Laaltain

موت کی بوُ۔۔۔نوجوان نسل میں سلوشن سونگھنے کا بڑھتا رحجان

27 جنوری, 2014
Picture of عثمان شاہد

عثمان شاہد

مینارپاکستان، روشن پاکستان کی درخشندہ مثال ، وہ مقام جہاں 23مارچ 1940 کو برصغیر کے مسلمانوں نے ایک آزاد فلاحی ریاست کا خواب دیکھا تھا۔ ایک ایسے پاکستان کا خواب جہاں ترقی، وسائل ، بنیادی ضروریات زندگی اور آگے بڑھنے کے تمام مواقع ہوں گے۔ 73سال قبل اس خواب کی یادگار آج بھی 203فٹ کے اس مینار کی صورت میں لاہور کی دھرتی پر سینہ تان کر کھڑی ہے۔ لیکن اس کے سائے تلے پاکستان کی نوجوان نسل مفلسی و افلاس ہی نہیں بلکہ منشیات کی لت میں ڈوبی ان خوابوں سے بیگانہ ہے جن کی یاد میں یہ ملک اور مینار وجود میں آیا۔
لاہور شہر میں نشہ کے عادی نوجوانوں کی اکثریت مینار پاکستان کے گرد اور اس سے ملحقہ علاقوں میں صبح و شام دیکھی جا سکتی ہے۔ جن کی آنکھوں میں خواب نہیں موت کا انتظار ہوتا ہے۔ مینار کے سامنے مغل دور کا عظیم شہکار لاہور کی سب سے بڑی بادشاہی مسجد کے عقب میں واقع ہیرا منڈی اور اس سے کچھ فرلانگ دور صوفی شاعرعلی ہجویری (داتا دربار) کی آخری آرام گاہ کے گرد بھرپور چکا چوند اور لاہور سمیت دیگر شہروں سے آئے ہزاروں افراد کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ ان میں سے سینکڑوں منشیات کے عادی ہیں جو نشہ یا دیہاڑی کی تلاش میں سڑکوں ، گلیوں ، کوچوں ، میدانوں اور فٹ پاتھوں پر کسمپرسی کی حالت میں دکھائی دیتے ہیں ۔
41لاکھ پاکستانی منشیات کے عادی ہیں جبکہ اس کے معالجہ اور منشیات کے ماہرین کی سہولت صرف 30ہزار نفوس تک محدود ہے۔پولیس سلوشن کا نشہ کرنے والوں کو گرفتار نہیں کرتی البتہ چرس، شراب اور دیگر غیر قانونی منشیات استعمال کرنےوالے کو فوری گرفتار کر لیا جاتا ہے۔
انہی نوجوانوں میں سے ایک 16سالہ آصف ہے جوگوند (جسے سلوشن کہتے ہیں ) کے نشہ کا عادی ہے۔ دیگر تمام نشیئوں کی طرح وہ بھی بے گھر ، معاشی بے حالی اور کسمپرسی کا شکار ہے۔ آصف کے مطابق وہ داتا دربار کے باہر ڈھول بجا کر اپنی روز مرہ ضروریات پوری کرنے کےلئے چند روپے کما لیتا ہے تاہم اس کے برعکس وہ زائرین سے بھیک بھی مانگ رہا تھا۔سلوشن کے نشہ کے عادی عموماَ بالاالذکر مقامات پر ہی پائے جاتے ہیں جس کی وجہ ہیرا منڈی میں لاہور کی بڑی شو مارکیٹ کا ہونا جہاں انہیں سلوشن بآسانی دستیاب ہوتا ہے اور پاس ہی ان درگاہوں کی موجودگی ہے جہاں سے انہیں ہر وقت مفت کھانا، بھیک، مزدوری اور ٹھکانا بھی مل جاتا ہے۔ پانچ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا آصف والدین کے پیار اور بہن بھائیوں کے لاڈ کے باوجود غربت کی وجہ سے پانچویں جماعت کے بعد تعلیم جاری نہ رکھ سکا ۔ چار و ناچار اس کی والدہ نے اسے اپنے بھائی کے ہاں کام کےلئے بھیج دیا۔ آصف کے ماموں منشیات فروش تھے اور انہوں نے اپنے بیٹے کے ساتھ ساتھ آصف کو بھی منشیات فروشی میں لگا دیا۔ چونکہ وہ کم عمر تھا اس لئے پولیس یا کوئی بھی یہ شک نہیں کرتا تھا کہ آصف اپنے ماموں کی ہیروئن اور دیگر منشیات ان کے گاہکوں کو گھر پہنچاتا ہے۔ منشیات فروشی کے کاروبار سے وابستہ ہوتے ہی وہ بھی منشیات کا عادی ہو گیا۔آصف کے والدین کو علم ہوا توانہوں نے اسے گھر بلا لیا اور منشیات کی لت سے چھٹکارے کےلئے اسے کئی روز تک زنجیروں میں باندھے رکھا تاکہ وہ گھر سے باہر نہ جائے تاہم ایک دن وہ گھر سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا اور لاہور پہنچا۔
گزشتہ تین سالوں سے وہ داتا دربار کے قریب گلیوں اور فٹ پاتھوں پر سوتا اور دیگر منشیات کے عادی افراد کے ساتھ رہتا ہے۔ 2012 میں چائلڈ پروٹیکشن ایند ویلفیئر بیوروپنجاب کی ٹیم نے اسے نشے کی حالت میں دیکھ کر ہسپتال اور پھر اپنے ادارے میں منتقل کر لیا جہاں اسے خوراک ،رہائش، تعلیم اور نشے کیخلاف تربیت ملتی ۔ آصف کا کہنا ہے کہ اسے وہاں بات نہ ماننے پر مارا پیٹا جاتا تھا جس کے باعث وہ چند ماہ میں ہی بیورو سے بھی فرار ہو گیا۔ آج دیگر منشیات کے عادی افراد آصف کا خاندان اور سڑکیں اس کا آشیانہ ہیں ۔ وہ گھر اور چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو پنجاب چھوڑنے پر پچھتاتا ہے ۔ آصف کی خواہش ہے کہ دیگر نوجوانوں کی طرح وہ بھی اپنے خاندان کے ساتھ خوشگوار اور صحت مند زندگی گزارے۔
سلوشن کا نشہ ایسی لت ہے جو کوئی بھی شخص تفریح یا حواس کھونے کےلئے استعمال کرتا ہے۔ محلول منشیات میں گوند سب سے زیادہ استعمال ہونیوالا نشہ ہے ۔ اس مقبولیت کی اہم وجہ اس کا کم قیمت، باآسانی اور قانوناَ دستیاب ہونا ہے۔

 

نشہ کس کےلئے چھوڑوں ؟
18سالہ عثمان گزشتہ دس سالوں سے منشیات کا عادی ہے۔ وہ 6سال کا تھا جب اس کے والد پولیس مقابلہ میں ہلاک ہو گئے۔ وہ تب کراچی رہتا تھا اور اس کے والد کا تعلق سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے ساتھ تھا۔ والد کی ہلاکت کے بعد اس کے گھر روز بروز پولیس کے چھاپے اور تفتیش کا سلسلہ شروع ہو گیا جس سے بچنے کےلئے اس کی والدہ اپنے چاروں بچوں سمیت والد کے گھر لاہور آ گئیں ۔ عثمان کی نانی نے اس کی والدہ کی دوسری شادی کر ادی اور بچے بھی ان کے ساتھ ہی اپنے نئے گھر اور نئے باپ کے ساتھ رہنے لگے۔ وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہے۔
عثمان نے بتایا کہ پولیس سلوشن کا نشہ کرنے والوں کو گرفتار نہیں کرتی البتہ چرس، شراب اور دیگر غیر قانونی منشیات استعمال کرنےوالے کو فوری گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ سلوشن والوں کو گرفتار نہ کرنے کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ پولیس جیسے ہی انہیں گرفتار کرنے لگتی ہے تو وہ جیب میں موجود بلیڈ سے خود کو زخمی کرنے لگتے تھے اور اس خوف سے کہ کسی نقصان کی صورت میں حکام کے سامنے جوابدہ نہ ہونا پڑے، پولیس انہیں گرفتار کئے بغیر ہی چلی جاتی ہے۔
عثمان نے بتایا ، “چند سال پہلے سائیکل بنانے کی فیکٹری میں کام شروع کیا تو چوری کے الزام میں فیکٹری سے نکال دیا گیا اور فیکٹری مالک نے اپنا سامان بازیاب کرانے کےلئے گھر پولیس بھیجنا شروع کر دی۔ میرے سوتیلے والد نے پولیس کی گھر آمد سے تنگ آ کر مجھے گھر سے نکال دیا۔ تین، چار سال ہو گئے ہیں گھر والوں کی شکل بھی نہیں دیکھ سکا۔ ”
عثمان کا کہنا تھا کہ اگر وہ 50سال بھی گھر رہے تو کبھی نشے کو ہاتھ نہ لگائے۔” میرے لئے نشہ چھوڑنا مسئلہ نہیں مگر کس کے لئے چھوڑوں ؟ کس کادل چاہتا ہے کہ وہ گھر والوں کو چھوڑ کر نشے کی لت میں پڑے۔”

 

اگر مجھے وزیراعظم بنا دیا جائے ۔۔۔بلال کی کہانی
“اگر مجھے وزیراعظم بنا دیا جائے تو منشیات پر مکمل پابندی اور اس پر سختی سے عمل کراؤں گا۔” اس حقیقت سے ناواقف کے منشیات کا استعمال قانوناً جرم ہے، سات بہن بھائیوں میں سب سے بڑا27سالہ بلال صرف سلوشن ہی نہیں بوٹی (گانجا)، شراب، چرس اور ہیروئن کا نشہ بھی کرتا ہے۔ وہ ساہیوال کے نواحی گائوں کا رہائشی لیکن کئی سالوں سے ہیرا منڈی کے علی پارک میں ہی پڑاؤ کئے ہوئے ہے۔ وہ تیل کی مالش کرکے روزی کماتا ہے۔ اس نے نشے کا آغاز سگریٹ سے کیا اور پھر غربت، بیروزگاری اور گھر والوں سے دوری اسے نشے کا عادی بناتی چلی گئی۔ اس کے نزدیک بہترین نشہ بوٹی(گانجا) ہے جبکہ سلوشن صرف مجبوری اور رقم کم ہونے کی صورت میں کیا جاتا ہے۔
بلال اب بھی چاہتا ہے کہ وہ نشہ چھوڑ دے ۔ اس کا کہنا ہے کہ پولیس خود منشیات فروخت کرتی ہے اور انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں کیوں کہ ہر کوئی آپس میں ملا ہوا ہے۔ بلال کا ماننا ہے کہ اگر وہ وزیراعظم ہوتا تو پولیس بھی ایماندار ہوتی کیونکہ جب حکومتی عہدیدار ٹھیک ہوں گے تو ان کے ماتحت ملازمین اور ادارے بھی درست ہو جائیں گے۔

 

ہم تو مقدمہ درج کر لیتے ہیں
عثمان اور بلال کے الزامات کے برعکس ایس ایچ او تھانہ ٹبی سٹی بشیر سبحانی نے کہا کہ فورٹ روڈ اور ہیرا منڈی سمیت میرے تھانہ کی حدود میں کوئی منشیات فروش نہیں اور نہ ہی میرا کوئی اہلکار منشیات فروشی میں ملوث ہے۔ انہوں نے الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے بتایا کہ اگر کوئی نشئی گرفتاری کے دوران ہاتھوں پر بلیڈ مارے تو ہم دفع 325کے تحت اس پر اقدام خود کشی کا مقدمہ درج کر لیتے ہیں ۔ داتا دربار اور ملحقہ علاقوں کے گرد نشیئوں کی کثیر تعداد کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وہ علاقہ ان کی حدود میں نہیں آتا لہٰذا وہاں منشیات کے عادی افراد ہر وقت سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر نظر آئیں گے۔

 

گوند کے نشہ سے دیر پا اثرات میں پٹھوں کی کمزوری، ڈپریشن، بیہوشی، دیوانگی، یادداشت میں کمی، ہڈیوں کے گودے کو نقصان اور سانس میں تکلیف و آکسیجن کی کمی کے باعث موت ہو سکتی ہے۔
سلوشن سونگھنے سے کیا ہوتا؟
سلوشن کا نشہ ایسی لت ہے جو کوئی بھی شخص تفریح یا حواس کھونے کےلئے استعمال کرتا ہے۔اسے کپڑے یا کاغذ میں لپیٹ کر منہ یا ناک کے ذریعے سونگھا جاتا ہے۔ محلول منشیات میں گوند سب سے زیادہ استعمال ہونیوالا نشہ ہے جو عام طور پر نوجوانوں میں مقبول ہے۔ اس مقبولیت کی اہم وجہ اس کا کم قیمت، باآسانی اور قانوناً دستیاب ہونا ہے۔ ماضی میں یہ صرف ایک سماجی مسئلہ تھا مگر موجودہ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ گوند کے نشہ سے دیگر موذی امراض کے ساتھ موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ یہ عام طور پر انتہائی مضر منشیات کی جانب پہلا قدم ثابت ہوتا ہے۔
سلوشن کا نشہ کرنے والے اکثر نوجوانوں کا خیال ہے کہ ان کے اندرونی جسمانی اعضاء جیسا کہ پھیپھڑوں کو بھی سلوشن اسی طرح جوڑ دیتا ہے جس طرح یہ جوتے یا کوئی سی دو چیزوں کو آپس میں جوڑتا ہے۔اس کے برعکس امریکی فاؤنڈیشن برائے ڈرگ فری ورلڈ کے مطابق گوند سمیت سونگھنے والی منشیات نظام اعصاب پر براہ راست اثر انداز ہوتی اور چند لمحوں میں شراب جتنا نشہ کر دیتی ہیں ۔ ایسی منشیات کے استعمال کے دوران یا فوری بعد متاثرہ شخص اعصابی و جسمانی طور پر خود کو قابو میں نہیں رکھ پاتا ، اسے شدید سر درد ہوتا ہے اور بعض اوقات نوبت بیہوشی تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ علاوہ ازیں ناک اور منہ کے گرد چھالے پڑ جاتے ہیں ۔ گوند کے مسلسل نشہ سے دل اور سانس کی تکالیف بھی ہو سکتی ہیں جبکہ پھیپھڑوں میں آکسیجن کی کمی کے باعث موت بھی واقع ہو جاتی ہے۔
گوند کے نشہ سے دیر پا اثرات(long term effects)میں پٹھوں کی کمزوری، ڈپریشن، بیہوشی، دیوانگی، یادداشت میں کمی، ہڈیوں کے گودے کو نقصان اور سانس میں تکلیف و آکسیجن کی کمی کے باعث موت کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسداد منشیات و جرائم (یو این او ڈی سی) کی مارچ2013ء میں شائع کردہ رپورٹ کے مطابق 41لاکھ پاکستانی منشیات کے عادی ہیں جبکہ اس کے معالجہ اور منشیات کے ماہرین کی سہولت صرف 30ہزار نفوس تک محدود ہے۔رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ گزشتہ ایک سال میں 64لاکھ بالغ افراد نے منشیات کا استعمال کیا اور اس رحجان میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسا ملک جس کی ایک چوتھائی آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہو وہاں باقاعدہ علاج کی سہولیات میں متعدد رکاوٹیں حائل ہونا معمولی بات ہے۔
محمد ناصر اور فخرالہدیٰ صدیقی کی لاہور کے بے گھر بچوں پر 2012ء میں شائع کردہ رپورٹ’An Analysis of Causative
Factors Which Push and Pull the Children out of Their Home into the Street World at Lahore ‘ میں گوند کا نشہ کرنے والے بچوں پر بھی تحقیق کی گئی ہے۔ اس تحقیق کے مطابق نہ صرف لاہور بلکہ پاکستان بھر میں گلیوں کوچوں میں نظر آنے والے بے گھر بچے بنیادی ضروریات اور حقوق سے محروم ہیں ۔ اپنے خاندان سے علیحدگی کے باعث وہ والدین کی محبت، توجہ اور نگہداشت سے محروم رہتے اور جرائم پیشہ افراد، پولیس، منشیات فروشوں اور ان کے عادی افراد کے رحم و کرم پر ہیں ۔ بچوں کی صحت کےلئے غیرموزوں ماحول کے باعث وہ ایڈز اور دیگر جنسی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ علاوہ ازیں وہ منشیات خصوصاً سلوشن سونگھنے جیسے نشے کی لت کا شکار ہو جاتے ہیں جس کی اہم وجہ اس نشے کی بآسانی اور کم قیمت پر دستیابی ہے۔ اس تحقیق کے مطابق صرف لاہور شہر میں قریباَ 10ہزار بے گھر بچے موجود ہیں ۔ان میں سے اکثریت کی عمر15تا 17سال ہے اور ان کا تعلق پسماندہ گھرانوں اور دیہی علاقوں سے ہے۔
نا صرف پاکستان و دیگر ترقی پذیر ممالک بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی یہ نشہ عام ہے۔امریکہ کی یونیورسٹی آف ایریزونا کے کالج آف میڈیسن کی 2001ء میں شائع شدہ رپورٹ کے تحت امریکہ میں 20فیصد نوعمر افراد گوندکا نشہ کرتے ہیں ۔ اسی طرح سنگاپور میں گوند کے نشہ کا پہلا واقعہ1977ء میں منظر عام پر آیا جب ایک15سالہ امریکی اپنے کمر ے میں مردہ پایا گیا اور اس کے نتھنوں میں گوند تھی۔ پوسٹمارٹم رپورٹ میں ثابت ہوا کہ اس کے خون میں (گوند میں استعمال ہونیوالے مادہ)ٹولین کی کثیر تعداد موجود تھی۔

