سید ضمیر حسین جعفری ضلع جہلم کے گاؤں چک عبدالخالق میں ،یکم جنوری 1916ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق سادات کے ایک روحانی گھرانے سے تھا جس کے کچھ مرد سپہ گری کے پیشے سے بھی وابستہ تھے۔ اسلامیہ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد صحافت کے پیشے سے وابستہ ہوئے۔انہوں نے دوسری عالمی جنگ کے دوران برطانوی ہند کی فوج میں بطور افسر شمولیت اختیار کی۔رسالے اور چھاتہ برداری کے شعبوں سے وابستگی کے باوجود انکی ادبی صلاحیتوں کے پیش نظر انہیں فوج کے تعلقات عامہ کے شعبے میں بھی کام کرنے کا موقع ملا جہاں اُن کی رفاقت میجر چراغ حسن حسرتؔ اور کرنل فیض احمد خاں (فیض احمد فیضؔ)جیسے عظیم ادیبوں سے بھی رہی۔ ضمیرؔ کی صنف مزاحیہ شاعری تھی لیکن اُنہوں نے نثر بھی بہت شگفتہ اور عمدہ لکھی۔ فوج میں رہ کر ہانگ کانگ، برما اور ملایا کے محاذوں پہ انگریزوں کی رفاقت میں گزارے ہوئے جنگ کے ماہ و سال اُنکے شعر و سخن پہ بڑے دلچسپ انداز میں اثر انداز ہوئے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اُن کے اسلوب میں انگریزی مزاج کاانداز ظرافت نمایاں تھا تو کچھ بے جا نہ ہو گا۔ اُنہوں نے انگریزی ، پنجابی اور اُردو کی شائستگی، برجستگی اور شگفتگی کو اس انداز میں یکجا کیا کہ اُن کے معاصرین میں ، بلکہ اب تک، یہ امتیازی اسلوب کسی کے حصے میں نہیں آسکا۔
جنگ کے بعد انہیں مستقل کمیشن کے امتحانات میں مسترد کردیا گیا اور وہ کپتان ریٹائر ہو گئے۔ فرمایا کرتے تھے بھلا ہو شاستری کا کہ سن پینسٹھ کی جنگ چھڑ گئی اور فوج نے انہیں واپس بُلا کر میجر بنا دیا ورنہ عمر بھر گاؤں کے لوگ یہی سمجھتے رہتے کہ شاہ صاحب صوبیدار ہوں گےجنہیں انگریز نے اعزازی کپتان ریٹائر کیا تھا۔ قومی اسمبلی سطح کی سیاست میں بھی آئےلیکن سیاست ان کا مشغلہ تھا نہ پیشہ۔ غزل بھی کہی اور ناول اور افسانے سے بھی شغف کیا۔
سید ضمیر جعفری کی پہلی کتاب ‘مافی الضمیر’ اُن کے کلام میں سب سے ذیادہ مشہور ہوئی جس کی رنگا رنگ نظمیں اور اشعارزبان زد خاص و عام رہے، ‘پُرانا کوٹ’ ‘پُرانی موٹر’ ‘اک ریل کے سفر کی تصویر کھینچتا ہوں’ ‘مجھے ذوقِ تماشہ لے گیا تصویر خانوں میں’ اور ‘مسز ولیم عجب انداز کی خاتون تھیں یارو’ جیسی نظمیں اس کتاب کے قارئین اور اُردو مزاح کے وابستگانِ دامن کو ہمیشہ یاد رہیں گی۔ غزلوں اور اشعار میں اس کتاب کی کچھ گلفشانیاں تو ضمیر کے تعارف کا حصہ بنیں، فرمایا:
؎شوق سے نورِ نظر، لختِ جگر پیدا کرو
ظالمو، تھوڑی سی گندم بھی مگر پیدا کرو
حضرتِ اقبالؔ کا شاہیں تو ہم سے اُڑ چکا
اب کوئی اپنا مقامی جانور پیدا کرو
میری درویشی کے جشنِ تاجپوشی کے لئے
ایک ٹوپی اور کچھ مرغی کے پَر پیدا کرو!
؎ ٹیڈیوں کو کاش اہلِ مدرسہ
علم سے پہلے کوئی شلوار دیں
اس زمانے کا تقاضہ ہے کہ لوگ
دلبروں کو دل نہ دیں، دینار دیں!
اور
؎مُدتوں دُزدیدہ دُزدیدہ نظر سے دیکھنا
عشق بھی ہے اک طرح کی چور بازاری کا نام
اُس نے پہلے پہل کی پیمائشِ صحرائے نجد
قیس ہے دراصل اک مشہور پٹواری کا نام
دل ہو یا دلیہ ہو دانائی کہ بالائی ضمیرؔ
زندگی ہے چند اشیاء کی خریداری کا نام
ضمیر کا سیاسی اور تاریخی شعور جس خوبی سے شعروں میں ڈھلتا ہے، وہ شعر کی سی چاشنی، طنز کی تیزی اور کلام کی بے مثال برجستگی سے مرقع ہے۔ فرماتے ہیں:
؎ نظر کی عیب جوئی، دل کی ویرانی نہیں جاتی
یہ دو صدیوں کی عادت ہے، بآسانی نہیں جاتی
مسلمانوں کے سر پہ خواہ ٹوپی ہو،نہ ہو لیکن
مسلمانوں کے سر سے بُوئے سُلطانی نہیں جاتی
اور
جہاں تک کثرتِ اولاد نے پہنچا دیا ان کو
وہاں تک بندہ پرور نسلِ انسانی نہیں جاتی
ضمیر کا معاشرتی ادراک اور سیاسی بصیرت مزاح میں اکبر الہ آبادی یا حالیؔ کی طرح مربیانہ زبان رکھتا ہے نہ فوجداروں سا آہنگ کہ جس سے کسی اصلاحی تحریک کی بُو آتی ہو۔ ان کا انداز ایسے ہے کہ جیسے کسی پلٹن کی کینٹین پر حوالدار جھنڈے خاںسے، کسی پھاٹک پر بیٹھے چوکیدار، گلی میں جاتے پنشنر، کسی بے روزگار تعلیم یافتہ نوجوان یا کسی پنساری سے اسکی دکان کے تھڑے پر کھڑے گپ لگا رہے ہوں اور اس میں پھلجھڑیاں چھوڑتے جا رہے ہوں۔ ریل کے سفر میں سے ایک ٹُکڑا:
؎ بڑے لمڈے کو مولا بخش جی کتنا پڑھاؤ گے؟
اُسے بی۔اے پہ روکو گے، کہ ایل۔ایل۔بی کراؤ گے؟
وہ بی۔ اے ہے،مگر بی۔اے کی خُو آئی نہیں اُس کو
ابھی ماں باپ کے کپڑوں سے بُو آئی نہیں اس کو
اسی نظم کے ایک قطعے میں ریل کے سفر پر آنے والے دیہاتیوں کے زادِ راہ کا ذکر کرتے ہیں:
؎ وہ سارے کھیت کے گنے کٹا لایا ہے ڈبے میں
یہ گھر کی چارپائی تک اُٹھا لایا ہے ڈبے میں
کھڑا حُقہ، بمع مینارِ آتش دان تو دیکھو،
یہ قومِ بے سروسامان کا سامان تو دیکھو!
شعر میں الفاظ کے استعمال میں جو ملکہ اُنہیں حاصل تھا، وہ اُن کی انفرادیت تھی۔الفاظ کا انتخاب اس ضمن میں کمال ہی کرتے ہیں۔مثلاً ‘مجھے ذوقِ تماشہ لے گیا تصویر خانوں میں’ کے آخری اشعار میں جس انداز سے اُنہوں نے پکچر دیکھنے والے لوگوں کی کیفیت کا نقشہ کھینچا ہے، ملاحظہ ہو:
؎ اُدھر ایک طائفہء فلم اسٹاران می رقصد
اِدھر اصحابِ بے ٹکٹان و با ٹکٹان می رقصد
بلیغ الدین در دل، اندرونِ جان می رقصد
محمد خان جب رقصد، علی الاعلا ن می رقصد!
معاشرتی رویوں پر بھی خوب لکھا اور سیاست اور زبوں تر مُلکی حالات کی طرف رُوئے سُخن کیا تو ‘مسدس بدحالی’ جیسی کمال کتاب سامنے آئی۔ ضمیرؔ نے سیاسی طنز میں بھی اپنا ایک منفرد اور شائستہ اسلوب قائم رکھا۔ ‘مسدس بدحالی’ سے ایک رُباعی:
؎ یہ انگریزوں کی صدیوں سے بڑی مشہور عادت ہے
دریدہ بھی اگر دامن ہو، نکٹائی نہیں جاتی
روش اپنی بھی اک پُختہ ہوئی طرزِ سیاست میں
حُکومت تو چلی جاتی ہے، مہنگائی نہیں جاتی
ضمیرؔ نے جہاں غریب آدمی کی آواز کو اپنے ترنم جیسے اسلوب میں بیان کیا وہاں امیر اور بالادست طبقے کے منافقانہ رویوں پر بھی خوب طنز کے کوڑے برسائے :
؎ وہ جو بچہ پڑھ رہا ہے ٹاٹ کے اسکول میں
پھول وہ بھی ہے مگر پھینکا گیا ہے دھول میں
راستے میں خود کھڑی کیں ہم نے دیواریں بہت
فاصلہ اتنا نہ تھا چکوال اور کاکُول میں!
دوسری طرف ایک افسر کے دورانِ صیام مزاجِ گرامی میں جو خاص تبدیلی رونما ہوتی ہے، اُسے نظم کیا تو کس طرح:
؎ اے مری بیوی! مرے رستے سے کچھ کترا کے چل!
اے مرے بچو،ذرا ہُشیار، میں روزے سے ہوں
شام کو بہرِ زیارت آ تو سکتا ہوں مگر،
نوٹ کرلیں دوست، رشتہ دار، میں روزے سے ہوں
میں نے ہر فائل کی دُمچی پر یہ مصرع لکھ دیا
کام ہو سکتا نہیں سرکار ، میں روزے سے ہوں
ضمیرؔ کے مزاحیہ اندازِ کلام کا ایک خاصہ یہ ہے کہ شعروں میں خاکے لکھنے کا فن اُردو میں ان جیسا کسی کے پاس نہ تھا۔ اُن کے شعروں میں ‘موٹے بدری ناتھانِ وطن، چھوٹے چھوٹُو رامانِ وطن’ جیسے مقامی اور ‘مسز ولیم’ جیسے کئی بدیسی کرداروں کے خاکے ملیں گے۔ یہ صنف شاید بلاواسطہ اُن کے انگریزی ادب کے ذوق کی پیداوار ہو۔ضمیر ؔ نے کہیں مصرعوں میں لوگوں کی پوری ذات اور زندگی کے خلاصے کہہ ڈالے ہیں اور کہیں پوری پوری نظموں میں مزے لے لے کر اپنے کرداروں کی جزئیات بیان کی ہیں ۔ نظم ‘مسز ولیم عجب انداز کی خاتون تھی یارو’ میں ایک انگریز خاتون کا خاکہ کھینچا ہے، یوں تو ہر بند کمال ہے لیکن ایک ملاحظہ ہو:
؎ ابھی دانتوں میں تھیں موتی کی لڑیاں، لوچ بانہوں میں
ابھی کچھ ساحلی کونجوں کی حسرت تھی نگاہوں میں
وہ اس سن میں بھی اک سروِ رواں تھی سیر گاہوں میں
وہ جب ‘گبھروُ’ نہ تھی، اُس وقت بھی ‘گبھروُن’ تھی یارو
مسز ولیم عجب انداز کی خاتون تھی یارو!
نظم میں مسز ولیم کی رنگا رنگ شخصیت کے ہر گوشے پر ضمیرؔ نے جس فصاحت سے روشنی ڈالی ہے، آخری شعر میں ضمناً اُس کے شوہر کا ذکر اُسی سادگی سےیوں کرتے ہیں:
؎ مسز ولیم کا ولیم اک برائے نام شوہر تھا
حلیم الطبع انساں تھا، مگر ناکام شوہر تھا
جہاں ہم اُن کی کتابوں اور نثر پاروں کی فہرست لکھتے ہیں تو اس میں ایک نام آتا ہے ‘گورخند’ کا جو بظاہر ایک مجموعہ ہے شعری تراجم کا لیکن حقیقت میں ضمیر نے اُردو کی مزاحیہ شاعری میں ایک نئی صنف متعارف کروائی ہے جس میں اُ ن قادرالکلامی کاثبوت بھی اسی کتاب میں ہے۔ انگریزوں کے ہاں Grave Humour ایک صنف ہے جس میں قبروں کے کتبوں کی شگفتہ اور برجستہ تحریریں آتی ہیں۔ ضمیرؔ نے اس اصطلاح کا ترجمہ ”گور خند” کیا۔ جان ڈرائیڈن کا یہ شعر جو اُس کی بیوی کی قبر کے کتبے کیلئے تھا، مشہور ہے:
Here lies my wife: here let her lie!
