گرمی کی شدت کسی بھی ذی روح کو تڑپا نے کے لئے کافی تھی کچھ اس سے پناہ لینے اور دوسرا وقت بھی کھانے کا تھا سو ہم نے ایک اچھے ریستوران کا رخ کیا۔ چند لمحوں میں ہی باوردی بیرا آرڈر لینے کو آ موجود تھا ۔ اسے کھانے کی بابت تفصیل بتاتے ہی تاکیداً کہا کہ فوراً سے پہلے ٹھنڈا پانی لے کر پہنچے۔ وہ ‘جی بہتر’ کہتے ہی غائب ہوا اور ہم بیٹھ کر انتظار کرنے لگے۔ چند منٹ بعد وہ آیا اور میز پر پلیٹیں اور گلاس رکھ گیا، پانی کی تاکید بھی ہم نے دوبارہ کی اور انتظار کرنے لگے۔ چند لمحے بعد وہ ہمارے سامنے سلاد اور رائتے کی پلیٹ رکھنے آن پہنچا، ہم جو پیاس کی شدت سے جاں بلب تھے شدید تلملائے اور چیخے چلائے بھی مگر اس پر ہماری کسی بات کا کوئی اثر نہیں ہوا اور وہ اپنی مرضی سے یہ تعین کرنے میں لگا رہا کہ ہمارے لیے کیا اہم ہے۔ غرض بیرے کے کئی چکروں کے بعد تمام کھانا میز پرلگ چکا تو بھی پانی ندارد۔۔۔
پاکستان جیسا ملک جہاں کی نصف سے زائد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، جہاں صحت و صفائی کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال سینکڑوں لوگ معمولی قابلِ علاج بیماریوں سے لڑتے ہوئے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں
میں جب اس واقعے اور اپنی موجودہ حکومت اور عوام الناس کی حالت زار کا جائزہ لیتا ہوں تو کسی طور بھی صورتحال اس مندرجہ بالا واقعہ سے مختلف نظر نہیں آتی۔ پاکستان جیسا ملک جہاں کی نصف سے زائد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، جہاں صحت و صفائی کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال سینکڑوں لوگ معمولی قابلِ علاج بیماریوں سے لڑتے ہوئے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں، جن بیماریوں کے نام تک سے اب دنیا کے بیشتر ممالک آشنا نہیں رہے وہ یہاں اب بھی موجود ہیں، جہاں پینے کا پانی تک میسر نہیں اور عوام کی اکثریت گندا پانی پینے پرمجبور ہے، جہاں تعلیم کی سہولیات کا یہ حال ہے کہ آدھی آبادی نے سکول کا منہ تک نہیں دیکھا اور کئی بچے جو سکول جانے کی عمر کے ہیں وہ ہوٹلوں پر برتن دھونے اور ورکشاپس پر ٹائروں کو پنکچر لگانے پر اس لیے مجبور ہیں کہ اس کے بناء گھر کا چولہا جلنا ناممکن ہے وہاں ہمارے خادمان اعلیٰ ہمارے لیے بنیادی سہولیات کی فراہمی کی بجائے پرشکوہ سڑکوں اور میٹرو لائنوں کی تعمیر میں مصروف ہیں۔
ان بچوں میں سے اگر کوئی زندگی اور حالات سے لڑ کر کسی نہ کسی طور سکول اور کالج کی سطح سے آگے نکل بھی جائے تو یونیورسٹی کے بھاری اخراجات ادا کرنے کی سکت نہ ہونے کہ باعث ذرا بہتر انداز میں برتن دھونے اور پنکچر لگانے کا کام کرنے لگتا ہے، مگر اس سب پر ہماری حکومت کا رویہ کسی طور بھی اس ہوٹل کے ویٹر سے مختلف نہیں جو اپنے تئیں ہمارے لیے تعیش کا سامان تو فراہم کر رہا ہے مگر کسی طور بھی وہ بنیادی سہولیات فراہم کرنے کو تیار نہیں جن کی فوری اور اشد ضرورت ہے۔
میرے نزدیک ایک جاں بلب قوم کے لیے ان منصوبوں کی حثیت ایسے ہی ہے جیسے کسی پیاس سے مرتے ہوئے انسان کے گرد من و سلویٰ اور انواع و اقسام کے کھانے چن دیئے جائیں مگر پانی نہ دیا جائے۔
ہماری حکومت بھی اپنی توانائیاں اور وسائل میٹرو جیسے منصوبوں، سڑکوں اور ایسے دیگر معاملات میں صرف کر رہی ہے لیکن وہ یہ ادراک کرنے سے قاصر ہے کہ بھوک سے مرتے، پیاس سے بلبلاتے اور تعلیم کے لیے ترستے عوام کو بنیادی سہولیات درکار ہیں۔ حکمران یہ سمجھنے کو تیار نہیں کہ کسی بھی وبا کے لیے سازگار ماحول میں رہنے والی قوم صحت کی بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث موت کو ہر وقت گلے لگانے کو تیار ہے، اس قوم کو اس نوع کے منصوبوں سے زیادہ خوراک، گھر، علاج اور پانی جیسی ضروریاتِ زندگی درکار ہیں۔ حکومت جن منصوبوں پر اپنے وسائل اور توانائی صرف کر رہی ہے ان کی بجائے تعلیم و صحت کے محاز پر جنگی بنیادوں پر انقلابی نوعیت کے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ میں میٹرو یا دیگر ترقیاتی منصوبوں کی مخالفت نہیں کر رہا مگر میں ان کی وکالت بھی نہیں کر رہا کہ میرے نزدیک ایک جاں بلب قوم کے لیے ان منصوبوں کی حثیت ایسے ہی ہے جیسے کسی پیاس سے مرتے ہوئے انسان کے گرد من و سلویٰ اور انواع و اقسام کے کھانے تو چن دیئے جائیں اور اس ساری مشقت میں اسے پانی کے دوگھونٹ سے محروم رکھتے ہوئے ایڑیاں رگڑرگڑ کر جان دینے پر مجبور کر دیا جائے، سو صاحبان اقتدار خدارا اپنی ترجیہات کو درست سمت دیتے ہوئے اپنی توانائیاں استعمال کریں تاکہ اس مرتی، تڑپتی اور روتی قوم کا کچھ بھلابھی ہو سکے۔
Image: Lahore, Metro aur Aap