[blockquote style=”3″]
انتباہ :یہ تحریر بچوں پر جنسی تشدد کے حوالے سے آگہی اور شعور پیدا کرنے کے لیے اپ لوڈ کی جا رہی ہے۔ اس تحریر کا مقصد بچوں کے جنسی استحصال جیسے حساس موضوع پر خاموش رہنے کے چلن کی حوصلہ شکنی کرنا اور معلومات فراہم کرنا ہے۔ یہ معلوماتی تحریر بچوں کو جنسی تشدد اور استحصال سے بچانے کی ایک کوشش ہےوالدین سے گزارش ہے کہ 14 برس سے کم عمر بچوں کو اس تحریر کے مندرجات خود سمجھانے کی کوشش کریں۔
[/blockquote]
بچوں کا جنسی استحصال گو کہ کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن آج کل جس تواتر سے اس قبیح فعل سے متعلق خبریں گردش میں ہیں یہ ضرور لمحہ فکریہ ہے۔ خاص طور پہ اس صورت میں کہ یہ ایک ایسا مسئلہ رہا ہے جس پہ بات کرنے سے ہمیشہ گریز کا رویہ اپنایا گیا ہے۔ خود والدین اور بچوں کے مابین غیر ضروری جھجک اور شرم بھی اس کی اہم وجہ رہے ہیں، لیکن یہی عدم واقفیت بچوں کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتی ہے۔ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر دس میں سے ایک لڑکی جنسی استحصال کا شکار ہوتی ہے، لڑکوں میں اس کی تعداد لڑکیوں کے مقابلے میں قدرے کم ہے۔ پاکستان میں یہ اعدادوشمار اس لیے بھی گمبھیر ہیں کہ یہاں رپورٹ کیے گئے واقعات کی تعداد ان کی اصل تعداد سے کہیں کم ہے۔
بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی،جنسی حملے، جنسی ہراسانی اور جنسی عمل کی ترغیب دینے کے لیے اشارے کرنا جنسی استحصال میں شامل ہیں۔
بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی،جنسی حملے، جنسی ہراسانی اور جنسی عمل کی ترغیب دینے کے لیے اشارے کرنا جنسی استحصال میں شامل ہیں۔ بعض اوقات یہ ذلیل اور ناشائستہ حرکات بدترین جنسی استحصال پر منتج ہوتی ہیں اور بچے نا چاہتے ہوئے بھی اس عمل کا حصہ بننے پر مجبور ہوتے ہیں۔ بچوں میں نفسیاتی، جسمانی عوارض کا پیدا ہوجانا، ان کی ذہنی صلاحیتوں کا مفلوج ہوجانابچوں میں جنسی استحصال کے بعد پیدا ہونے والے عام اثرات ہیں جب کہ انتہائی صورتوں میں بچے اپنی جان تک سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ بچوں کی تربیت اور ان کو پروان چڑھانا محض یہی نہیں کہ ان کے لیے اچھی خوراک اور لباس فراہم کیا جائے یا کسی اچھے تعلیمی ادارے میں داخل کروادیا جائے، بلکہ ان کی ہر آن تربیت اور تحفظ بھی والدین کی اولین ذمہ داری ہے۔ یہ ننھے مسافر جو خدا نے ہمیں عطا کیے ان کو ان کی منزل پہ بعافیت اور کامیابی سے پہنچانا بھی اہم فریضہ ہے۔
بچوں کے جنسی استحصال میں خاموشی اہم کردار ادا کرتی ہے جس کے پیچھے بھی کئی ایک عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ بالخصوص خوف ایک ایسا عنصر ہے جو بچوں کو زبان بندی پر مجبور کیے رکھتا ہے۔
بچوں کے جنسی استحصال کی درج ذیل صورتیں عام ہیں:
۱۔ جسمانی اعضاء کو چھونا:
بچوں کو غیر ضروری طور پر لپٹانا، بھینچنا اور چومنا ، ہاتھ پھیرنا اور جنسی اعضا کو دبانا شامل ہیں۔ والدین کو اس صورت میں انتہائی ہوشیار اور آنکھیں کھلی رکھنے کی ضرورت ہے، رشتے داروں ، گھریلو ملازمین، دوست احباب اور اجنبیوں کے ساتھ تعلقات اور ان کی گھر میں آزادانہ آمد ورفت کے سلسلے میں محتاط رہنا چاہیے کیوں کہ بچوں سے جنسی زیادتی کے زیادہ تر واقعات میں قریبی رشتہ دار یا شناسا افراد ذمہ دار پائے گئے ہیں۔
بچوں کے جنسی استحصال میں خاموشی اہم کردار ادا کرتی ہے جس کے پیچھے بھی کئی ایک عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ بالخصوص خوف ایک ایسا عنصر ہے جو بچوں کو زبان بندی پر مجبور کیے رکھتا ہے۔
بچوں کے جنسی استحصال کی درج ذیل صورتیں عام ہیں:
۱۔ جسمانی اعضاء کو چھونا:
بچوں کو غیر ضروری طور پر لپٹانا، بھینچنا اور چومنا ، ہاتھ پھیرنا اور جنسی اعضا کو دبانا شامل ہیں۔ والدین کو اس صورت میں انتہائی ہوشیار اور آنکھیں کھلی رکھنے کی ضرورت ہے، رشتے داروں ، گھریلو ملازمین، دوست احباب اور اجنبیوں کے ساتھ تعلقات اور ان کی گھر میں آزادانہ آمد ورفت کے سلسلے میں محتاط رہنا چاہیے کیوں کہ بچوں سے جنسی زیادتی کے زیادہ تر واقعات میں قریبی رشتہ دار یا شناسا افراد ذمہ دار پائے گئے ہیں۔
نابالغوں کو برہنہ یا جنسی افعال پر مشتمل تصاویر اور ویڈیوز (پورنوگرافی) دکھانا یا پھربچوں کے سامنے اپنے جنسی اعضا کی نمائش بھی جنسی استحصال کی ایک صورت ہے
۲۔ جنسی عمل سے متعلق نازیبا گفتگو:
اس صورت میں بچوں سے جنسی نوعیت کی گفتگو کی جاتی ہے، بیہودہ لطائف، گالیوں اور لفظوں کا گفتگو میں استعمال کرنا بھی اس میں شامل ہے۔ عموماً بچوں کے ساتھ مختصر تنہائی میسر آنے کی صورت میں یا پھر ٹیلیفون اور فیس بک پر ان باتوں کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ ایسی گفتگو میں جنسی عمل کی ترغیب دینے کی کوشش بھی شامل ہے۔
۳۔ پورنوگرافی یا برہنگی:
نابالغوں کو برہنہ یا جنسی افعال پر مشتمل تصاویر اور ویڈیوز (پورنوگرافی) دکھانا یا پھربچوں کے سامنے اپنے جنسی اعضا کی نمائش بھی جنسی استحصال کی ایک صورت ہے، اس ضمن میں انٹرنیٹ پر پورن سائٹس تک نابالغ افراد کی رسائی روکنا بھی ضروری ہے۔
۴۔ جلق یا خود لذتی:
بچوں کو ڈرا دھمکا کر یا لالچ دے کر مجرم اپنے جنسی اعضا سہلواتا ہے،ناسمجھ بچے کے لیے یہ ایک خوفناک تجربہ ہوتا ہےلیکن لالچ یا خوف کا قوی احساس اس کو زبان بندی پر مجبور کر سکتا ہے۔
۵۔ جنسی زیادتی یا ریپ:
بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانا ان کے جنسی استحصال کی انتہائی صورت ہے ۔ عموماً وہ والدین جو بچوں کو اپنے ہی گھرمیں اکیلا یا ملازمین کے پاس چھوڑ کر، یا کسی رشتے دار یا پڑوسی کے گھر چھوڑ کر جانے کے عادی ہوتے ہیں ان کو انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے۔ اقامت گاہوں میں مقیم اور مدرسوں میں زیر تعلیم طلبا کی بڑی تعداد بھی مدرسین اور ساتھی طلباء کے ہاتھوں ریپ کانشانہ بنتی ہے۔ اس مذموم حرکت کے اثرات بہت خوفناک ہوتے ہیں، مجرم اس صورت حال کے بعد راز کھلنے کے خوف سے بچوں کے قتل سے بھی گریز نہیں کرتے۔
۶۔ برہنہ تصاویر یا فحش ویڈیوز بنانا:
اس صورت میں بچوں سے جنسی نوعیت کی گفتگو کی جاتی ہے، بیہودہ لطائف، گالیوں اور لفظوں کا گفتگو میں استعمال کرنا بھی اس میں شامل ہے۔ عموماً بچوں کے ساتھ مختصر تنہائی میسر آنے کی صورت میں یا پھر ٹیلیفون اور فیس بک پر ان باتوں کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ ایسی گفتگو میں جنسی عمل کی ترغیب دینے کی کوشش بھی شامل ہے۔
۳۔ پورنوگرافی یا برہنگی:
نابالغوں کو برہنہ یا جنسی افعال پر مشتمل تصاویر اور ویڈیوز (پورنوگرافی) دکھانا یا پھربچوں کے سامنے اپنے جنسی اعضا کی نمائش بھی جنسی استحصال کی ایک صورت ہے، اس ضمن میں انٹرنیٹ پر پورن سائٹس تک نابالغ افراد کی رسائی روکنا بھی ضروری ہے۔
۴۔ جلق یا خود لذتی:
بچوں کو ڈرا دھمکا کر یا لالچ دے کر مجرم اپنے جنسی اعضا سہلواتا ہے،ناسمجھ بچے کے لیے یہ ایک خوفناک تجربہ ہوتا ہےلیکن لالچ یا خوف کا قوی احساس اس کو زبان بندی پر مجبور کر سکتا ہے۔
۵۔ جنسی زیادتی یا ریپ:
بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانا ان کے جنسی استحصال کی انتہائی صورت ہے ۔ عموماً وہ والدین جو بچوں کو اپنے ہی گھرمیں اکیلا یا ملازمین کے پاس چھوڑ کر، یا کسی رشتے دار یا پڑوسی کے گھر چھوڑ کر جانے کے عادی ہوتے ہیں ان کو انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے۔ اقامت گاہوں میں مقیم اور مدرسوں میں زیر تعلیم طلبا کی بڑی تعداد بھی مدرسین اور ساتھی طلباء کے ہاتھوں ریپ کانشانہ بنتی ہے۔ اس مذموم حرکت کے اثرات بہت خوفناک ہوتے ہیں، مجرم اس صورت حال کے بعد راز کھلنے کے خوف سے بچوں کے قتل سے بھی گریز نہیں کرتے۔
۶۔ برہنہ تصاویر یا فحش ویڈیوز بنانا:
اقامت گاہوں میں مقیم اور مدرسوں میں زیر تعلیم طلبا کی بڑی تعداد بھی مدرسین اور ساتھی طلباء کے ہاتھوں ریپ کانشانہ بنتی ہے۔
عادی مجرم بعض اوقات بچوں کو ڈرانے دھمکانے اور اپنے مطالبات منوانے کے لیے ان کی ناشائستہ تصاویر یا ویڈیوز بنا لیتے ہیں، اس طرح وہ بچوں کو مجبور کرتے ہیں کے وہ ان کے ساتھ ساتھ دوسروں کی ہوس کا نشانہ بھی بنیں یا دیگر بچوں کو بھی ورغلا کر ان کے چنگل میں لے آئیں۔ اس کے علاوہ یہ تصاویر اور ویڈیوز انٹرنیٹ وغیرہ پر بھی پوسٹ کی جاتی ہیں۔
۷۔ کم سن بچوں کو جسم فروشی پر مجبور کرنا:
کم سن بچوں کو جسم فروشی پر مجبور کرنا جنسی استحصال کی بدترین شکل ہے۔ عام طور پر بچوں کو اس مقصد کے لیے اغوا کیا جاتا ہے اور بعدازاں انہیں جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا ہے۔
۷۔ کم سن بچوں کو جسم فروشی پر مجبور کرنا:
کم سن بچوں کو جسم فروشی پر مجبور کرنا جنسی استحصال کی بدترین شکل ہے۔ عام طور پر بچوں کو اس مقصد کے لیے اغوا کیا جاتا ہے اور بعدازاں انہیں جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا ہے۔
(جاری ہے)
very intersting
This is bitter reality of every society … Lekin sawaal ye hai k aisa kab tak chalta rahay ga … Humein atleast apnay muaashray main aik aisi complete aur zabardast campaign ki zaroorat hai jo specially parents and uss k baad sab ko awareness provide karay … aur Jo loog involve hn aisi herkatoon main unhein sazain di jain …
Ap ko bohat mubarak’baad k ap ne aik aise maslay ko highlight kia jis k baray main hamary haan baat kerna bhi mana hai … Bohat khobsorat aur knowledge se bherpoor tehreer hai … InshaAllah jald hum aik aisa Naya Pakistan dekhain ge jis main aise masaail per khasoosi tawajah de jaye gi aur inhein hal bhi kia jaye …
Once again, Great Work. Keep it up.
A very good and sensible move. Rewarded ‘ll be paid by ALMIGHTY.
I hope after reading this article, parents will be more vigilant of their children’s well being. Many child abuse victims do not report the incidents to their parents and continue to suffer silently.
Zohra Hayyat
This article is on very significant and sensitive issue , required courage and strength to throw light on the darkest part of reality which go unnoticed due to unawareness on parental’s o r caretaker’s side. Humaira your gripping on pen is eye-opening for all the parents.Mostly this heinous act happens not knowing the tact of abuser . Well-written, keep pondering over on this topic and continue it for more awareness.God bless you.
This topic is nt discussed bfr. Usually writer’s don’t like to write on these topics. Good effort for awareness. writer has good will to discuss untouched topics.
Great Humaira the Great
Zohra Hayyat This article is on very significant and sensitive issue , required courage and strength to throw light on the darkest part of reality which go unnoticed due to unawareness on parental’s o r caretaker’s side. Humaira your gripping on pen is eye-opening for all the parents.Mostly this heinous act happens not knowing the tact of abuser . Well-written, keep pondering over on this topic and continue it for more awareness.God bless you
bohot khoob… qalam e haq ne go k haqiqat ki siyahi se tehreer kiya……….
[…] 0 Twitter 0 Google+ 0 LinkedIn 0 یہ اس مضمون کا دوسرا حصہ ہے، پہلا حصہ پڑھنے کے لیے کلک کریں۔ چند عام مفروضے جو غلط ہیں 1۔ہمارے معاشرے میں ایسا […]
Haqeqat yeh hay keh mai jis gaao mai rehta ho wahaa ma nay bachpan may jitnay bhidost bnaye sabh ka rap ho choka thaa. Wargla kar bhi owr zabrdsti bhi…100 may say 80 lardkye is ka shikaar ho kar apni izzat nafs owr shrm hua hamesha kelye kho choky hayn sirf mery hi dehaat may..mery hi choty bhai ko os kay qaari nay bora kaam kiya owr saath may eak bardy lardky ko bhi hissa diya…jis kay baad mery bhai nay kitni dfa khod koshi bhi krna chahi owr pardhna bhi chowrd dya…par afsos yeh hay keh koi bhi is moamly ko nahi samjhta.. na hi koi is pay dhiaan deuta hay.pta bhi chal jaye keh is kay saath yeh howa hay to baat ko thap dety hayn ..woh eak mizaaq owr tmasha bn kar reh jaata hay…zarorat is baat ki hay keh eak aesi team bnai jaay jo gher gher ja ker schoolo may ja kar logo ko bacho ko har trah say chownkaaye… Par ab yeh tedaad 80 say bardh kar 100 % tak ho rahi hay…koi masom bhi nahi bach paa raha…
بدر صاحب مجھے یہ سب پڑھ کر بہت دکھ ہورہا ہے۔ ہم کس مقام پر کھڑے ہیں اپنی نسلوں کو ہم کیا دے رہے ہیں۔ بہت دکھ ہے۔ میری آنکھوں میں آنسو ہیں۔ اس مسئلے کو واقعی نمایاں کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ مجھ سے لالٹین کے توسط سے اپنے مزید مشاہدات بھی اس موضوع پر اشتراک کر سکتے ہیں۔