Laaltain

مَیں بھگوڑا کیوں بنا؟

11 مارچ, 2017
Picture of ذکی نقوی

ذکی نقوی

کتاب: “مَیں بھگوڑا کیوں بنا؟ (ایک امریکی فوجی کے اعترافات)”
مصنف: جوشوا کی
مترجم: لیفٹیننٹ کرنل غلام جیلانی خاں
ناشر: نگارشات پبلشرز
تبصرہ: زکی نقوی

 

دورِ جدید جنگی اخلاقیات کی دھجیاں بکھرنے کا ایک تکلیف دہ دور ہے جس میں وحشی پن کی انتہاؤں کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ سیارہء زمین پر انسان اور انسانیت کے تھوڑے دن رہ گئے ہیں۔ اگرچہ ہم اس اہلِ دُنیا جنگ کے فتنے کو کُلی طور پر اپنی قومی زندگیوں سے نکال باہر نہیں کر سکتے تاہم تہذیب یافتہ اقوام نے جنگ کی اخلاقیات، قوانین اور حدود و قیود وضع کرکے اس وحشی پن کو روکنے کے لئے جو قوانین بنائے تھے وہ اہلِ دانش اور انسانیت دوست قوموں کی اُمید کا آخری مرکز رہے ہیں۔ عراق پر امریکا کا حملہ نو گیارہ کے بعد کے واقعات میں کئی لحاظ سے چشم کشا ہے۔ جہاں اس حملے سے امریکا کے سیاسی عزائم اور جدید نو آبادیاتی ذہنیت کا پردہ فاش ہوا ہے وہاں عراق جنگ کے واقعات نے دُنیا بھر میں جنگی اخلاقیات کا ڈھنڈورا پیٹنے والی اور تہذیب و تمدن کی نام نہاد مبلغ امریکی قوم کے ڈھول کا پول کھول دیا ہے۔

 

ہمہ گیر تباہی کے ہتھیاروں (ویپن آف ما س ڈسٹرکشن) کی تلاشی کے بہانے عراق میں امریکی فوج کے ہاتھوں جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوئیں اور جنگی اخلاقیات کی بڑے پیمانے پر دھجیاں بکھیری گئیں، ان پر گاہے بگاہے خبریں اور رپورٹیں تو دُنیا بھر میں شائع ہوئیں لیکن امریکی فوج سے فرار ہو کر کینیڈا میں پناہ لینے والے فوجی جوشوا کی کے اعترافات پر مبنی کتاب “دی ڈیزرٹرز ٹیل” اس بابت ایک اہم اضافہ تھی جس میں ان جرائم کے چشم دید گواہ کی حیثیت سے جوشوا کے بیان کئی گئی واقعات ٹھوس ترین گواہی ہیں اور عراق سے دُنیا بھر کے قارئین کے لئے ایک براہِ راست اور بالواسطہ دستاویز ہے جس کی اہمیت مسلمہ ہے۔ جوشوا کو جس دھوکا دہی اور بے ایمانی کے ساتھ امریکی فوج میں بھرتی ہونے پر اُکسایا گیا، یہ ایک نئے پڑھنے والے اور امریکی فوج سے کم واقفیت رکھنے والے کے لئے کافی حیران کُن ہو گا کہ بظاہر ،دُنیا کی ایک عظیم الشان فوج میں بھی سپاہی کی بھرتی کیلئے عساکر کن اخلاق باختہ اور نا معقول طریقوں کا انتخاب کرتے ہیں جس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکی من حیث القوم جنگ پر جانے سے گریزاں ہیں بلکہ متنفر بھی ہیں جس کی وجہ بُزدلی نہیں بلکہ مقاصدِ جنگ پر اُن کا عدم اعتماد ہے۔ لیکن فوج میں آنے کے بعد اُنہیں کس طرح کی متعصب اور غیر انسانی ذہنی تربیت سے گُزارا جاتا ہے۔ یہ بھی ایک غیر امریکی سویلین اور فوجی کیلئے یکساں طور پر ناگوار حیرت کا باعث ہے کہ یہ تربیت سراسر طالبان، القاعدہ اور داعش کے انداز کی ‘برین واشنگ’ پر مبنی ہے۔ اگر “تمام مسلمان دہشت گرد ہیں، تمام عرب، عراقی ملعون اور قتل کردیئے جانے کے قابل ہیں” جیسے تربیتی بھاشن امریکی فوجیوں کو دئیے گئے ہوں تو اُن میں اور القاعدہ اور داعش کی ذہنیت میں کیا فرق رہ جاتا ہے جن کے نزدیک تمام غیر مسالک کے مسلمان کافر ہیں، تمام غیر مسلم کافر ہیں تمام اہلِ مغرب کافرِ ارذل ہیں لہٰذا سب واجب القتل ہیں! یہ حقائق امریکی فوجی ذہنیت کو القاعدہ اور داعش کے برابر امنِ عالم کے لئے خطرہ قرار دینے کیلئے کافی ہیں۔

 

جوشوا نے اپنی محبوب بیوی اور اپنے بہت پیارے بچوں کے مستقبل اور سلامتی کو داؤ پر لگا کر اور اپنے وطنِ مالوف، اوکلاہاما کے ایک گاؤں گُتھری سے ہمیشہ کیلئے اجنبی ہو جانے کی قیمت پر جو سچ بولا ہے وہ قابلِ قدر ہے۔ امریکا کے سادہ لوح دیہاتی نوجوان جوشوا عراق میں ایک کمبیٹ انجنئیر کمپنی کے ساتھ سپاہی کے طور پر تعینات رہا اور اس دوران اس نے عراق جنگ میں امریکی فوج کا جو رُخ دیکھا، اُس کا تذکرہ دلچسپ بھی ہے اور تکلیف دہ بھی ۔ ایک مسلمان ملک اور مشرقی تہذیب ہونے کے ناتے ہم عراق کے مسلمانوں کی زندگی کے اس دردناک باب کے بارے میں ضرور جاننا چاہتے ہیں کہ ،

 

سُرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف! (اقبالؒ)

 

اور ایک حملہ آور کی زبانی عراق میں چارد اور چاردیوادی کے تقدس کی پامالی، سویلین آبادی کے خلاف جارحیت، ایذا رسانی (ٹارچر)، ماورائے قانون اور غیر لڑاکا افراد کا قتل، پانچ فُٹ سے زیادہ قد کے ہر شخص کو گرفتار کرنے کے احکامات (ازحد احمقانہ اور بعید از عقل خیال)، تلاشی کے بہانے عراقی گھروں سے قیمتی اشیاء کا چوری کرنا، ازراہِ تفریح راہگیروں پر گولی چلانا اور پھر لاشوں کو مسخ کر کے اس قبیح حرکت سے یک گونہ تلذذ کا حُصول جیسے قبیح افعال جن کا اعتراف مصنف نے کیا ہے، ہم ان سے یکسر لا تعلق نہیں رہ سکتے۔ اگر ضمیر عالم ان مظالم پر بلبلا نہ اُٹھے تو کم از کم ہمیں تو اس سے غافل نہ ہونا چاہیئے کہ ہم نے جس قوم کی خوشنودی اور دوستی کو حرزِ جاں بنائے رکھا ہے، وہ اپنے علمی وادبی، سیاسی و جمہوری قد و قامت کی ظاہری بلندی کے ساتھ در حقیقت بے ضمیری اور بے حسی کی کن پاتالوں میں گری پڑی ہے۔ ایسے ہی دوست کے لئے غالب نے فرمایا تھا:

 

یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے!
ہوئے تُم دوست جس کے، اُس کا دُشمن آسماں کیوں ہو؟

 

دیکھ لیجئے کہ خود امریکا کے بیدار ضمیر لوگ بھی دل برداشتہ ہیں کہ یہ لنکن اور تھامس جیفرسن کے عظیم آدرشوں والا امریکا نہیں رہا!!!

 

جوشوا کی نے اس کتاب میں جس ضمیرِ بیدار اور عالی ہمتی کا ثبوت دیا ہے، اس کتاب کے مترجم لیفٹیننٹ کرنل غلام جیلانی خاں نے اُسی خلوصِ نیت، عرق ریزی اور فرض شناسی کے ساتھ اس کتاب کو اُردو قارئین کے ذوقِ سلیم، فکری سطح، سوجھ بوجھ اور مزاج کے مطابق ڈھالا ہے۔ فرض شناسی کا لفظ میں نے اس لئے استعمال کیا ہے کہ کرنل صاحب جب کسی اعلیٰ پائے کے عسکری ادب پارے کا انگریزی میں مطالعہ کرتے ہیں تو اُسے اُردو قارئین کے لئے اس زبانِ شیریں کا جامہ اوڑھانا اپنا ادبی فریضہ گردانتے ہیں جس کا ثبوت اُن کے تراجم اور تصانیف ہیں جن کی بدولت اُردو کے عسکری ادب میں اُن کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ یہ تراجم اور تصانیف اُردو ادب کا یادگار حصہ بن چکے ہیں، بس اُردو میں عسکری ادب پہ جمنے والی قارئین کی بے اعتنائی کی دبیز برف پگھلنے کی دیر ہے۔۔۔

 

اس ترجمے میں کرنل جیلانی صاحب کا اولین کمال یہ ہے کہ اُنہوں نے ایک فوجی لکھاری اور ایک سویلین قاری ، دونوں کے جذبات، خیالات اور ذہنی سطح کو کمال باریکی سے مجھ کر ان کو اُردو الفاظ کا جامہ پہنایا ہے جس سے نہ تو تکنیکی لحاظ سے ترجمے کی صحت پہ اثر پڑنے دیا ہے اور نہ ہی فوجی کلچر سے نابلد سویلین قاری کے دماغ پر بھاری بھرکم فوجی اصطلاحات کا بوجھ آنے دیا ہے۔ یسے مرحلے پہ کرنل صاحب بڑی نرمی اور شفقت سے ‘قوسین’ کا ایک لطیف سا پُل بنا کر قاری کا ہاتھ پکڑتے ہیں اور اس مشکل منزل سے اُسے یوں پار کروا دیتے ہیں کہ مطالعے کی روانی پہ کوئی اثرنہیں پڑتا۔ اگرچہ اس کتاب میں ظُلم وستم، انسانیت کی پامالی ، اخلاق باختگی، جھوٹ، بے رحمی اور ایک تکلیف دہ ہجرت کے قصے ہیں لیکن اگر مصنف نے کسی ہلکے پھلکے لمحے میں ہنسی مذاق کی کوئی بات ذرا بے باک قسم کی فوجی زبان میں کہہ دی ہے، جس پہ ایک شریف سے، پڑھے لکھے قاری کا بدکنا بھی بعید از قیاس نہیں، کرنل صاحب نے اُسی لطافت سے پاکستانی فوجیوں کے روزمرہ میں اُس کا ترجمہ کردیا ہے جس کا لُطف پڑھ کر ہی لیا جاسکتا ہے۔ائر فورس میں ایسی گفتگو کو غالباً “فلاوری لینگوئج” کہتے ہیں جس میں پاک فضائیہ کے سربراہ ،مرحوم ایچرلے مشہور تھے۔

 

اگر قاری کے حافظے میں رمادی، حبانیہ اور القائم کے کسی مظلوم عراقی کے آنسُو ، اُس معصوم عراقی بچی کی آخری سسکیاں جو کہ اسکول کی وردی میں جوشوا سے ایک وقت کا کھانا مانگنے کے ‘جُرم’ میں گولی سے اُڑا دی گئی تھی، ہمیشہ کیلئے محفوظ ہو جائیں ، اگر اُردو قاری اپنے ضمیر میں کوئی پائیدار بیداری محسوس کرے تو اس حق گو امریکی سپاہی کے اس ‘مجاہدانہ’ عمل پر داد دینے کے ساتھ ساتھ اُسے ہمارے پاکستانی مترجم کرنل صاحب کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہیئے کہ یہ انگریزی اور اُردو کے عسکری ادب ہی کی نہیں، انسانیت اور تہذیب کی بھی ایک گراں قدر خدمت ہے۔

 

کتاب 256 صفحات پر مشتمل ہے اور “نگارشات” لاہور نے شائع کی ہے۔ گرانی کے اس دور میں 500 روپے کی قیمت کچھ ذیادہ نہیں ہے۔ کتاب کا سرورق اور صفحات دیدہ زیب ہیں اور کمپوزنگ قابلِ تعریف ہے۔ کتاب کا تعارف بریگیڈئیر محمد زاہد خاں صاحب نے لکھا ہے جو ایک ادیب اور ادب شناس لڑاکا فوجی افسر ہیں، آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر رہ چکے ہیں اور خود بھی عسکری ادب پر کئی تحاریر کے مصنف ہیں۔

ہمارے لیے لکھیں۔