ادب اور جدیدیت
چالیس اور پچاس کی دہائی میں جس ادب کو ہم ترقی پسند تحریک سے قدرے مختلف سمجھ کر ’نیا ادب‘ کا نام دیتے تھے اب ایک نئے دھارے میں بدل چکا ہے
گذشتہ برسوں کے کچھ رسائل اور کتب میں مشمولہ مضامینِ نظم و نثر کی ورق گردانی کریں تو اس خیال کا دل میں جاگزیں ہونا ضروری ہے کہ چالیس اور پچاس کی دہائی میں جس ادب کو ہم ترقی پسند تحریک سے قدرے مختلف سمجھ کر ’نیا ادب‘ کا نام دیتے تھے اور جس میں راشدؔ اور میرا جیؔ دو معتبر نام تھے اور جس میں قدرے دیر سے مجید امجدؔ اور اختر الایمانؔ بھی شامل کیے جاسکتے تھے، اب ایک نئے دھارے میں بدل چکا ہے (اس بات کا اطلاق ہندوستان پاکستان دونوں ملکوں پر یکساں دکھائی دیتا ہے) اور اس دھارے کو ایک خود کار واٹر پمپ سے چلانے والوں نے ’جدیدیت‘ کا نام دیا ہے۔ اس کا نعم البدل انگریزی میں کیا ہو سکتا ہے، کم از کم میرے پاس تو اس کا جواب نہیں ہے۔ یقیناً یہ تحریک وہ نہیں ہے، جسے فرانس میں، انیسویں صدی کے اختتام پذیر ہونے کی مناسبت سے fin-de-sie’cle فانت سیئکل کہا گیا تھا، یا انگریزی میں modernism یا modernityکا نام دیا گیا تھا۔ ہم جس ’جدید ادب‘ کو مغرب کی یونیورسٹیوں میں پڑھاتے ہیں، اس کی ابتدا کا لیکھا جوکھا ہم انگریزی میں امیجسٹ پوئٹری کے پہلے دور (اؑایذرا پاؤنڈ اور اس کے ساتھیوں) سے شروع کرتے ہوئے دوسرے دور (ایلیٹ اور اس کے پیچھے آنے والے شعرا) تک جاتے ہیں اور پھر وہاں سے ہوتے ہوئے پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے درمیانی وقفے تک پہنچ کر اسے ختم کر دیتے ہیں۔ “ختم” شاید ایک غلط لفظ ہے، کیونکہ ’امیجزم‘ کی جس شرطِ اول سے یہ تحاریک شروع ہوئی تھیں، اس دورانیے میں کسی نہ کسی صورت جاری و ساری تو رہیں لیکن اسلوب سے قطع نظر۔۔۔ (ایک) موضوع اور مضمون کی سطح پر تشکیک،(دو) بے سمتی،فرار، فرد کی تنہائی کا احساس، (تین) فرد کی داخلی “لا فردیت”، اور (چار) زمانہءِ حال سے بے زاری۔۔۔ ایسے در آئے کہ امیج خارجی منظر نامے کو ترک کرنے کے بعد، موضوع اور مضمون کی مناسبت سے ایک سے زیادہ جہتیں قبول کرتا ہوا ذہنی ہوا خوری کو نکل گیا۔
دوسری جنگِ عظیم کا دورانیہ چھہ برسوں کا تھا اور ان برسوں میں جو ادب تخلیق ہوا، وہ کوئی الگ حیثیت نہیں رکھتا لیکن جنگ کے فوراً بعد بے زمینی، غریب الوطنی، (جنگ کے سیاق میں) دہشت، بے حوصلگی، اضطرار، غیر محفوظیت، لا یعنیت اور مہملیت کا دور دورہ رہا۔
کوئی بھی ادبی مورخ یہ سطریں لکھتے ہوئے یقیناً یہ محسوس کرے گا کہ اردو میں وارد “جدیدیت” ایک حد تک تویورپ کے اس دور سے تعلق رکھتی تھی جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد معرضِ وجود میں آیا اور دوسری حد تک یہ اس بے سمتی کی غماز تھی جو Theatre of the Absurd یا Beat Generation یا پھر Magical Realism کے گروہوں میں دکھائی دیتی تھی۔ “لا معنویت کا تھیئٹر”absurd کا یہی معنی اب تسلیم کیا جا چکا ہے) البیئر کامو Albert Camus کے حوالے سے یا یوجِین آئیونیسکو کے حوالے سے ایک اصطلاح کے طور پر مارٹن ایسلِن Martin Esslin نے پہلی بار استعمال کی۔ اس سلسلے کی معتبر ترین ہستی سییموئل بیکٹ Samuel Beckett ہے جس کے ہاں Modern, Postmodern & Absurd تینوں تحاریک قطار اند ا قطار دکھائی دیتی ہیں۔
اردو ادب میں جدیدیت
اردو میں ‘جدیدیت’ اوّل اوّل تو ترقی پسند تحریک کے ردِّ عمل کے طور پر انڈیا میں وارد ہوئی۔
اردو میں ‘جدیدیت’ اوّل اوّل تو ترقی پسند تحریک کے ردِّ عمل کے طور پر انڈیا میں وارد ہوئی۔ اسے تاریخی استدلال کی سطح پر، ‘قبولِ عام’ کی بجائے ’قبولِ خاص’ کے طور پر شناخت دینے میں شمس الرحمن فاروقی نہ صرف پیش پیش رہے، بلکہ اس کی سرپرستی اور رہنمائی کا بیڑا بھی انہوں نے اٹھایا۔ ایک قائد اور قانون گو کی طرح انہوں نے تحریک کو اس کے تاریخی کردار سے آگاہ کیا۔ ان کی ادارت میں چھپنے والا جریدہ “شب خون” تحریک سے وابستہ اہلِ قلم کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنے میں پیش پیش رہا۔ یہ کریڈٹ فاروقی صاحب کو ہی جاتا ہے کہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ چند ایک پرانے اہل قلم کو چھوڑ کر ہر نئے لکھنے والے نے ’جدید‘ کہلوانے میں فخر محسوس کیا۔۔۔۔۔۔ لیکن تحریک اور تنظیم میں بہت فرق ہے۔ ترقی پسند تحریک ایک تنظیم کی زیرِ قیادت کام کر رہی تھی۔ یہاں تک کہ منٹو کو “ذات باہر” کرنے میں بھی ایک قرارداد کی ضرورت پیش آئی تھی۔ کئی چھُٹ بھَیّے (“شاہراہ” کے پرکاش پنڈت کی مثال اظہر مِن الشمّس ہے، جو خود کو اردو کا چیخوفؔ لکھا کرتے تھے!) آرگنائزیشن کے کندھوں پر بیٹھ کر خود کو “نو گزا فقیر” سمجھنے لگے تھے۔ جدیدیت کی تحریک بنیادی طور پر قلم کی آزادی کی محرک تھی اور Organisational control کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھی، لیکن ہوا یہ کہ چند برسوں میں ہی انارکی اور انتشارنے اندرونی خلفشار کے طور پر اس تحریک کو گھُن کی طرح چاٹنا شروع کر دیا۔ زبان کی شکست و ریخت شروع کی گئی تو لسّانیات کے سب اصول بالائے طاق رکھ دیے گئے۔ افسانوں میں کردار تحلیل ہوا، وقت کی یک سمتی رفتار کو شعوری رو کے زیر اثر Forward to the Past یا پھر Back to the Future کر دیا گیا۔ امیج پیٹرن، جس میں سب سے زیادہ Organic Unity کی ضرورت تھی، ایک لا یعنی “کولاج” کی صورت میں بدل دیا گیا۔ فاروقی صاحب کو دوش دینا غلط ہے۔ وہ ایک نقّاد تھے، رہنما تھے، منتظم نہیں تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان ‘زیادتیوں’ کا جو ادب کی مختلف اصناف کے ساتھ اور زبان کی سلیقہ مندی کے ساتھ روا رکھی گئی تھیں، نوٹس لینے پر بھی وہ کچھ نہ کر سکے اور پھر، بوجوہ دیگر بھی، یہ تحریک ایک شوریدہ سر دریا سے کم ہوتے ہوتے ایک مضمحل نالے کی طرح بہنے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مابعد جدیدیت
بیکٹؔ نے موضوع سے زیادہ ’فارم‘ اور اسلوب کی طرف توجہ مبذول کی۔ جب 1969میں اسے نوبل پرائز سے نوازا گیا تو وہ Meta-literary تجربات کے لیے تیار تھا۔ انہی تجربات سے مملو اس کی زندگی کی آخری تحریر Stirrings Still تھی۔ اس میں بیکٹ نے ڈرامہ، فکشن اور شاعری کے درمیان حدودِ فاصل کو ملیا میٹ کرتے ہوئے (اپنی دانست میں) ایک نئی صنفِ ادب ایجاد کرنے کی سعی کی۔ لیکن نتیجہ جو برآمد ہوا وہ خاطر خواہ نہیں تھا۔ یہ تحریر اس کی پرانی تحریروں کی صدائے باز گشت بن کر رہ گئی اور نقادوں نے اسے substance کی جگہ پر shadow کہا۔ پھر بھی یہ بات مسلّم ہے کہ بیکٹ “پوسٹ ماڈرنزم” کا جنم داتا ہے۔ فکشن کے بارے میں Jean-Francois Lyotard یاں فرنسائے لیوتارد کی دو نئی اصطلاحیں معرض وجود میں آئیں۔ انہیں Meta-narrative اور Little Narrative کہا گیا۔
Beat Generation ایک امریکی اصطلاح ہے اور اسے جیک کیروایک Jack Kerouacنے رواج دیا۔ یہ اس دور کی امریکی جوان نسل کے لا سمت سفرِ زندگی کو موسیقی کی اصطلاح beat یعنی رقص کی ‘دما دم دم’ سے ہم آہنگ کرتے ہوئے اس کی لا یعنی صوتی تکرار کا استعارہ ہے۔ میں جب بھی اس کے بارے میں سوچتا ہوں مجھے یہ شعر یا د آ جاتا ہے۔
بیا جاناں، تماشہ کن، کہ در انبوہِ جانبازاں
بصد سامانِ رسوائی، سرِ بازار می رقصم
بصد سامانِ رسوائی، سرِ بازار می رقصم
اردو میں پوسٹ ماڈرنزم کا صحیح متبادل کب منصہ شہود پر آتا ہے، ا س کے لیے شاید سالہا سال تک انتظار کرنے کی ضرورت نہ پڑے
جن شخصیات یا واقعات نے تاریخ وار اس منظر نامے کو ترتیب دیا، اس میں 1953ء کے دوران Waiting for Godot کی اسٹیج پر پروڈکشن ہے، 1956 میں Howl کی اشاعت، 1959ء میں Naked Lunch کی اشاعت، اور 1969میں دریداؔ Jacques Derrida کا تاریخ ساز لیکچر ہے، جو اس وقت کی تنقیدی تھیوریوں کو چیلنج کرتا ہے۔ اس لیکچر کا عنوان ہی اپنے آپ میں معنی خیز تھا۔ Structure, Sign and Play کے عنوان سے اس لیکچر کے سینکڑوں ڈرافٹ تیار ہوئے اور اس پر رائے زنی میں یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور اخباروں کے مبصروں نے حصہ لیا۔
اردو ادب میں مابعد جدیدیت
اردو میں پوسٹ ماڈرنزم کا صحیح متبادل کب منصہ شہود پر آتا ہے، اس کے لیے شاید سالہا سال تک انتظار کرنے کی ضرورت نہ پڑے، کیوں کہ جدیدیت کی تحریک میں وہ عناصر بھی شرکت فرما چکے ہیں، جو غزل جیسی سکّہ بند صنف میں بھی اس قسم کے مصارع یا اشعار کہتے ہیں اور اپنی دانست میں “جدید” سے ایک قدم آگے “جدید تر” ہونے کا ثبوت دیتے ہیں!۔ (درج ذیل اشعار میں شعرا کے اسمائے گرامی بوجوہ حذف کر دیے گئے ہیں۔)
ع۔۔۔ سورج کو چونچ میں لیے مرغا کھڑا رہا
بکرا مَیں مَیں کرتا ہے
بکری منمناتی ہے
کچھوی کے پیٹ میں تھا بہت دردِ زہ، جناب
مرغے کی بانگ سنتے ہی انڈے نکل پڑے
اے دردِ بے لباس، چلو اسپتال میں
شاید کہ کوئی نرس ہی تجھ پر پھسل پڑے
ایڑی اٹھی تو چوٹی تک اٹھتی چلی گئی
ہم سر پہ پاؤں رکھ کے جو بھاگے تو دم لیا
میری بھّدی ناک پر نقشہ تو ہے، مکھّی نہیں ہے
خود اُڑوں؟ نقشہ بناؤں، کیا کروں میں؟ تم بتاؤ
بند ہی رہتا تو خوشبو کا کوئی امکاں نہ تھا
گانٹھ سا غنچہ تھا، چاقو سے جو کاٹا، کھِل گیا
بکرا مَیں مَیں کرتا ہے
بکری منمناتی ہے
کچھوی کے پیٹ میں تھا بہت دردِ زہ، جناب
مرغے کی بانگ سنتے ہی انڈے نکل پڑے
اے دردِ بے لباس، چلو اسپتال میں
شاید کہ کوئی نرس ہی تجھ پر پھسل پڑے
ایڑی اٹھی تو چوٹی تک اٹھتی چلی گئی
ہم سر پہ پاؤں رکھ کے جو بھاگے تو دم لیا
میری بھّدی ناک پر نقشہ تو ہے، مکھّی نہیں ہے
خود اُڑوں؟ نقشہ بناؤں، کیا کروں میں؟ تم بتاؤ
بند ہی رہتا تو خوشبو کا کوئی امکاں نہ تھا
گانٹھ سا غنچہ تھا، چاقو سے جو کاٹا، کھِل گیا
باقر مہدی کی ایک نظم جو انہی دنوں شائع ہوئی تھی، اس طرح شروع ہوتی ہے۔
اب موصوف رحلت فرما چکے ہیں
بلب جلا کر انگلی کاٹی
نیلے خون سے نظمیں لکھیں
بلب جلا کر انگلی کاٹی
نیلے خون سے نظمیں لکھیں
میرا جی کی کتاب “اس نظم میں” بہت پہلے چھپ گئی تھی اور عملی تنقید کے کچھ معمولی نمونوں پر مشتمل تھی لیکن اس نے بہر حال ایک نئی راہ دریافت کی اور اپنے پیچھے آنے والوں کی رہنمائی کی۔
بمبئی کی ایک ادبی نشست میں موصوف نے ایک استفسار کے جواب میں کہا، (رپورٹ ایک روزانہ اخبار کے ادبی کالم میں چھپی)، کہ بلب جلانے کا مطلب یہ ہے کہ رات کا وقت تھا اور بلب بجھانے کے وقت کمرے میں اندھیرا تھا اور یہ کہ شاعر کو اگر نیند نہ آئے تو وہ کیا کرے گا؟ نظمیں ہی تو لکھے گا۔ انگلی کاٹنے کا استعارہ ہمہ جہت ہے۔ سیاہی نہ ہو تو خون سے ہی لکھا جا سکتا ہے۔ اگر ایک ترقی پسند شاعر یہ کہہ سکتا ہے، “کہ خونِ دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے!” تو ایک “جدیدیت پسند” شاعر یہ کیوں نہیں کہہ سکتا، کہ نیلی روشنائی میسّر نہیں تھی، اس لیے اپنی انگلی کاٹی اور نیلا خون وافر مقدا میں اکٹھا کر لیا جس سے کہ نظم لکھی جا سکے۔ یعنی دوات سوکھی پڑی تھی، اسے نیلے خون سے بھر لیا۔ یہ بھی استعارے کا ایک پہلو ہے کہ فاؤٹین پَین خریدنے کی مالی پوزیشن میں شاعر نہیں تھا۔ انگلی کاٹنے کی جہت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ترقی پسند شاعروں کے پاس (اگر ان کی متاعِ لوح و قلم چھِن گئی تو) انگلیاں تو بہر حال تھیں۔ ہمارے پاس تو ما سوا انگلی کاٹنے کے لکھنے کا اور کوئی وسیلہ بھی نہیں ہے۔
پڑھ کر کچھ ہنسی بھی آئی اور کچھ افسوس بھی ہوا۔ ادبی نامہ نگار کی اپنی رگِ ظرافت پھڑکی تھی یا اسے موصوف سے کوئی بدلہ چکانا تھا کیوں کہ اس نے مزے لے لے کر، دم دے دے کر، ایک ایک مصرعے پر رائے زنی کی تھی۔۔۔۔
پاکستانی ادب، آمریت اور جدیدیت
اوپر جو کچھ بھی لکھا گیا ہے، وہ انڈیا کے حوالے سے تو امرِ واقع ہے، صد فی صد درست ہے، لیکن پڑوسی ملک پاکستان پر اس کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔ 1965ء کی جنگ کے بعد چونکہ دونوں ملکوں کے مابین ڈاک کے ٹکٹوں کی پرانی دروں پر رسالوں اور کتابوں کا آناجانا بند ہو گیا تھا اور لفافہ بند خطوط کو بھی اب سینسر کی چھلنیوں سے گذارا جانے لگا تھا، (فون ویسے ہی دستیاب نہیں تھا!) اس لیے گذشتہ نصف صدی میں اردو ادب پر جو کچھ وہاں بیتی، عسکری آمرانہ دورانِ حکومت کے دو یا تین دورانیوں میں جو کچھ اہلِ قلم پر گذرا، کون کون کال کوٹھری میں بند ہوئے، کن کن کے خلاف مقدمے چلائے گئے، کون کون کھُلی منڈی میں آمروں کے ہاتھوں بِک گئے اور سرکاری عہدوں، انعاموں اور ایوارڈوں کو اپنے سینوں پر سجا کر بیٹھ گئے، اس کا پتہ پاکستان میں تو سب کو چلتا رہا، لیکن انڈیا کے اردو ادیبوں، شاعروں اور قارئین کی اکثریت اس سے بے بہرہ ہی رہی۔بہر حال اس صورت حال کو سمجھنے کے لیے کچھ پیچھے جانا ہو گا۔
میرا جی کی کتاب “اس نظم میں” بہت پہلے چھپ گئی تھی اور عملی تنقید کے کچھ معمولی نمونوں پر مشتمل تھی لیکن اس نے بہر حال ایک نئی راہ دریافت کی اور اپنے پیچھے آنے والوں کی رہنمائی کی۔ وزیر آغا بھی فعال تھے اور ‘اوراق’ کے علاوہ ہر برس ان کی کوئی نہ کوئی نئی کتاب چھپ جاتی تھی۔ ان کی “نظم جدید کی کروٹیں” چھپ چکی تھی۔ یہ نظم جدید کے تنقیدی ادب میں ایک اچھا اضافہ تھا۔ انڈیا میں ڈاکٹر حامدی کاشمیری نے اپنی کی کتاب “جدید اردو نظم اور یورپی اثرات” 1968 میں شائع کی تھی۔ یہ تینوں کتابیں جس طرح جدید نظم کے کچھ گنتی کے شعرا کا جائزہ لیتی ہیں، ان سے معاصر پاکستانی اردو ادب پر انڈیا کی زیر بحث “جدیدیت” کی تحریک کے مثبت یا منفی اثرات کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔
لیکن ایک بات ظاہر ہے کہ پاکستانی ادب پر اس کے اثرات سرے سے مرتب ہی نہیں ہوئے۔ انڈیا کی اپنی حدود میں ہی مقید ہو کر رہ گئے۔ اگر bits & pieces کی شکل میں(انیس سو ساٹھ سے آج تک، یعنی نصف صدی میں “زمان” کی سطح پر) اور (کراچی، لاہور، پنڈی۔اسلام آباد، یعنی تینmetropoltan ادبی مرکزوں کی “مکان” کی سطح پر)یہ اثرات وارد بھی ہوئے تو دب کر رہ گئے۔ قصہ کوتاہ یہ کہ by and large پاکستان اس بدعت سے بچ گیا جو انڈیا میں بوجوہ (گروپ بندی ایک وجہ تھی، لیکن کچھ اور بھی تھیں) در آئی تھی۔
لیکن ایک بات ظاہر ہے کہ پاکستانی ادب پر اس کے اثرات سرے سے مرتب ہی نہیں ہوئے۔ انڈیا کی اپنی حدود میں ہی مقید ہو کر رہ گئے۔ اگر bits & pieces کی شکل میں(انیس سو ساٹھ سے آج تک، یعنی نصف صدی میں “زمان” کی سطح پر) اور (کراچی، لاہور، پنڈی۔اسلام آباد، یعنی تینmetropoltan ادبی مرکزوں کی “مکان” کی سطح پر)یہ اثرات وارد بھی ہوئے تو دب کر رہ گئے۔ قصہ کوتاہ یہ کہ by and large پاکستان اس بدعت سے بچ گیا جو انڈیا میں بوجوہ (گروپ بندی ایک وجہ تھی، لیکن کچھ اور بھی تھیں) در آئی تھی۔
جیل کی اسیری تو صرف چند اہلِ قلم کو ہی میسّر ہوئی لیکن ایک یا دو پوری نسلیں زنداں، محبس، قفس، زنجیر، ہتھکڑی، بیڑی، قدغن، وغیرہ کے باصری استعاروں سے کام چلا کر غزلیہ یا نظمیہ ادب تخلیق کرتی رہیں۔
پاکستان کی صورت حال کے بارے میں یہ لکھ کر ادبی مورخ عہدہ برا تو ہو سکتا ہے لیکن اس کے پاس اس وقت اس امر کے ثبوت کے لیے کوئی بھی سند نہیں ہے کہ ایسا کیوں ہوا۔ بہر حال historical hindsight کے طفیل کسی بھی محقق کو یہ علم ہو سکتا ہے کہ اس کی دو یا تین وجوہ صریحاً دیکھی جا سکتی ہیں۔ایک تو عسکری (یا سِویلین بھی!) آمرانہ ادوار میں شاعر کی تمام تر توجہ اس بات پر مرکوز رہی کہ ترسیل کی سطح پر اگر صاف صاف نہ بھی لکھا جا سکے تو غزل کے پرانے، بارہا آزمودہ، استعاروں سے کام چلا کر جبر و تحدید و اکراہ کی مذمت کی جائے۔ جیل کی اسیری تو صرف چند اہلِ قلم کو ہی میسّر ہوئی لیکن ایک یا دو پوری نسلیں زنداں، محبس، قفس، زنجیر، ہتھکڑی، بیڑی، قدغن، وغیرہ کے باصری استعاروں سے کام چلا کر غزلیہ یا نظمیہ ادب تخلیق کرتی رہیں۔ انہیں وقت ہی نہیں ملا کہ وہ اس ذہنی عیاشی کو، اور نہ سہی، تو ’وقت کٹی‘ کا مشغلہ سمجھ کر ہی انڈیا کی جدیدیت کی تقلید کریں۔ پاکستان میں اسProtest Literature کو کئی نام دیے گئے۔ لیکن سب سے زیادہ موزوں نام شاید “مزاحمتی ادب” تھا۔ پرانے ترقی پسندوں میں جن لوگوں نے بڑھ چڑھ کر لکھا ان میں فیض تو تھے ہی، احمد ندیم قاسمی، احمد فراز، جوش، جون ایلیا، جوہر میر، خاطر غزنوی، تاج سعید، ظہیر کاشمیری (بہت سے نام بھول گیا ہوں) وغیرہ بھی شامل تھے۔ ساقی فاروقی جیسے غیر سیاسی شاعر نے بھی ایک مختصر، مگر بھرپور نظم “سوگ نگر ” کے عنوان سے لکھی۔ یہ نظم راقم الحروف کو لندن میں ساقی نے سنائی بھی تھی اور آج تک اس کا اثر تازہ ہے
“چوک چوک خامشی کھڑی ہوئی
جس کے بند کان میں
ایک سبز خوف کے
سرخ زہر میں بجھی
زرد زرد بالیاں پڑی ہوئیں
خون پوش راستے
راستوں میں سولیاں گڑی ہوئیں
رات کے طلسم سے
لوگ اداس بھی نہ تھے
روشنی خیال کے آس پاس بھی نہ تھی۔۔۔۔
جس کے بند کان میں
ایک سبز خوف کے
سرخ زہر میں بجھی
زرد زرد بالیاں پڑی ہوئیں
خون پوش راستے
راستوں میں سولیاں گڑی ہوئیں
رات کے طلسم سے
لوگ اداس بھی نہ تھے
روشنی خیال کے آس پاس بھی نہ تھی۔۔۔۔
Image: Vassily Kandinsky