اِس شاہراہ کے قرب و جوار میں بسنے والے صوالی، وشی اورملنگ جیسے دکاندار، ہوٹل مالکان اور کیبن چلانے والے اپنے گھروں کا چولہا جلا نے کے لیے اس گزرگاہ کے محتاج تھے
“تربت روڑ“ کہلانے والی سڑک اکیسویں صدی سے پہلے تربت کو آواران اور پھر ان دونوں اضلاع کو کراچی سے ملانے کا اہم ذریعہ تھی۔ یہ راستہ نہ صرف تربت سے کراچی تک مسافر بسوں، مال بردار گاڑیوں کی گزرگاہ تھا بلکہ یہاں آباد مکینوں کے روزگار کا اہم ذریعہ بھی تھا۔ یہ راستہ تربت، مند، بلیدہ، ہوشاب، جوسک، ڈنڈار، بیدرنگ اور دیگر علاقوں کو آواران سے جوڑتا ہوا کراچی تک جاتا تھا۔ کچا ہونے کے باوجود تربت اور اس سے ملحقہ علاقوں کے ٹرانسپورٹرز کراچی یا کوئٹہ جانے کے لیے اسی راستےکا انتخاب کرتے تھے۔278 کلومیٹر طویل آواران سے تربت تک کا یہ کچا راستہ مون سون کی بارشوں کے نتیجے میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا تو اس کی مرمت کا کام تربت اور آواران کے محکمہ بی اینڈ آر مل کر کیاکرتے تھے۔
مسافروں کو لانے لےجانے والی نان ایئر کنڈیشنڈبسیں اور مال بردار گاڑیاں ایرانی ا شیاءخورد ونوش کراچی اور دیگر علاقوں تک پہنچانے کا کام کرتی تھیں۔ یہی گزرگاہ تربت سے آواران اور آواران سے لسبیلہ تک بسنے والے افراد کے معاش کی ضامن بھی تھی۔ راستے میں جگہ جگہ قائم ہوٹل، کیبن، پنکچر کی دکانیں اور کھوکھے ان مسافر بردار اور مال بردار گاڑیوں کے ٹھہرنےاور مسافروں کے سستانے کا مقام ہوا کرتے تھے۔ اِس شاہراہ کے قرب و جوار میں بسنے والے صوالی، وشی اورملنگ جیسے دکاندار، ہوٹل مالکان اور کیبن چلانے والے اپنے گھروں کا چولہا جلا نے کے لیے اس گزرگاہ کے محتاج تھے۔ آواران، ڈنڈار، کولواہ اور جھاوکے مکینوں کا تربت اور ملحقہ علاقوں کے عوام سے ربط اسی راستے کے ذریعے تھا۔سب سے بڑھ کر یہ کہ اس گزرگاہ سے متصل علاقے کے مکینوں کواشیاءخوردونوش نہایت مناسب اور سستے داموں مل جاتی تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایران سے آنے والا کم قیمت تیل یہاں کے زمین دار وں کی خوشحالی کا باعث تھا۔
مسافروں کو لانے لےجانے والی نان ایئر کنڈیشنڈبسیں اور مال بردار گاڑیاں ایرانی ا شیاءخورد ونوش کراچی اور دیگر علاقوں تک پہنچانے کا کام کرتی تھیں۔ یہی گزرگاہ تربت سے آواران اور آواران سے لسبیلہ تک بسنے والے افراد کے معاش کی ضامن بھی تھی۔ راستے میں جگہ جگہ قائم ہوٹل، کیبن، پنکچر کی دکانیں اور کھوکھے ان مسافر بردار اور مال بردار گاڑیوں کے ٹھہرنےاور مسافروں کے سستانے کا مقام ہوا کرتے تھے۔ اِس شاہراہ کے قرب و جوار میں بسنے والے صوالی، وشی اورملنگ جیسے دکاندار، ہوٹل مالکان اور کیبن چلانے والے اپنے گھروں کا چولہا جلا نے کے لیے اس گزرگاہ کے محتاج تھے۔ آواران، ڈنڈار، کولواہ اور جھاوکے مکینوں کا تربت اور ملحقہ علاقوں کے عوام سے ربط اسی راستے کے ذریعے تھا۔سب سے بڑھ کر یہ کہ اس گزرگاہ سے متصل علاقے کے مکینوں کواشیاءخوردونوش نہایت مناسب اور سستے داموں مل جاتی تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایران سے آنے والا کم قیمت تیل یہاں کے زمین دار وں کی خوشحالی کا باعث تھا۔
وہی ہوٹل جس میں صوالی کے قہقہوں کی گونج صبح تک سنائی دیتی تھی، وشی کی پنکچر لگانے کی دکان سورج طلوع ہونے تک بند ہونے کا نام نہیں لیتی تھی اور ملنگ کا پان بیڑی کے کھوکھے پررات گئے تک گاہکوں کا رش رہتا تھااب وہاں پر تالے پڑ گئے ہیں
وقت کا پہیہ چلتا رہا اورحالات نے اس وقت پلٹا کھا یا جب مشرف دور میں شاہراہوں کی تعمیرات کے منصوبے شروع کر کیے گئے۔ ان منصوبوں میں مکران کوسٹل ہائی وے اوربیلہ سے آواران تک سڑک کی پختگی کے منصوبے بھی شامل تھے۔مکران کوسٹل ہائی وے کراچی کو گوادر سے ملانے والی شاہراہ ہے۔ 2001میں شروع ہونے والے اس منصوبے کی تکمیل دو سال میں ہوئی۔ اس شاہراہ کی تعمیر مکمل ہوتے ہی تربت اور ملحقہ علاقوں کا ضلع آواران سے رابطہ ختم ہو گیا۔ آواران کے لوگوں کے لیے آواران تربت روٹ کی پختگی کا منصوبہ امید کی واحد کرن تھا لیکن بیلہ آواران روڈ کی تعمیر کے بعدتربت روڑ کی تعمیر غیر ضروری سمجھ کر ادھوری چھوڑ دی گئی۔ 278کلومیٹر کا یہ راستہ کچا ہونے کے سبب ٹرانسپورٹرز نے تربت سے براستہ گوادر کراچی تک کا طویل راستہ اختیار کرنا مناسب سمجھا۔ تربت روڑ کی بندش سے اس راستے سے منسلک پنکچر کی دکانیں، ہوٹل اور کیبن بند ہو گئے بلکہ یوں کہیے کہ لوگوں کا ذریعہ معاش ان سے چھین لیا گیا۔ وہی ہوٹل جس میں صوالی کے قہقہوں کی گونج صبح تک سنائی دیتی تھی، وشی کی پنکچر لگانے کی دکان سورج طلوع ہونے تک بند ہونے کا نام نہیں لیتی تھی اور ملنگ کا پان بیڑی کے کھوکھے پررات گئے تک گاہکوں کا رش رہتا تھااب وہاں پر تالے پڑ گئے ہیں۔ چند سالوں کے دوران یہ تمام دکانیں، ہوٹل اور مسافروں کے لیے قائم مساجد کھنڈرات میں تبدیل ہوگئے ہیں اور علاقے کا نقشہ ہی تبدیل ہو گیا ہے۔
مجھے ڈر ہے کہ بلوچستان میں مغربی راستے کی تعمیر سے پہلے مشرقی راستہ مکمل ہوجانے کی صورت میں یہاں کے مقامی لوگوں کی تکالیف میں کمی کی بجائے اضافہ نہ ہوجائے
2015کا آواران ،2003کے آواران سے بالکل مختلف دکھائی دیتا ہے۔ وہی شاہراہ جہاں رات کو چلنے والی ٹریفک کا شور اردگرد کے مکینوں کی نیند خراب کرتا تھا اب وہاں سے دن بھر میں دس یا پندرہ گاڑیاں ہی گزرتی ہیں ۔ سنسان سڑک کسی اجنبی کو دن میں بھی خوفزدہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ روزگار کے ذرائع اور دیگر علاقوں سے معاشی رابطے ختم ہونے کے سبب یہاں کے مکین معاشی زبوں حالی کا شکار ہیں۔ ان میں پیداہونے والا احساس محرومی انہیں بندوق اٹھانے پر مجبور کررہا ہے جس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے۔
اقتصادی راہداری پر پسماندہ طبقوں کے ساتھ ساتھ دیگر پارلیمانی جماعتوں کو گوادر تا کاشغر روٹ پر جو اعتراضات تھے نواز حکومت نے آل پارٹیز کانفرنس بلا کر ان کے اعتراضات کو دور کرنے کی کوشش کی۔ اس بات پر تمام پارلیمانی جماعتوں نے اتفاق کر لیا ہے کہ گوادر تا کاشغر اقتصادی راہداری کے لیے مشرقی، مغربی اور وسطی گزرگاہیں بنیں گی لیکن سب سے پہلے مغربی راستےکی تعمیر شروع کی جائے گی جو کاشغر سے خنجراب ، خنجراب سے حویلیاں، حسن ابدال،ڈی آئی خان، ژوب، کوئٹہ، قلات، سوراب، پنجگوراور تربت سے ہوتا ہوا گوادر تک پہنچے گا۔ موجودہ صورتحال اور زمینی حقائق کا مشاہدہ کرتے ہوئے مجھے مشرف دور حکومت میں مکران کوسٹل ہائی وے اور لسبیلہ سے آواران تک بننے والی سڑکیں یاد آجاتی ہیں۔ دونوں شاہراہوں کی تعمیر اسی دور حکومت میں مکمل ہو ئی تھی لیکن مکران کوسٹل ہائی کی تعمیر اور تربت روڑ منصوبے کے ادھورے رہ جانے سے جو اذیت آواران اور اس سے ملحقہ علاقوں کو جھیلنا پڑی اس کا تدارک تاحال نہیں کیا جاسکا۔ مجھے ڈر ہے کہ بلوچستان میں مغربی راستے کی تعمیر سے پہلے مشرقی راستہ مکمل ہوجانے کی صورت میں یہاں کے مقامی لوگوں کی تکالیف میں کمی کی بجائے اضافہ نہ ہوجائے۔
اقتصادی راہداری پر پسماندہ طبقوں کے ساتھ ساتھ دیگر پارلیمانی جماعتوں کو گوادر تا کاشغر روٹ پر جو اعتراضات تھے نواز حکومت نے آل پارٹیز کانفرنس بلا کر ان کے اعتراضات کو دور کرنے کی کوشش کی۔ اس بات پر تمام پارلیمانی جماعتوں نے اتفاق کر لیا ہے کہ گوادر تا کاشغر اقتصادی راہداری کے لیے مشرقی، مغربی اور وسطی گزرگاہیں بنیں گی لیکن سب سے پہلے مغربی راستےکی تعمیر شروع کی جائے گی جو کاشغر سے خنجراب ، خنجراب سے حویلیاں، حسن ابدال،ڈی آئی خان، ژوب، کوئٹہ، قلات، سوراب، پنجگوراور تربت سے ہوتا ہوا گوادر تک پہنچے گا۔ موجودہ صورتحال اور زمینی حقائق کا مشاہدہ کرتے ہوئے مجھے مشرف دور حکومت میں مکران کوسٹل ہائی وے اور لسبیلہ سے آواران تک بننے والی سڑکیں یاد آجاتی ہیں۔ دونوں شاہراہوں کی تعمیر اسی دور حکومت میں مکمل ہو ئی تھی لیکن مکران کوسٹل ہائی کی تعمیر اور تربت روڑ منصوبے کے ادھورے رہ جانے سے جو اذیت آواران اور اس سے ملحقہ علاقوں کو جھیلنا پڑی اس کا تدارک تاحال نہیں کیا جاسکا۔ مجھے ڈر ہے کہ بلوچستان میں مغربی راستے کی تعمیر سے پہلے مشرقی راستہ مکمل ہوجانے کی صورت میں یہاں کے مقامی لوگوں کی تکالیف میں کمی کی بجائے اضافہ نہ ہوجائے۔