Laaltain

جاوید چوہدری کا ایک فرضی کالم

25 نومبر، 2015

[blockquote style=”3″]

ادارتی نوٹ: ثاقب ملک کا یہ فکاہیہ مضمون ان کے بلاگ پر بھی شائع ہو چکا ہے۔ ان کی اجازت سے اسے لالٹین کے قارئین کے لیے دوبارہ شائع کیا جارہا ہے۔ اس تحریر کا مقصد محض تفریح طبع کا سامان کرنا ہے، کسی بھی فرد کی توہین یا دل آزاری قطعاً مقصود نہیں۔

[/blockquote]

حسن نثار اور زید حامد کے فرضی کالم پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
ایک دن میں پورے آٹھ گھنٹے، چار سو اسی منٹ اور تیس ہزار سیکنڈ سونے کے بعد صبح دس بجے اٹھا۔ اٹھنے کے بعد میں نے قہقہہ لگایا اور کھڑکی کھول کر باہر دیکھنے لگا۔ ٹھنڈی فرحت بخش ہوا، جیسے دیو سائی کے میدانوں سے آ رہی تھی۔ میں نے واپڈا کے کھمبے پر بیٹھا ایک کوا دیکھا۔ کوے نے میری طرف دیکھا، قہقہہ لگایا اور اپنی ٹائیں ٹائیں کرتی زبان میں بولا “جاوید صبح لیٹ اٹھنے والے کبھی ترقی نہیں کر سکتے” میں نے کوے کی یہ بات اپنی گرہ سے باندھ لی۔ وہ دن ہے اور آج کا دن میں صبح چھ بجے اٹھ جاتا ہوں۔ ورزش کرتا ہوں، نہاتا ہوں، نماز پڑھتا ہوں اور اس طرح پورا دن تروتازہ رہتا ہوں۔ میں حکومت کو تجویز دوں گا کہ وہ ہر گھر کے سامنے والے کھمبے پر ایک عدد کوے کا بندوبست کرے تاکہ لوگ اس کی نصیحت سن کر صبح جلدی اٹھ سکیں، اس طرح لوگ مطمئن رہیں گے اور ان میں رواداری اور برداشت بڑھے گی۔
میں نے واپڈا کے کھمبے پر بیٹھا ایک کوا دیکھا۔ کوے نے میری طرف دیکھا، قہقہہ لگایا اور اپنی ٹائیں ٹائیں کرتی زبان میں بولا “جاوید صبح لیٹ اٹھنے والے کبھی ترقی نہیں کر سکتے” میں نے کوے کی یہ بات اپنی گرہ سے باندھ لی۔ وہ دن ہے اور آج کا دن میں صبح چھ بجے اٹھ جاتا ہوں۔
میں صبح اٹھنے کے بعد آئینہ بھی دیکھتا ہوں، میں آئینے میں عجیب عجیب شکلیں بنا کر ہنستا ہوں۔ ایک دن میں آئینہ دیکھ رہا تھا کہ دفعتاً میری ریڑھ کی ہڈی میں سردی کا احساس ہوا۔ ایسے لگا جیسے سیاچن گلیشیر کی برف میری پشت سے آن لگی ہو۔ میری رگ و پے میں خنکی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ میں نے اپنے آپ کو روس میں سائبیریا کے برفیلےمیدانوں میں کھڑا محسوس کیا۔ مجھے احساس ہوا کہ دوزخ ٹھنڈا بھی ہو سکتا ہے۔ اچانک پیچھے سے میرے ملازم کی آواز آئی اس نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ سر اب برف ہٹا لوں؟ دراصل میں اپنی کمر کی ٹکور کے لیے صبح صبح یہ ٹھنڈی مالش کرواتا ہوں۔ میں حکومت کو تجویز دوں گا کہ وہ ہر گھر میں ایک ایسے ملازم کا بندوبست کرے جو گھر کے ہر فرد کی پشت پر برف کے ٹکڑے سے ٹکور کرے۔ اس سے لوگوں میں برداشت بھی بڑھے گی، لوگ خوش بھی رہیں گے اور رواداری بھی پیدا ہو گی۔ یورپ کے اکثر ممالک میں لوگ صبح اسی طرح کرتے ہیں اسی وجہ سے وہ ترقی کر گئے ہیں اور ہم پیچھے ہیں۔ ہم صبح اٹھ کر نہاریاں، سری پائے، پراٹھے، مکھن اور ملائیاں کھاتے ہیں جب کہ وہ قومیں ڈبل روٹی کا ایک سلائس، کافی اور ایک ٹکڑی برف سے کام چلاتی ہیں۔ ہم نے اگر ترقی کرنی ہے تو ناشتے کے انداز کو بدلنا ہو گا۔ میری حکومت سے استدعا ہے کہ پاکستان میں حلوہ پوری، سری پائے، نان چنے اور پراٹھے سے ناشتے بلکہ سرے سے ناشتے پر ہی پابندی لگا دے اس طرح لوگوں میں بھوک برداشت کرنے کی صلاحیت پیدا ہو گی اور گھی کی بچت بھی ہو گی۔
میرے غسل خانے کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔ اس کا سیمنٹ بالفورس کی ریت سے بنا ہے، ٹائلز اٹلی سے آئی ہیں، صابن اور باڈی واش فرانس سے آئے ہیں، ٹب اسپین کے ہیں، ٹوٹیاں اور نل انگلینڈ کے ہیں ،پانی ہمالیہ کا ہے اور پردے ایران کے۔ .یہ غسل خانہ مجھے زیادہ سے زیادہ وقت غسل خانے میں گزارنے کی ترغیب دیتا ہے۔ میں حکومت کو تجویز دوں گا کہ وہ ہر گھر میں ایسے ہی غسل خانے بنا دے اس سے لوگ بری صحبت سے بچ جائیں گے۔
میرے غسل خانے کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔ اس کا سیمنٹ بالفورس کی ریت سے بنا ہے، ٹائلز اٹلی سے آئی ہیں، صابن اور باڈی واش فرانس سے آئے ہیں، ٹب اسپین کے ہیں، ٹوٹیاں اور نل انگلینڈ کے ہیں ،پانی ہمالیہ کا ہے اور پردے ایران کے۔
غسل خانے سے باہر نکلا تو میں نے قہقہہ لگایا اور خواجہ صاحب کے گھر پہنچ گیا۔ خواجہ صاحب ایک با کمال انسان ہیں، یہ دلوں کے بھید ٹھیک اڑھائی سیکنڈ میں جان لیتے ہیں، یہ اہل علم بھی ہیں اور اہل نظر بھی۔ میں نے خواجہ صاحب سے پوچھا کہ میں سکون حاصل کرنا چاہتا ہوں مجھے سکون کیسے ملے گا؟ خواجہ صاحب اس وقت سگریٹ کے دھوئیں سے مرغولے بنا بنا کر دیکھ رہے تھے، انہوں نے میری طرف دیکھا، قہقہہ لگایا اور کہا جاوید تم گٹر میں منہ ڈال کر عطر کی خوشبو کی توقع کر رہے ہو، تم منہ میں سٹرا ڈال کر سگریٹ پی رہے ہو، تم ہاتھی کے کانوں کو کبوتر کے پر سمجھ کر چوم رہے ہو، تم اپنے منہ پر لوگوں کی تھوکیں مل کر شیو کر رہے ہو، تمہیں ایسے سکوں نہیں ملے گا۔
میں نے قہقہہ لگایا اور پوچھا تو پھر میں کیا کروں؟ خواجہ صاحب نے میری طرف دیکھا مسکرائے اور کہا تم اپنے تنگ جوتے اتار پھنکو، اپنی تنگ پتلون بھی اتار پھینکو، اب تم سخت گلے والا یہ قمیص بھی اتار پھینکو۔۔۔۔۔ اب تمہیں سکون مل جائے گا۔ میں نے خواجہ صاحب کی طرف دیکھا اور کہا ‘لیکن اس طرح تو میں برہنہ ہو جاؤں گا؟’
‘نہیں’، خواجہ صاحب نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا، ‘اس طرح تم نیچر کے قریب ہو جاؤ گے۔ اب تم باہر نکلو اوردنیا کا سامنا کرو’۔
آخر ہم کب تک پکوڑوں پر شہد لگا کر کھاتے رہیں گے ؟ کب تک ہم، پٹرول کی ربڑی بنا کر پیتے رہیں گے ؟ کب تک ہم اپنی مونچھوں سے دیواروں پر تصویریں بناتے رہیں گے؟ ہمیں سکون حاصل کرنا ہو گا ورنہ فرعون کی لاش کی ممیوں کی طرح ہماری بھی ممیاں بن جائیں گی۔
‘لیکن اس طرح تو بھونکتے کتے میرے پیچھے پڑ جائیں گے؟’ میں نے سوال داغا۔
خواجہ صاحب نے سگریٹ کا کش لگایا، پھر دوسرا کش لگایا، پھر قہقہہ لگایا اور بولے جب تم بھونکتے کتوں کی بھونک برداشت کرنا سیکھ جاؤ گے تو تمہیں سکون مل جائے گا۔ میں اس دن سے اس نصیحت پر عمل پیرا ہوں .میری حکومت سے گزارش ہے کہ وہ لوگوں پر بھونکتے کتے چھڑوائے اس طرح لوگوں میں برداشت بھی پیدا ہو گی، ان میں رواداری بھی بڑھے گی، علم اور کلچر کا بھی فائدہ ہو گا۔ آخر ہم کب تک پکوڑوں پر شہد لگا کر کھاتے رہیں گے ؟ کب تک ہم، پٹرول کی ربڑی بنا کر پیتے رہیں گے ؟ کب تک ہم اپنی مونچھوں سے دیواروں پر تصویریں بناتے رہیں گے؟ ہمیں سکون حاصل کرنا ہو گا ورنہ فرعون کی لاش کی ممیوں کی طرح ہماری بھی ممیاں بن جائیں گی۔

One Response

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

One Response

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *