ازفر
تُو آتش ہے
جو پھولوں سے مہکتی ہے
زمانہ گرد جس کے دائروں میں رقص کرتا ہے
تمنا سے بھری آنکھیں تمھاری راہ تکتی ہیں
وہ قصہ رات کی دیوار پر لکھا ہوا ہے
نہ آنکھوں میں سِمٹتا ہے
نہ سانسوں سے سُلجھتا ہے
کوئی گُل آبی ریشم ہے جو پہلو سے لپٹتا ہے
کوئی بادل ہے تُو
جو اوک بھر برسے تو
دھرتی جاگ اُٹھتی ہے
مری شاخوں کے اندر تیری چہکاریں بھی زندہ ہیں
ترے اس جسم سے کِھلتی وہ ساری حیرتیں
مجھ پر الہام بھیجیں گی
میں جن سے خود ڈھانپوں گا
تیرے خال و خط سے
اور خوشبو کے جہاں سے
آسمانوں کی فضاؤں کی طرح وسعت
مرے اندر اترتی ہے….
Image: Benito Salmerón