ہم یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتے کہ ہم نے، ہماری روایات نے اور ہمارے معاشرے نے عورت کو تعلیم اور ہنر سے محروم رکھا ہے جس کی وجہ سے وہ آج اس حال میں ہے۔
ایک ایسے معاشرے میں جہاں ڈاکٹر بڑے شہروں، بڑے ہسپتالوں او ر دوسرے ملکوں کا رخ کرتے ہیں ڈاکٹر شفیع جان بلوچ نے آواران جیسے پسماندہ علاقے میں رہنے کا فیصلہ کیا مگر بلوچستان کے حالات ان کی جان لینے کا باعث بن گئے۔
اسے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی خوش قسمتی کہیں یا بدقسمتی کہ انہوں نے ایک ایسی اتحادی حکومت کی سربراہی کا راستہ چنا جس کے پاس نہ اختیارات تھے نہ پوری مدت۔ نواب ثناء اللہ زہری جیسا قد آور قبائلی سردار اگر امیدوار ہو...
عام آدمی نے تبدیلی چاہی تو سیاستدان کی روپ میں بھانت بھانت کے رہنما میدان میں آگئے، سماجی ادارے وجود میں آگئے، ٹھیکداری نظام متعارف کرایا گیا، میڈیا بھی آگیا لیکن معاشرہ آج بھی اتنا ہی پسماندہ ہے۔
آس پاس چند درخت ایسے بھی نظر آئے جنہیں سڑک کی توسیع کی خاطر کاٹ کر زمین سےاس کی خوبصورتی چھین لی گئی تھی۔ چند دیوہیکل مشینیں اس ززمین کو روندنے اور تارکول بچھا کر ان درختوں کا نام و نشان مٹا دینے کو تیار کھڑی تھیں۔
"یہ بی بی سی لندن ہے اب آپ رضا علی عابدی سے خبریں سنئیے" اپنے دور کی خوبصورت آواز کے ساتھ ایک خوبصورت نام ۔۔۔ خبریں سننے کے لئے شائق سامعین کی ایک بڑی تعداد ریڈیو کے گرد جمع ہونا شروع کردیتی تھی۔
بلوچستان کے عوام اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔ حصول علم کے لیے تربت ،گوادر، چمن، آواران، خاران، پنجگور، نصیرآباد اور دیگر علاقوں کے نوجوان کراچی، لاہور، اسلام آباد جیسے دور دراز شہروں کا رخ کرتے ہیں۔
عالمی اردو کانفرنس کا ساتواں کنونشن آرٹس کونسل کراچی میں اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے اور کئی ممالک سے کنونشن میں آئے اردو کے چاہنے والے کراچی سے واپس لوٹ چکے ہیں۔