شخصی آزادیوں کے حوالے سے پاکستانی ریاست اور اس کے اداروں کا ماضی یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ سائبر جرائم کی روک تھام کا قانون 2015 کس طرح اور کن مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
شخصی آزادیوں کے حوالے سے پاکستانی ریاست اور اس کے اداروں کا ماضی یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ سائبر جرائم کی روک تھام کا قانون کس طرح اور کن مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ اس قانون میں بھی پاکستانیت اور ملکی سلامتی کی سرکاری تعریف سے انحراف کرنے والوں کی زباں بندی کا ایک حربہ بننے کے تمام تر امکانات موجود ہیں۔ ایک ایسے ماحول میں جہاں ابلاغ عامہ کے ذرائع ملک کے طاقتور حلقوں خصوصاً سیکیورٹی اداروں، بلوچستان کے حالات، مذہبی بنیاد پرستی اور ریاستی اداروں کے ہاتھوں انسانی حقوق کی خلاف ورزی جیسے موضوعات پر گفتگو سے گریزاں ہیں، سائبر سپیس پر شہریوں کی جانب سے شیئر کیا جانے والا مواد بھی اگر ریاست کے مقرر کردہ پیمانوں پر پرکھا گیا تو یہ پاکستان میں آزادی اظہار رائے کے لیے ایک دھچکہ ثابت ہو گا۔ ملکی سلامتی کے اداروں، بین الاقوامی تعلقات، عدلیہ اور مذہب پر تنقید کو قابل تعزیر قرار دیا جانا آزادی اظہار رائے کے آئینی حق اور انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ یہ قانون سائبر مارشل لاء کی راہ پر پہلا قدم ہے جس کے تحت انفرادی سطح پر آزادی اظہار کے راستے مزید مسدود ہوں گے۔
اس قانون سے خوف زدہ ہونے اور اس کی مخالفت کرنے کے لیے یہ جواز بھی ایک اہم بنیاد فراہم کرتا ہے کہ اس قانون میں انٹرنیٹ کے استعمال کی آزادی کے لیے کام کرنے والی تنظیموں، انسانی حقوق کے کارکنان، کاروباری طبقات اور حزب اختلاف کے اعتراضات اور مجوزہ ترامیم کو شامل نہیں کیا گیا۔ قومی اسمبلی سے اس قانون کا منظور ہو جانا پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں انسانی حقوق اور شخصی آزادیوں سے متعلق پائی جانے والی عدم دلچسپی کا واضح مظہر ہے، یہ اس امر کا بھی اظہار ہے کہ ہمارے ہاں ابھی تک قومی سلامتی اور ریاست کو انسانی حقوق اور فرد پر مقدم خیال کیا جاتا ہے۔ اس قانون میں سائبر جرائم کی روک تھام کی بجائے انٹرنیٹ مواد کی نگرانی اور (سرکاری اداروں یا پریشر گروپوں کے لیے) قابل اعتراض مواد ہٹانے کے اختیارات حکومتی اداروں کو دینے پر زیادہ توجہ دی گئی ہے جس کی وجہ سے اس قانون سے متعلق تحفظات میں اضافہ ہوا ہے۔ گو بعض صورتوں میں ڈیٹا تک رسائی اور ڈیٹا کے حصول کو عدالتی وارنٹ سے مشروط کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود اس قانون کے اطلاق میں سرکاری اداروں کے عمل دخل اور دائرہ کار سے متعلق تحفظات دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس تاثر کو دور کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ یہ قانون ریاست کو مزید اختیارات دینے اور شہری آزادیاں محدود کرنے کا باعث بنے گا۔ ریاستی اداروں کو ایسی انٹرنیٹ معلومات اور ڈیٹا تک رسائی حاصل کرنے کے اختیارات فراہم کرنا جو ذاتی اور خفیہ خیال کی جاتی ہیں یقیناً نجی زندگی میں ریاستی مداخلت کے مترادف ہے۔
اس قانون میں انٹرنیٹ کے استعمال کی آزادی کے لیے کام کرنے والی تنظیموں، انسانی حقوق کے کارکنان، کاروباری طبقات اور حزب اختلاف کے اعتراضات اور مجوزہ ترامیم کو شامل نہیں کیا گیا۔
سائبر جرائم کی روک تھام کے لیے قانون سازی کی ضرورت اور منتخب حکومت کے حق قانون سازی کی مسلمہ آئینی حیثیت کے باوجود ریاست اور اس کے اداروں کی جانب سے ماضی میں آزادی اظہار رائے کو محدود کرنے کے لیے بھی وہی جواز اختیار کیے گئے ہیں جو اس قانون میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو آن لائن مواد پر پابندی لگانے کے لیے اختیار کیے گئے ہیں۔ سائبر کرائم بل 2015 کی شق 31 کے مطابق پی ٹی اے کو “اختیار حاصل ہے کہ وہ معلومات کے کسی بھی نظام (انفارمیشن سسٹم) کے ذریعے کسی بھی مواد تک رسائی کو ناممکن بنائے، یا اس مواد کو ہٹا سکے، اگر وہ سمجھے کہ ایسا کرنا اسلام کی عظمت، یا پاکستان یا اس کے کسی حصہ کی سالمیت، سلامتی یا دفاع، غیر ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات، امن عامہ، تہذیب یا اخلاق کے مفاد کے پیشِ نظر یا توہینِ عدالت، کسی جرم (کے ارتکاب) یا اس کی ترغیب کے حوالے سے ضروری ہے۔”
اسلام، پاکستانیت، ملکی سلامتی، دفاع اور بین الاقوامی تعلقات کو بنیاد بنا کر (جن کی واضح تعریف یا حدود متعین نہیں) کسی بھی قسم کا مواد ہٹانے یا بلاک کرنے کے اختیارات ایک ریگولیٹری اتھارٹی کو سپرد کرنا اس بل سے متعلق خدشات میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ اس قانون سے متعلق عوامی سمات کے موقع پر قائد حزب اختلاف اور معروف قانون دان اعتزاز احسن کا یہ اعتراض بھی قابل غور ہے کہ حکومتی بل مبہم ہے۔ اعتزاز احسن کے بقول یہ سمجھ نہیں آتا کہ عدالت کا کیا اختیار ہے اور تحقیقاتی اہلکاروں کے پاس کیا اختیارات ہوں گے، ملزم کے کمپیوٹر یا انٹرٹیٹ ڈیوائسز سے معلومات جمع کرنے کا اختیار کہیں عدالت کو دیا جا رہا ہے تو کہیں تحقیقاتی افسر کو، جو تشویش ناک ہے۔
اس قانون کی شق 34 تحت پا کستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی کو یہ اختیار دیا جا رہا ہے کہ جو مواد اسے غیر مناسب لگے وہ پاکستانی صارفین کی اس مواد تک انٹرنیٹ رسائی روک سکتی ہے۔
اس قانون کی شق 34 تحت پا کستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو یہ اختیار دیا جا رہا ہے کہ جو مواد اسے غیر مناسب لگے وہ پاکستانی صارفین کی اس مواد تک انٹرنیٹ رسائی روک سکتی ہے۔ ‘غیر مناسب’ کی کوئی واضح تشریح یا تعریف موجود نہ ہونے کے باعث اس قانون کے ریاستی اداروں کے ہاتھوں غلط استعمال میں اضافے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ قانون کی مبہم زبان ریاستی اداروں کو حکومت اور سیکیورٹی اداروں کے لیے ناپسندیدہ مواد ہٹانے کا جواز بن سکتی ہے، اسی طرح مذہبی طبقات کے دباور پر بھی بہت سا مواد ہٹائے جانے کے امکانات موجود ہیں۔ ماضی میں یوٹیوب کی بندش اس حوالے سے ایک اہم مثال ہے جو یہ واضح کرتی ہے کہ پاکستان میں سرکاری ادارے ناپسندیدہ مواد کو ہٹانے اور اس ضمن میں معقول طریق کار اختیار کرنے کی اہلیت اور صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہاں انٹرنیٹ کی آزادی کے لیے کام کرنے والی تنظیم بولو بھی کی رکن فریحہ عزیز کا یہ اعتراض بھی قابل غور ہے کہ ‘پی ٹی اے ٹیلی کام سیکٹر کو ریگولیٹ کرنے کا ادارہ ہے نہ کہ اس کا کام یہ ہے کہ وہ انٹرنیٹ پر مواد سے متعلق فیصلہ کرے۔’
سائبر جرائم کی روک تھام کے لیے قانون سازی ضروری ہے لیکن قومی اسمبلی سے منظور کیا جانے والا قانون شہری آزادیوں پر ایک ااور قدغن ثابت ہو گا۔ سائبر جرائم کی روک تھام کے اس قانون سے متعلق تحفظات دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس قانون کے اطلاق سے قبل ڈیٹا تک رسائی، حاصل کردہ ڈیٹا کے تحفظ، آن لائن مواد کے قابل اعتراض قرار دیے جانے اور قابل اعتراض مواد کے ہٹانے سے متعلق ضروری قوانین اور عدالتی چارہ جوئی کے قواعد طے کیے جائیں تاکہ اس قانون کو ایک اور پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس یا رجسٹریشن آف پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس بننے سے روکا جا سکے۔ اس ضمن میں سینٹ میں موجود جماعتوں کی جانب سے اس قانون پر عوامی تحفظات کے تحت ترامیم کے لیے دباو اور مزاحمت بے حد ضروری ہے تا کہ پاکستان میں شہری آزادیوں پر قدغن کا راستہ روکا جا سکے۔