Now she’s at rest and so am I.
ضمیرؔ نے اس شعر کو اُسی انداز میں اُردو میں ڈھالا ہے لیکن کئی جگہوں پر ضمیرؔ کی اُردو گورخند انگریزی کی Grave Humour سے آگے نکل جاتی ہے:
؎ میری زوجہ قبر میں سوئی ہے جن ایام سے
وہ بھی ہے آرام سے اور میں بھی ہوں آرام سے
ضمیرؔ نے عام آدمیوں ، ناکام لوگوں، فنکاروں اور سپاہیوں کی قبروں کے کتبوں کی تحریروں کی صورت میں گورخند کا ایک بیش بہا خزانہ اس کتاب کی صورت میں چھوڑا ہے۔ ان میں لیزلے جیک ؔ، ایک بینڈ ماسٹر، ایک جواں مرگ اور ایک بہادر شخص کی قبر کا کتبہ، تحریروں جیسے کئی فن پارے ہیں۔ قارئین کی دلچسپی کیلئے "ایک بہادر شخص کی قبر کا کتبہ” پیش ہے:
؎ قبر ہے یہ اک بہادر شخص کی
پہلے بایاں کان انگلستان میں کٹ کر گرا
دوسرا کان اک جزیرے میں کہیں ہٹ کر گرا
بعد میں اک ٹانگ بھی جاتی رہی
چار دن زوجہ بچاری ساتھ لنگڑاتی رہی
اور پھر جرمن کی لمبی جنگ میں
ایک خندق میں بڑی کھندک ہوئی
آپ نے جاتے ہوئے دُشمن کو جاکر جالیا
جالیا، پر کیا لیا؟
پیش دستی میں خود اپنا ہاتھ ہی کٹوا لیا
ضمنا اک ٹخنا بھی چھوڑ آئے وہیں
جو نہیں دُشمن سے ٹوٹا آپ توڑ آئے وہیں!
اس طرح مرحوم چند اقساط میں مارے گئے
جنگ میں ایسے بہادر لوگ زنہارے گئے
لیکن انکی موت کوئی وجہِ رُسوائی نہیں
جسم کٹوایا ہے لیکن ناک کٹوائی نہیں
ضمیرؔ نے نثر میں مضامین، انشائیے ، افسانے اور ناول بھی لکھے۔ ان کی ڈائری بھی مطبوعہ شکل میں سامنے آ چکی ہے۔مزاحیہ شاعری میں ‘مافی الضمیر’ ، ‘مسدس بدحالی’، ‘گورخند’، ‘آگ اکتارہ’ اور ‘نشاطِ تماشہ'(کلیات) جبکہ دیگر اصناف میں کارزار، لہو ترنگ، کھلیان، ضمیر حاضرضمیر غائب، ولایتی زعفران (شعری تراجم)، قریۂ جاں اور ضمیر ظرافت شامل ہیں۔ ضمیر ؔ کی اولا دمیں اُن کے صاحبزادے لیفٹیننٹ جنرل سید احتشام ضمیر جعفری اُن کے فوجی اور ادبی ترکے کے وارث ہیں۔ جنر ل احتشام خود بھی لکھاری ہیں۔
سید ضمیرؔ جعفری نے 12 مئی 1999 ء کو نیویارک میں وفات پائی اور وصیت کے مطابق کھنیارا شریف، بچہ مندرہ ضلع راولپنڈی میں اپنے جدِ امجد سید محمد شاہ بخاری ؒ کے پہلو میں دفن ہوئے۔

One Response

Leave a Reply

%d bloggers like this: