Laaltain

خودکشی

17 جون، 2015
تاریک اور پرانے قبرستان کے سب کیڑے روزانہ رات کو ملاقات کرتے۔ وہ سارا دن پیش آنے والے واقعات پر بحث کرتے اور ہر مردے کے گوشت کا ذائقہ مزے سے بیان کرتے۔ ہر دن، جب بھی کوئی مردہ قبرستان لایا جاتاتو یہ ان کے لئے خوشی کا لمحہ ہوتا اور پیٹ بھر کھانے کا تصور ان کا موڈ خوشگوار بنا دیتا۔ یہ ان کا معمول تھا اور ان کی زندگی میں کوئی دن ایسا نہ تھا جب قبرستان میں کسی مردے کو نہ لایا گیا ہو۔
رات کو سارے کیڑے مکوڑے آپس میں چہ مگوئیاں کرتے اور اندھیری رات میں سارے کیڑے مرکزی درخت تلے جمع ہو جاتے جو کہ دور سے بہت خوفناک نظر آتا تھا
یہ خوفناک اور اندھیری جگہ تھی لیکن وہ وہاں پر خوب لطف اٹھاتے۔ یہ ان کے لئے یادگار جگہ تھی کیونکہ وہ یہاں کے آبائی تھے اور ان کی پیدائش انہی اندھیری جھاڑیوں میں ہوئی تھی جہاں ان کی ساری زندگی بیتی تھی۔ قبرستان بہت تاریک تھا اور کسی بھی زندہ انسان نے کبھی یہاں رات گزارنے کی ہمت نہ کی تھی اور وہ اس غم زدہ اور خوفناک تاریکی میں اپنے سائے سے بھی ڈرتے تھے۔ یہاں زندگی کی کوئی رمق باقی نہ تھی تاہم زندگیاں ختم ہونے کے آثار نمایاں تھے جو اب تاریکی میں کھو چکی تھیں۔ رات کو سارے کیڑے مکوڑے آپس میں چہ مگوئیاں کرتے اور اندھیری رات میں سارے کیڑے مرکزی درخت تلے جمع ہو جاتے جو کہ دور سے بہت خوفناک نظر آتا تھا۔ ہوا کی وجہ سے سائے مزید خوفناک روپ دھارتے اور لہراتی شاخیں مزید خوفناک تصور پیش کرتیں۔
کیڑے بہت خوش تھے اور ان کی خوشی بھری آوازیں فضا میں گونج رہیں تھیں۔ زندگی ان کے لئے خوشگوار تھی اور ان کو ضرورت سے زیادہ کھانے کو مل رہا تھا۔
’’کیسے ہو دوست؟‘‘ ایک کیڑے نے دوسرے سے پوچھا۔
’’زندگی یہاں خوشگوار ہے اور ہمیں آجکل کھانے کے لئے بہت کچھ مل رہا ہے۔‘‘ دوسرے نے جواب دیا۔
’’انسانی گوشت کچھ زیادہ ہی لذیذ ہوتا ہے اور مجھے تو اپنے کیڑے ہونے پر رشک آتا ہے کہ ہمیں یہ نمکین گوشت کھانے کا موقع ملتا ہے۔ ‘‘ پہلے والے نے جواب دیا۔
’’خدا کا شکر ہے کہ انسان ایک دوسرے کو نہیں کھاتے ورنہ ہم تو بھوکوں مرتے۔‘‘
’’یقینا! پھر تو خوراک نہ ہونے کی وجہ ہمیں فاقے کرنے پڑتے۔‘‘
کچھ ماہ بعد، بہت ہی عجیب و غریب صورت حال پیش آئی کہ مردے خون میں لت پت ہوتے اور ان کے اجسام سوراخوں سے چھلنی ہوتے ، کیڑوں کو کفن میں داخل ہونے کے لئے راستہ تلاش کرنا پڑتا کیونکہ بعض اوقات وہ مردے کے خون سے رسنے والے خون میں ڈوب جاتے
زندگی خوشیوں سے بھرپور تھی اور وہ خود کو دنیا کی خوش نصیب ترین مخلوق سمجھتے تھے۔ ان کی طرح اور بھی ہزاروں تھے جو کہ روزانہ رات کو اپنے جذبات کا اظہار کرتے اور پیٹ بھر کھانے کے ذکر سے مزے لیتے جو دن بھر ان کو میسر آتا۔ ایسا کوئی دن نہ تھا، جب ان کو خوارک نہ ملی ہو یا وہ بھوکے رہے ہوں۔ ان کی زندگی سہل ترین تھی۔ وہ انسانی گوشت چبا چبا کے اور ہڈیاں نوچ نوچ کے بڑے ہوئے تھے جو بعد میں مٹی کا مقدار بنتیں۔ انہوں نے ہر قسم کا انسانی گوشت چکھا تھا، چاہے بوڑھے کا ہو یا کہ جوان کا۔ گورے کا یا کالے کا۔ لیکن ان کو رنگ و نسل، عمر اور مذہب سے کوئی غرض نہ تھی کیونکہ وہ تو کیڑے تھے، انسان نہیں۔ ان کو ہڈیوں سے گوشت نوچنے کی عادت ضرور تھی لیکن حسد اور بغض کے کینے سے ناآشنا تھے اور ہر قسم کا گوشت ان کے لئے لذیذ تھا۔ اب وہ اس قدر ماہر ہو چکے تھے کہ قبر میں داخل ہونے سے سے پہلے ہی ان کو پتہ چل جاتا کہ مرنے والا مرد ہے، عورت یا کہ بچہ۔ ان کی پسندیدہ خوراک چھوٹے بچوں کا گوشت تھا کیونکہ ان کا گوشت نرم اور تازہ ہوتا، اتنا زود ہضم اور لذیذ کہ بعض اوقات تو وہ اپنا حصہ لینے کے لیے ایک دوسرے پر جھپٹ پڑتے ۔ ان کو صرف بوڑھے مردوں سے خوف آتا تھا کیونکہ ایک تو ان کے جسم پر گوشت بہت کم ہوتا اور دوسرا زیادہ تر ہڈیاں ہی ہوتیں۔ علاوہ ازیں یہ ہضم کرنا بھی سہل نہ تھا۔ لذیذ گوشت ان کو نشے میں مبتلا کر دیتا اور وہ تب تک مردے کو نہ چھوڑتے جب تک اس کی ہڈیاں نمودار نہ ہوجاتیں۔ اندھیری رات آتے ہی سب بڑے درخت کے نیچے جمع ہو گئے جس کی آکٹوپس کی طرح پھیلی شاخوں نے قبرستان کو مزید تاریک بنا دیا۔ ایسے معلوم ہوتا جیسے یہ قبرستا ن کی تمام مخلوق کو پناہ دینا چاہتا ہے۔ سارے کیڑے مکوڑے خوفزادہ دکھائے دیئے کیونکہ مرنے والوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا تھااور وہ تمام مردوں کو کھانے سے قاصر تھے جو روزانہ کسی تاریک قبر میں پناہ گزیں ہوتے۔ اگرچہ انہوں نے خود کو مختلف گروہوں میں تقسیم کر رکھا تھا تاکہ مردوں کا روزانہ صفایا کر سکیں تاہم وہ پھر بھی گوشت ختم نہ کر پاتے۔ اپنی ضرورت سے زیادہ کھانے کے باوجود بھی گوشت بچ جاتا۔ انہوں نے ساری زندگی کسی مردے کو کھائے بغیر نہیں چھوڑا تھا۔
’’مردوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔‘‘ ایک کیڑے نے دوسرے کو کہا۔
’’ہاں، میں نے بھی پہلے کبھی اتنا نہیں کھایا ہے۔ ‘‘ دوسرے نے جواب دیا۔
’’پہلے ایسا کچھ نہیں ہوا۔۔۔۔ اب موت کا فرشتہ کچھ زیادہ ظالم ہو گیا ہے۔‘‘ پہلے والے نے جواب دیا۔
’’ہاں، پیٹ بھر کھانے کے بعد بھی۔۔۔۔ہم اس کو ختم نہیں کر پاتے۔‘‘ دوسرے نے جواب دیا۔
’’لیکن مجھے اس صورت حال پہ بہت تشویش ہے، اگر شہر کے سارے انسان مر گئے تو پھر ہم کیا کھائیں گے۔‘‘ پہلے والے نے فکر مندی سے کہا۔
’’ یقینا! ہم تو فاقوں مریں گے۔ خدا ہم پر رحم کرے۔‘‘ انہوں نے عاجزی سے خدا کے حضور دعا کی تاکہ انسانوں کی شرح اموات میں کمی آئے اور ان کو خوراک اچھے اور مناسب طریقے سے ملتی رہے۔ زیادہ لوگوں کے مرنے میں ان کا نقصان تھا اور ان کے لئے خطرے کا نشان بھی۔ دن بدن اموات کی تعداد میں اضافے سے ان کی زندگی مشکل ہوتی جا رہی تھی۔ وہ شہر کے حالات پر فکر مند تھے جہاں موت کے فرشتے کا راج تھا اور روزانہ ہی قبرستان میں لوگوں کا جم غفیر جمع ہوتا۔ ان کو اس ہجوم سے بھی خوف آتا تھا کیونکہ ان کے بہت سے ساتھی انسانوں کے بھاری قدموں تلے کچلے جاتے تھے۔ اس لئے جب بھی وہ لوگوں کا ہجوم دیکھتے تو کہیں نہ کہیں چھپنے کی کوشش کرتے۔
کچھ ماہ بعد، بہت ہی عجیب و غریب صورت حال پیش آئی کہ مردے خون میں لت پت ہوتے اور ان کے اجسام سوراخوں سے چھلنی ہوتے ، کیڑوں کو کفن میں داخل ہونے کے لئے راستہ تلاش کرنا پڑتا کیونکہ بعض اوقات وہ مردے کے خون سے رسنے والے خون میں ڈوب جاتے۔ اب گوشت کھانا ان کے لیے آسان کام نہ تھا۔ ان کے لیے سب سے حیران کن لمحہ وہ تھا جب مردوں میں عجیب وغریب اشیاء نظر آنا شروع ہوئیں۔ مردے لوہے کے راڈ، بیرنگ، سپرنگ، میخوں، کیلوں اور دوسری عجیب و غریب اشیاء سے بھرے ہوئے تھے۔ اب گوشت صاف شفاف نہ رہا تھا اور ان کو بہت احتیاط سے کھانا پڑتا تھا جبکہ گوشت کا ذائقہ بھی آہستہ آہستہ ختم ہوتا جا رہا تھا۔
’’خدا بہتر جانتا ہے ۔ یہاں کیا ہو رہا ہے؟ مجھے لہو سے تتر بتر مردے بالکل پسند نہیں ہیں۔ مجھے تو خشک مردے پسند ہیں کیونکہ ان لہو لہو مردوں میں کوئی ذائقہ نہیں ہوتا
’’شہر میں کیا ہو رہا ہے؟‘‘ ایک کیڑے نے دوسرے سے پوچھا۔
’’کچھ معلوم نہیں! اب انسان روزانہ قبرستان آتے ہیں اور مردوں کی تعداد بھی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔‘‘ دوسرے نے جواب دیا۔
’’کیا تم نے محسوس کیا کہ گوشت بھی بے ذائقہ ہوتا جا رہا ہے۔ اب تو کوئی مزہ ہی نہیں رہا۔‘‘ پہلے والے نے دوبارہ کہا۔
’’اور یہ صاف بھی نہیں ہے ، گوشت لوہے سے بھرا ہوتا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ انسان لوہا کیسے کھاتے ہیں؟‘‘ دوسرے نے جواب دیا۔
’’میں خود حیرا ن ہوں اور کیا تم نے دیکھا؟ یہ مردے خون سے تر بتر ہوتے ہیں۔‘‘ پچھلے دنوں میں تو ایک مردے کے خون میں ڈوبنے والا تھا۔‘‘ پہلے والے نے جواب دیا۔
’’خدا بہتر جانتا ہے ۔ یہاں کیا ہو رہا ہے؟ مجھے لہو سے تتر بتر مردے بالکل پسند نہیں ہیں۔ مجھے تو خشک مردے پسند ہیں کیونکہ ان لہو لہو مردوں میں کوئی ذائقہ نہیں ہوتا۔‘‘ دوسرے نے جواب دیا۔
’’ہاں، کبھی کبھار تو گوشت جلا ہوا ہوتا ہے، بہت ہی سیاہ اور دھویں سے بھرا ہوا۔۔۔۔ خدا معاف کرے! یہ انسان اپنے مردوں کے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔‘‘ پہلے والے نے جواب دیا۔
’’ہاں، میں نے سنا ہے کہ ہمارے بہت سے ساتھی یہ زہریلا گوشت کھانے کی وجہ سے مر گئے ہیں۔ نہیں معلوم کہ ان مردوں میں زہر کہاں سے آیا۔‘‘
’’میں خود بھی ڈرڈرکر کھاتا ہوں۔ حیرت ہے کہ انسانی خون زہریلا ہو چکا ہے۔ ‘‘
’’ وہ خوفزادہ تھے اور یہ سمجھنے سے قاصر کہ ان کے حصے کا گوشت کون کھا رہا ہے۔ اس دفن ہونے والے اکثر مردے چھلنی ہوتے اور ان کے آدھے دھڑ غائب ہوتے جو ان کیلئے فکر انگیز لمحات تھے۔ وہ سارے قبرستان کو جانتے تھے، وہاں پر کوئی ایسا نہ تھا جو ان کے حصے کا گوشت کھا سکے کیونکہ وہ سارے مل جل کر کھانے کے عادی تھے۔ وہاں ہر چیز مل کر کھائی جاتی تھی اور کوئی بھی اکیلے تنہا نہیں کھاتا تھا۔ وہ اس چور کو نہ پکڑ سکے۔ دن گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی پریشانیوں میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ظلم اور تشدد جاری رہا جو نا سمجھ کیڑوں کے علم سے باہر تھا۔
ایک دن ان کی ملاقات دوسرے قبرستان کے چند کیڑوں سے ہوئی تو انہوں نے بھی ایسی ہی کہانیاں سنائیں۔ انہوں نے بھی آدھا مردہ کھایا تھا جبکہ گوشت کے کچھ ٹکڑے انہوں نے سڑک کے ایک کنارے سے نوچ کے کھائے تھے۔ یہ دن ان کے لئے قیامت سے کم نہ تھا۔ ان کے بہت سے ساتھی خون کے تالاب میں ڈوب کر مر گئے تھے جو ایک سڑک کے کنارے بے تحاشا قتل عام کےبعد بن گیا تھا۔ تمام کیڑے یہ کہانیاں سن کے پریشان ہوئے۔ انہیں یقین نہ آیا کہ اب انسانوں نے انسانوں کو کھانا شروع کر دیا ہے۔ اگر انسان ہی انسان کو کھانے لگے تو ان کے لئے کیا بچے گا۔ یہ ان کے لئے اذیت ناک تھا ۔ ان کے دل میں انسانوں کے لئے نفرت پیدا ہو گئی کہ انسان اتنے ظالم ہو چکے ہیں اور وہ ایک دوسرے کے گوشت کے عادی ہو چکے ہیں۔
’’کیا تم نے کہانیوں سنی کہ زمین پر کیا ہو رہا ہے؟‘‘ ایک کیڑے نے خوفزادہ ہو کر دوسرے سے پوچھا۔
’’ ہاں، میں تو یہ جان کر حیران ہوں کہ انسان ایک دوسرے کو کھا رہے ہیں۔‘‘ دوسرے نے جواب دیا۔
’’وہ بہت ظالم ہیں، ایک دوسرے کو لوہے سے نوچ کے کیسے کھاتے ہیں۔ ‘‘ پہلے نے دوسرے کو جواب دیا۔
’’یہ بہت اذیت ناک بات ہے کہ وہ بھی اپنا پیٹ بھرنے کے لئے ہماری جیسی عادات اپناتے جا رہے ہیں۔ پہلے وہ مجھے بہت دیو قامت اور بھاری بھرکم دکھائی دیتے تھے مگر اب اپنے برابر نظر آتے ہیں۔‘‘ پہلے نے جواب دیا۔
’’شاید وہ بھول گئے ہیں کہ وہ انسان ہیں۔‘‘ دوسرے کیڑے نے سرد آہ بھر کر کہا۔
’’اگر انہوں نے یہی سلسلہ جاری رکھا تو مستقبل میں ہم بھوکوں مریں گے۔ ‘‘ پہلے نے فکر مندی سے جواب دیا۔
کیڑوں کی فکر بڑھتی چلی گئی لیکن معمول میں کوئی تبدیلی نہ آئی ۔ مردوں کی تعداد زیادہ ہوتی رہی اور ان سے خون رستا رہا۔ قبرستان کے تمام کیڑوں کے لئے وہ دن اذیت ناک تھا جب انہوں نے ننھے بچے کی آدھ دھڑی لاش دیکھی۔ ننھے بچے کی لاش ٹکڑوں میں تقسیم تھی اور ہر جگہ لوہے کے کیل اور میخیں لگیں تھیں۔ انہوں نے آہ بھری کہ اتنا ننھا بچہ لوہا کیسے کھا سکتا ہے؟ قبرستان کے تمام کیڑوں نے ماتم کیا، آہ و بکا کی اور چھوٹے بچے کی لاش پر سسکیاں بھریں جس کا گوشت ان کی پسندیدہ خوراک تھا۔ انہیں یقین ہو گیا کہ یہ انسانوں کی اپنی کارستانی ہے۔ انہوں نے انسانوں پہ لعنت بھیجی کہ جنہوں نے اپنے بچوں کو کھانا شروع کر دیا تھا۔ یہ ان کے لیے قیامت کا دن تھا۔ زیادہ تر کیڑوں نے قبرستان سے ہجرت کا فیصلہ کر لیا جبکہ کچھ نے ننھی لاش کے کفن میں جمع خون کے تالاب میں ڈوب کر خودکشی کر لی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *