روشنی کا لفظ سامنے آتے ہی ہمارے ذہن میں اس لفظ کے کچھ تصورات معنی کی صورت اختیار کرتے ہیں۔ ایک عام شخص روشنی کی ہیئت میں شاید اس قدر دلچسپی محسوس نہ کرتا ہو مگر وہ روشنی کے بارے میں ایک مبہم سا تصور ضرور قائم کرتا ہے۔ اگر ہم قدیم انسانوں کی تاریخ اور ثقافتوں کا مطالعہ کریں تو بہت ہی دلچسپ قسم کی کہانیاں اور واقعات سامنے آتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر قدیم مذاہب کا مطالعہ کیا جائے تو خداؤں کی تقسیم روشنی اور اندھیرے کے خدا سے کی جاتی رہی ہے۔ ہندو مذہب میں سوریا پوجا (سورج کی عبادت) ایک باقاعدہ عملی صورت میں آج بھی موجود ہے۔ اسی طرح زردشتی یا مجوسی مذہب میں آگ کی پوجا میں بھی روشنی کا عنصر شامل ہے۔ اسی طرح جدید مذاہب یعنی عیسائیت، یہودیت اور اسلام وغیرہ میں روشنی ایک خدا کی صفت کے طور پر ظاہر ہوتی ہے جس میں سورج اور چاند کی حیثیت خدا کی مخلوق جیسی ہے۔ اسلام میں خاص طور پر روشنی کو ‘برق’ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے جو انسان کو راستے میں رہنمائی کا کام دیتی ہے۔ قرآن میں ایک مکمل صورت ‘الشمس’ کے نام سے نازل ہوئی۔ معراج کے واقعہ میں رسول خدا ﷺ کی سواری کو ‘براق’ یعنی روشنیوں سے تشبیہ دی گئی ہے۔
روشنی کے بارے میں سائنس کے نظریات کیا ہیں؟ اور روشنی کی رفتار ایک متعین مقدار سے زیادہ یا کم ہوسکتی ہے کہ نہیں؟ اور سب سے زیادہ یہ کہ کیا روشنی کی رفتار تیز ہوجائے تو کون و مکاں میں کیا واقعات رونما ہوسکتے ہیں؟ یہ تمام اور ان جیسے دیگر سوالات کو سائنسی انداز سے سمجھنے کے لئے ہم نے اس مضمون کا انتخاب کیا ہے۔
سائنسدان روشنی کو بھی انرجی یا توانائی کی ایک شکل قرار دیتے ہیں جو انسانی آنکھ میں دیکھنے کا احساس پیدا کرتی ہے۔ یہ عمومی سی تعریف سکول کی فزکس کی کتابوں میں مل جائے گی۔ روشنی کس چیز سے مل کر بنی ہے؟ اس سوال کا تاریخی جائزہ لیا جائے تو ہمیں دو مختلف تصورات باہم برسرپیکار نظر آئیں گے۔ ایک نیوٹن کا مفروضہ تھا کہ روشنی بھی باقی مادے کی طرح ذرات پر مشتمل ہوتا ہے۔ لیکن نیوٹن اور اس کے بعد تین سو سال تک اس نظریے کا کوئی ثبوت نہ مل سکا۔ اسکے مقابلے میں ہائی جینز (Huygen) کا نظریہ تھا کہ روشنی ایک انرجی ہے جو لہروں کی شکل میں سفر کرتی ہے۔ اور یہی نظریہ بعد میں تجربات سے ثابت ہوا۔ لیکن انیسویں صدی کے آخر میں میکسول (Maxwell) کے مطابق روشنی ایک برقناطیسی لہر (Electromagnetic wave) کی شکل میں چلتی ہے۔ بعد ازاں مائکلسن اور مورلے کے تجربات کی روشنی میں آئن سٹائن نے حتمی فیصلہ سنایا کہ ان برقناطیسی لہروں کی رفتار ایک خاص حد سے تجاوز نہیں کرسکتی۔
آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت (Relativity) کے مطابق زمان و مکاں میں کوئی فرق نہیں اور ہم ان دونوں تصورات کو ایک دوسرے کے متبادل کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں۔ یہ دو مختلف چیزوں کی بجائے ایک ہی چیز کے دو نام ہیں جسے ہم زمان و مکاں کی اکائی کہتے ہیں۔ اس نظریہ کی بنیاد جس مفروضے پر قائم ہے وہ یہ کہ ہر وہ ذرہ جس کی کمیت صفر ہوگی وہ ایک متعین مقدار سے زیادہ رفتار حاصل نہیں کرسکتا۔ چونکہ روشنی کا ذرہ فوٹون بھی صفر کمیت کا حامل ہے لہٰذا روشنی بھی ایک خاص حد (380,000 km/s) سے زیادہ رفتار حاصل نہیں کرسکتی۔ چونکہ باقی تمام مادہ غیر صفرکمیت کے حامل ذرات پر مشتمل ہے لہٰذا روشنی کے علاوہ باقی کوئی شے اس رفتار سے تجاوز نہیں کرسکتی۔ اگر کوئی مادی ذرہ اس رفتار سے زیادہ تیز دوڑے گا تو زمان و مکاں کی اکائی ٹوٹ جائے گی۔ کیونکہ ایسا ذرہ پھر زمان اور مکان کو مختلف انداز سے دیکھے گا اور ہم پھر سے 100 سال پہلے کے نظریات میں لوٹ جائیں گے۔ آج تک جتنی بھی نئی تحقیق ابھری ہے اس پر سوالیہ نشان پڑ جائے گا۔
آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت (Relativity) کے مطابق زمان و مکاں میں کوئی فرق نہیں اور ہم ان دونوں تصورات کو ایک دوسرے کے متبادل کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں۔ یہ دو مختلف چیزوں کی بجائے ایک ہی چیز کے دو نام ہیں جسے ہم زمان و مکاں کی اکائی کہتے ہیں۔ اس نظریہ کی بنیاد جس مفروضے پر قائم ہے وہ یہ کہ ہر وہ ذرہ جس کی کمیت صفر ہوگی وہ ایک متعین مقدار سے زیادہ رفتار حاصل نہیں کرسکتا۔ چونکہ روشنی کا ذرہ فوٹون بھی صفر کمیت کا حامل ہے لہٰذا روشنی بھی ایک خاص حد (380,000 km/s) سے زیادہ رفتار حاصل نہیں کرسکتی۔ چونکہ باقی تمام مادہ غیر صفرکمیت کے حامل ذرات پر مشتمل ہے لہٰذا روشنی کے علاوہ باقی کوئی شے اس رفتار سے تجاوز نہیں کرسکتی۔ اگر کوئی مادی ذرہ اس رفتار سے زیادہ تیز دوڑے گا تو زمان و مکاں کی اکائی ٹوٹ جائے گی۔ کیونکہ ایسا ذرہ پھر زمان اور مکان کو مختلف انداز سے دیکھے گا اور ہم پھر سے 100 سال پہلے کے نظریات میں لوٹ جائیں گے۔ آج تک جتنی بھی نئی تحقیق ابھری ہے اس پر سوالیہ نشان پڑ جائے گا۔
23ستمبر 2011ء کو دنیا ئے طبیعات کی سب سے بڑی لیبارٹری سرن(CERN)میں ایک تجربے کے نتائج پیش کئے گئے جس نے پوری دنیا کے سائنسدانوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ اس تجربے میں یہ دیکھا گیا کہ نیوٹرینو نامی ایک ذرے نے سویٹزرلینڈ سے اٹلی تک 732کلومیٹرکا سفر مقررہ وقت سے 60 نینو سیکنڈ (یعنی ایک سیکنڈ کا کھربواں حصہ) پہلے مکمل کر لیا۔ یعنی نیوٹرینو نے یہ فاصلہ روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ تیزی سے طے کیا اوریہ روشنی سے 60 فٹ زیادہ آگے جاتے پائے گئے۔ نیوٹرینو ایک انتہائی چھوٹا ذرہ ہے جس کی اولین دریافت 1987ء میں ایک سوپرنووا (Supernova) کے پھٹنے سے پیدا ہونے والی شعاعوں میں ہوئی۔ اس مشاہدے میں دیکھا گیا کہ نیوٹرینو اور روشنی کے ذرات ایک ہی وقت میں 50،000 ملین میل کا سفر طے کرنے کے بعد ایک ہی وقت میں زمین تک پہنچے جس سے یہ سمجھا گیا شاید نیوٹرینو کی رفتار روشنی کے برابر ہے اور ان کی کمیت صفر ہے۔ بعد کی تحقیات سے پتا نیوٹرینو کے تین خاندان ہیں جنکو الیکٹران نیوٹرینو، میوؤن نیوٹرینو اور ٹاؤ نیوٹرینو کا نام دیا جاتا ہے۔ جب نیوٹرینو حرکت کرتے ہیں تو یہ اپنے خاندان کو آپس میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ یہ خصوصیت محض ان ذرات میں پائی جاتی ہے جن کی کمیت صفر نہ ہو۔ 1998ء کے تجربات میں بالواسطہ طور پر یہ دریافت ہوا کہ نیوٹرینو کی کمیت صفر نہیں اور لہٰذا یہ روشنی کی رفتار سے زیادہ تیزرفتار نہیں ہوسکتے۔
اس تجربے کے بعد دنیا بھر میں ایک بحث کا آغاز ہوگیا۔ سب کی زبان پر یہی سوال تھا کہ کیا آئن سٹائن غلط تھا؟ کیا نظریہ اضافیت کی بنیادیں کمزور ہوگئی ہیں اور ہمیں اپنے نظریات کو ازسرنو تعمیر کرنا ہوگا؟
لیکن کچھ ماہ کے بعد یعنی 22 فروری 2012ء کواٹلی میں اس تجربے کے ایک شریک اوپرا ٭(OPERA) نامی سرن کے ممبر ادارے نے معذرت کر لی اور کہا کہ ان کے تجربات میں کچھ خامیوں کی بنا پر ایسا نتیجہ برامد ہوا۔ آئن سٹائن غلط ثابت نہ ہوسکا اور نظریہ اضافیت اپنی مضبوط بنیادوں پر قائم رہا۔
1930 میں جرمنی کی نازی پارٹی نے آئن سٹائن کے نظریہ کو رد کردیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے ایک کتاب بھی شائع کی جس میں جرمنی کے 100 بڑے دانشوروں نے اس نظریہ کو رد کیا۔ جب آئن سٹائن سے پوچھا گیا کہ آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ 100 سائنسدانوں کی بجائے میرا نظریہ تو صرف ایک تجربے سے غلط ثابت ہوجائے گا۔ لیکن تاریخ میں ابھی تک ایسا کوئی تجربہ سامنے نہیں آیا۔
لیکن اس اہم ترین سائنسی ہیجان میں ایک نیا سوال ابھرتا ہے کہ کیا آئن سٹائن کے نظریات کبھی بھی غلط ثابت نہیں ہوں گے؟ میرے خیال میں یہاں لفظ ‘غلط’ ایک انتہا پسندی کی علامت ظاہر کرے گا۔ کیونکہ سائنس میں نہ کوئی نظریہ ‘ہمیشہ درست’ رہتا ہے اور نہ ‘بالکل غلط’ ہوسکتا ہے۔ اس کا جواب یوں دیا جا سکتا ہے کہ ہر نظریہ کسی خاص حالت میں کارگر ثابت نہیں ہوسکتا۔ سائنس کو کوئی مذہبی نظریہ یا کوئی جامع فلسفہ نہیں کہا جاسکتا جو ہمارے ہر سوال کا جواب دے اور ہمیشہ ہرحال میں درست رہے۔ بلکہ یہ ایک مخصوص طرز کا علم ہے جس میں کوتاہیاں، غیریقنییت اور خوب سے خوب تر ہونے کی خصوصیات باقی رہتی ہیں۔ یہ عین ممکن ہے کہ ہمارے نظریات میں تبدیلی آتی رہے گی اور ہم حقائق کو نت نئے انداز سے سمھجتے رہیں گے۔ آئن سٹائن کا نظریہ عمومی اضافیت (General Relativity) اور کوانٹم فزکس آپس میں میل کھاتے نظر نہیں آرہے اور شاید آئن سٹائن کے نظریات کی مستقبل میں ایک حدبندی ہوجائے۔ لیکن اس سے سائنسدان مایوس ہونے کی بجائے مزید تحقیق کی نئی راہیں تلاش کرسکتے ہیں!
ذیل میں ان تجربات کے حوالہ جات دئے گئے ہیں جو اس ضمن میں کئے گئے۔
arXiv:1102.1882v1 [hep-ex] 9 Feb 2011
arXiv:1109.4897v4 [hep-ex] 12 Jul 2012
arXiv:1109.6562v1 [hep-ph] 29 Sep 2011
arXiv:1110.3763v3 [hep-ex] 8 Mar 2012