بظاہر پاکستانی پارلیمان جمہوریت کی اس بنیادی اساس کے ہی درپے ہے جو اس ایوان کے انتخاب کا آئینی جواز ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے منتخب نمائندگان جمہوری نظام کی تشکیل، تسلسل اور ارتقاء کے لیے جمہوریت،انسانی آزادی اور انسانی حقوق جیسے بنیادی تصورات سے متفق نہیں۔ معزز پارلیمان کے طرز عمل سے یہ گمان گزرتا ہے جیسے دہشت گردی کے خلاف جنگ ، نظریہ پاکستان ، اسلام اور قومی سلامتی کے پردے میں شہری آزادیوں کو محدود کرنے کا عمل تیز کر دیا گیا ہے۔ سائبر جرائم کے خلاف قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی سے منظور ہونے والا مجوزہ قانون پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی کے لیے معاشرتی اور ریاستی سطح پر کم ہوتی برداشت اور اہمیت کا تشویش ناک اظہار ہے اور اس قانون کا منظوراور نافذ ہونا پاکستانی ریاست کو سائبر مارشل لاء کی جانب دھکیلنے کا باعث بنے گا۔
ریاستی اداروں، حکومت اور مذہب پر تنقید ، طنز اور تضحیک کو جرم قرار دینے سے ان بنیادی شہری آزادیوں کی نفی ہوتی ہے جو جمہوری نظام حکومت کو فسطائیت اور آمریت سے ممتاز اور بہتر بناتی ہیں۔
قومی سلامتی، اسلام اور نظریہ پاکستان کے تحفظ کے نام پرآزادی اظہاررائے کے حق کے خلاف ریاستی جبر اورقانون سازی کا عمل قیام پاکستان کے فوری بعد تب ہی شروع ہو گیا تھا جب زمیندار اخبار کے خلاف خواجہ ناظم الدین حکومت نے مرکزی حکومت کےخصوصی اختیارات کے قانون کے تحت چودہ روزہ پابندی عائد کی تھی۔ پبلک سیفٹی آرڈیننس 1949، سیکیورٹی آف پاکستان ایکٹ 1952، نظم عامہ کے قیام کا 1962 کا قانون، پریس اینڈ پبلیکشنز آرڈیننس 1963 اور رجسٹریشن آف پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس 1990 سمیت کئی قوانین پاکستان میں آزادی اظہاررائے، شہری آزادیوں اور جمہوریت کے دائرے کو محدود کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔معاشرے اور ریاست کی سطح پر اظہاررائے اور اختلاف رائے کے لیے کم ہوتی برداشت اور آزادی کے تناظر میں آزادانہ عوامی اظہار کے لیے انٹرنیٹ اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس وہ واحد جگہ تھی جہاں لوگوں کو ریاست، حکومت اور معاشرے پر تنقید کی چھوٹ حاصل تھی تاہم مجوزہ قانون کے تحت شہریوں سے یہ آزادی بھی چھین لینے کی بھرپور اور دانستہ کوشش کی گئی ہے۔ یہ قانون ماضی میں متعارف کرائے جانے والے صحافتی قوانین کے جبر کا ہی تسلسل ہے جو فوجی و سول آمروں کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کا گلا گھونٹنے کے لیے قومی سلامتی ، مذہب اور نظریہ پاکستان کا سہارا لیتے رہے ہیں۔ یو ٹیوب کی بندش کا معاملہ پاکستانی ریاست اور معاشرے میں آزادی اظہار کے حوالے سے پائے جانے والی بے حسی کی ایک تکلیف دہ مثال ہے، مجوزہ قانون کے تحت ریاستی اداروں کو حاصل ہونے والے اختیارات یقیناً پاکستان کو ایک فسطائی ریاست میں تبدیل کرنے کے لیے کافی ثابت ہوں گے۔
بادی النظر میں یہ قانون سائبر جرائم کی روک تھام کی بجائے انٹرنیٹ صارفین کے اظہار رائے کے حق پر مقتدر حلقو ں کی مخصوص تنگ نظر سیاسی فکراور عسکری اداروں کے قومی سلامتی کے تصورات کے تحت پابندیاں لگانے کا قانون معلوم ہوتا ہے۔
اگرچہ پاکستان میں انٹرنیٹ تک رسائی ، استعمال اور جرائم کے تدارک کے لیے قوانین کی ضرورت عرصے سے محسوس کی جارہی تھی تاہم ریاست مجوزہ کالے قانون کے تحت ریاست سائبر جرائم کی روک تھام کی بجائے عوامی اظہار کے راستے مسدود کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔ اس قانون میں ملزم کو دفاع کا مناسب حق نہ دینے، انتطامی اداروں کو عدالتی اجازت کے بغیر کارروائی کے اختیارات دینے، مواد پر بندش کے خلاف اپیل کا حق چھیننے کے علاوہ عام شہریوں کو بنیادی انسانی حقوق اور آئین پاکستان کے تحت دیے گئے آزادی اظہار رائے کے حق سے بھی محروم کردیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے نیشنل ایکشن پلان کے تحت بنائے گئے دیگر قوانین ہی کی طرح اس قانون میں بھی ریاستی و حکومتی اداروں کی کارروائیوں پر نظرثانی اور نگرانی کا مناسب نظام موجود نہیں اور نہ ہی اس قانون کے غلط استعمال کے روک تھام کے لیے مناسب یقین دہانیاں موجود ہیں جس سے اس قانون کے ذریعے اقلیتوں، سیاسی کارکنوں اور انسانی حقوق کی جدوجہد کرنے والوں کے خلاف کارروائی کے خدششات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس قانون کے تحت ایک مرتبہ پھر نظریے، ریاست، قومی سلامتی اور مذہب کے نام پر عوامی اظہار کے حق کو محدود کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ریاستی اداروں، حکومت اور مذہب پر تنقید ، طنز اور تضحیک کو جرم قرار دینے سے ان بنیادی شہری آزادیوں کی نفی ہوتی ہے جو جمہوری نظام حکومت کو فسطائیت اور آمریت سے ممتاز اور بہتر بناتی ہیں۔ ناقدین کے خیال میں اس قانون کی تیاری کے دوران انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعت سے وابستہ افراد، انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور قانونی ماہرین کی تجاویز کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ قانون سازی کے عمل میں انٹرنیٹ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی اصطلاحات سے ناواقف افراد کی شمولیت کے باعث یہ قانون آن لائن جرائم کی بیخ کنی کی بجائے عام لوگوں کی آزادیوں کو محدود کرنے کا باعث بننے کا غالب امکان بھی موجود ہے۔
بادی النظر میں یہ قانون سائبر جرائم کی روک تھام کی بجائے انٹرنیٹ صارفین کے اظہار رائے کے حق پر مقتدر حلقو ں کی مخصوص تنگ نظر سیاسی فکر اورعسکری اداروں کے قومی سلامتی کے تصورات کے تحت پابندیاں لگانے کا قانون معلوم ہوتا ہے۔ یہ قانون مخصوص مذہبی نظریات کے حامل طبقات کے بیانیے کے تحفظ، مذہبی اخلاقیات کے نفاذ اور اظہاررائے پر پابندی کا قانون معلوم بھی ہے۔ اخبارات کے ذریعے سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق اس قانون کے ذریعے ریاستی اداروں کو” قومی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والے، اسلام اور اس کی عظمت سے متعلق توہین آمیز، فحش، اشتعال انگیز یا نظم عامہ میں خلل ڈالنے والے” مواد پر کسی بھی ویب سائٹ کو بند کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔اس ضمن میں سب سے تشویشناک امر اس قانون میں توہین آمیز، فحش یا اشتعال انگیز مواد کی تعریف کا موجود نہ ہونا ہے جس کے باعث ریاست کو ریاستی اداروں، حکومت یا مذہبی جتھوں کے لیے “ناپسندیدہ ” افراد کے خلاف کارروائی کے لامحدود اختیارات حاصل ہونے کا خدشہ ہے۔ ماضی کے پیش نظر انٹرنیٹ سیکیورٹی جیسے اہم معاملے پر ایسے مبہم قانون کے اقلیتوں، قوم پرستوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور ریاستی اداروں کے جبر کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کے خلاف استعمال کے واضح امکانات موجود ہیں۔ یہ امر بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ گزشتہ چند برس کے دوران انٹرنیٹ اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس ابلاغ عام کے مفلوج ذرائع کے پیش نظر فوج، حکومت اور مذہبی شدت پسندوں پر تنقید کا سب سے موثر اور آزاد ذریعہ بن کر سامنے آئے ہیں، اس قانون کے منظر عام پر آنے والے مندرجات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس قانون کا مقصد مذہبی شدت پسندی، ریاستی دہشت گردی اور حکومتی اداروں کی ناکامی کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانا ہے۔
پاکستانی ریاست کے قانون ساز او ر مقتدر حلقے عوامی تنقید، احتجاج اور اظہار رائے کے خوف میں ،مبتلا ہیں۔ منتخب ایوان یہ سمجھنے سے قاصر دکھائی دیتا ہے کہ ریاستی اداروں پر آزادانہ تنقید اور اظہاررائے کی آزادی جیسی بنیادی شہری آزادیاں اورانسانی حقوق ریاستی نظریے، مذہب، قومی سلامتی اور خود ریاست کے وجود سے مقدم، مقدس اور محترم ہیں۔ ریاست کو کسی بھی صورت انسانی حقوق کے عالمگیر تصور سے متصادم قانون سازی کا حق نہیں یہی۔ ریاست ،حکومت اور سیکیورٹی ادارے یقیناً اس قانو ن کے ذریعے اپنے ناقدین اور مخالفین کے خلاف کارروائی کا ارادہ رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انٹرنیٹ تک آزادانہ رسائی کے حق اور انسانی حقوق ،کے کارکنان کی تجویز کردہ سفارشات کے برعکس ایک مبہم، جابرانہ اور غیر منصفانہ قانون متعارف کرانے کی کوشش کی جارہی ہے جو کسی بھی طرح پاکستان میں اظہاررائےکی آزادی کی مخدوش صورتحال کے لیے سود مند نہیں۔
بادی النظر میں یہ قانون سائبر جرائم کی روک تھام کی بجائے انٹرنیٹ صارفین کے اظہار رائے کے حق پر مقتدر حلقو ں کی مخصوص تنگ نظر سیاسی فکر اورعسکری اداروں کے قومی سلامتی کے تصورات کے تحت پابندیاں لگانے کا قانون معلوم ہوتا ہے۔ یہ قانون مخصوص مذہبی نظریات کے حامل طبقات کے بیانیے کے تحفظ، مذہبی اخلاقیات کے نفاذ اور اظہاررائے پر پابندی کا قانون معلوم بھی ہے۔ اخبارات کے ذریعے سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق اس قانون کے ذریعے ریاستی اداروں کو” قومی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والے، اسلام اور اس کی عظمت سے متعلق توہین آمیز، فحش، اشتعال انگیز یا نظم عامہ میں خلل ڈالنے والے” مواد پر کسی بھی ویب سائٹ کو بند کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔اس ضمن میں سب سے تشویشناک امر اس قانون میں توہین آمیز، فحش یا اشتعال انگیز مواد کی تعریف کا موجود نہ ہونا ہے جس کے باعث ریاست کو ریاستی اداروں، حکومت یا مذہبی جتھوں کے لیے “ناپسندیدہ ” افراد کے خلاف کارروائی کے لامحدود اختیارات حاصل ہونے کا خدشہ ہے۔ ماضی کے پیش نظر انٹرنیٹ سیکیورٹی جیسے اہم معاملے پر ایسے مبہم قانون کے اقلیتوں، قوم پرستوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور ریاستی اداروں کے جبر کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کے خلاف استعمال کے واضح امکانات موجود ہیں۔ یہ امر بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ گزشتہ چند برس کے دوران انٹرنیٹ اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس ابلاغ عام کے مفلوج ذرائع کے پیش نظر فوج، حکومت اور مذہبی شدت پسندوں پر تنقید کا سب سے موثر اور آزاد ذریعہ بن کر سامنے آئے ہیں، اس قانون کے منظر عام پر آنے والے مندرجات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس قانون کا مقصد مذہبی شدت پسندی، ریاستی دہشت گردی اور حکومتی اداروں کی ناکامی کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانا ہے۔
پاکستانی ریاست کے قانون ساز او ر مقتدر حلقے عوامی تنقید، احتجاج اور اظہار رائے کے خوف میں ،مبتلا ہیں۔ منتخب ایوان یہ سمجھنے سے قاصر دکھائی دیتا ہے کہ ریاستی اداروں پر آزادانہ تنقید اور اظہاررائے کی آزادی جیسی بنیادی شہری آزادیاں اورانسانی حقوق ریاستی نظریے، مذہب، قومی سلامتی اور خود ریاست کے وجود سے مقدم، مقدس اور محترم ہیں۔ ریاست کو کسی بھی صورت انسانی حقوق کے عالمگیر تصور سے متصادم قانون سازی کا حق نہیں یہی۔ ریاست ،حکومت اور سیکیورٹی ادارے یقیناً اس قانو ن کے ذریعے اپنے ناقدین اور مخالفین کے خلاف کارروائی کا ارادہ رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انٹرنیٹ تک آزادانہ رسائی کے حق اور انسانی حقوق ،کے کارکنان کی تجویز کردہ سفارشات کے برعکس ایک مبہم، جابرانہ اور غیر منصفانہ قانون متعارف کرانے کی کوشش کی جارہی ہے جو کسی بھی طرح پاکستان میں اظہاررائےکی آزادی کی مخدوش صورتحال کے لیے سود مند نہیں۔