یہ کائنات ایک عظیم و برتر نصب العین کی جانب ارتقاءپذیر ہے، ایک حتمی نصب العین کی جانب یہ ارتقاء ایک فکری و عقلی لزوم کے تحت وقوع پذیر ہے۔ عظیم فلسفی ارسطو کے مطابق کا ئنات کے جزولاینفک یعنی انسان کا خاصہ اُس کاتدبر ہے جو اُسے اُس کے نصب العین کی جانب گامزن کرتا ہے۔ یوں انسان پر بحیثیت فکری حیوان اولین ذمہ داری یہ عائد ہو تی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اعلیٰ فکری مقاصد ترتیب دے۔افراد کے لیے نصب العین کے تعین اور اِس کے حصول کے لیے ریاستی ڈھانچہ کلیدی حثیت رکھتا ہے۔ ریاستی ڈھانچہ ہی دنیا کے سٹیج پر انسانی کردار کا تعین کرتا ہے۔ جس نوع کی ریاست ہوگی، اُسی ڈھنگ کے باشندے اس ریاست میں پروان چڑھیں گے۔
پاکستان بفضلِ ربی 68 برس کا ہو چکا ہے، خدا عمر دراز کرے (آمین) لیکن حیف کے غیرمتوازن پاکستانی ریاست اپنے افراد کو کوئی بڑا مقصدِ حیات دینے میں ناکام رہی ہے۔ ریاستی نطام کوئی بھی ہو، اُس کا غیر متوازن اوربے ڈھنگا طرز معاملت نہ صرف انسانی فکر کو غیر فعال بناتا ہے بلکہ فرد کی اخلاقی تربیت اور ترقی میں بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔اس تناطر میں پاکستانی نوجوان کی ذہنی کیفیت کا جائزہ مایوس کن حقائق پر منتج ہوتا ہے۔ آج کے پاکستانی نوجوان کا بڑے سے بڑا مقصد ایسی ڈ گری کا حصول ہےجس کے بعد کوئی موافق ذریعہ معاش میسر آ سکے۔ مذکورہ مقصد میں کامیابی کے بعد آئندہ جستجو دوسروں کی نظروں میں اپنا سماجی مقام بلند کرنے کی غرض سے اپنے مال و اسباب میں اضافے کی ہوتی ہے۔ افسوس کے آج کا پاکستانی نوجوان اس مقصد کے لیے ہراخلاقی و قانونی حد عبور کرنے کو تیار ہے۔
پاکستان بفضلِ ربی 68 برس کا ہو چکا ہے، خدا عمر دراز کرے (آمین) لیکن حیف کے غیرمتوازن پاکستانی ریاست اپنے افراد کو کوئی بڑا مقصدِ حیات دینے میں ناکام رہی ہے۔ ریاستی نطام کوئی بھی ہو، اُس کا غیر متوازن اوربے ڈھنگا طرز معاملت نہ صرف انسانی فکر کو غیر فعال بناتا ہے بلکہ فرد کی اخلاقی تربیت اور ترقی میں بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔اس تناطر میں پاکستانی نوجوان کی ذہنی کیفیت کا جائزہ مایوس کن حقائق پر منتج ہوتا ہے۔ آج کے پاکستانی نوجوان کا بڑے سے بڑا مقصد ایسی ڈ گری کا حصول ہےجس کے بعد کوئی موافق ذریعہ معاش میسر آ سکے۔ مذکورہ مقصد میں کامیابی کے بعد آئندہ جستجو دوسروں کی نظروں میں اپنا سماجی مقام بلند کرنے کی غرض سے اپنے مال و اسباب میں اضافے کی ہوتی ہے۔ افسوس کے آج کا پاکستانی نوجوان اس مقصد کے لیے ہراخلاقی و قانونی حد عبور کرنے کو تیار ہے۔
بہترین ذریعہ معاش کی فکر اور آسودہ زندگی کا خواب یقیناً ہر انسان کا حق ہےلیکن انہیں مقصد حیات سمجھ لینا اور اپنی ساری زندگی صرف اسی تگ و دو میں صرف کر دینا دانشمندانہ طرز عمل نہیں۔
بہترین ذریعہ معاش کی فکر اور آسودہ زندگی کا خواب یقیناً ہر انسان کا حق ہےلیکن انہیں مقصد حیات سمجھ لینا اور اپنی ساری زندگی صرف اسی تگ و دو میں صرف کر دینا دانشمندانہ طرز عمل نہیں۔ زندگی سے متعلق یہ روِش انسان اور اُس کے فکری مقاصد کی نفی کرتی ہے۔ در حقیقت یہ ہم پاکستانی شہریوں کے مقاصد ِ حیات کا تنگ دائرہ ہی ہے جو ہمیں اخلاقی گراوٹ کی اس پست سطح تک لے آیا ہےجہاں ہمارے معاشرے میں درندگی کھلے عام ناچتی ہے۔ وگرنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ قصور میں ۳۰۰ بچے انتظامیہ کی غفلت کے باعث درندہ صفت انسانوں کے نجس ارادوں کا شکار ہوتے؟
اگر پاکستانی ریاستی اور معاشرتی ڈھانچہ اپنے باشندوں یہ باور کروا سکتا کہ مطلق انفرادیت محض ایک التباس ہےاور انسان کی پہچان کا سفر اس سے آگے شروع ہوتا ہے تو یقیناً گزشتہ 68 برسوں میں ہم نامور فلسفی، مفکر، دانشور، اد یب، فنکار، سائنسدان، غرض ہر شعبہ زندگی میں دنیا کو بہترین دماغ دینے والی قوم کے طور پر پہچانے جاتے۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو دنیا میں ہماری حیثیت طفیلیے کی بجائے خود کفیل کی سی ہوتی۔
دنیا کی بیشتر قوموں کی طرح اگر پاکستانی شہری بھی ایک عام سطح کی حیوانی زندگی سے بلند ہو کر اپنے فکری پہلوؤں کا عرفان حاصل کر سکتا ہوتا تو وہ یقیناّ قدرت کے تحفہ، یعنی زندگی کو ایک ذمہ داری کے طور پر قبول کرتا۔ وہ زندگی سے متعلق سنجیدہ فیصلے کرنے کا اہل ہوتا اور یقیناً انفرادیت اور نفس پسندی سے بلند ہو کر معاشرہ کی اجتماعی فلاح کے لیے زیادہ سے زیادہ فعال کردارادا کرنے کا سوچتا۔ یہی وہ طرزِ حیات ہے جو اعلیٰ اخلاقی کردار پر منتج ہوتا ہے اور دیگر مسائل جیسے مذہبی جنونیت، دہشت گردی، ظلم اور بربریت کی روک تھام میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ یہی طرز عمل انفرادی و نجی تعلقات بھی ہموار بناتا ہے اور رنگ، نسل، زبان، اور مرد و زن کے تعصبات سے انسانی فکر کو آزاد کرتا ہے۔
اگر پاکستانی ریاستی اور معاشرتی ڈھانچہ اپنے باشندوں یہ باور کروا سکتا کہ مطلق انفرادیت محض ایک التباس ہےاور انسان کی پہچان کا سفر اس سے آگے شروع ہوتا ہے تو یقیناً گزشتہ 68 برسوں میں ہم نامور فلسفی، مفکر، دانشور، اد یب، فنکار، سائنسدان، غرض ہر شعبہ زندگی میں دنیا کو بہترین دماغ دینے والی قوم کے طور پر پہچانے جاتے۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو دنیا میں ہماری حیثیت طفیلیے کی بجائے خود کفیل کی سی ہوتی۔
دنیا کی بیشتر قوموں کی طرح اگر پاکستانی شہری بھی ایک عام سطح کی حیوانی زندگی سے بلند ہو کر اپنے فکری پہلوؤں کا عرفان حاصل کر سکتا ہوتا تو وہ یقیناّ قدرت کے تحفہ، یعنی زندگی کو ایک ذمہ داری کے طور پر قبول کرتا۔ وہ زندگی سے متعلق سنجیدہ فیصلے کرنے کا اہل ہوتا اور یقیناً انفرادیت اور نفس پسندی سے بلند ہو کر معاشرہ کی اجتماعی فلاح کے لیے زیادہ سے زیادہ فعال کردارادا کرنے کا سوچتا۔ یہی وہ طرزِ حیات ہے جو اعلیٰ اخلاقی کردار پر منتج ہوتا ہے اور دیگر مسائل جیسے مذہبی جنونیت، دہشت گردی، ظلم اور بربریت کی روک تھام میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ یہی طرز عمل انفرادی و نجی تعلقات بھی ہموار بناتا ہے اور رنگ، نسل، زبان، اور مرد و زن کے تعصبات سے انسانی فکر کو آزاد کرتا ہے۔
افلاطون کی مثالی ریاست کا تصور ہو یا ارسطو کے سیاسی افکار، دونوں اس نکتے پر متفق نظر آتے ہیں کہ ریاست کا اولین فرض افراد کے لیے زیادہ سے زیادہ مسرت اور آرام کا حصول یقینی بنانا ہے۔
پاکستانی ریاستی نظام متفرق کمزوریوں جیسے مقننہ پر مذہبی فکر کا غلبہ، کمزور عدلیہ، نا قص انتظامیہ اور بدعنوانی کا شکار ہے۔ یہ نقائص اپنی جگہ ایک الگ موضوع ہیں تاہم یہاں ریاستی نظام کے اُن بنیادی فرائض کی فہرست اور اُن کا فکری تجز یہ ضروری ہے۔ افلاطون کی مثالی ریاست کا تصور ہو یا ارسطو کے سیاسی افکار، دونوں اس نکتے پر متفق نظر آتے ہیں کہ ریاست کا اولین فرض افراد کے لیے زیادہ سے زیادہ مسرت اور آرام کا حصول یقینی بنانا ہے۔ گویا افراد کی زندگیوں میں ریاست کا کردار وہی ہے جو اولاد کی زندگی میں ماں باپ کا ہوتا ہے۔ جس طرح ماں باپ کی ترجیحات میں اولاد کی مادی ضروریات شامل ہیں اسی طرح ریاست کا اولین فریضہ ہے کہ وہ افراد کی بنیادی ضروریات کی فراہمی سے پہلو تہی نہ کرے۔
حکماء قدیم کے سیاسی افکار سے لےکر دور جدید کے عمرانی معاہدے کے نظریاتی مباحث تک، جان لاک ہو یا تھامس ہل گرین، اِن کا بنیادی نکتہ ریاست اور افراد کے مابین تعلق کی وضاحت کرنا ہے کہ کس طرح ریاست اور افرادایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ جہاں افراد ریاست میں رہتے ہوئے اپنے متعینہ فرائض سرانجام دینے کےذمہ دار ہیں، وہیں ریاست کا فرضِ عین ہے کہ وہ افراد کی مسرت، آرام، آزادی اور ملکیت جیسے حقوق کا تحفظ اور ان کی فراہمی کا اہتمام کرے۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو بھوک، افلاس، امتیازی سلوک، بے ایمانی، دھوکہ دہی اور دہشت گردی سے مکمل تحفظ فراہم کرے۔
حکماء قدیم کے سیاسی افکار سے لےکر دور جدید کے عمرانی معاہدے کے نظریاتی مباحث تک، جان لاک ہو یا تھامس ہل گرین، اِن کا بنیادی نکتہ ریاست اور افراد کے مابین تعلق کی وضاحت کرنا ہے کہ کس طرح ریاست اور افرادایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ جہاں افراد ریاست میں رہتے ہوئے اپنے متعینہ فرائض سرانجام دینے کےذمہ دار ہیں، وہیں ریاست کا فرضِ عین ہے کہ وہ افراد کی مسرت، آرام، آزادی اور ملکیت جیسے حقوق کا تحفظ اور ان کی فراہمی کا اہتمام کرے۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو بھوک، افلاس، امتیازی سلوک، بے ایمانی، دھوکہ دہی اور دہشت گردی سے مکمل تحفظ فراہم کرے۔
ریاست صرف اُسی صورت میں افراد کو بلند و بالا مقاصدِ حیات اپنانے پر آمادہ کر سکتی ہے، جب وہ افراد کی مادی ضروریات کی فراہمی تسلی بخش انداز میں ممکن بنائے گی۔
تاہم یہاں یہ سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ ریاستی ذمہ داریاں اور اس کے وظائف لازم و ملزوم مگر جداگانہ تصورات ہیں۔ کسی بھی ریاست کا بنیادی وظیفہ یہ ہونا چاہیئے کہ وہ افراد میں صحت مند اذہان کی نشوونما اور افزائش کے لیے سازگار ماحول پیدا کرے۔ ریاست صرف اُسی صورت میں افراد کو بلند و بالا مقاصدِ حیات اپنانے پر آمادہ کر سکتی ہے، جب وہ افراد کی مادی ضروریات کی فراہمی تسلی بخش انداز میں ممکن بنائے گی۔اور یہی وہ صورت ہوگی جب ریاست اپنا فطری وظیفہ اور اپنے بنیادی فرائض ادادکرنے کی اہل ہو گی۔ صرف اسی طرح ریاست شہریوں کو بھوک، افلاس، جرائم، دہشت گردی، ذہنی و فکری مغالطوں اور نفسیاتی اُلجھنوں سے نجات دلا کر انہیں ریاست میں اپنا فعال کردار ادا کرنے کی ترغیب دے سکے گی۔
ریاست کے لیے جہاں آئین کلیدی حیثیت رکھتا ہے وہیں قواعدپر عمل درآمد میں حکومت کا کردار مرکزی ہے۔ حکام اگر ریاست کے مذکورہ بالا فطری وظیفہ کی انجام دہی پر توجہ دیں تو وہ وقت دور نہیں جب پاکستان بہترین اذہان پیدا کرنے میں کامیاب ہو گا، اور اخلاقی فرائض کی ادائیگی میں اس کا شمار دنیا کی صفِ اول کی اقوام میں ہو گا۔اس وقت پاکستانی شہریوں کو ایک عام درجے کی حیوانی زندگی سے نجات دلانا ضروری ہے۔ اور اس کے لیے لازم ہے کہ ہماری سیاسی شخصیات کا کردار سقراطِ ثانی کا سا ہو جو افراد کو یہ باور کروا سکیں کہ “اپنے آپ کو پہچانو”۔
ریاست کے لیے جہاں آئین کلیدی حیثیت رکھتا ہے وہیں قواعدپر عمل درآمد میں حکومت کا کردار مرکزی ہے۔ حکام اگر ریاست کے مذکورہ بالا فطری وظیفہ کی انجام دہی پر توجہ دیں تو وہ وقت دور نہیں جب پاکستان بہترین اذہان پیدا کرنے میں کامیاب ہو گا، اور اخلاقی فرائض کی ادائیگی میں اس کا شمار دنیا کی صفِ اول کی اقوام میں ہو گا۔اس وقت پاکستانی شہریوں کو ایک عام درجے کی حیوانی زندگی سے نجات دلانا ضروری ہے۔ اور اس کے لیے لازم ہے کہ ہماری سیاسی شخصیات کا کردار سقراطِ ثانی کا سا ہو جو افراد کو یہ باور کروا سکیں کہ “اپنے آپ کو پہچانو”۔