وہ جس گھڑی مجھ پہ کھل گیا تھا؛
قمار خانے کی میز پر میرے نام کے سبوچے میں خاک ہے!
زبانِ تشنہ کہ پُرسکوں تھی، سپاٹ چہرہ،
نہ ہاتھ میں کپکپی تھی، آنکھوں میں اضطرابِ شکست کا شائبہ نہیں تھا،
کہ جیسے دہقان پکی فصلوں کو مینہہ برسنے کے بعد دیکھے
کہ جیسے وہ فرش و عرش کے ٹاکرے کا سارا مآل پہلے سے جانتا ہو
میں پر سکوں تھا،
مگر اچانک گمان گزرا کہ یہ اندھیرے اُطاقچے کا فسوں ہے شاید
یونہی کسی بے یقین لمحے میں پھر سبوچہ اٹھا کے کچھ روشنی میں لایا،
یونہی کوئی چند مرتبہ کھنکھنا کے پلٹا، الٹ کے دیکھا
قمار میں ہارنے سے پہلے کی ساری چالوں کا پھیر جانچا
وہ کوئی ایسا طلسم سوچا جو پل میں مٹی کو مَے بنا دے،
نجانے کتنی اداس نظموں کے وِرد پھونکے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
وہ شب، وہ بوجھل پنا، کہ میں سب بھلا کے کونے میں ایک جھینگر کی سن رہا تھا،
وہ دن، وہ تاریخ، عیدِ نوروز میں کوئی دن ہی رہ گئے تھے،
کہ گلفروشوں کی سب دکانوں پہ بخششِ مفت کی صدا تھی،
شبِ زمستاں میں لکّھے ہر اک پیام پر سب کو خیریت کے جواب پہنچے،
نسیمِ بوئے بہار کے ہاں سے سب پہ فرمانِ جشن عاید تھا؛
کہ جو کوئی رہگزر سے گزرے گا، سر بسر جھوم کر چلے گا
مگر میں بازیچۂ بہاراں کے درسِ اول میں رہ گیا تھا
تو کس حوالے سے دورِ رفتہ کے میکشوں سے کلام کرتا؟!؟
میں باوضو ہو کے روضۂ فصلِ گل کو پہلا سلام کرتا
کہ تب تلک مجھ پہ کھل چکا تھا
قمار خانے کی میز پر میرے نام کے سبوچے میں خاک ہے۔۔۔