چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی کو نشانہ بنا کر دہشت گردوں نے ایک بار پھر نہتے افراد کے خون سے ہولی کھیلی ہے۔ 4 دہشت گرد باچا خان یونیورسٹی میں داخل ہوئے اور یونیورسٹی کی حفاظت پر مامور عملے سے جھڑپ کے بعد ان کو ہلاک کرتے ہوئے اساتذہ اور طالب علموں کو بے دریغ نشانہ بنانے لگے۔ دہشت گردی کی حالیہ لہر دیکھی جائے تو صاف اندازہ ہوتا ہے کہ دہشت گرد تعلیمی اداروں کو نشانہ بنا کر جہالت کے اندھیروں کو ملک پر مسلط کرنے کے درپے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت تک 29 افراد اس حملے میں جان گنوا چکے ہیں۔ اس بربریت میں کتنے طالب علم اساتذہ یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے جوان ہلاک ہوئے اب یہ شاید ہمارے لیے محض چند اعدادوشمار بن کر رہ جائیں گے۔ ہم پے در پے ایسے سانحات کو دیکھنے اور سہنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ لاشوں کی تعداد کتنی ہے زخمی کتنے ہیں یہ سوالات اور تجسس ایسے سانحات کے بعد ہماری گفتگو اور مباحث کا محض ایک نمائشی محور ہوتا ہے۔ سانحات کیوں رونما ہوتے ہیں ان کے پیچھے بنیادی کردار اور عوامل کیا ہیں، سیکیورٹی ادارے اور ان کی معلومات اتنی ناقص کیوں ہیں؟ ان سب سوالات پر پردہ ڈالنے کے لیے لفظی جغادری کے ماہرین میڈیا کے ذریعے عوام کو “ہندوستانی سازش”، “کابل ذمہ دار ہے”، “ہمارے حوصلے بلند ہیں”، “یہ قربانی رائیگاں نہیں جائے گی” جیسے رٹے رٹائے بیانات اور مٖروضہ جات کی تکرار میں مصروف ہیں۔ یہ سلسلہ تب تک جاری رہے گا جب تک اگلا سانحہ رونما نہیں ہوتا۔
باچا خان یونیورسٹی اور آرمی پبلک سکول میں ہلاک ہونے والے بچے ایک ایسی سوچ کا شکار ہوئے جو دنیا کے کسی بھی اسلحے سے زیادہ بھیانک اور خوفناک ہے اور اس فکر پر ایمان رکھنے والے پاکستانیوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔
اس ہولناک واقعے کی ذمہ داری بھی تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی ہے۔ عمر منصور جو آرمی پبلک سکول پشاور پر حملے کا بھی ماسٹر مائنڈ تھا اس نے علی الاعلان یہ زمہ داری قبول کی ہے۔ عمر منصور خود تین بچوں کا باپ ہے نجانے اولاد کے ہوتے ہوئے بھی ایسے درندہ صفت لوگ دوسروں کی اولادوں کو کیسے قتل کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں؟ یہ سوچ و سمجھ سے عاری روبوٹس ہیں جن کے ذہنوں میں نفرت اور تشدد کا پروگرام فیڈ کیا جا چکا۔ یہ روبوٹ محض طے شدہ پروگرام پر ہی چل سکتے ہیں، وہ انسانوں کی طرح خود سے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہوتے ہیں۔ لیکن حیرت حکمرانوں، سیاسی و مذہبی رہنماوں اور دفاعی اداروں پر ہے جو اس واقعے میں مرنے والے بچوں اور افراد کی اس المناک موت کو قربانی بنانے پر مصر دکھائی دیتے ہیں۔ یونیورسٹی میں جانے والے یہ طلبہ کسی جنگی محاز پر دشمن سے لڑنے نہیں گئے تھے بلکہ علم کی روشنی حاصل کرنے گئے تھے انہوں نے قربانی نہیں دی بلکہ یہ اس ناکام حکمت عملی کی بلی چڑھ گئے جو آج تک دہشت گردوں کی سرپرستی کے لیے روا رکھی گئی ہے۔ یہ حکمت عملی دہشت گردوں کو انجام تک پہنچانے کی بجائے “اپنے” اور “غیر” کی تفریق کرتے ہوئے اپنے اثاثے بچا کر رکھنے پر مصر ہے۔
دشمن سے نوے فیصد علاقہ خالی کرانے کے دعوے اب فریب لگتے ہیں۔ “دشمن کی کمر توڑ دی” جیسے بیانات اب سماعتوں میں زہر بن کر گھلتے ہیں کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کیسے دشمن اب بھی جب اور جہاں چاہے ہم پر حملہ آور ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ باچا خان یونیورسٹی اور آرمی پبلک سکول میں ہلاک ہونے والے بچے ایک ایسی سوچ کا شکار ہوئے جو دنیا کے کسی بھی اسلحے سے زیادہ بھیانک اور خوفناک ہے اور اس فکر پر ایمان رکھنے والے پاکستانیوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ ہم میں سے ہی لوگ دہشت گردوں سے یا تو خاموش ہمدردی رکھتے ہیں یا پھر ان واقعات کو ہندوستان کے کھاتے میں ڈال کر دہشت گردی کے اگلے سانحے کا انتظار کرتے ہیں، ایسے تمام افراد دانستہ یا نادانستہ طور پر دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا کام سرانجام دیتے ہیں۔ جہاں اوریا مقبول جان، زید حامد، ہارون الرشید اور انصار عباسی جیسے لوگ ٹی وی سکرینوں پر بیٹھے ففتھ جنریشن وار فیئر ، غزوہ ہند اور خراسان سے اٹھنے والے لشکروں پر بھاشن دیتے ہوئے نوجوانوں کو جہاد، جنگ، تعصب اور شدت پسندی کی کھلم کھلا ترغیب دیتے ہوں وہاں ایسے سانحات پر غم و غصہ کیسا؟ جہاں کالعدم شدت پسند تنظیموں کے سربراہان بلٹ پروف لینڈ کروزروں میں ریاستی تحفظ کی چھتری کے نیچے دندناتے پھریں وہاں ان بچوں کی اموات پر کیسا ماتم؟ جہاں مذہبی بنیادوں پر نفرت اور مرنے مارنے کا سبق بچپن سے ہی نصاب کے ذریعے بچوں کے ذہنوں میں منتقل کر دیا جاتا ہو وہاں ایسے وحشیانہ سانحات پرتاسف کیسا؟ جہاں بچوں کو پیدا ہوتے ہی دنیا سے لاتعلقی اور زندگی کی قدر و قیمت چھوڑ کر محض آخرت اور حوروں سے محبت کا درس دیا جاتا ہو وہاں خود کش حملوں پر کیسی الجھن؟
ایک جانب یہ وحشی درندے مذہب کے نام پر بچوں کے دماغوں میں زہر انڈیل رہے ہیں تو دوسری طرف ریاست انہیں حب الوطنی کے نام پر جنگجو بنانا چاہتی ہے۔
“ان بچوں کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی”، جو سیاسی رہنما اس قسم کے بیانات ایسے سانحات کے بعد دیتے دکھائی دیتے ہیں، خود ان کے اپنے بچے یا تو ملک سے باہر رہائش پذیر ہوتے ہیں یا ریاست کے خرچے پر سینکڑوں پولیس اہلکاروں اور کمانڈوز کی حفاظتی چھتری تلے گھومتے نظر آتے ہیں۔ کیا عجیب مذاق ہے کہ ریاست کے وسائل سے تمام مراعات سیاسی رہنما اور بیوروکریٹس حاصل کریں لیکن قربانی سفید پوش یا غریب آدمی کا بچہ دے۔ دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے دعوے کرنے والا ادارہ گزشتہ کئی دہائیوں سے قومی سلامتی کی جس خود کش حکمت عملی کے تحت غیر ریاستی عناصر کی سرپرستی کرتا رہا ہے اس کا احتساب ضروری ہے۔ ان بچوں کا فوج کی پالیسیوں سے کوئی لینا دینا نہیں مگر انہیں خطرے میں ڈالنے والے دفاع وطن کے اہل کیوں کر ہو سکتے ہیں؟
جنگ میں بچوں اور عورتوں کو نشانہ نہیں بنایا جاتا لیکن ہمارا دشمن وہ ہے جو نہتے انسانوں حتیٰ کہ بچوں کو بھی نشانہ بنانے سے گریز نہیں کرتا۔ ایک جانب یہ وحشی درندے مذہب کے نام پر بچوں کے دماغوں میں زہر انڈیل رہے ہیں تو دوسری طرف ریاست انہیں حب الوطنی کے نام پر جنگجو بنانا چاہتی ہے۔ خدارا بچوں کو اس جنگ کا ایندھن مت بنائیے، انہیں ایک پر امن معاشرے کا خواب دیکھنے دیجئے۔ ہمارے بچوں کو دن دیہاڑے نشانہ بنایا جا رہا ہے، بستے پہن کر جانے والے چھلنی لاشوں کی صورت میں لوٹتے ہیں اب ہمیں سوچنا ہے کہ ہم اس بھیانک عفریت کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں۔ آپریشن ضرب عضب اس جنگ کا محض ایک معرکہ ہے، یہ جنگ دراصل ایک نظریےکے خلاف جنگ ہے، وہ نظریہ جو زندگی کی خوب صورتی، فرد کی آزادی اور آئین کی بالادستی تسلیم کرنے کو تیار نہیں، جو تعلیم کے اجالوں کو جہالت کی سیاہی سے مٹانا چاہتا ہے، جو بچوں کے قہقہوں کو گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے چھیننا چاہتا ہے، جو بندوق کے زور پر اپنی من چاہی شریعت ہم مسلط کرنا چاہتا ہے۔۔۔۔ یہ جنگ سوچ اور نظریات کی ہے جسے ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ نظریات کے میدان میں بھی لڑنا ہو گا۔ اس نظریاتی جنگ میں مکالمہ سب سے بڑا ہتھیار ہے، شدت پسند بیانیے پر کھلا مکالمہ ضروری ہے۔ ہمیں اپنی قومی سلامتی کی ترجیحات بھی ازسرنو طے کرنی ہیں۔ دنیا پر غلبہ پانے کی خواہش لشکر پال کر نہیں علم و تحقیق، ٹیکنالوجی اور معیشت کے میدانوں میں بہتر کارکردگی کے ذریعے پوری کرنا ہو گی۔ آنے والی نسلوں کو سوال کرنے دیجیے۔ نفرتوں کا پرچار بند کیجیے، بچوں کو پڑھائیے کہ انسان ہونے کے لیے پہلی شرط عالم انسانیت سے محبت کرنا ہے ان میں مذہب، صنف، رنگ اور نسل کی بنیاد پر تفریق کرنا نہیں۔
نفرتوں کا پرچار بند کیجیے، بچوں کو پڑھائیے کہ انسان ہونے کے لیے پہلی شرط انسانیت سے محبت کرنا ہے ان میں مذہب، صنف، رنگ اور نسل کی بنیاد پر تفریق کرنا نہیں۔
ہمیں جرات مندانہ فیصلے کرنے کے لیے کتنے اور معصوم بچوں کا لہو درکار ہے؟ مزید کتنے سانحات ہمیں اس امر کا ادراک کرنے کے لیے برداشت کرنا ہوں گے کہ ہماری سلامتی کو سب سے زیادہ خطرہ مذہبی جہادی سوچ سے ہے؟ ہمیں سڑکیں اور پل بعد میں دیجئے گا پہلے ہماری اور ہمارے بچوں کی جان کی حفاظت یقینی بنائیے۔ لیکن یہ تب تک ممکن نہیں جب تک ہم مذہب کو سیاست اور ریاست سے الگ نہیں کریں گے۔ گندگی کو قالین کے نیچے چھپانے سے گندگی ختم نہیں ہوتی اور نہ ہی ماضی کی جانب دیکھنے سے حال اور مستقبل شاندار بنائے جا سکتے ہیں۔
ہماری دفاعی ترجیحات اس وقت درست نہیں۔ محض اسلحہ اور فوج نہیں ذہنوں کو تعمیری سوچ دینے پر بھی پیسہ خرچ کرنا ہو گا۔ میزائلوں اور لڑاکا طیاروں کی دوڑ میں شامل ہونے کی بجائے جدید تعلیم اور تحقیق میں سرمایہ کاری کیجیے، بے روزگاری، بھوک اور افلاس کے خلاف بھی ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ عدم برداشت اور تعصب کی ترویج پر قدغنیں عائد کرنا ہوں گی وگرنہ ہمارے بچے اس جنگ کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے۔ اب بھی اگر ریاست اورمقتدر قوتیں انی غلطیوں کا ادراک کرنے کو تیار نہیں اور دہشت گردی کے خلاف موثر اقدامات کرنے پر آمادہ نہیں تو پھر باچا خان یونیورسٹی پر حملے جیسے وحشیانہ واقعات کا ہمیں عادی ہو جانا چاہیئے اور یہ بات تسلیم کر لینی چاہیئے کہ ہم اور ہمارے بچے قربانی کے جانوروں کی طرح ہیں، جنہیں ریاستی ادارے اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھانے کو محض اس جنگ کی قیمت سمجھتے ہیں۔ چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی میں اس دہشت گردی کا شکار ہونے والے طالب علم اور یونیورسٹی کے عملے کے لوگ انسان تھے حیوان نہیں جنہیں قربان ہونے کا سرٹیفیکیٹ دے کر مقتدر قوتیں اس سوچ اور انداز فکر کو چیلنج کرنے سے ڈر رہی ہیں۔
Image: Umair Vahidy