ایک ایسے وقت میں جب شدت پسندی کے دو مختلف مگر واضح مظاہر لاہور اور اسلام آباد میں وقوع پذیر ہوئے ہیں، دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ کے اہداف اور لائحہ عمل ابھی تک ابہام کا شکار ہے اور ہمارا انحصار ابھی بھی محض فوجی کارروائی پر ہے، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور نظام انصاف کے استحکام کی جانب ابھی تک توجہ نہیں دی گئی۔ ہمارے آس پاس ان دیکھے مگر مسلح دہشت گرد اور سہولت کار ہیں اور ہمارے سامنے دیکھے بھالے مگر غیر مسلح مذہبی طور پر مشتعل گروہ اور ہجوم ہیں، مگر دونوں میں ایک قدر مشترک ہے کہ دونوں ہم پر ایک ایسی مذہبی تشریح کا سیاسی تسلط چاہتے ہیں جو گمراہ کن حد تک غلط اور ناقابل قبول ہے۔ ایک گروہ نے ہتھیار بند ہو کر لاہور میں ہماری ریاست، معاشرت اور آزادی پر حملہ کیا ہے، اور دوسرے گروہ نے اسلام آباد میں ایک قاتل مذہبی جنون کی آڑ میں ہماری ریاست کی جمہوری اور سیاسی شناخت کو آلودہ کرنے کی کوشش کی ہے، مگر ان دونوں کے مقاصد واضح ہیں؛ یہ دونوں گروہ ہمیں اُس آزادی اور امن سے جینے کے حق سے محروم کرنا چاہتے جس کا حق ہمیں ہمارے آئین اور جمہوری نظام کے تحت حاصل ہے۔ مگر کیا ہم شدت پسندی کی ان مسلح اور غیر مسلح صورتوں کو آئین، انسانی حقوق اور جمہوریت کی بنیاد پر مسترد کرنے کے اہل ہیں (ایک ایسی صورت میں جہاں ‘ہم’ کی کوئی ایک متعین شکل موجود نہ ہو اور اس ‘ہم’ کی ایک بڑی تعداد تاحال شدت پسندی کے معاملے پر واضح موقف اختیار کرنے میں تذبذب کا شکار ہو)؟
ایک ایسے وقت میں جب شدت پسندی کے دو مختلف مگر واضح مظاہر لاہور اور اسلام آباد میں وقوع پذیر ہوئے ہیں، دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ کے اہداف اور لائحہ عمل ابھی تک ابہام کا شکار ہے
تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے حملے کو ہم معمول کی آزمودہ کار تجزیاتی مشق سے گزار کر وہی نتائج برآمد کر سکتے ہیں جو اس سے قبل بھی دہشت گردی کے بڑے سانحات کے بعد اخذ کیے جاتے رہے ہیں، ہم ایک مرتبہ پھر سیکیورٹی اقدامات کی وہی مشق دہر ا سکتے ہیں جو چند پولیس ناکوں، چھاپوں اور پریس کانفرنسوں کے گرد گھومتے ہیں، اور ہم ایک بار پھر کور کمانڈر کانفرنس اور وزیر اعظم کی سربراہی میں اعلیٰ سطحی اجلاس کی گردان کر سکتے ہیں مگر اس سب کے دوران ہمیں یہ احساس ضرور رہنا چاہیئے کہ دہشت گرد ہماری نسبت زیادہ پرعزم ہیں۔ انہیں اپنے اہداف اور مقاصد میں کوئی ابہام نہیں اور وہ ہماری تمام تر کمزوریوں سے ہم سے بہتر واقف ہیں۔ ان کا ہدف ہماری جمہوریت، ہمارا طرز زندگی اور ہمارا معتدل مذہبی رویہ ہے اور اس کا جواب سول اداروں کو دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں سے بے دخل کر کے نہیں دیا جا سکتا۔
تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے لاہور کے گلشن اقبال پارک پر ایسٹر کے روز عیسائی آبادی کو نشانہ بنانے کے لیے حملہ پاکستانی ریاست کی جانب سے مذہبی، سیاسی اور صنفی اقلیتوں کو قومی دھارے کا حصہ بنانے کے عمل کو مجروح، بدنام اور ناکام کرنے کی کوشش ہے۔ یہ حملہ اپنے اندر یہ پیغام لیے ہوئے ہے کہ اسلامی شدت پسند فکر کے مسلح اور غیر مسلح ترجمان پاکستان کو ایک معتدل مذہبی معاشرہ اور ایک جمہوری ریاست دیکھنے کے خواہاں نہیں۔ یہ موجودہ سول اور عسکری قیادت کے ان اقدامات کا جواب بھی ہے جو انہوں نے پاکستان کا رخ بنیاد پرست اسلامی ریاست سے ایک فلاحی جمہوری ریاست کی جانب موڑنے کے لیے اٹھائے ہیں اور یہ حملہ شدت پسند جہادی فکر کو رد کرنے کے ریاستی اور معاشرتی عزم کو جانچنے کا پہلا مرحلہ بھی ہے۔ لیکن ایسا نہیں کہ ہمیں اس خطرے کا ادراک نہیں، یا ہم مسلح (و غیر مسلح) اسلامی شدت پسندی کے خلاف کارروائی نہیں کر رہے، مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اس خطرے کے ادراک اور اس کے تدارک کے لیے کارروائی میں مہلک تاخیر کی ہے، اور پاکستانی ریاست کا بیانیہ تبدیل کرنے کے فیصلے کے بعد پیش آنے والے خطرات اور جہادی تنظیموں کے ردعمل سے بچاو کے اقدامات نہیں کیے۔ اس معاملے کی ایک اور جہت عسکری اداروں پر غیر ضروری انحصار اور خود عسکری اداروں کا خود کو سول قیادت سے برتر سمجھتے ہوئے انہیں سیکیورٹی معاملات سے بے دخل کرنا بھی ہے، جس کی وجہ سے دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کے لیے لوگ پارلیمان کی بجائے جی ایچ کیو کی جانب دیکھنے پرمجبور (کیے گئے) ہیں۔
ایسا نہیں کہ ہمیں اس خطرے کا ادراک نہیں، یا ہم مسلح (و غیر مسلح) اسلامی شدت پسندی کے خلاف کارروائی نہیں کر رہے، مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اس خطرے کے ادراک اور اس کے تدارک کے لیے کارروائی میں مہلک تاخیر کی ہے
اسلام آباد میں سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادریوں کے حامیوں کا آسیہ بی بی کی سزائے موت، شریعت کے نفاذ، توہین رسالت کے قوانین میں ترمیم سے اجتناب اور مختلف مقدمات میں گرفتار اپنے رہنماوں کی رہائی کے مطالبات منوانے کے لیے دھاوا بولنا شدت پسندی کی وہ غیر مسلح شکل ہے جو جمہوریت اور ریاست کے لیے زیادہ بڑا خطرہ ہے۔ یہ ریاست میں مذہب کی بنیاد پر تشدد کو جائز سمجھنے کے خلاف ریاست کے عزم اور مسلکی اختلافات کے باوجود پرامن طریقے سے رہنے کی روش پر حملہ ہے۔
ہم نے تین دہائیوں تک جہاد کی سرپرستی کی ہے اور اب اسے محض ضرب عضب، چند گرفتاریوں، بمباری یا بیانات سے ختم نہیں کیا جا سکتا یہ ایک طویل اور صبر آزما سفر ہے جس کی راہ میں بدقسمتی سے ابھی مزید سانحات کی توقع ہے۔ یہ مسلم لیگ نواز کے لیے سب سے زیادہ تشویش کی بات ہے، ماضی میں پنجاب کو محفوظ بنانے کے لیے شدت پسندوں کی جانب نرم رویہ اختیار کرنے، دائیں بازو کی مضر مذہبی فکر کی سرپرستی کرنے اور طالبان سے مذاکرات کی حمایت کرنے کے بعد اب مسلم لیگ نواز کے لیے دہشت گردوں کے خلاف مشکل فیصلے پہلے سے زیادہ مشکل ہو چکے ہیں۔ ان کے ووٹ بنک، ان کی سیاسی ساکھ اور سب سے بڑھ کر پاکستان کے ایک ترقی یافتہ، جدید، اعتدال پسند اور جمہوری پاکستان کے خواب پر حملے کیے گئے ہیں اور مسلم لیگ نواز ان حملوں پر مناسب اور فوری ردعمل دکھانے میں ناکام رہی ہے۔ تاہم ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ دہشت گردی کی جنگ منتخب حکومت کی قیادت میں ہی لڑی جائے گی، اور ذمہ داری بھی انہیں ہی لینی ہے، کور کمانڈرز کی جانب دیکھنے سے یہ مسئلہ حل نہیں کیا جا سکے گا۔