Laaltain

مفتی بمقابلہ مفتیان

19 جون، 2016

[block­quote style=“3”]

ادارتی نوٹ: عرفان شہزاد کا تحریری سلسلہ ‘مفتی نامہ’ ہلکے پھلکے مزاحیہ انداز میں مذہبی طبقات اور عام عوام کے مذہب سے متعلق معاشرتی رویوں پر ایک تنقید ہے۔ اس تنقید کا مقصد ایسے شگفتہ پیرائے میں آئینہ دکھانا ہے جو ناگوار بھی نہ گزرے اور سوچنے پر مجبور بھی کرے۔

[/blockquote]

مفتی نامہ کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

 

مفتی نامہ- قسط نمبر 6
ہم تو خوش تھے کہ جو کبھی نہ ہوا وہ ہوا چاہتا ہے پر خدا کے کاموں میں کس کو دخل ہے۔ ایک بار تو ہم سمجھے کہ گنگا الٹی بہنے کو ہے، سورج مغرب سے طلوع ہونے والا ہے، ہتھیلی پہ سرسوں جمائی جا سکتی ہے، شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پینے والے ہیں، بلی اور چوہے کی دوستی ممکن ہے، تارے توڑ لائے جا سکتے ہیں، زمین و آسمان کے قلابے مالائے جا سکتے ہیں، دھوپ اور چھاو کی تفریق ختم کی جا سکتی ہے مگر۔۔۔۔۔۔ کیا کیا جائے کچھ دمیں ٹیڑھی رہنے کے لیے ہی بنی ہیں، بعض کوے سفید ہی رہیں گے، کچھ مرغوں کی ٹانگ ایک ہی ہو گی اور ڈھاک کے تین ہی پات رہیں گے۔ یہ قصہ ہے چند مفتیان کے مل بیٹھنے کا۔ گو جس قدر بھی محال معلوم ہو یہ کاردشوار ہوا ہی چاہتا تھا۔ مگر قانون فطرت نے خود کو اٹل ثابت کر دکھایا کہ ہر مولوی دوسرے مولوی کو مساوی مگر متضاد قوت سے دھکیلتا ہے، اور اس قوت دفع کاانحصار دو مولویوں کے مابین مسلکی و فقہی اختلاف کی شدت کے براہ راست متناسب ہے۔

 

ہر مولوی دوسرے مولوی کو مساوی مگر متضاد قوت سے دھکیلتا ہے، اور اس قوت دفع کاانحصار دو مولویوں کے مابین مسلکی و فقہی اختلاف کی شدت کے براہ راست متناسب ہے۔
1996–97 کے لگ بھگ کا قصہ ہے کہ پنڈی اسلام آباد کے مفتیان کرام نے مل کر مجلسِ فقہ یا فقہ اکیڈمی کے قیام کا ارادہ کیا۔ جس کا مقصد مشترکہ اور متفقہ فتاویٰ کی اشاعت تھی۔ اس کی تحریک مولانا عبد العزیز (لال مسجد والے) کی طرف سے آئی تھی۔ ہمارے مفتی صاحب نے اس کی تکمیل کا بیڑا اٹھا لیا۔ رابطے اور انتظامات میرے سپرد کیے گئے۔ میں نے سب سے مل کر مفتی صاحب کا پیغام دیا اور اجلاس کا وقت طے کرایا۔ مفتی صاحب کی مسجد میں اجلاس ہوا۔ فقہ اکیڈمی کا قیام عمل میں آ گیا۔ لائحہ عمل طے کیا گیا کہ اہم فتاویٰ ایک دوسرے کو ارسال کر کے ایک دوسرے سے تصویب اور تصدیق کرائی جایا کرے گی۔ فقہ اکیڈمی کے سربراہ ہمارے مفتی صاحب قرار پائے۔ اور دیگر عہدے بھی قائم کر دیئے گئے۔ ہم بہت خوش تھے کہ مولوی لوگ بھی مل کر کام کریں گے۔ اور ہمارے مفتی صاحب کو اس ایوان کے قائد ہونے کا اعزاز ملا۔ لیکن مفتی صاحب نے بتایا کہ انہیں یہ پیشکش ان کے علمی مقام کی وجہ سے نہیں دی گئی۔ اس لیے دی گئی ہے جو صدر بنے گا، اسی کے ذمے اجلاس بلانا اور خرچہ کرنا ہوگا تو انہوں نے مجھ پر ڈال کر اپنی جان چھڑائی ہے۔ ہم بات کو اس پہلو سے دیکھنے کے ابل نہیں تھے۔

 

ابھی ایک مشرکہ فتوی بھی شائع نہ ہوا تھا کہ ایک مفتی صاحب جو پہلے اجلاس میں شرکت نہیں کر پائے تھے، اس بات پر ناراض ہو گئے کہ ان کو کوئی عہدہ نہیں دیا گیا۔ ان کو منانے کی واجبی سی کوشش کی گئی اور پھر ہمارے مفتی صاحب نے ان کو اپنی مادری زبان میں وہ بے نقط سنائی کہ انہیں آج بھی یاد ہوں گی۔

 

اس کے بعد والا قصہ زیادہ دلچسپ ہے۔ ایک دن یوں ہوا کہ مفتیانِ کرام کا اجلاس طے تھا۔ اجلاس سے ایک دن پہلے ایک مفتی صاحب ہمارے پاس آئے اور مجھے ایک فتوی دیا کہ یہ انہوں نے لکھا ہے اور یہ کہ دیگر مفتیان سے اس پر ان کی رائے لکھوا لوں۔ اور انہوں نے اجلاس میں آنے سے معذرت کر لی۔ اگلے دن وہ فتوی میں نے پنڈی کے دو مفتیان کو پیش کیا۔ انہوں نے پڑھا اور کہا کہ فتوی غلط ہے۔ پھر انہوں نے اس پر اپنی رائے لکھی کہ سوال گندم اور جواب چنا۔ درست یوں اور یوں ہونا چاہیے۔ فلاں فلاں کتب سے مراجعت کیجئے۔

 

فتی صاحب نے بتایا کہ انہیں یہ پیشکش ان کے علمی مقام کی وجہ سے نہیں دی گئی۔ اس لیے دی گئی ہے جو صدر بنے گا، اسی کے ذمے اجلاس بلانا اور خرچہ کرنا ہوگا تو انہوں نے مجھ پر ڈال کر اپنی جان چھڑائی ہے۔
اگلے دن فتوی دینے والے مفتی صاحب آئے تو میں نے شرمندگی سے ان کا فتوی ان کے حوالے کیا۔ فتوی پر لکھی عبارات پڑھ کر وہ ہنسے اور مجھے کہا کہ یہ فتوی میرا نہیں تھا۔ یہ تو مفتی محمود دیو بندی کا فتوی تھا جو کچھ مختلف نوعیت کا تھا۔ میں نے اسے نقل کر کے نیچے اپنا نام لکھ دیا کہ دیکھوں یہ ‘جید’ مفتیان کیا فرماتے ہیں۔ اب اگر کبھی یہ میرے خلاف بولے تو میں ان کی علمیت کا پردہ چاک کردوں گا کہ انہوں نے مفتی محمود دیوبندی کے فتوی کو غلط قرار دیا ہے۔ یہ سن کر میں نے دل ہی دل ان کی ‘ذہانت’ کی داد دی۔ اگلے دن جب اپنی رائے لکھنے والے دونوں مفتیان سے ملا تو دونوں نے بڑی بےتابی سے پوچھا کہ کیا وہ فتوی ابھی میرے پاس ہے یا میں نے مذکورہ مفتی صاحب کو دے دیا۔ میں نے بتایا کہ دے دیا۔ انہوں نے فرمایا کہ وہ فتوی درست تھا۔ بس رائے لکھنے میں جلدی کر دی۔
مولانا عبد العزیز جنہوں نے اس فقہی تنظیم کا خیال پیش کیا تھا، مفتیان نے انہیں اس مجلس سے یہ کہہ کر نکال دیا کہ وہ مولانا ہیں مفتی نہیں۔ پہلے وہ ان کی طرح مفتی بنیں پھر ان کی طرح فتوے دیں۔

 

مفتیان حضرات کی ان حرکتوں کی وجہ سے کسی ایک بھی مشرکہ فتوی کے اجراء سے پہلے ہی فقہ اکیڈمی اپنے منطقی انجام کو پہنچ گئی۔
خدا کرے ملی وحدت کا خواب بھی جلد پورا ہو۔

Art Work: Asad Fate­mi

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *