ہندوستانی ہمسائے کے نام مزید خطوط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

امن کی بات کرنا نہ بزدلی ہے اور نہ غداری، دوستی کی خواہش رکھنا نہ کم زور ی ہے اور نہ کم ہمتی میرے نزدیک یہی سب سے بڑی جرات مندی ہے اور یہی سب سے بڑی دیش بھگتی
میرے ہمسائے!
اس وقت جب دونوں جانب کے سیاستدان اور فوجی قیادت ایک دوسرے کو کھلی جنگ اور منہ توڑ جواب دینے کی دھمکیاں دے رہے ہیں امن کی بات کرنے کا اس سے مناسب اور ضروری وقت کوئی نہیں ہو سکتا۔ دونوں ملکوں کے بنیاد پرست اور مذہبی شدت پسند ایک دوسرے کے خلاف آستینیں چڑھائے للکارنے میں مصروف ہیں تو دوستی کا پیغام بھیجنا ہمیشہ سے زیادہ اہم ہو گیا ہے۔ اس وقت حب الوطنی کا مطلب ہندوستانی دشمنی یا پاکستان دشمنی نہیں بلکہ پاک و ہند امن ، دوستی اور بھائی چارے کا نعرہ بلند کرنا ہے۔ بہادری یہ نہیں کہ جنگ کی بات کی جائے اور ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار پکڑ کر مورچہ بند ہوجایا جائے بہادری یہ ہے کہ اس جنگی جنون سے انکار کیا جائے اور اپنی ریاستوں کو گولہ بارود کی بجائے ، شعروں، لطیفوں اور مسکراہٹوں کے تبادلے پر مجبور کیا جائے۔ امن کی بات کرنا نہ بزدلی ہے اور نہ غداری، دوستی کی خواہش رکھنا نہ کم زور ی ہے اور نہ کم ہمتی میرے نزدیک یہی سب سے بڑی جرات مندی ہے اور یہی سب سے بڑی دیش بھگتی۔ سرحد پر جب فوج کھڑی ہو، طیارے اڑان بھرنے کو تیار ہوں اور میزائل اپنا ہدف متعین کر چکے ہوں تبھی تو سفید پرچم لہرانا واجب ہو جاتا ہے۔ اس سے بڑھ کر کوئی بھگتی کوئی عبادت کوئی دعا نہیں۔
کون ہے جو یہاں جگجیت سنگھ، گلزار، نصیرالدیش شاہ، لتا منگیشکر اور اے آر رحمان سے نفرت کونے کو تیار ہے؟ ہماری کرکٹ کے بھگوان بھی ٹنڈولکر ہی ہیں اور ہم بھی کشور جی کے گیت ہر انتاکشری میں گاتے ہیں
میں ایک ایسے ہندوستان سے نفرت کرنے یا اس کے خلاف ہتھیار اٹھانے کا قائل نہیں جو کبھی میرے آباء کا وطن رہا ہے۔ اردو سے محبت کرنے والا کوئی پاکستانی بھی لکھنو یا دلی کی گلیوں پر پاکستانی طیاروں کی بمباری کا خواہاں نہیں ، کون چاہے گا کہ بمبئی کے فلم سٹوڈیو ویران ہوں اور کوئی ان دیکھا گولہ کسی فلم کی شوٹنگ روک دے۔ کون ہے جو یہاں جگجیت سنگھ، گلزار، نصیرالدیش شاہ، لتا منگیشکر اور اے آر رحمان سے نفرت کونے کو تیار ہے؟ ہماری کرکٹ کے بھگوان بھی ٹنڈولکر ہی ہیں اور ہم بھی کشور جی کے گیت ہر انتاکشری میں گاتے ہیں۔ مادھوری جی کے رقص کے قتیل ہمارے ہاں کے ہر عمر کے لوگ ہیں۔ عابدہ جی آج بھی کبیر کے دوہے گاتی ہیں اور قوالی امیر خسرو سے شروع ہو کر ان پر ہی ختم ہو جاتی ہے۔ اجمیر شریف جانے کی آرزو ہم سب کی ہے۔ دلیپ صاحب کی سب فلمیں ہم نے بھی دیکھ رکھی ہیں۔ ہماری لڑکیوں نے بھی رنبیر کپور کے پوسٹر لگا رکھے ہیں اور تیرے نام مین سلمان خان کے بالوں کا سٹائل یہاں بھی مقبول رہا ہے۔
میں جانتا ہوں آپ کی طرف بھی مہدی حسن کے بعد غزل گائیکی یتیم ہو گئی تھی، مجھے علم ہے کہ فیض کی نظمیں تمہارے انقلابیوں کے دل کی بھی دھڑکن ہیں۔ تمہارے گھر میں بھی نصرت فتح علی خان کی کیسٹ ہے اور تمہارے لڑکے بھی جنون کی سی ڈی تم سے چوری چھپے خریدتے رہے ہیں۔ میں نے سنا ہے گلزار صاحب کو دینے اور جہلم کی رات نہیں بھولتی ۔ ٹی وی پر دیکھا تھا کہ وسیم اکرم آئی پی ایل میں کوچنگ کرتے ہیں اور شعیب اختر آپ کے چینل پر تبصرے کرتے ہیں۔ سنا ہے عمران خان آپ کےنوجوانوں کے بھی آئیڈیل ہیں اور آپ بھی ہندوستان پاکستان کا کرکٹ میچ ضرور دیکھتے ہیں۔ راحت کے گانے پر آپ کی فلم چلتی ہےاور اجوکا کا بلھا دیکھنے والوں کا رش ٹوٹنے نہیں پاتا۔
ہمیں 48، 65، 71، کارگل اور ممبئی حملوں کی جمع تفریق میں نہیں پڑنا، ہم سب کے اپنے مرے ہیں اور بدقسمتی سے ایک دوسرے ہاتھوں مرے ہیں
میرے ہمسائے !یہ وقت تاریخ کو درست کرنے کا وقت ہے، ہم کیوں اپنے آباء کی غلطیوں کا ہی ذکر کریں، کیوں نہ ان کی محبت اور رفاقت کی بات کریں۔ ہمارے پاس موقع ہے کہ ہم گزشتہ جنگوں، نفرتوں اور دشمنیوں کو بھلا کر ایک دوسرے کو امن قائم کرنے کا ایک موقع دیں۔ ہمیں جنگ کی بات کرنے والوں سے نہیں ڈرنا، ہمیں ہتھیار خریدنے والوں سے نہیں دبنا، ہمیں ان کی بات نہیں ماننی جو ہمیں ایک دوسرے کے خلاف بھڑکا رہے ہیں، ہمیں ان کے دکھاوے کا فریب نہیں کھانا جو جو اپنی فوجی طاقت کے نشے میں مدہوش ہیں، ہمیں وہ نسل نہیں بننا جو جوہری ہتھیاروں کی تباہی کو قریب سے دیکھے گی۔ ہمیں 48، 65، 71، کارگل اور ممبئی حملوں کی جمع تفریق میں نہیں پڑنا، ہم سب کے اپنے مرے ہیں اور بدقسمتی سے ایک دوسرے ہاتھوں مرے ہیں۔ لیکن وقت ہے کہ ہم ایک دوسرے کو فتح کرنے یا شکست دینے کی بجائے ایک دوسرے کو ترقی کرنے کا موقع دیں، یہی وقت ہے کہ ہم جنگ کا منتر پڑھنے والوں کے سامنے امن کے گیت گائیں۔
وطن کی محبت کے گیت گانے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم جنگی ترانے اور رجز پڑھنا شروع کر دیں، دیش کی حفاظت کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ایک دوسرے پر بندوق تان لیں، آگے بڑھنے کے لیے ضروری نہیں کہ ایک دوسرے کو شکست دی جائے ، امن میں سب کا بھلا، سب کی خیر اور سب کی جیت ہے۔ اور پھر لڑنے کو میدان جنگ ہی نہیں اور بھی بہت کچھ ہے، آپ میاں داد کے چھکے کا بدلہ لیں ہم اگلے ورلڈ کپ میں آپ کو ہرانے کی کوشش کریں گے۔ کبڈی کا مقابلہ کرا لیں گے یا ہاکی کھیل لیں گے لیکن کیا ضروری ہے کہ پرتھوی اور غوری میزائل پھینک کر ہی جیت ہار کا فیصلہ کیا جائے؟
ہمارے پاس ہی موقع ہے کہ ہم اپنی اپنی سرکار،اپنے اپنے نیتاوںااور اپنے اپنے سینکوں کو یہ باور کرادیں کہ ہمارا مسئلہ ہندوستان یا پاکستان نہیں بلکہ ہمارا مسئلہ غربت، جہالت اور بیماری ہے
میرے ہمسائے !میں جانتا ہوں آپ کی طرف بھی بہت سے ہیں جو جنگ نہیں چاہتے، جو ہتھیار پسند نہیں کرتے اور جو امن چاہتے ہیں، مجھے پتہ ہے کہ دونوں طرف کے صلح جو اور امن پسند خوف زدہ ہیں کہ کہیں دوستی کی بات کرنے پر انہیں غدار نہ کہا جائے، کہیں ان پر دیش دروہی کا آروبھ نہ لگ جائے ، کوئی انہیں بزدل نہ سمجھے یا کوئی انہیں جاسوس یا آتنک وادی نہ کہے۔ لیکن میرے دوست ہمارے پاس ہی موقع ہے کہ ہم اپنی اپنی سرکار، اپنے اپنے نیتاوںاور اپنے اپنے سینکوں کو یہ باور کرادیں کہ ہمارا مسئلہ ہندوستان یا پاکستان نہیں بلکہ ہمارا مسئلہ غربت، جہالت اور بیماری ہے۔ آو ہم ایک دوسرے سے نفرت کرنے سے انکار کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھیں۔ یقین مانو گاندھی جی اور جناح صاحب بھی ہوتے تو یہی کرتے۔ ایک دوسرے سے نفرت کر کے تو ہم ایک دوسرے کی بجائے اپنے آپ کو ہی تباہ کریں گے لیکن محبت کرنے میں، دوستی کرنے میں اور امن کی بات کرنے میں کسی کا نقصان کسی کی تحقیر نہیں۔ مودی صاحب کیا کہتے ہیں اور نواز شریف صاحب کیا سوچتے ہیں پہل ہمیں خود کرنی ہے ، میں نے پہل کر دی ہے امید ہے تمہاری طرف سے بھی جواب آئے گا۔
 
فقط
تمہارا پاکستانی ہمسایہ

2 Responses

Leave a Reply

%d bloggers like this: