یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب میں نے دسویں جماعت کے پرائیوٹ امتحان کا فارم بھرا تھا اورمجھے انگریزی پڑھنے کے لیے کسی اچھے استاد کی ضرورت تھی۔ایک صاحبہ اس سکول میں بھی پڑھایا کرتی تھیں، جسے میں نے معاشی مجبوریوں کی وجہ سے آٹھویں جماعت میں ہی چھوڑ دیا تھا۔ پھر اک دن جب میں یونہی واہی تواہی دوستوں کے ہمراہ گھومتا گھامتا، آوارہ گردی کرتا گھر پہنچا تو میری والدہ نے بتایا کہ انہوں نے سکول کے پرنسپل سے بات کرلی ہے اور وہ اب چاہتی ہیں کہ میں دسویں جماعت کا فارم بھردوں۔ میں یہ بات ٹال دیتا مگر ان کے لہجے میں ایک عجیب قسم کی بے چارگی تھی، اس بے چارگی کا قصہ اور اسباب کبھی اور ذکر میں لائوں گالیکن ہوا یہ کہ پھر میں نے فارم بھر دیا۔ایڈمیشن کے بعد سکول نے مجھے یہ رعایت دی تھی کہ میں جب چاہوں دسویں کی کلاسز اٹینڈ کرسکتا ہوں، مگر میں بہت کم سکول گیا، ان دنوں زمین کی پیروں سے نئی نئی شناسائی ہوئی تھی، ہم گلی محلوں کے نقشے ناپا کرتے،دوستوں کے ساتھ مل کر کبھی سانگلی، کبھی ران گائوں اور وسئی اور اس کے مضافات کی پیدل یا سائیکل پر خوب سیر کیا کرتے۔ وہ بلڈنگ، جس میں ہم کبھی بڑی شان سے رہا کرتے تھے، اب اس کی گریل میں سے جھانکتی ہوئی سلائڈنگ کی چھلی ہوئی بغلیں، ان گلابی دیواروں کے سایے سے دکھایا کرتی تھیں، جن کو دیکھ کر سولہ برس کی عمر کا ایک لڑکا کافی ناسٹلجیک ہوجایا کرتا تھا۔بہرحال ہم پھر بھی ناریل کے جھومتے ہوئے درختوں، ان پر سینہ پھلاتے گرگٹوں کو دیکھتے ہوئے، بلڈنگ کے اوبڑکھابڑ میدان میں جس پر کسی قیدی کے گالوں کی طرح ان چاہی گھانس اگ آتی تھی، روز کھیلا کرتے تھے۔اس عمر میں دھوپ کی ہتھیلیوں سے بچنے کے لیے ہم سڑکوں پر اونگھتے ہوئے آٹورکشا میں بیٹھ جایا کرتے، کسی دوست کی لڑائی ہورہی ہے تو ساتھ لگ لیے،مچھلی بازار میں، مین مارکیٹ میں، کنوئوں پر، مندر کے باہر اور کونونٹ کے ارد گرد، صبحوں، شاموں اور ان کے درمیان یا اگلی پچھلی ساعتوں میں دوست سگریٹ پھونکا کرتے، گالیاں بکا کرتے اور بلے بازی اور گیند بازی کی نت نئی ترکیبوں پر گفتگو کرتے۔الغرض چھوٹی عمر میں بڑے دریا عبور کرنے لگے۔والد ایک بڑے معاشی نقصان کی تلافی میں دن بہ دن سفید داڑھی کا لبادہ اوڑھتے جارہے تھے، اس دوران وہ اپنی عمر سے کئی گنا بوڑھے معلوم ہونے لگے، ان کی شاندار ماضی والی زندگی، جس کے قصے، ہم مزے لے لے کر ان سے اسی بچھڑے ہوئے فلیٹ کی ٹھنڈی اور چکتے دار زمین پر بیٹھ کر سنا کرتے تھے، اب خود ان کی نگاہوں سے اوجھل ہوتی جارہی تھی اور اس کی جگہ ایک پپڑی زدہ چیخ اور چبھتی ہوئی کاروباری غلطیوں کے احساس نے لے لی تھی۔لیکن میری ماں، جو کہ سخت حالات میں کسی دہقانی لہجے کی طرح ٹھوس اور مضبوط بنی رہیں، اپنے نرم ہاتھوں سے ہمیں راتوں میں نوالہ کھلاتے ہوئے ضرور سوچا کرتی تھیں کہ زندگی کا یہ طریقہ نامناسب اور ناقابل قبول ہے اور اگر یہی سب یونہی چلتا رہا تو ایک دن حالات کے یہ مہین کیچوے میرے بچوں کو اپنے لجلجے پیٹ میں اتارلیں گے۔
بہرحال ایڈمیشن کے بعد میں سب سے پہلے سکول میں پڑھانے والی استاد سلطانہ باجی کے پاس پڑھنے کے لیے گیا۔ کچھ روز تک ان کے یہاں ٹیوشن جانے کے بعد میں نے اور دوسرے دوستوں نے فیصلہ لیا کہ ہمیں یہ ٹیوشن چھوڑدینی چاہیے۔وہ ایک تھل تھل پیٹ اور پھیلے ہوئے سینے والی عورت تھیں، خفا ہوتیں تو اپنا اوپری موٹا ہونٹ، جو کہ ان کے نچلے ہونٹ کی دبازت کے لحاظ سے کچھ دبلا تھا، ناک پر ٹکا کرہمیں گھورنے لگتیں۔ان کے یہاں پڑھائی کم ہوتی تھی، گھر کے کام زیادہ کرنے پڑتے تھے، گھر ان کا بھی بڑے خوبصورت مقام پر تھا، گرائونڈ فلور پر بیٹھے ہوئے ہم اکثر باہر پھیلے ہوئے نمک کے کھیتوں میں کام کرتے ہوئے کسانوں کو دیکھا کرتے۔وہ بڑے بڑے ٹوکروں میں وائپر نما کسی بڑی سی چیز سے نمک حاصل کرکے ٹوکروں میں انڈیلتے تھے اور عورتیں انہیں اٹھا کر اپنی علیحدہ سجی ہوئی جھونپڑیوں کے پچھلے حصے میں ڈھیر لگایا کرتی تھیں۔ہم چونکہ سکول میں تمام ٹیچرز کو باجی ہی کہا کرتے تھے، اس لیے سلطانہ بھی اس رشتے سے ہماری باجی ہی ہوتی تھیں، مگر ان میں باجیوں والی کچھ عجیب سی حرکتیں بھی تھیں، مثال کے طور پر برتن دھلوانا، جھاڑو دلوانا، موٹی موٹی بھیگی ہوئی دریوں کو لڑکوں کی مدد سے نچڑوا کر پھیلوانا۔یہ سب کام اضافی مشقت کے زمرے میں آتے تھے، چنانچہ یہاں سے بھاگ لینا زیادہ مناسب تھا۔ہم نے وہ ٹیوشن چھوڑ دی، پھر کسی روز مجھے معلوم ہوا کہ ایک صاحبہ ہیں جو ہمارے ہی اردو میڈیم سکول سے پڑھی ہوئی ہیں، اور بچوں کو انگریزی پڑھاتی ہیں،میں ان صاحبہ سے کچھ کچھ واقف تھا، وجہ یہ تھی کہ ایک سال پہلے بھی، جب میں نے والدہ کی زبردستی پر فارم بھرا تھا تو انگریزی کی ٹیوشن کے لیے ان کے پاس گیا تھا، مگر چونکہ مجھے امتحانات دینے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، اس لیے صرف بات کرکے واپس آگیا، جب میں نے پہلی دفعہ انہیں دیکھا تھا تو وہ ایک شال میں لپٹی ہوئی تھیں، ان کے بالوں پر ایک ہلکا شفون کا دوپٹہ تھا، جو بار بار سرک جاتا تھا، آنکھوں کی لکیروں پر ہلکا کاجل اور وہ باتیں کرتے وقت اپنے سیدھے ہاتھ کو کچھ جنبش بھی دیتی تھیں۔بہرحال، جب ایک سال بعد دوبارہ انہی کی چوکھٹ پر جانا پڑا تو معلوم ہوا کہ ان کا نام صفیہ ہے، سارے طلبا انہیں صفیہ باجی کہہ کر پکارتے تھے، سو ہم بھی پکارنے لگے۔
لوگوں نے عشقیہ جذبات اور والہانہ تعلقات کے ساتھ کچھ عجیب و غریب سے جھوٹ گھڑ رکھے ہیں، یہ جھوٹ ڈائجسٹوں میں رومانی کہانیاں لکھتے اور بالی ووڈ کی فلمیں بناتے وقت بہت کام آتے ہیں، مگر حقیقی زندگی میں ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ آپ کسی کو دیکھیں اور دیکھتے ہی آپ کو محبت ہوجائے۔محبت برتے بغیر ممکن ہی نہیں ہے، لگاؤ یا نسبت بغیر ذہنی ہم آہنگی کے کیسے ممکن ہے۔ہم کیا سوچتے ہیں، کیا سمجھتے ہیں، کسے کتنا جانتے ہیں اور پرکھتے ہیں، اسی کے بعد تو ہم اس انسان کے ساتھ مل کر جذبات کی ہانڈی تیار کرسکتے ہیں۔دل ملتے ہی نہیں کبھی، حقیقت میں صرف دماغ ملا کرتے ہیں، مگر یہ نکتہ ہماری لسانیاتی جمالیات کو ہلکا سا مجروح کرتا ہے کہ ‘میرا کسی شخص پر دماغ آگیا ہے’ اس لیے ہم یہاں دل کو دماغ کو متبادل بناکر حسن کی ایک پرفیکٹ دنیا بنایاکرتے ہیں۔صفیہ باجی کا مکمل نام صفیہ حبیب الرحمٰن انصاری تھا۔میں نے بہت بعد میں غور کیا تو معلوم ہوا کہ ہماری اخلاقیات ہمیں اس قدر جھوٹ سکھاتی ہے کہ دنیا کی تمام چالاکیاں اس کے آگے ہیچ ہیں۔آخر جن لوگوں سے ہمارا صرف اتنا تعلق ہو کہ ہم ان سے کسی خاص معاملے پر تعلیم حاصل کریں، انہیں باجی کہنے کا مطلب ہی کیا ہے۔ہم نے کبھی کسی مرد ٹیچر کو تو باپ یا بڑے بھائی کا درجہ نہیں دیا، لفظی سطح پر بھی نہیں۔ ہم نے کبھی کسی ایسے مرد کو جو ہمیں پڑھاتا رہا ہو، فلاں بھائی یا بھیا کہہ کرپکارنے کی ضرورت محسوس نہیں کی،آخر وہ نظریہ حیات کتنا منجمد اور تنگ ہوگا، جو سکول کے چھوٹے چھوٹے بچوں سے یہ خوف کھاتا ہے کہ اگر یہ ان عورتوں کو جو انہیں پڑھاتی ہیں، باجی نہیں کہیں گے تو ان سے کوئی جذباتی یا جنسی رشتہ قائم کربیٹھیں گے۔اب یہ عورتوں پر عدم اعتماد کی وجہ سے ہے یا بچوں کے لیے کسی قسم کا حفظ ما تقدم، مگر ہے بڑی بھونڈی بات۔ہمیں یاد ہے کہ ہم اپنے سکول میں چھٹی، ساتویں جماعت میں ہی سعدیہ اور شگفتہ نام کی دو ‘باجیوں’ کو بڑی حسرت آمیز نگاہوں سے دیکھا کرتے تھے۔ان کے حسن کو سراہتے اور یقینی طور پر اس ستائش میں ہوس کا پہلو بھی شامل تھا۔ہم خوابوں میں انہیں دیکھتے اور مشترکہ طور پر ہم بہت سے دوستوں کی یہ رائے تھی کہ وہ دونوں بہت خوبصورت ہیں اور کسی فلمی ہیروئن سے کم معلوم نہیں ہوتیں۔ باجی نام کا کوئی بھی لفظ، ان کے لیے ہمارے جذبات کو ابھارنے سے روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکا اور ہم نے ان کے تعلق سے نت نئے خیالات سجائے، ان سے باتیں کرکے حظ اٹھایا اور نوجوانی کی اس کچی دہلیز پر جہاں ہماری شریانیں، جنسی جذبات سے بالکل ابھی ابھی واقف ہوئی تھیں، ان کی قربت کو خود کے لیے بہت فرحت بخش محسوس کیا۔آپ اسے عمر کے کسی بھی پڑائو پر پرورٹ قسم کی سوچ سے تعبیر کرسکتے ہیں، مگر حقیقت یہی ہے کہ جسم دریا بنتے بنتے، سمندروں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں اور یہ ایک ننگی حقیقت ہے، جس سے بچنا ممکن نہیں۔
الغرض صفیہ حبیب الرحمٰن انصاری کے یہاں میرا ٹیوشن جانا شروع ہوا، میں نے قریب چھ مہینے ان سے انگریزی پڑھی۔انگریزی میں رفتہ رفتہ میرا دل دوسرے مضامین کی بہ نسبت زیادہ لگنے لگا۔ وجہ یہ تھی کہ میں انہیں پسند کرنے لگا تھا، ان کی بولتی ہوئی آنکھوں میں ہرنیوں کی سی قلانچیں موجود تھیں، ان کی چمکدار سیاہ پتلیوں پر کانچ کی سی رمق تھی، وہ ایک سخت مذہبی گھرانے میں پلی بڑھی تھیں، ان کے والد ایک وہابی مولوی تھے، جو کہ جمعے کی نماز پڑھانے کے لیے اپنے گھر سے قریب آٹھ کلو میٹر دور ایک مسجد میں جایا کرتے تھے۔دو بھائی تھے، جن میں ایک شاید باہر گائوں (دبئی وغیرہ) میں تھا اور ایک کسی گیراج میں کام کیا کرتا تھا۔ ایک چھوٹی بہن بھی تھی، شگفتہ نام کی، جوپہلے ہماری کلاس میٹ بھی رہ چکی تھی۔صفیہ کا حسن اپنے گھر میں سب سے الگ تھا، ان کی شکل و شباہت میں بھائیوں اور بہن والا نقشہ تو ہلکا ہلکا ضرور تھا، مگر حسن کی تیزی ایسی تھی کہ بہت دیر تک آنکھیں ملانا ممکن نہ تھا۔باتوں میں بلا کا اعتماد، ہنسی ایسی، جیسے سرسوں کی بالیوں سے پیدا ہونے والے رقص کی آواز ہو، دانت سفید، چمکدار موتیوں کی طرح، دہانہ نہ بہت بڑا، نہ بالکل چھوٹا۔ جب وہ باتیں کرتی تھیں تو کئی بار ماتھے پر شکنیں پیدا ہوجایا کرتیں، مگر یہ بہت خوبصورت سی شکنیں تھیں، جیسے بے فکر نیندوں میں چکنی پنڈلیاں، سفید چادروں پر سلوٹوں کا حسن دریافت کرتی رہتی ہوں۔
میرے ساتھ ایک بات یہ ہوئی تھی کہ چونکہ میں پرائیوٹ تعلیم حاصل کررہا تھا، اس لیے انہوں نے مجھے دوسروں سے الگ طور پر پڑھانے کا فیصلہ کیا۔یہ کوئی خوش فہمی کی بات نہ تھی، بلکہ ان کی ایک طالب علم کے لیے خاص توجہ کا معاملہ تھا۔وہ چاہتی تھیں کہ میں کسی طرح اچھے نمبر لاؤں، وہ میری اردو سے کچھ متاثر بھی تھیں، انہیں معلوم ہوا کہ میں اس سے پہلے کچھ شاعری واعری کرتا رہا ہوں تو انہوں نے ایک دن میری ڈائری منگا کر دیکھی، اس میں بہت سی نعتیں، بزرگوں کے لیے مناقب اور منظوم شجرے لکھے ہوئے تھے، جو کہ میں نے اس زمانے میں قصص الانبیا، تذکرۃ الاولیا، سفینۃ الاولیا جیسی بہت سی کتابیں پڑھ کر لکھے تھے۔نظریاتی اعتبار سے انہیں یہ سب کچھ پڑھ کر غصہ آنا چاہیے تھا، مگر ایسا کچھ نہ ہوا، انہوں نے انہی چیزوں کی بہت تعریف کی اور مجھ سے پوچھا کہ شاعری، اتنی عمر میں اتنی کیسے کرلیتے ہو۔میں نے پتہ نہیں کیا جواب دیا، مگر اسی طرح کی غیر روایتی باتوں نے مجھے ان کے قریب کردیا۔ میں دن میں زیادہ تر وقت وہیں رہا کرتا تھا، جب وہاں جانا ہوتا تو والد کی اچھی اچھی شرٹیں، جو کہ میرے پتلے بدن پر کافی پھیلی ہوا کرتی تھیں، اپنی جھولا نما پینٹوں کے ساتھ پہن کر وہاں جایا کرتا۔حیرت کی بات یہ تھی کہ کبھی انہوں نے مجھے کپڑوں پر ٹوکا نہیں، مجھے یہ احساس نہ دلایا کہ میں حد سے زیادہ ان کے قریب آنے کی کوشش کررہا ہوں اور ایک عجیب قسم کی سچویشن پیدا کرنے کی کوشش میں ہوں، جس میں اس توقع کے شائبات شامل ہیں کہ میں ان سے اظہار عشق بس کرنے ہی والا ہوں۔مگر، انہوں نے کسی بات پر کبھی برا نہیں منایا۔بہت سی خالی دوپہریوں میں جب ان کے گھر پر ٹاٹ کے پردے پڑے تپ رہے ہوتے، میں ان کے ساتھ ایک الگ تھلگ کمرے میں بیٹھ کر اوٹ پٹانگ باتیں کیا کرتا، مجھے ان کو دیکھتے رہنا ہی بہت پسند تھا۔شاید میری زندگی کا ایک سب سے گہرا جذباتی پہلو یہی ہے کہ میں جس لڑکی یا عورت کے حسن کو پسند کرنے لگتا ہوں، اور اتفاق سے اگر اس کے ساتھ میری ذہنی ہم آہنگی بھی ہو تو اس سے جدائی کا کوئی بھی لمحہ مجھے پریشان کرتا ہے۔ اب تو خیر میں نے اپنی تربیت اس طرح کرلی ہے کہ جی کو کہیں اور لگا لیتا ہوں، مگران دنوں معاملہ ایسا نہیں تھا، میں ذرا ذرا سی دیر کے لیے بھی ہڑکنے لگتا اور جس وقت گھر پر رہا کرتا، صرف گھڑی دیکھا کرتا، حد تو یہ تھی کہ جب ان سے رخصت لیتا تو دل ہی دل میں اگلے دن کی ملاقات میں حائل گھنٹوں کو ناپنے لگتا۔جیسے جیسے وقت گزرتا، میرے دل کی دھڑکنیں بڑھنے لگتیں اور کئی بار میں وقت سے بہت پہلے تیار ہوکر گھر سے نکل جایا کرتا، راستوں میں سست رفتار سے چلتا، کہیں بیٹھ جایا کرتا، مجھے یاد ہے کہ بارہ بجے کے معینہ وقت پر پہنچنے کے لیے کئی دفعہ میں گھر سے گیارہ بجے نکل گیا، جبکہ ان کے گھر کا فاصلہ میرے گھر سے یہی کوئی آٹھ دس فرلانگ کا تھا۔راستے میں ایک مزار کا احاطہ پڑتا تھا، جس میں ایک ساتھ چار پانچ قبریں ہوا کرتی تھیں، میں دھوپ میں وہیں بیٹھ جایا کرتا، سامنے کچھ کھپریلوں والے پکے گھر تھے، ایک چھوٹا سا میدان اور اس کے بیچوں بیچ ایک کنواں۔ پائوڈر گلے پر تھپا ہوا ہے، جسے چھپانے کے لیے میں نے کالر کا بٹن لگا رکھا ہے، جوتے ہلکے پھٹے ہوئے ہیں، کہیں سے کچھ کھٹک رہاہے، مگر میں ہوں کہ کسی بات کا دھیان ہی نہیں۔بس ایک ہی دھن ہے کہ شاید اب بیس منٹ گزر گئے ہونگے، شاید اب چالیس منٹ۔کئی دفعہ راستے میں ظہیر ملا کرتا تھا، جس کے ساتھ میں قیوم بھائی جوتے والے کی دکان پر کچھ عرصہ کام کرچکا تھا۔مدت بہت کم تھی، مگر وہ بھی چونکہ میری طرح پتلا دبلا لڑکا تھا، اس لیے ہماری گاڑھی چھننے لگی تھی۔مگر ظہیر سے زیادہ مجھے اس وقت اس وقتی فاصلے کے کم ہونے کی فکر رہتی تھی، جسے عرف عام میں ‘گھنٹہ’ کہا کرتے ہیں۔
صفیہ کی اپنی قد کاٹھی بہت چست درست تھی، ایسا لگتا تھا کہ وہ قدرت کا کہا ہوا ایک ایسا شعر ہیں، جس میں کہیں سے کوئی لفظ زیادہ یا کم کرنے کی گنجائش ہی نہیں۔میں ان کے ساتھ تنہائی میں کیا باتیں کرتا تھا، کوئی ایسی عاشقانہ باتیں نہ تھیں، اس کے لیے بڑی ہمت چاہیے تھی، مجھے یاد ہے کہ میں نے ٹیوشن چھوڑنے کے بعد ایک طویل خط لکھا تھا، جسے دو ایک دفعہ اپنے دوستوں کی مدد سے انہیں پہنچانا چاہا، مگر وہ بھی میری ہی طرح نکھٹو نکلے۔میرا بس چلتا تو آنکھوں کو صرف اسی کام پر لگادیتا کہ انہیں دیکھتی رہیں، مگر یہ سب ممکن نہ تھا۔ ہائے ! کیا دن تھے، پڑوس میں آباد قبرستان کے دامن پر بہت سے گھنے اور پتلے دبلے پیڑ تھے، ان پیڑوں پر ہر وقت مختلف رنگوں اور نسلوں کی چڑیائیں سریلی آوازیں پیدا کرتی رہتی تھیں، اس کمرے کے باہر ایک ہرے رنگ کی دیوار تھی، برابر میں ایک پلنگ پڑا رہتا تھا، جس پر شام کو اکثر ان کی امی بیٹھا کرتی تھیں،صفیہ بتاتی تھیں کہ جب قبرستان میں لڑکے کرکٹ کھیلتے ہیں تو میں اور شگفتہ اسی دیوار سے میچ دیکھا کرتے ہیں، ان کے گھر میں اس زمانے میں ٹی وی نہیں تھا۔جب کبھی باہر جانا ہوتا، وہ ایک کالے چست برقعے میں اپنے آپ کو ڈھانپ لیا کرتی تھیں اور اس طرح ان کے بدن پر صرف دو چمکدار آنکھیں رہ جایا کرتی تھیں۔ اپنے خیالات سے وہ ہمیشہ لبرل تھیں، انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ وہ وکیل بننا چاہتی تھیں مگر پڑوس میں رہنے والے انگریزی کے کہنہ مشق استاد جنہیں ہم سب سعید سر کے نام سے جانتے تھے، ان کے والد کی آواز سے آواز ملا کر ہمیشہ انہیں بڑی شفقت سے بتاتے کہ بیٹا! یہ پیشہ لڑکیوں کے لیے مناسب نہیں ہے۔تم ایک پڑھے لکھے مذہبی خاندان سے تعلق رکھتی ہو اور وکالت کے پیشے میں سو طرح کے جھوٹ بولنے پڑتے ہیں،میں نے اسی وقت ان سے کہا تھا کہ میں آپ کے والد کو قائل کرسکتا ہوں، حالانکہ یہ سراسر جھوٹ تھا اور وہ بھی اس بات کو جانتی تھیں کہ ان کے والد کو جو کہ محلے میں مشہور ایک باعزت مولوی کی سی حیثیت رکھتے ہیں اور خاندان کی چوکھٹ سے اندر اور باہر بڑی دور تک حبیب اللہ انصاری کے رعب و دبدبے کی دھوپ پھیلی ہوئی ہے، اس بات پر آمادہ کرنا ناممکن ہے کہ وہ بیٹی کو کسی بھی قسم کا ایسا کام کرنے کی اجازت دیں جو سو مردوں کے بیچ میں کھڑے ہوکر جرح کرنے کی نسبت سے بدنام ہے۔اکثر وہ جھنجھلاتی بھی تھیں اور ان کا یہ احتجاج ‘شادی نہ کرنے کی صورت میں’ نمایاں ہوا کرتا تھا۔
وہ مجھ سے عمر میں سات برس بڑی تھیں، یعنی کہ میں سترہ سال کا تھا اور وہ چوبیس سال کی تھیں۔اب اس حادثہ راہ و رسم کو قریب تیرہ چودہ سال گزر گئے ہیں، مگر اب بھی وہ چہرہ آنکھوں میں دمکتے ہوئے سورج کی طرح روشن ہے، وہ آنکھیں، گالوں میں پڑھنے والے گڑھے، وہ مسکراہٹ، وہ تیکھے نقوش، وہ لہجہ، وہ آواز سب کچھ گویا دل کے کسی خاص کمرے میں رکھا ہوا ہے، اس کمرے میں خود کو جانے کی اجازت بھی میں روز روز نہیں دیتا، کوئی بھی حادثہ، کوئی بھی واقعہ زندگی کے ان چھ مہینوں کی یاد اب شاید ہی کبھی دھندلا سکے۔اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ میں نے سب سے پہلے انہی کے لیے غزل لکھی تھی، میرے کہنے کا مطلب ہے کہ قافیہ بندی (جسے اصل میں تک بندی کہنا چاہیے)غلط سلط تلفظات کے ساتھ ٹوٹی پھوٹی بحروں میں تو میں بہت پہلے سے کرتا تھا، یعنی شاید پانچویں جماعت میں میں نے کلاسیکی رنگ کی ایک غزل کہی تھی، پھر دوسری اور تیسری۔میرے والد ان غزلوں کو سنتے، ہنستے بھی اور حوصلہ افزائی بھی کرتے جاتے۔ایک اچھی بات انہوں نے یہ کی کہ کبھی ٹوکا نہیں، گرپڑ کر، دوڑ ہانپ کر اسی وجہ سے میں نے خود ہی شاعری کو سیکھا، شاعری مجھے ان موٹی موٹی کتابوں نے نہیں سکھائی، جنہیں ‘حسن بلاغت’ یا ‘آئینہ بلاغت’ کے نام سے جانا جاتا ہے، بلکہ شاعری کا فن تو میں نے صفیہ کے حسن سے کشید کیا تھا۔دوسرے بچوں کی طرح میں بھی انہیں باجی تو کہتا تھا مگر اب یہ لاحقہ میرے لیے بالکل ہی بے معنی تھا، دوسرے طلبا بھی مجھ سے ان کا نام لے لے کر ہنسی ٹھٹھول کیا کرتے تھے۔
میرا ایک کزن ترجمان جو کہ انگریزی میڈیم میں پڑھا کرتا تھا، ان سے کافی اچھی طرح واقف ہوگیا تھا۔میں نے ہی ان دونوں کی ملاقات صفیہ کی سالگرہ پر کروائی تھی، وہ مجھے بہت ٹھیلا کرتا تھا کہ کسی طرح میں ان کو یہ بتادوں کہ میرے دل میں ان کے لیے کیا جذبات ہیں، کیا باتیں ہیں، جو مجھے ان سے کہنی چاہیے، مگر میں سمجھ نہیں پاتا تھا کہ آخر یہ سب باتیں کیسے کہی جاتی ہیں۔پھر یہ ہوا کہ ٹیوشن کا عرصہ ختم ہونے کے بعد بھی میں ان کے پاس جاتا رہا، ان سے جھوٹ کہتا رہا کہ میں فلمی دنیا میں کیرئیر بنائوں گا، مجھے لگتا تھا کہ شاید یہ دائو ان پر کچھ کام کرجائے اور وہ ایک دن خود ہی محبت کا اظہار کربیٹھیں۔مگر ظاہر ہے ایسا کچھ بھی تو نہیں ہونا تھا۔
وقت بھی کیا چیز ہے، گزر جاتا ہے اور بڑی بڑی باتوں کو ایسے بہادیتا ہے، جیسے سنامی قد آدم عمارتوں کے پائوں اکھاڑ کر انہیں سمندر کے گہرے نیلے پیٹ میں ڈبو کر شانت ہوجاتی ہے۔صفیہ حبیب الرحمٰن انصاری، میری زندگی کا ایسا ورق ہے، جس کو میں بھول نہیں سکتا۔ان سے تعلق کیسے ٹوٹا، یہ ایک الگ داستان ہے، مگر اس داستان کو بیان کرنے سے کیا فائدہ۔ وقت گزر گیا ہے، اور اس کے بس میں محض اتنا ہے کہ وہ دھیرے دھیرے میرے چہرے کو گوشت کی کمی زیادتی، کھال کی اترن اور چڑھن کے ساتھ مختلف روپ میں ڈھالتا رہے گا، پھر دھیرے دھیرے جھریاں پڑ جائیں گی اور اس کے بعد ایک دن میں اس دنیا سے ساری یادداشتیں اور تجربے لے کر ایک سنسان قبرستان میں دفن ہوجائوں گا۔کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ قبرستان دہلی کا ہو، کہیں اور کا ہو یا پھر وہ ہو، جس کی گہری بھوری آنکھیں، میرے اور صفیہ کے ہمراہ گزارے ہوئے چھ مہینے کی گواہ ہیں۔