Laaltain

زید حامد کا ایک فرضی کالم

18 دسمبر، 2015

[blockquote style=”3″]

ثاقب ملک کا یہ فکاہیہ مضمون اس سے قبل ان کے اپنے بلاگ پر بھی شائع ہو چکا ہے۔ ان کی اجازت سے اسے لالٹین کے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس تحریر کا مقصد محض تفریح طبع کا سامان کرنا ہے، کسی بھی فرد کی توہین یا دل آزاری قطعاً مقصود نہیں۔

[/blockquote]

جاوید چوہدری اور حسن نثار کے فرضی کالم پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
الحمداللہ ہم اپنے شاہی تخت پر برا جمان تھے، کنیزیں ہماری خدمت کر رہی تھیں، ہم نے تھرڈ جنریشن وار سٹریٹیجی کے تحت کنیزوں کواپنی خدمت پر مامور کیا تھا۔ الحمد اللہ کترینہ اور دیپیکا کو ان کے لمبے قد کی وجہ سے پنکھا جھلنے پر متعین کیا گیا ہے، ایشوریا اور کرینہ کو ان کے ہاتھوں کی حدت کی وجہ اپنی ٹانگیں دبانے پر لگایا ہوا ہے، سوناکشی ہمیں ‘چُوری’ کھلا رہی تھی کیونکہ وہ اس کام میں ماہر ہے۔ یہ کنیزیں ہمیں لال قلعہ کی ادھوری فتح کے صلے میں مال غنیمت میں ملی تھیں۔ ہم اس وقت اپنی فتح مبین مکمل نہیں کر سکے تھے کہ ہم نے اپنی اہلیہ کے ساتھ واپس پاکستان آ کر منگل بازار بھی جانا تھا لیکن الحمد اللہ، انشاء اللہ وہ وقت جلد آئے گا جب دلی کے لال قلعے پر ہمارے فوجیوں کی بنیانیں دھو کر سکھائی جائیں گی۔ الحمد اللہ میرے بچو آپ کی مدد سے ہم لال قلعے پر سبز ہلالی پرچم لہرائیں گے۔

 

الحمداللہ ہم اپنے شاہی تخت پر برا جمان تھے، کنیزیں ہماری خدمت کر رہی تھیں، ہم نے تھرڈ جنریشن وار سٹریٹیجی کے تحت کنیزوں کواپنی خدمت پر مامور کیا تھا۔
ہم ابھی اپنے شاہی تخت پر براجمان تھے کہ اچانک ایک سبز ہلالی کبوتر (یاد رہے یہ کبوتر اسی شکل و شباہت کا تھا جو ہندوستان جاسوسی کی غرض سے بھیجا گیا تھا) نے آ کر ہمیں ایک خط دینا چاہا۔ اس نے پاس آنے کی اجازت مانگی، ”عالی جاہ میں آپ کے قریب آنا چاہتا ہوں“ ہم نے فرمایا اجازت ہے۔ اس کبوتر نے خط ہماری جھولی میں ڈالا اور کندھے پر بیٹھ گیا۔ اس سے پہلے کہ ہم اس کی سازش کو سمجھتے وہ ہمارے کندھے پر بیٹ کر کے تیزی سے اڑ گیا۔ اس وقت تک اس کبوتر کی رنگت بھی بدل کر جیو ٹی وی کے لوگو جیسی ہو گئی تھی۔ ہمیں یقین ہو گیا کہ اس ناہنجار کبوتر نے جو حامد میر کی طرح بیٹ کی ہے، یہ صیہونیوں، را، جیو اور سیفما کی سازش ہے۔ ہم نے خادم سے کہا کہ ہمیں خط پڑھ کر سنایا جائے۔ خادم نے با آواز بلندخط پڑھنا شروع کیا۔ خط میں لکھا تھا، اقبال نے کہا ہے:

 

“جس نے ماں کو ستایا اس نے رکشہ چلایا “

 

خادم نے خط کا اگلا حصہ بھی پڑھا کہ اقبال نے یہ بھی فرمایا:

 

سواری پیچھے کرینہ، کترینا
ڈرائیور آگے پسینہ پسینہ

 

ہم نے جان لیا کہ یہ صیہونیوں نے شاعر مشرق اقبال، ہماری کنیزوں اور ہمارے رکشے یعنی ‘براق’ پر وار کیا ہے۔ ہم نے اپنی سواری کا نام پاک فوج کے ذرون طیارے کے نام پر براق رکھا ہے۔ اس سیکولر لادین خط پر ہمیں بہت غصہ آیا مگر الحمد اللہ ہمارے مقاصد بہت بلند ہیں۔ اسی اثنا میں ہمیں وائبر پر قسطنطنیہ کے فرماں روا کا پیغام آیا کہ “آپ اپنے لشکر کے ساتھ جلدی سے قسطنطنیہ پہنچیں کہ یہاں پر صیہونی سنڈیوں نے فصلوں پر حملہ کر دیا ہے اور ہمیں تھرڈ جنریشن وارفیئر اور سرد جنگ کے ماہر کی ضرورت ہے”۔ “ہم نے امت مسلمہ کی بھلائی کی خاطر فوراً قسطنطنیہ کا قصد کیا۔ .ہم نے اپنا لشکر یو ایس بی میں ڈالا، اپنے براق کو ایڑ لگائی اور اس پر پر سوار ہو کر قسطنطنیہ کے ساحل پر پہنچ گئے۔ ہم نے بر وقت سنڈیوں کا تہ تیغ کر دیا۔ ان یہودیوں، صیہونی سنڈیوں نے میڈیا کے ذریعے قسطنطنیہ میں عذاب مچا رکھا تھا۔

 

زید حامد؛ صیہونی سازش کا شکار ہونے کے بعد
زید حامد؛ صیہونی سازش کا شکار ہونے کے بعد
قسطنطنیہ کے بعد ہم نے بغداد کا قصد کیا۔ بغداد میں ہمیں تھرڈ جنریشن وار سٹریٹیجی پر بغداد کے خلیفہ ابو بکر البغدادی اور شوریٰ کو لیکچر دینا تھا۔ ہم اپنے براق پر بغداد کے ساحل پر اترے۔ میرے نوجوانو، تم ہرگز سیفما اور جیو کے پراپیگینڈے میں نہ آنا اگر وہ کہیں کہ بغداد کا تو ساحل ہی نہیں ہے۔ ساحل ہو یا نہ ہو ہم ہمیشہ ساحل پر ہی اترتے ہیں۔ یہ اللہ رب العزت کا ہم پر خاص کرم ہے۔ ہم نے بغداد کے خلیفہ کو سمجھایا کہ تھرڈ جنریشن وار کا مطلب کیا ہے اور یہ کیسی لڑی جا سکتی ہے؟ ہم نے انہیں تھرڈ جنریشن وار کی عملی مشقیں کر کے دکھلائیں۔ ہم نے کہا کہ خلیفہ صاحب آپ ہمارے لیے تین بندروں کا بندوبست کریں۔ انہوں نے بندر پورے پروٹوکول کے ساتھ ہمارے حوالے کر دیئے۔ ہم نے ان تینوں بندروں کے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈالا تو ان تینوں بندروں نے خلیفہ اور ہمیں اقبال کے شعرسنائے۔ پہلے بندر نے کہا:

 

میرے نوجوانو، تم ہرگز سیفما اور جیو کے پراپیگینڈے میں نہ آنا اگر وہ کہیں کہ بغداد کا تو ساحل ہی نہیں ہے۔ ساحل ہو یا نہ ہو ہم ہمیشہ ساحل پر ہی اترتے ہیں۔ یہ اللہ رب العزت کا ہم پر خاص کرم ہے۔
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر

 

دوسرے بندر نے کہا:

 

پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے، شاہین کاجہاں اور

 

تیسرے بندر نے کہا:

 

نہیں تیرا نشمین قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر

 

فضا اللہ اکبر کے شور سے گونج اٹھی۔ اب تھرڈ جنریشن وار کا سب سے مشکل مرحلہ آن پہنچا کہ پہلے ایک بندر نے ہمارے دائیں گال پر جھانپڑ مارنا تھا، دوسرے نے بائیں گال پر اور تیسرے نے پشت پر چپت لگانی تھی۔ الحمد اللہ امت مسلمہ کی امداد کے لیے ہم نے یہ سب بغداد میں کر دکھایا۔

 

دیبل میں موجود محمد بن قاسم نے ہمیں واٹس ایپ پر میسج کیا کہ آپ کے لیے نیک تمنائیں ہیں۔ ہم نے جواب میں اپنے خادموں کو محمد بن قاسم کو میڈ ان چائنا باربی کنیزیں بھجوانے کا حکم دیا۔
اب ہم نے براق کو ایڑ لگائی اور غرناطہ کا قصد کیا۔ غرناطہ کے ساحل پر پہنچ کر ہم نے مسجد قرطبہ میں نماز پڑھی۔ وہاں سے ہم اندلس کے ساحل پر جا اترے۔ اندلس میں طارق بن زیاد کی یاد میں ہم نے والز میگنم کی ڈنڈیوں سے بنی کشتی جلائی۔ اندلس سے ہم دمشق کے ساحل پر اترے۔ دمشق سے ہم دیبل کے ساحل پر گئے، وہاں سے پھر ہم غرناطہ واپس آ گئے۔ چاشت کی نماز ادا کی۔ غرناطہ میں صیہونیوں نے ہمارے براق میں پٹرول کی بجائے سرسوں کا ‘کوڑا’ تیل ڈال دیا۔ .ہم وہاں براق یعنی رکشے کی خرابی کی وجہ سے کافی دیر تک رکے رہے۔ وہاں سے دیبل میں موجود محمد بن قاسم نے ہمیں واٹس ایپ پر میسج کیا کہ آپ کے لیے نیک تمنائیں ہیں۔ ہم نے جواب میں اپنے خادموں کو محمد بن قاسم کو میڈ ان چائنا باربی کنیزیں بھجوانے کا حکم دیا۔ واپس دمشق آ کر کر ہم نے نناوے بار قسطنطنیہ، قسطنطنیہ کا ورد کیا۔ ہماری سواری جیسے ہی عرب کے صحراوں می٘ں اتری ہمیں سعودی شرطوں نے مولانا طاہر اشرفی جیسے غلیظ اور ناپاک صیہونی ایجنٹ، حامد میر را کے ایجنٹ، ماروی سرمد زنانہ را کی ایجنٹ، نصرت جاوید اسرائیلی موساد کے ایجنٹ، امتیاز عالم ان تمام کے ایجنٹ۔۔۔۔ وغیرہ کی سازش کی وجہ گرفتار کر لیا گیا۔
لیکن گرفتاری کے کچھ ہی عرصے بعد سعودیوں کو ہماری اہمیت کا اندازہ ہو گیا۔ ہمیں سیون سٹار پروٹوکول ملنے لگا .وگر نہ اس سے پہلے تو ایک سعودی تفتیش کار نے ہم سے تفتیش کے دوران یہ گستاخانہ سوال بھی کر ڈالا کہ “قسطنطنیہ لال قلعے کے جنوب میں ہے یا مشرق میں” اور “کیا طارق بن زیاد نے واقعی جبل الطارق پر خطاب سے پہلے ٹائی ٹینک کو آگ لگا دی تھی؟” ہم نے اس گستاخ کا دماغ درست کر دیا کہ ہمارے جغرافیہ اور ہماری تاریخ کا امتحان مت لو۔

 

ہماری گرفتاری یقیناً سیفما، جیو، را اور موساد کی سازش ہے۔ گرفتاری کے فوراً بعد یہ فیصلہ بھی ہو گیا تھا کہ ہمیں سو کوڑے قسطنطنیہ کے ساحل پر جا کر لگائے جائیں گے، سو کوڑے دمشق کے ساحل پر، سو کوڑے بغداد کے ساحل پر، سو ،دیبل، سو،غرناطہ، سو اندلس، سو سمرقند اور سو جی ایچ کیو راولپنڈی کے ساحل پر، جس کے بعد دوبارہ قسطنطنیہ کے دوسرے ساحل پر جا کر مزید سو کوڑے لگائے جائیں گے۔ مگر بعد میں جب سعودیوں کو ہماری اہمیت کا احساس ہوا، تو ہمیں سزا دینے کی بجائے ہمیں نہ صرف رہا کیا گیا بلکہ قسطنطنیہ کے ساحل پر اتارا گیا۔

2 Responses

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

2 Responses

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *