‘ہاں بھئی آپ میں سے کتنے لوگوں کے پاس ایک عدد موبائل فون ہے؟’
تقریباً سب نے ہاتھ اٹھا دیا۔
‘آپ میں سے کتنے لوگوں کے پاس ایک سے زیادہ موبائل فون ہے؟’
آدھے سے زیادہ سامعین نے ہاتھ اٹھا دیا۔
‘یہ دوسرا موبائل کس لیئے ہے؟’
‘وہ چھن جاتا ہے ناں اس لیے دو ہیں، ایک دے کر دوسرا والا بچالیتے ہیں!’ جواب آیا۔
اور جو بچ جاتا ہے وہ مہنگا والا امپورٹڈ، ۳جی-۴جی ۵-۱۰ میگا پکسل کیمرا والا موبائل ہوتا ہے، ہے ناں! بس یہی فرق ہے آپ میں اور ہم میں ہم لوگ اس غم، المیے، اس دوری، غربت، کدورت کو پاٹنے کے لیے کوشاں ہیں جو ایک شخص کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور کردیتا ہے، وہ شخص جو کہنے کو آپ کے اور میری طرح پاکستانی ہے لیکن اس کے اور آپ کے درمیان طبقات و مراعات کا ایک لامتناہی فاصلہ ہے۔
اوہ، سیاق و سباق تو رہ ہی گئے۔ یہ گفتگو چند دن قبل میرے اور جامعہ کراچی کے چند سو طلبہ و طالبات کے درمیان ایک سیمینار کے دوران ہورہی تھی، میں اس سوال کا جواب دے رہا تھا جو تقریباً مجھ سے ہر دوسرا شخص کرتا ہے اور شاید یہ سوال ہر اس شخص سے کیا جاتا سے جس کے سر پر اپنے عوام کا بھلا کرنے کا بھوت سوار ہوتا ہے۔ لوگ ہم سے بار بار یہی پوچھتے ہیں یہ سب کرنے سے کیا حاصل ہوگا، کیا کوئی مالی یا مادی بھلا بھی ہوگا یا نہیں؟ اور میں اس سوال کے جواب میں مندرجہ بالا سوالات کر ڈالتا ہوں۔
پورے پاکستان میں صرف ۴۶ فیصد حصہ تعلیم یافتہ ہے، ۸۸ فیصد کے پاس بجلی کا کنکشن موجود ہے اور فقط ۱۰ فیصد کے پاس انٹرنیٹ موجود ہے۔ اور سنیئے ۵۴ فیصد عوام خطِ غربت سے نیچے زندگی گذار رہے ہیں۔ اب بتائیں ہم کیسے خود کو مراعات یافتہ نہ کہیں۔ اور آپ اور میں کہیں نہ کہیں، وہ ضرور کہے گا جس کے پاس یہ آسائشیں نہیں ہیں۔
عوام ‘ہوتے’ سے ‘ہوتی’ ہوگئے، اوپر سے نوجوان، تھوڑے سے نادان، سمجھ نہیں پاتے ہیں کہ یہ مراعات ہمیں اشرافیہ کی صف میں لا کھڑا کرتی ہیں۔ جی ہاں، چلیں اشرافیہ نہ سہی امراء پر ہی اکتفا کرلیں۔ نہیں! تو کوئی بات نہیں لیکن ہم مراعت یافتہ طبقہ ضرور ہیں، یہ آرٹیکل جو آپ پڑھ رہے یا رہی ہیں، یہ پڑھنے کے لیے آپ کا خواندہ ہونا ضروری ہے، پہلی مراعت، آپ یہ آرٹیکل کمپیوٹر پر پڑھ رہے یا رہی ہیں، ایک اور مراعت، کمپیوٹر چلانے کے لیے، بجلی بھی موجود ہے اور انٹرنیٹ بھی۔ واہ، واہ!پورے پاکستان میں صرف ۴۶ فیصد حصہ تعلیم یافتہ ہے، ۸۸ فیصد کے پاس بجلی کا کنکشن موجود ہے اور فقط ۱۰ فیصد کے پاس انٹرنیٹ موجود ہے۔ اور سنیئے ۵۴ فیصد عوام خطِ غربت سے نیچے زندگی گذار رہے ہیں۔ اب بتائیں ہم کیسے خود کو مراعات یافتہ نہ کہیں۔ اور آپ اور میں کہیں نہ کہیں، وہ ضرور کہے گا جس کے پاس یہ آسائشیں نہیں ہیں۔
المیہ در المیہ دیکےکو یہ آسائشیں نہیں بنیادی ضروریاتِ زندگی ہیں مگر ہر کسی کی دسترس میں نہیں ہیں۔آپ مانیں یا نہ مانیں، آپ اور میں بوورژوازی بن گئے ہیں اور ہم نے غریب پرولتاریہ کو اپنی نظروں سے پرے بستیوں یہ گھیٹوز میں دھکیل دیا ہے۔ بقول روسو کے ایک ملکہ کو جب بتایا گیا کہ رعایا کے پاس کھانے کو روٹی نہیں ہےتو اس نے کہا تھا کے ان سے کہہ دو، ’کیک کھالیں‘ اور پھر انقلاب آیا، خونی، امرأ ماردیئے گئے بلا تفریق! آج ہم بھی معصوم(در حقیقت منحوس) ملکہ کی طرح دو موبائل رکھتے ہیں کہ ایک چور کو دے دیں گے لیکن یہ نہیں جاننا چاہتے کہ چور چوری کیوں کر رہا ہے؟ سچائی یہ ہے کہ ’بھوک تہذیب کے آداب بھلادیتی ہے‘ آپ کا اور میرا مہنگا موبائل اس بات کا ثبوت ہے کہ ہاں ہمارے پاس ضرورت سے زیادہ مال و دولت ہے، اس کے پاس تو ایک وقت کے کھانے اور بچے کی دوائی کے لیے بھی پیسے نہیں تو وہ انتقام لیتا ہے۔ اپنے نزدیک وہ انصاف کررہا ہوتا ہے اور آپ کے نزدیک جرم۔ لہٰذا اگر آپ اس چوری چکاری اور غنڈہ گردی سے بچنا چاہتے ہیں، تو اٹھیں اور اپنے، ہنر اور قابلیتوں کو ان افراد کے ساتھ بانٹیں جو غریب ہیں، ضرورتمند ہیں، اور ایسا ان کو ایک وقت کا کھانا کھلانے سے ممکن نہیں ہوگا۔ بھیک نہیں دیں کارِ خیر کریں۔ لیکن بھئی کیوں کریں؟ ٹیکس دیتے تو ہیں حکومت کو۔ تو میرے عزیزو، یہ تو یہ ہے پرانا عمرانی معاہدہ، کچھ دو کچھ لو، لیکن دورِ حاضر میں ہمیں صرف شہری بن کر نہیں ذمہ دار شہری بن کر جینا ہوگا۔ ایسا کرنا شاید طبیعت پر گراں گزرے لیکن جب آدھی قوم غریب ہو تو حل تو نکالنا پڑے گا ناں۔
فکر نہ کریں! عہد کریں! قوم کی شرحِ خواندگی کو بڑھائیں گے، خواتین اور بچوں کو احترام و با عزت مقام دلائیں گے، جہاں رشوت خوری اقرباپروری دیکھیں گے آواز اٹھائیں گے، شکاگو کے مزدوروں نے آٹھ گھنٹے کام، آٹھ گھنٹے تفریح اور آٹھ گھنٹے آرام کا حق مانگا اور منوایا تھا۔ آئیں ہم تعلیم یافتہ نوجوانان بطور ذمہ دار شہری آٹھ گھنٹے روزانہ معاشرے کی تعمیر و ترقی، فلاح و بہبود اور انسانی حقوق کی فراہمی کے لیے وقف کردیں، روزانہ آواز اٹھائیں، اقدام اٹھائیں، رائے عامہ ہموار کریں، سماجی ابلاغ پر شور مچائیں۔ ہماری یہ چھوٹی چھوٹی کاوشیں ہی معاشرے میں عدل و انصاف، برابری، مساوات اور حقوق کی یکساں اور ہر طبقے تک رسائی کو ممکن بنا سکتی ہیں۔ دوسرا موبائل نہیں کسی بھی، بلکہ کئی ایک نوجوان تنظیمات کی رکنیت حاصل کرلیں، عوام کا بھلا کریں، غربت وافلاس کوختم کریں، اپنے آپ ہی امن قائم ہوجائے گا۔انشأاللہ!

Leave a Reply