بیساکھ کی تپتی دوپہر، ہر طرف گرمی اور بھوسے کا غبار پھیلا ہوا تھا۔ لوگ گندم کاٹ رہے تھے۔ سمیٹ رہے تھے۔ بابے چپ شاہ کے مزار پہ میلا لگ گیا تھا۔
بیساکھ کی تپتی دوپہر، ہر طرف گرمی اور بھوسے کا غبار پھیلا ہوا تھا۔ لوگ گندم کاٹ رہے تھے۔ سمیٹ رہے تھے۔ بابے چپ شاہ کے مزار پہ میلا لگ گیا تھا۔ بیساکھ کی آخری جمعرات سے لے کر اتوار تک بابے چپ شاہ کے مزار پر میلا لگتا تھا۔ لوگ دور دور سے موضع غوث پور میں آتے۔ بابے کے مزار پہ حاضر دیتے۔ چڑھاوے چڑھاتے۔ دیگیں پکتیں۔ نیاز تقسیم کی جاتی۔ ڈھول کی تھاپ پہ دھمالیں ڈالی جاتیں، دودھ جلیبی کی دکانیں سجتیں، پکوان پکتے، برف کے رنگ برنگے گولے ریڑھیوں پر بنتے اور بکتے تھے۔ موت کے کنویں میں اسکوٹر چلتا۔ دودو روپے میں بارہ سنگھے، ببر شیر اور کالے ریچھ کے درشن ہو جاتے۔ گشتی چڑیا گھر میں پنجروں کے اندر یہ جانور سہمے سہمے بیٹھے رہتے۔ لوگ انہیں مڑ مڑ کر دیکھتے، گھورتے اور اشارے کرتے باہر نکل جاتے۔ نوجوانوں کی ٹولیاں کبڈی کھیلتیں۔ اس کے دل میں بار بار ایک خواہش کروٹ لے رہی تھی، پاسے مار رہی تھی کہ چپ شاہ کا میلہ دیکھنا ہے۔ جیب خالم خالی تھی۔ جیسے مائی پھاتاں کا منہ خالی ہے۔ بالکل خالی اور بغیر دانتوں کے منہ میں دیر تک روٹی پپولتی رہتی ہے جیسے انور ماشکی کو بخار ہوا تھا، اس کی مشک خالی پڑی تھی۔ میلہ بھی ضرور دیکھنا تھا۔ جیب بھی خالی تھی۔ چیلیاں والہ سے غوث پور دس میل کے فاصلے پر تھا۔ پورے دس میل۔ تانگے والا پانچ روپے کرایہ لیتا تھا۔ پانچ آنے کے پانچ جانے کے کل ملا کے دس روپے ہوگئے۔ میلے کی بہاریں بندہ خالی جیب کے ساتھ تو لوٹ نہیں سکتا تھا۔ پرانے کیکر کے نیچے بیٹھا کب تک اسی سوچ میں گم تھا کہ روپوں کا بندوبست کیسے کیا جائے۔ آخر کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا۔ سر اٹھا کے دیکھا تو سامنے نوری تھا۔ اَنو ترکھان کا شرارتی لڑکا۔
“کیوں بھئی شریفے کن سوچوں میں گم ہو؟” نوری نے کندھے پہ ہاتھ رکھے رکھے کہا۔
“یار غوث پور میں بابے چپ شاہ کا میلہ شرع ہوگیا ہے۔” اس نے نوری کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
“اوئے یہ ایسا کون سا حساب کا سوال ہے کہ تو سوچوں میں گم بیٹھا ہے۔ سارے پنڈ بلکہ سارے علاقے کو پتہ ہے کہ میلہ شروع ہوگیا ہے” نوری آلتی پالتی مار کر اس کے ساتھ کیکر کی گھنی چھاؤں میں بیٹھ گیا۔
“یار پتے کو چھوڑ یہ بتا میلہ دیکھا کیسے جائے” شریفے نے نوری کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے کا۔
“بھئی یہ بھی کوئی حکیم لقمان سے پوچھنے کی بات ہے؟ ان دو آنکھوں سے میلہ دیکھا جائے گا اور کیسے!” نوری نے اپنی بات پہ خود ہی قہقہہ لگایا۔
پھر یہ کہ ہم ایک من گندم چوری کریں گے بابو تیلی کی دکان پر بیچیں گے اور میلے میں جا کر عیاشی کریں گے
“دوآنکھیں تو رب سوہنے نے ہر ایک کو دی ہیں اور پیدا کرتے ہی دے دی ہیں۔ پر عقل مَت کسی کسی کو ہی دی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ بے وقوفا میلہ دیکھنے کے لیے دو آنکھوں کے ساتھ ساتھ روپے بھی چاہیئں۔ جیب خالی ہے جیسے تیرا یہ مٹکے جیسا سر بھیجے سے خالی ہے۔” اس نے طنزیہ انداز میں نور ی کا تمسخر اڑایا۔
“پیسوں کا انتظام کیسے ہو گا؟ سوچنا پڑے گا” نوری یہ کہہ کر گہری سوچ میں ڈوب گیا۔
“جلدی سے کوئی طریقہ سوچ یار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پیسوں کا بندوبست کر کہیں سے !!!”شریفے نے کہا۔
“اتنی سی بات تو تجھے سمجھ آہی جانی چاہیے کہ روپے نہ تو درختوں پر لگے ہیں کہ اتار لیں اور نہ کہیں زمین میں دبا رکھے ہیں کہ وہاں سے نکال لاؤں۔۔۔۔۔۔ کوئی ترکیب لڑانی پڑے گی پیسوں کا انتظام کرنے کے لیے۔۔۔۔۔۔۔” نوری نے تنکے سے زمین پر آڑھی ترچھی لکیریں کھینچتے ہوئے کہا۔
“لڑا پھر تو جنتر منتر”
نوری کافی دیر تک لکیریں کھینچتا رہا۔ سوچتا رہا۔ وہ کیکر کے نیچے بیٹھ کر اُسے دیکھتا رہا۔ کافی دیر سوچ بچار کرنے کے بعد وہ اٹھا اور اسے اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔ نوری آگے آگے تھا اور وہ اس کے پیچھے پیچھے۔ اس کا رخ پنڈ سے باہر کی طرف تھا۔ ساتھ ساتھ چلتے ہوئے گاؤں سے باہر آ گئے۔ ہر طرف کھیت پھیلے ہوئے تھے۔ کھیت جن کے کناروں پر شیشم کے درخت سینہ تانے کھڑے تھے۔ لمبے تنوں اور چھوٹے پتوں والے شیشم کے درخت۔ کھیتوں کے اندر ہر طرف گندم کے چھوٹے چھوٹے ٹنڈ تنے بکھرے ہوئے تھے۔ گندم کی فصل اٹھا لینے کے بعد کھیت ہل کے منتظر تھے۔ چلتے چلتے وہ چوہدری نذیر کے ڈیرے کے قریب پہنچ گئے۔ دوپہر کی تپتی دھوپ ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ وہ دونوں چپ چاپ چل رہے تھے۔
“یار یہ چوہدری نذیر کے ڈیرے پر کیا کرنا ہے ؟” بالآخر شریفے نے چپ کا روزہ توڑا۔
“چوہدری نے آج ہی گندم سمیٹی ہے کھیتوں سے اور لا کر ڈیرے کے صحن میں ڈھیر کر دی ہے۔ کل تک وہ گندم بوریوں میں بھر کر منڈی میں پہنچا آئے گا”
“تو پھر؟” وہ بات کی تہہ تک ابھی تک نہیں پہنچ سکا تھا کہ یہ لوگ چوہدرے کے ڈیرے پرکیوں جا رہے ہیں؟
“تو پھر یہ کہ ہم ایک من گندم چوری کریں گے۔۔۔۔۔۔۔ بابو تیلی کی دکان پر بیچیں گے اور میلے میں جا کر عیاشی کریں گے” نوری نے منصوبہ کھول کر رکھ دیا۔ اُس کے اعصاب پر خوف طاری ہو گیا۔
“یار کہیں پکڑے نہ جائیں؟” بالآخر یہ خوف لفظوں کی صورت اس کی زبان پر اتر آیا۔
“تو فکر نہ کر، کام نہایت صفائی سے ہو گا، پکڑے جانے کا کوئی خطرہ نہیں حوصلہ کر”
“دیکھ لے چوہدری کو پتا چل گیا تو لم لیٹ کرکے جوتے مارے گا” شریفے کا خوف بدستور قائم تھا۔
“تجھے کہا ہے ناں کہ اس کے فرشتوں کو بھی خبر نہ ہوگی” نوری نے انتہائی پراعتماد لہجے میں کہا۔
بابو نے کنڈے پر بوری تولی، من سے پانچ سیر کم تھے۔ بابو نے یقینا ڈنڈی ماری تھی۔ بوری میں من بھر سے پانچ سات سیر زیادہ ہی دانے تھے۔
ڈیرے پر پہنچ کے وہ دونوں ح جامن کے گھنے پیڑ کے نیچے کھڑے ہوگئے۔ شِکر دوپہر میں ڈیرہ سنسنان پڑا تھا۔ کسی ذی روح کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ لوگ کام کاج ختم کرکے گھرو گھری پہنچ چکے تھے۔ جامن کے درخت کے نیچے لگے نلکے سے انہوں نے اپنی پیا۔ قمیض کی آستین سے منہ پونچھا۔
“تو ادھر کھڑا رہ، آس پاس نظر رکھ، میں اندر سے مال لے کر آتا ہوں۔ اگر کوئی گڑ بڑ ہو تو سیٹی بجا دینا۔”
نوری ڈیرے کی طرف بڑھا، اچک کر وہ کچی دیوار پر چڑ ھ گیا۔ کچھ دیر تک وہ دیوار پر بیٹھا اندر جھانکتا رہا اور پھر چھلانگ لگا کر اندر اتر گیا۔ شریفا جامن کے درخت کے نیچے کھڑا ہو کر ادھر ادھر دیکھا رہا تھا۔ جامن کی چھاؤں کے نیچے پتہ نہیں کیوں اسے ٹھنڈے پسینے آ رہے تھے جیسے تاپ چڑھ گیا ہو۔ دل دھک دھک کر رہا تھا۔ دل کے دھڑکنے کی آواز کانوں میں پہنچ رہی تھی۔ دھڑکا لگا ہوا تھا کہ کوئی آنہ جائے۔ پکڑے نہ جائیں۔ پکڑے گئے تو وہ چھترول ہوگی کہ نانی یاد آ جائے گی۔
نوری ڈیرے کی طرف بڑھا، اچک کر وہ کچی دیوار پر چڑ ھ گیا۔ کچھ دیر تک وہ دیوار پر بیٹھا اندر جھانکتا رہا اور پھر چھلانگ لگا کر اندر اتر گیا۔ شریفا جامن کے درخت کے نیچے کھڑا ہو کر ادھر ادھر دیکھا رہا تھا۔ جامن کی چھاؤں کے نیچے پتہ نہیں کیوں اسے ٹھنڈے پسینے آ رہے تھے جیسے تاپ چڑھ گیا ہو۔ دل دھک دھک کر رہا تھا۔ دل کے دھڑکنے کی آواز کانوں میں پہنچ رہی تھی۔ دھڑکا لگا ہوا تھا کہ کوئی آنہ جائے۔ پکڑے نہ جائیں۔ پکڑے گئے تو وہ چھترول ہوگی کہ نانی یاد آ جائے گی۔
کچھ دیر بعد پٹ سن کی آدھی بھری ہوئی بوری کچی دیوار پر نمودار ہوئی۔ اس کے بعد نوری دیوار پر آبیٹھا۔
“او ئے شریفے ادھر آ” اُس نے ہاتھ سے اشارہ کیا۔ وہ لرزتے کانپتے ہاتھوں اور پیروں کے ساتھ اس کی طرف بڑھا۔
“اوئے مرد بن مرد ! یہ کیا تجھے ملیریا ہوگیا ہے کچھ نہیں ہوتا۔ یہ لے بوری پکڑ” نوری نے طنزیہ انداز میں کہا اوربوری نیچے سرکادی۔ من بھر دانوں کا بوجھ کندھوں پر اٹھا کے وہ کھڑا ہو گیا۔ نوری نیچے اترا۔ اب کیا کرنا ہے؟ شریفے نے کندھوں پر بوری کا توازن درست کرتے ہوئے کہا۔
“بابے گامے کے کھیتوں کی منڈیر پر جو سرکنڈے ہیں ناں ان میں بوری چھپا دیتے ہیں۔ میں بابو تیلی سے ابھی جا کر بات کرلوں گا۔ اندھیرا پڑنے پہ بوری اٹھا کر اسے دے آئیں گے” بابو تیلی پنڈ میں غلہ کا بیوپار کرتا تھا۔ نوری آگے آگے شریفا بوری اٹھا کے اس کے پیچھے پیچھے۔ نوری تو چوکنا ہو کر ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔ شریفا پسینوں پسینی گردن گھما کر دیکھ بھی نہیں سکتا تھا۔ بس ڈرتا ڈرتا اس کے پیچھے چلتا رہا۔ بابے گامے کے کھیتوں کے پاس سرکنڈوں میں بوری چھپا کے وہ دونوں گاؤں کی طرف چل پڑے۔
صبح سات بجے وہ بڑی نہر کے پل پر پہنچ گئے۔ پل کے ساتھ ٹانگوں کا اڈا تھا۔ مندی مصلی کا ٹانگہ غوث پور جانے کے لیے تیار تھا۔
گھر جا کر پتلی لسی کے گلاس چڑھائے، اچار کے ساتھ روٹی کھائی، پھر پرانے کیکر کی چھاؤں میں پہنچ گئے۔ شام تک نوری اور وہ کیکرکی چھاؤں میں گڈی چرا کھیلتے رہے۔ شام کے سائے گہرے ہوئے تو نوری اٹھ کر بابو تیلی کی دکان پر چلا گیا جبکہ اس نے گھر کا رخ کیا۔ اماں ہانڈی پکانے کے بعد تندوری پر روٹیاں لگا رہی تھی۔ وہ چپ چاپ چارپائی پر بیٹھ گیا۔
“شریفے آج توُ چپ چپ ہے” اماں نے آٹے کا پیڑا گھڑتے ہوئے پوچھا۔
“کچھ نہیں اماں” دراصل وہ اس وقت اضطراب اور خوشی کی درمیانی حالت میں تھا۔ اماں نے روٹیاں لگائیں۔ چبوترے پر پیڑے رکھے۔ ہانڈی رکھی۔ کندروی میں لپیٹ کر چنگیر کے اندر روٹیاں رکھیں۔
“آجا پُتر روٹی کھالے “
“اماں دل نہیں کر رہا”
“دو چار نوالے ہی کھالے۔ خالی پیٹ بندے کو بد دعائیں دیتا ہے”اماں نے کولی میں سالن ڈالتے ہوئے کہا۔ وہ اٹھ کر چبوترے پر پہنچ گیا۔
پیڑھی پر بیٹھا تو اماں نے سالن کی کولی سامنے رکھ دی۔ اس نے دو چار لقمے زہر مار کیے۔ کھانا حلق سے نیچے نہیں اتر رہا تھا۔ پیتل کے گلاس سے دو گھونٹ پانی پیا تو روٹی نیچے ہوئی۔ اس نے ہاتھ کھینچ لیا اور چپ چپیتا چارپائی پہ جا کے بیٹھ گیا۔ نوری نے گلی میں آکر تین بار جھینگر کی آواز نکالی۔ وہ باہر نکلا۔ نوری گلی کی نکڑ پہ کھڑا تھا۔ اسے دیکھ کر وہ اس کی طرف چل پڑا۔ وہ دونوں بابے گامے کے کھیت کی طرف چل پڑے۔ سرکنڈوں میں سے انہوں نے بوری اٹھائی۔ چھپتے چھپاتے بابو تیلی کی دکان پر پہنچے۔ بابو نے کنڈے پر بوری تولی، من سے پانچ سیر کم تھے۔ بابو نے یقینا ڈنڈی ماری تھی۔ بوری میں من بھر سے پانچ سات سیر زیادہ ہی دانے تھے۔ بابو ہاتھ دِکھا گیا تھا، وہ احتجاج بھی نہیں کرسکتے تھے۔ اس نے بوری تول کر ایک طرف رکھی۔ جیب میں سے سو سو کے آٹھ سرخ نوٹ نکالے اور نوری کو تھما دیے۔ بابو نے تولا بھی کم تھا اور اب قیمت بھی کم ادا کر رہا تھا۔ مگر وہ کچھ نہیں کہہ سکتے تھے۔ نوری نے چپ چاپ نوٹ پکڑ کے جیب میں ڈال لیے۔
“صبح سات بجے تانگوں کے اڈے پر پہنچ جانا”
“ٹھیک ہے، میں پہنچ جاؤں گا”یہ کہہ کر نوری نے اپنے گھر کا رخ کیا اور شریفے نے اپنے گھر کا۔
صبح سات بجے وہ بڑی نہر کے پل پر پہنچ گئے۔ پل کے ساتھ ٹانگوں کا اڈا تھا۔ مندی مصلی کا ٹانگہ غوث پور جانے کے لیے تیار تھا۔ شریفا اور نوری پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ تانگہ سواریوں سے بھر گیا تھا۔ مندی نے لاغر اور کمزور گھوڑے کو چھانٹا رسید کیا۔ ٹانگہ کچی سڑک پر ہچکوتے کھاتا چل پڑا۔ کوئی دو گھنٹے راستے کی دھول مٹی پھانکنے کے بعد وہ غوث پور پہنچ گئے۔ گاؤں کے باہر بابے چپ شاہ کا مزار تھا۔ میلہ زوروں پر تھا۔ مندی نے مزار کے قریب اتار دیا۔ کرایہ دے کر ان دونوں نے میلے کا رخ کیا۔ میلہ جوبن پر تھا۔ لوگوں کا جم غفیر تھا۔ نوجوانوں کی ٹولی ایک طرف کبڈی کھیل رہی تھی۔ وہ کچھ دیر کبڈی دیکھتے رہے۔ ایک جگہ درویش ڈھول کی تھاپ پر دھمال ڈال رہے تھے، وہاں کھڑے رہے۔ لوگوں کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے رہے۔ بے پناہ بھیڑ تھی۔ دونوں پسینے سے بھیگ گئے۔ پھیری والے چڑیا گھر کے دروازے سے انہوں نے دس دس روپے کے ٹکٹ لیے اور اندر داخل ہوگئے۔ پنجرے میں شیر ببر تھا، بھالو تھا، کوڈیوں والا سانپ بین پر رقص کررہا تھا۔ ایک پنجرے میں دو سہمے ہوئے بن مانس بیٹھے تھے۔ وہ چڑیا گھر دیکھ کر باہر نکلے۔ موت کے کنویں کا نظارہ کیا۔ بہت شدید بھوک لگ رہی تھی۔ وہ بھیڑ میں کہنیاں مار کے راستہ بناتے اچھے پہلوان کی دو دھ دہی کی ہٹی پر پہنچے۔ دودھ جلیبیوں کا آرڈر دیا۔ وہ کھائیں، بھوک باقی تھی۔ میٹھی سفید دودھ رس ملائیاں کھائیں۔ پیتل کے دو لمبے لمبے گلاس الائچی والے دودھ کے چڑھائے ۔ مزہ آگیا۔ سرورسا چھا گیا۔ نوری نے پیسے پوچھے۔
گلے میں چھتروں کا ہار اور منہ پر کالک مل کر پورے میلے میں پھیرایا گیا۔ لوگ انہیں مڑ مڑ کر ایسے دیکھ رہے تھے جیسے وہ پھیری والے چڑیا گھر کے بندر ہوں۔
“بادشاہو ! ڈیڑھ سو روپیہ بل ہے” اچھے پہلوان نے دودھ کا گلاس ایک گاہک کو پکڑاتے ہوئے کہا۔ نوری نے جیب میں ہاتھ ڈالا، ہاتھ ایسے نیچے اتر گیا جیسے گہرے کنویں میں ڈول اترتا ہے۔ اس نے ہاتھ باہر نکال کے پھر جیب میں ڈالا۔ ہاتھ پھر نیچے اتر گیا۔ جیسے کھائی میں کسی نے پتھر پھینک دیا ہو۔ نوری کے چہرے پر پریشانی چھا گئی۔ اس کے ماتھے پر پسینہ آ گیا۔ اس کی پریشانی کا اثر شریفے تک پہنچ چکا تھا۔ نوری کی جیب کٹ گئی تھی۔ چوروں کو مور پڑ چکے تھے۔
“پیسے نکالو! رک کیوں گئے ہو” پہلوان نے ذرا غصیلے لہجے میں کہا۔
“پیسے نکالو! رک کیوں گئے ہو” پہلوان نے ذرا غصیلے لہجے میں کہا۔
“وہ پہلوان جی بھیڑ میں کسی نے جیب صاف کردی ہے” نوری نے مرے مرے لہجے میں کہا۔
“اوئے تم تو مجھے شکل سے ہی عادی مفت خورے لگتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوئے کاکے ! اوئے بلوا! اوئے پکڑلو انہیں، مزہ چکھاؤ ذرا مفت خوری کا” اچھے پہلوان کے لہجے میں زہر تھا۔ اچھے کے ملازموں نے پکڑ کر خوب درگت بنائی۔ چھترول کی۔ کڑاہی کے تھلے سے کالک لے کر منہ کالے کیے۔ بلو اندر سے ٹوٹے لتروں کے دو ہار لے کر آگیا۔ وہ شاید انہوں نے ایسے ہی لوگوں کے لیے ریڈی میڈ رکھے ہوئے تھے۔گلے میں چھتروں کا ہار اور منہ پر کالک مل کر پورے میلے میں پھیرایا گیا۔ لوگ انہیں مڑ مڑ کر ایسے دیکھ رہے تھے جیسے وہ پھیری والے چڑیا گھر کے بندر ہوں۔ یہ تماشہ تو انہیں دس روپے کے ٹکٹ کے بغیر ہی میسر آگیا تھا۔