شہباز بھٹی اورسلمان تاثیر کے خونِ ناحق کے بعد کمیشن برائے انسانی حقوق، جنوبی پنجاب کے کوآرڈینٹر راشد رحمان کا نام شب گزیدگان کی اس فہرست میں ایک اور نام کا اضافہ ہے۔
7 مئی 2014 کی شام راشد رحمان کچہری چوک ملتان کی ایک بلڈنگ کی بالائی منزل پر واقع اپنے دفتر میں معمول کے پیشہ وارانہ فرائض سرانجام دے رہے تھے کہ نامعلوم اسلحہ بردارو ں نے فائرنگ کرکے انسانی حقوق کیلئے اُٹھنے والی اس آواز کو انتہائی بہیمانہ طریقے ہمیشہ کے لئے خاموش کردیا۔ راشد رحمان کی ناگہانی موت سے جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے غریب، بے آسرا، لوگوں کی بہت بڑی تعداد ایک ایسے درد دل رکھنے والے سے محروم ہوگئی جو عدالتوں میں ان کے کیسز کی پیروی فی سبیل اللہ اور انسانیت کے نام پہ کیا کرتا تھا۔ حتٰی کہ عدالتی فیس بھی اپنی ہی جیب سے ادا کردیا کرتا تھا۔
سابق پاکستانی سفیر اشفاق احمد خاں کے صاحبزادے اور ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئر مین آئی اے رحمان کے بھتیجے راشد رحمان انسانی حقوق کی جدوجہد کے لیے گزشتہ ۲۰ سال سے ایچ آر سی پی کے ساتھ بطور قانونی ماہر وابستہ تھے- پچاس سالہ رحمان شادی شدہ تھے لیکن ان کی کوئی اولاد نہ تھی۔وہ غریبوں اور بے سہاروں کے بچوں کو ہی اپنی اولاد سمجھتے تھے-
راشد رحمان کا جرم صرف اتنا تھا کہ وہ بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی میں انگریزی ادب کے وزٹنگ لیکچرار حفیظ جنید پر مبینہ توہین رسالت کے مقدمے کی پیروی کررہے تھے۔ جنید حفیظ کا تعلق ضلع راجن پور سے ہے اور جنید کے والد کے بقول ان کے بیٹے کی پروموشن ہونے والی تھی اور یونیورسٹی مافیا کے کچھ پروفیسر صاحبان کو ان کی ترقی گوارا نہ تھی اس لئے انہیں توہین رسالت کے جھوٹے مقدمے میں پھنسایا گیا۔ داد رسی کرنے والے راشد رحمان کا انجام سب کے سامنے ہے۔۔۔!!
واضح رہے کہ مقدمہ کی پیروی کے دوران کئی مرتبہ راشد رحمان کوجان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئی تھیں اورحتٰی کہ ان کے مخالفین نے ایڈیشنل سیشن جج کے سامنے کہا کہ وہ اس سنگین جرم کے ملزم کی وکالت نہ کریں ورنہ اگلی پیشی تک وہ زندہ نہیں بچیں گے۔ انہوں نے اس بارے میں متعلقہ حکام کو بھی آگاہ کیا تھا۔ لیکن افسوس کہ ان کی درخواست کو رد کر دیا گیا۔
7 مئی 2014 کی شام راشد رحمان کچہری چوک ملتان کی ایک بلڈنگ کی بالائی منزل پر واقع اپنے دفتر میں معمول کے پیشہ وارانہ فرائض سرانجام دے رہے تھے کہ نامعلوم اسلحہ بردارو ں نے فائرنگ کرکے انسانی حقوق کیلئے اُٹھنے والی اس آواز کو انتہائی بہیمانہ طریقے ہمیشہ کے لئے خاموش کردیا۔ راشد رحمان کی ناگہانی موت سے جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے غریب، بے آسرا، لوگوں کی بہت بڑی تعداد ایک ایسے درد دل رکھنے والے سے محروم ہوگئی جو عدالتوں میں ان کے کیسز کی پیروی فی سبیل اللہ اور انسانیت کے نام پہ کیا کرتا تھا۔ حتٰی کہ عدالتی فیس بھی اپنی ہی جیب سے ادا کردیا کرتا تھا۔
سابق پاکستانی سفیر اشفاق احمد خاں کے صاحبزادے اور ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئر مین آئی اے رحمان کے بھتیجے راشد رحمان انسانی حقوق کی جدوجہد کے لیے گزشتہ ۲۰ سال سے ایچ آر سی پی کے ساتھ بطور قانونی ماہر وابستہ تھے- پچاس سالہ رحمان شادی شدہ تھے لیکن ان کی کوئی اولاد نہ تھی۔وہ غریبوں اور بے سہاروں کے بچوں کو ہی اپنی اولاد سمجھتے تھے-
راشد رحمان کا جرم صرف اتنا تھا کہ وہ بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی میں انگریزی ادب کے وزٹنگ لیکچرار حفیظ جنید پر مبینہ توہین رسالت کے مقدمے کی پیروی کررہے تھے۔ جنید حفیظ کا تعلق ضلع راجن پور سے ہے اور جنید کے والد کے بقول ان کے بیٹے کی پروموشن ہونے والی تھی اور یونیورسٹی مافیا کے کچھ پروفیسر صاحبان کو ان کی ترقی گوارا نہ تھی اس لئے انہیں توہین رسالت کے جھوٹے مقدمے میں پھنسایا گیا۔ داد رسی کرنے والے راشد رحمان کا انجام سب کے سامنے ہے۔۔۔!!
واضح رہے کہ مقدمہ کی پیروی کے دوران کئی مرتبہ راشد رحمان کوجان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئی تھیں اورحتٰی کہ ان کے مخالفین نے ایڈیشنل سیشن جج کے سامنے کہا کہ وہ اس سنگین جرم کے ملزم کی وکالت نہ کریں ورنہ اگلی پیشی تک وہ زندہ نہیں بچیں گے۔ انہوں نے اس بارے میں متعلقہ حکام کو بھی آگاہ کیا تھا۔ لیکن افسوس کہ ان کی درخواست کو رد کر دیا گیا۔
مقدمہ کی پیروی کے دوران کئی مرتبہ راشد رحمان کوجان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئی تھیں اورحتٰی کہ ان کے مخالفین نے ایڈیشنل سیشن جج کے سامنے کہا کہ وہ اس سنگین جرم کے ملزم کی وکالت نہ کریں ورنہ اگلی پیشی تک وہ زندہ نہیں بچیں گے۔
ارم عباسی بی بی سی اردو سے وابستہ صحافی ھیں- وہ لکتھی ھیں کہ جب میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کو اتنے غیر محفوظ دفتر اور پھر کچہری میں آنے سے ڈر نہیں لگتا؟ تو جنید کے والد کی جانب اشارہ کر کے بولے: ’ میں ان کی آخری امید ہوں۔ وکلا ڈر کے مارے ان کا مقدمہ لڑنے سے انکار کر رہے ہیں، لیکن مجھے میرے کام سے کوئی نہیں روک سکتا۔‘ پنجاب میں خواتین پر ہونے والے گھریلو تشدد، کاروکاری اور جنسی غلامی کے مختلف واقعات کے سلسلے میں راشد رحمان سے کئی بار ملاقات ہوئی۔ جب بھی ان کے ایک کمرے کے دفتر میں جاتی تھی جہاں کوئی نہ کوئی مظلوم خاتون مدد حاصل کرنے کے لیے موجود ہوتی تھی۔ ایک 17 سالہ لڑکی جو انسانی سمگلنگ کا شکار ہوئی، اس کی بازیابی پر راشد رحمان اتنے ہی خوش تھے جتنا اس کا خاندان۔
انھوں نے ارم عباسی کو بتایا کہ وہ گذشتہ سات برس سے اس لڑکی کو تلاش کر رہے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ ملتان کے دوردراز دیہات سے آنے والے سکینہ کے خاندان کی کوئی نہیں سنے گا اس لیے خود ہی پولیس کے پیچھے پڑے رہے اور بالآخر سیکنہ سات برس بعد تین بچوں کے ساتھ بازیاب ہو گئی۔
ایسی بے شمار کہانیاں ہر روز ان کے دفتر خود چل کر آتی تھیں۔ گویا وہ غریب اور مظلوم خواتین کا اندورن پنجاب میں واحد سہارا تھے۔ جب بھی ان سے بات کی تو محسوس ہوا کہ وہ اپنے کام کو نوکری نہیں سمجھتے تھے بلکہ پاکستانی معاشرے میں پھیلی انتہاپسندی اور جہالت انھیں بہت بے چین کرتی تھی اور وہ اسے بدلنے کے لیے محدود وسائل اور چند ساتھیوں کے ہمراہ نکلے ہوئے تھے۔
وہ کہتے تھے: ’جس معاشرے میں مذہب کو بیچنا کاروبار بن جائے وہاں صرف درندوں کا راج باقی رہ جاتا ہے۔‘
آج دنیا بھر میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں سراپا احتجاج ھیں کہ جن تین افراد نے راشد رحمان کو دھمکی دی تھی ان کے خلاف کارروائی کی جائے اور توہین رسالت کے ملزموں کی پیروی کرنے والے وکلا کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ توہینِ رسالت کے مقدمے میں دھمکی کے بعد راشد رحمان کی ہلاکت پر بیشتر پاکستانی محتاط بیانات دے رہے ہیں۔ کون چاہے گا کہ اس کے ساتھ راشد رحمان والا سلوک کیا جائے؟ مگر اگر اس نوعیت کی باقی اموات کی طرح اگر ہم نے راشد رحمان کو بھی بھلا دیا توجہالت اور ظلم کے اندھیرے ہمارے منتظر ہیں۔
لیکن جبر اور ظلمت کے دُکھ بانٹنے والوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ انسان کے حقِ انصاف اور عدل کی آواز کو جتنا دبایا جائے گا، وہ اُتنی بلند ہو گی، حق گو اور حق پرستوں کے سروں کا مینار جتنا بُلند کیا جائے گا ، یہ زمان و مکان کی اُتنی وسعتوں اور فاصلوں سے دیکھا جا سکے گا۔۔۔
انھوں نے ارم عباسی کو بتایا کہ وہ گذشتہ سات برس سے اس لڑکی کو تلاش کر رہے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ ملتان کے دوردراز دیہات سے آنے والے سکینہ کے خاندان کی کوئی نہیں سنے گا اس لیے خود ہی پولیس کے پیچھے پڑے رہے اور بالآخر سیکنہ سات برس بعد تین بچوں کے ساتھ بازیاب ہو گئی۔
ایسی بے شمار کہانیاں ہر روز ان کے دفتر خود چل کر آتی تھیں۔ گویا وہ غریب اور مظلوم خواتین کا اندورن پنجاب میں واحد سہارا تھے۔ جب بھی ان سے بات کی تو محسوس ہوا کہ وہ اپنے کام کو نوکری نہیں سمجھتے تھے بلکہ پاکستانی معاشرے میں پھیلی انتہاپسندی اور جہالت انھیں بہت بے چین کرتی تھی اور وہ اسے بدلنے کے لیے محدود وسائل اور چند ساتھیوں کے ہمراہ نکلے ہوئے تھے۔
وہ کہتے تھے: ’جس معاشرے میں مذہب کو بیچنا کاروبار بن جائے وہاں صرف درندوں کا راج باقی رہ جاتا ہے۔‘
آج دنیا بھر میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں سراپا احتجاج ھیں کہ جن تین افراد نے راشد رحمان کو دھمکی دی تھی ان کے خلاف کارروائی کی جائے اور توہین رسالت کے ملزموں کی پیروی کرنے والے وکلا کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ توہینِ رسالت کے مقدمے میں دھمکی کے بعد راشد رحمان کی ہلاکت پر بیشتر پاکستانی محتاط بیانات دے رہے ہیں۔ کون چاہے گا کہ اس کے ساتھ راشد رحمان والا سلوک کیا جائے؟ مگر اگر اس نوعیت کی باقی اموات کی طرح اگر ہم نے راشد رحمان کو بھی بھلا دیا توجہالت اور ظلم کے اندھیرے ہمارے منتظر ہیں۔
لیکن جبر اور ظلمت کے دُکھ بانٹنے والوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ انسان کے حقِ انصاف اور عدل کی آواز کو جتنا دبایا جائے گا، وہ اُتنی بلند ہو گی، حق گو اور حق پرستوں کے سروں کا مینار جتنا بُلند کیا جائے گا ، یہ زمان و مکان کی اُتنی وسعتوں اور فاصلوں سے دیکھا جا سکے گا۔۔۔