 

نشہ عادت نہیں بیماری
تمام نفسیات دان متفق ہیں کہ نشہ ایک بیماری ہے جوشروع تو ذہنی سکون یا شوق کےلئے کیا جاتا ہے مگر عادت پڑ جانے پر بیماری کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔
پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات کی طالبہ و کلینیکل سائیکالوجسٹ سلمیٰ بتول کہتی ہیں کہ منشیات کی لت غربت یا کسی اور خاص وجہ سے نہیں ہے۔ اس میں کمیونٹی ڈومین آتی ہے ۔ اس میں دیکھنا یہ ہے کہ کمیونٹی میں کون سے عناصر ہیں جو منشیات کی طرف مائل کرتے ہیں ۔ اس میں سب سے پہلے ہمسائے آتے ہیں کہ آپ کا ارد گرد کا ماحول کیا ہے۔ اس میں قوانین و اخلاقیات بھی آ جاتی ہیں جس میں والدین اور ار د گرد کے لوگ یا کمیونٹی کس حد تک منشیات کو نا پسند کر رہی ہے ۔یہ عنصر بھی اہم ہے کہ منشیات کی دستیابی کس حد تک ہے۔
دوسری ڈومین فیملی ہے۔ اس میں فیملی کا منظم ہونا آتا ہے کہ والدین نے بچوں کو منع کیا ہوا ہے کہ انہوں نے سگریٹ کو ہاتھ لگانا ہے کہ نہیں ۔ دوسری اہم بات ہے کہ فیملی میں مسائل کتنے ہیں ۔ اگر جھگڑے ہوتے ہوں گے تو بچے ادھر ادھر سکون تلاش کریں گے اور نشہ بھی کریں گے۔ اسی میں فیملی کا اینٹی سوشل رویہ کیسا ہے۔ اگر بچہ چوری یا لڑائی کرتا ہے تو اس پر ماں باپ کا رد عمل کیا ہوگا۔ اگر وہ بچوں کو برائی سے منع کرتے ہیں تو اس سے ان میں بہتری کے چانسز زیادہ ہیں ۔تیسرا اہم رسک فیکٹر ہے جس میں انفرادی رویہ ہے کہ نوجوان دوستوں سے متاثر ہو کر شوقیہ منشیات شروع کرتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ اس کے عادی ہو جاتے ہیں ۔
ان تینوں عوامل میں سب سے اہم فیملی ڈومین ہے کہ کوئی بھی شخص سب سے زیادہ وقت اور توجہ فیملی سے حاصل کرتا ہے اور اسی کے رویوں پر اثر انداز ہو گا ۔
عموماً 16-17سال کی عمر میں نشے کا رحجان زیادہ بڑھتا ہے جس کی وہ جسمانی و نفسیاتی تبدیلیاں ہیں کیونکہ تب نو عمر ی سے نوجوانی میں قدم رکھا جاتا ہے۔
سلمیٰ کا کہنا تھا کہ ایک بار نشے کی عادت کے بعد علاج ہو بھی جائے تو بہت مشکل ہے کہ وہ شخص دوبارہ منشیات کی طرف مائل نہیں ہو گا کیونکہ اس پر وہی حالت دوبارہ طاری (relapse) ہو سکتی ہے جس کے باعث وہ منشیات کی جانب مائل ہو ا تھا۔ یہ صرف معجزہ ہی ہو سکتا ہے کہ نشے کا عادی شخص علاج کے بعد دوبارہ اس لت میں نہ پڑے۔”یہ لوگ جذباتی طور پر کمزور ہوتے ہیں اور مسائل کا سامنا نہیں کر پاتے لہٰذا نشے میں نجات پاتے ہیں ۔ کیونکہ جب بھی کسی فیصلہ کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو یہ کوئی فیصلہ نہیں کر پاتے اس لئے نشے میں خود کو گم کر دیتے ہیں ۔ “

 

چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے علاو ہ پاپولیشن ویلفیئر اور سوشل ویلفیئر سمیت ملک بھر میں سینکڑوں این جی او ز اور بعض نجی ادارے منشیات کے عادی افراد کے علاج ، معالجہ اور انہیں تحفظ فراہم کرنے کےلئے کوشاں ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

 

بچاؤ ممکن ہے؟
صوبہ پنجاب میں اقوام متحدہ کی مدد سے 2004 میں چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کا ادارہ قائم ہوا جس کا مقصد 4ماہ سے15سال تک کے بے گھر بچوں کوتحویل میں لیتے ہوئے ان کی نگہداشت کرنا اور ان کے خاندانوں تک پہنچانا ہے۔چائلڈ پروٹیکشن افسر برائے عوامی آگاہی زہرہ عمر بتاتی ہیں کہ ادارہ اپنے قیام سے اب تک قریباً 36ہزار بچوں کی مدد کر چکا ہے۔ان بچوں کی اکثریت بھکاریوں کی ہے جبکہ بعض دیگر وجوہات خصوصاً منشیات کی عادت کے باعث بے گھری و بے سرو سامانی کے عالم میں سڑکوں سے ادارے تک لائے جاتے ہیں ۔ انہیں لاہور ہیڈ کوارٹر میں قائم مردانہ یا زنانہ ہومز میں رکھا جاتا ہے جہاں خوراک، تعلیم اور دیگر بنیادی سہولیات مہیا کی جاتی ہیں ۔ زہرہ نے بتایاکہ ان بچوں کی نگہداشت اس وقت تک ادارے کی ذمہ داری ہے جب تک ان کے والدین یا سرپرست نہ مل جائیں یا پھر یہ 18سال کی عمر تک نہ پہنچ جائیں ۔ پہلی صورت میں انہیں قانونی کارروائی کے بعد والدین اور دوسری صورت میں پاپولیشن ویلفیئر کے حوالے کر دیا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے مستقبل کے حوالے سے رہنمائی کر سکیں ۔ انہوں نے بتایا کہ نشے کے عادی بچوں کو عموماً باقی بچوں کے ساتھ نہیں رکھا جا تا کیونکہ ان کی عادات بہت حد تک بگڑ چکی ہوتی ہیں اور انہیں قابو میں رکھنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں ادارے نے چند نفسیاتی اداروں کے ساتھ الحاق کر رکھا ہے جہاں ان بچوں کو نفسیاتی علاج اور کونسلنگ کےلئے بھیج دیا جاتا ہے۔ منشیات کے عادی بچوں پر تشدد کے حوالے سے زہرہ کا کہنا تھا کہ ادارے کو کسی صورت بچوں پر تشدد کی اجازت نہیں تاہم انتہائی ناگزیر صورتحال میں بچوں کی بہتری کےلئے شاذ و نادر اس حد تک جانا پڑتا ہے۔
چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے علاو ہ پاپولیشن ویلفیئر اور سوشل ویلفیئر سمیت ملک بھر میں سینکڑوں این جی او ز اور بعض نجی ادارے منشیات کے عادی افراد کے علاج ، معالجہ اور انہیں تحفظ فراہم کرنے کےلئے کوشاں ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ آصف، عثمان اور بلال ان ہزاروں نوجوانوں میں سے ہیں جو روز موت کو سونگھتے ہیں ۔
سائنسی تحقیق ثابت کرتی ہے کہ گوند کا نشہ نا صرف صحت کےلئے انتہائی مضر ہے بلکہ اس کے نقصانات سے ناواقف نوجوانوں کی موت بھی ہو سکتی ہے۔ اس کی آسان دستیابی اور قدرے کم قیمت کے باعث گوند کا نشہ بڑھ رہا ہے ۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ صحت کے حوالے سے آگاہی، جلد تشخیص اور فوری روک تھام سے اس کے نقصانات سے بچا جا سکتا ہے۔

ہمارے لیے لکھیں۔