دن بھر ہم اپنی پوزیشن میں رہے۔ایف۔ ایف والوں نے بتایا کہ ہماری بٹالین تیسرے دن سے کہیں غائب ہے جبکہ ہمارے سی او صاحب شدید زخمی ہو کر ایف۔ ایف کی ایک اور کمانڈ پوسٹ پر آئے پڑے ہیں۔کیپٹن لہراسپ خاں صاحب نے بتایا کہ کیپٹن دُرّانی صاحب پرسوں کے ایکشن میں شہید ہوگئے تھے۔ اب مُجھ میں مزید رونے کی ہمت نہ تھی ورنہ دُرّانی صاحب کیلئے خون کے آنسو رونے کو جی چاہا۔حکومت کو گالیاں دینے والے کیپٹن دُرّانی نےکس کیلئے جان دی ، کتابوں میں نجانے کیا لکھا جائے گا، لیکن مُجھے پتہ ہے کہ اُنہوں نےصر ف اپنے جوانوں کیلئے جان دی ہے۔
دن بھر افواہیں گردش کرتی رہیں کہ کمانڈر ایسٹرن کمانڈ جنرل عبداللہ خاں نے ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔کچھ لوگوں نے بتایا کہ جنرل عبداللہ نیازی ہیلی کاپٹر کریش میں شہید ہوگئے ہیں۔بعد میں پتہ چلا کہ دونوں خبریں غلط ہیں بلکہ چینی پیراٹروپ سپاہ کے مشرقی پاکستان پہنچنے پر دُشمن نے جنگ بندی کا اعلان کردیا ہے۔سہ پہر کو پتہ چلا کہ تمام خبریں غلط ہیں اور پاک فوج کو آخری سپاہی تک لڑنے کا حُکم ہے اور ہم ہر جگہ ڈٹے ہیں۔
شام کے وقت کیپٹن لہراسپ خاں صاحب نے تمام نفری کو اکٹھا ہونے کا حکم دیا۔ہمارے ذہنوں میں عجیب سوالات آنے لگے۔اندھیرا پھیل چکا تھا جب بلوچ رجمنٹ کے ایک میجر صاحب آئے اور اُنہوں نے بتایا کہ جنگ ختم ہو چُکی ہے ،مشرقی کمان نے ہم سب کو شاباش دی ہے اور کہا ہے کہ حکومتی سطح کا فیصلہ ہے کہ ہم اپنے قریبی بھارتی یونٹوں کے آگے ہتھیار رکھ دیں۔
ابھی رات کا کافی وقت بیت چکا ہے۔ ٹارچوں کی ہلکی سی روشنی میں لوگوں کی پتھر جیسی تاثرات سے خالی آنکھیں اور وہ سارا ایمونیشن جو اکٹھا کرکے ندی میں پھینک دینے کا حُکم ملا ہے،بڑے تکلیف دہ انداز میں چمک رہے ہیں۔ایک دو پٹھان سپاہیوں نے کہا کہ وہ “سلنڈر” نہیں کریں گے لیکن حُکم ملنے پر چُپ ہوگئے۔افسروں کی زبان کو بھی تالے لگے ہیں اور وہ اکّا دُکّا احکامات جاری کررہے ہیں۔کاندھوں سے اُترتے مشین گن کے پٹوں کی جھنکار، اسلحے کا ڈھیر لگنے کی آواز اور اس کے علاوہ چند بے جان سی آوازیں ہی سُنائی دے رہی ہیں۔میں نے اسلحہ پھینک کر ایک کمبل، یہ ڈائری اور پُنّوں کی بَیری ٹوپی اپنے پاس رکھ لی ہے۔یہ ڈائری تو شائد اب کبھی نہ لکھی جاسکے اور اگر یہ بھی دُشمن نے چھین لی تو اس جنگ کی شائد ایک ہی نشانی گھر تک لے جاسکوں گا۔۔۔جنگ کی نہیں، اپنے لاڈلے پُنّوں کی نشانی۔
ہتھیار ڈالنے کے بعد تنویر حسین کی پلٹن کے بیشتر جوانوں کو بھارتی فوج نے مُکتی باہنی کے حوالے کردیا جنہیں بعد ازاں ایشُردی لے جاکر قتل کردیا گیا۔ تنویر حسین کو آگرے میں جنگی قیدیوں کے کیمپ میں قید کے دوران فالج کا دَورہ ہوا اور 1973 میں وطن واپسی پر اسے طبی وجوہ پر ریٹائر کردیا گیا۔ سپاھی (ریٹائرڈ) تنویر حسین کے دونوں بیٹے مڈل سے آگے نہ پڑھ سکے اور اب باپ کی سرپرستی میں اپنے گاوں میں کھیتی باڑی کرتے ہیں۔