[vc_row full_width=”” parallax=”” parallax_image=””][vc_column width=”1/1″][vc_single_image image=”11924″ alignment=”center” border_color=”grey” img_link_large=”” img_link_target=”_self” img_size=”full”][/vc_column][/vc_row][vc_row full_width=”” parallax=”” parallax_image=””][vc_column width=”1/4″][/vc_column][vc_column width=”1/2″][vc_column_text]
طوقِ یُوسف کی آخری کڑی ٹوٹتی ہے
طرح داری کا دور بیدار ہوتا ہے
بُتِ حُسن و جمال خود نظام و نَسق ہے اب
نَوعِ آدم کا ہر ساز، سعادت کا سبق ہے اب
لیکن جُستجو کھو دینے کی جستجو میں مگن
کچھ بھولے، کچھ بھٹکے
خود سے چھپائے راستوں کے چند مسافر
چلے آتے ہیں دیکھو
رنگ اور روشنی سے عاری
کیسے ان کے مخدوش نقش
بلند بخت کے تاجِ حکمت پہ داغ
اور ان کی پتھرائی ہوئی آنکھیں
ہر پیکرِ دانش کی قبا پر جہالت کی مہر
بھوک اور افلاس میں جکڑے
یہ یوسف کے بھائی
مبتلا ہیں ہر ایک تخت کے نیچے
ہر آنکھ سے اوجھل گلی میں
ہر ایک محل کی دیوار کے پیچھے
طرح داری کا دور بیدار ہوتا ہے
بُتِ حُسن و جمال خود نظام و نَسق ہے اب
نَوعِ آدم کا ہر ساز، سعادت کا سبق ہے اب
لیکن جُستجو کھو دینے کی جستجو میں مگن
کچھ بھولے، کچھ بھٹکے
خود سے چھپائے راستوں کے چند مسافر
چلے آتے ہیں دیکھو
رنگ اور روشنی سے عاری
کیسے ان کے مخدوش نقش
بلند بخت کے تاجِ حکمت پہ داغ
اور ان کی پتھرائی ہوئی آنکھیں
ہر پیکرِ دانش کی قبا پر جہالت کی مہر
بھوک اور افلاس میں جکڑے
یہ یوسف کے بھائی
مبتلا ہیں ہر ایک تخت کے نیچے
ہر آنکھ سے اوجھل گلی میں
ہر ایک محل کی دیوار کے پیچھے
[/vc_column_text][/vc_column][vc_column width=”1/4″][/vc_column][/vc_row][vc_row full_width=”” parallax=”” parallax_image=””][vc_column width=”1/1″][vc_empty_space height=”20px”][/vc_column][/vc_row]