقامات اور کرداروں کے کاسٹیوم اسے ہندوستانی دکھانے میں کامیاب رہے ہیں۔
ناول پر فلم بناتے ہوئے یہ مسئلہ اپنی جگہ رہتا ہے کہ ناول کو متاثر کیے بنا فلم کی کہانی کو عام فلم بین کے لئے کیسے قابل قبول بنا یا جائے، لیکن مڈنائٹس چلڈرن کا سکرپٹ خود سلمان رشدی کا ہے سو اس لئے کہانی کو فلمانے کا عمل کہیں بہتر رہا اور ناول اور فلم کے تاثر میں کچھ خاص فرق نہیں ہونا چاہیے تھا۔ مگر کہانی میں بتانے کو اتنا بہت کچھ تھا کہ جب اسے فلم کی صورت میں دکھانے کی کوشش کی گئی تو اصل کہانی سے زیادہ جزئیات ، کرداروں کی بجائے ان کا پس منظر ، واقعات کے برعکس حالات زیادہ ابھر کر سامنے آتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ فلم بین کی کسی کردار سے کوئی جذباتی وابستگی پیدا نہیں ہو پاتی ۔ دیپا مہتہ کی دیگر فلموں کی طرح اس فلم کے مناظر بھی بے حد رنگین ہیں۔ دیپا بار بار اپنی فلموں سے یہ ثابت کرتی ہیں کہ وہ بھلے ہندوستان میں نہیں رہ رہیں مگر ہندوستان کے ان کونوں کھدروں سے واقف ہیں جہاں ہندوستان واسیوں کے لئے بھی نئے ہوتے ہیں اور اکثر اشتعال انگیز بھی۔فلم کی موسیقی بھی ہندوستان پاکستان سے جڑی ہوئی ہے۔ نور جہاں اور جگجیت فیض اور غالب کو گاتے سنائی دئیے۔ اور نتن ساہنی کی پس پردہ موسیقی نے فلم کے بہت سے پہلووں کے جوڑنے کا کام کیا ہے ۔فلم کی کہانی بہت سے برسوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اکثر کرداروں کی عمر بدلنے پر اداکار بھی بدلنے پڑے اور ہر اداکار کو اپنے کردار کے لئے بہت کم دیر سکرین پر آنے کا موقع ملا، پھر بھی شبانہ عظمی، شریا سرن، درشیل سفرے، رجت کپور نے اپنے اپنے ٹکڑے صحیح جگہ لگا کر اس فلم کو مکمل کیا ہے۔ اور وہ بھی اس طرح کہ کوئی کردار نہ فالتو لگتا ہے نہ مختصر۔
مڈنائٹس چلڈرن میں دیکھنے کو بہت کچھ ہے، سیاسی طنز، رومان، علامتی اظہار اور ہندوستان کے بے تحاشا لوگوں کے بے انت ہجوم میں سے چند کردار جو مصنف کی مٹھی میں سمٹ سکے۔اور اندرا گاندھی اور ایوب خان ایسے وہ کردار بھی جو ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ ہیں۔ مگر اس فلم کا کینوس اتنا بڑا ہے کہ کسی ایک شکل یا سراپے کا مکمل جائزہ ممکن نہیں اور نہ ہی اس فلم کو کسی ایک کیٹیگری میں ڈالا جا سکتا ہے۔ پھر بھی دیپا مہتہ اور سلمان رشدی کو الگ کر دینے کے بعد بھی اس فلم میں دیکھنے کو بہت کچھ ہے
Leave a Reply