Laaltain

بس سے آگے ہٹ جائیے

14 فروری، 2016
عالمگیریت کے اسی ثقافتی سیلاب کی اسی سلسلے کی ایک کڑی کا نام ویلنٹائن ڈے ہے۔ اسے “یومِ محبت” کی مقامیت بھی بخشی جا چُکی ہے۔
تو بھائی یہ جو عالمگیریت دم سادھے بھاگتی ہی آتی جا رہی ہے، اس کے سامنے کسی طور بند باندھنا محال ہو گیا ہے۔ کیونکہ پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی پہلے ہی بہنے جو دے دیا گیا تھا اور ابھی بھی واقعاتی شہادت تو یہی ہے کہ پانی مسلسل بہنے دیا جا رہا ہے۔ اپنی ثقافت کے آثار و رسوم کی نئے وقت اور زمانے کے مطابق تزئین و آرائش نہیں کی گئی کہ وہ شرفِ عام کے حامل رہتے؛ کہ نئی نسل کو اپنے انداز و اطوار کی ثقافتی رسوم ملتی رہتیں۔ اپنی مقامی ثقافتی رسوم کو مرکزی دھارے سے دور کیا جاتا رہا۔ عجیب سی گھٹن کا چلن ہوا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک خلا سا پیدا ہوگیا۔ اور بھئی بات یہ ہے کہ ثقافتی خلا تا دیر برقرار رہ نہیں سکتے۔ عوامی ثقافت کی صارفیت طوفان کے اسباب کی سی فطرت کی حامل ہوتی ہے۔

 

عالمگیریت کے اسی ثقافتی سیلاب کی اسی سلسلے کی ایک کڑی کا نام ویلنٹائن ڈے ہے۔ اسے “یومِ محبت” کی مقامیت بھی بخشی جا چُکی ہے۔ دنیا کے کئی حصوں بالخصوص برصغیر پاک و ہند میں تو عالمگیریت کے ثقافتی سیلاب کے اس ایک مظہر کے سامنے پیشانیوں پہ پڑنے والے بَلوں سے لے کر ریاستی نوٹیفکیشنوں اور غیر ریاستی جتھوں کی ڈنڈا برداری تک ہر طور سے پُل باندھنے کی کوششیں ہوئی ہیں۔ لیکن اپنا آپ جلانے، کُڑھنے، تڑپنے اور دوسروں پہ اپنے اندر کے پکتے الاؤ کے سینک پہنچانے کا کچھ خاص اثر ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔

 

ہم دو ایک جُملوں میں کہیں تو یہ کہیں گے کہ اگر آپ کو اپنی ثقافت واقعتًا اتنی عزیز تھی تو اسے نئے عہد اور زمانے میں مقابلے کے لئے تیار کرنا بھی آپ کی ہی ذمے داری تھی۔ اب آپ نے اگر اس بابت نالائقی دکھائی یا سستی کی اور اب آپ اس خیال میں گُم ہیں کہ وقت کے بہتے دھارے کو روک لیں گے تو اس خیال کو ہم خیالِ خام کے علاوہ کچھ نہیں کہہ پائیں گے۔ آپ کا حال بھی اس پرانی سی پنجابی فلم کے اس تھکے ہوئے ہیرو کی طرح ہوگا جو اپنی محبوبہ کی آتی بارات کی بس کے سامنے اپنا چھوٹا سا کانپتا ہوا سینہ کھڑا ہوتا تھا۔ اونچی اور پھٹی ہوئی آواز میں چِلّاتا:

 

اگر آپ کو اپنی ثقافت واقعتًا اتنی عزیز تھی تو اسے نئے عہد اور زمانے میں مقابلے کے لئے تیار کرنا بھی آپ کی ہی ذمے داری تھی
“ایہہ شادی نہیں ہوسکدی!”

 

کچھ لمحوں بعد بس کے اندر سے کچھ بڑی بڑی مونچھوں والے نکلتے اور “اِب کے بول” نہیں کہتے تھے بلکہ دما دم مست مچھندر برپا کرتے۔ چند ہی لمحوں بعد وہ ڈائجسٹ مارکہ فلمی ہیرو اپنا رہا سہا وجود اٹھاتا، اپنے تن کا لباس سمیٹتا اور چلتا بنتا۔ اسی ہیرو کی طرح آپ جو اپنی ثقافت کے آثار و رسوم کو پہلے گُھن لگنے کے لئے چھوڑ آئے تھے اب اپنے کپڑے بچانے کی کوشش کریں، یا پھر زیادہ محنت کریں کہ آپ کے کلچر کے آثار و رسوم پھولے پُھولیں اور ہمہ گیر طور پر پُرکشش بنیں۔ اور قبولیتِ عام حاصل کریں۔

 

لہذا یہ جو آپ جدید ثقافتی طوفانوں کو اپنی کمزور چھتریوں سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں اس سے دستبردار ہوجائیے، اور ہماری طرف سے یومِ محبت کے سعید لمحے یہ خوبصورت نظم پڑھ کے حظ کشید کیجئے۔ اس نظم کو لالٹین میگزین نے شائع کیا ہے۔ آپ کو بھی دعوت ہے کہ:

 

 

شاعر: لائبر فالکو ( پیرا گوائے)
مترجم: یاسر چٹھہ

 

مجھے آسمان کی جانب مختصر رستہ مِل گیا ہے
جس رستے پہ صرف میں چلا ہوں۔
لیکن آج تمُ بھی میرے ساتھ چلو گی،
تم میرے بازو کی سوار بنو گی۔
تم، لڑکی، اور میرے سب دوست،
ہم سب، بانہوں کو ہار کرکے۔
مجھے بہ جانبِ آسمان آسان رستہ مل گیا ہے۔
تمُ سب آؤ گے، ہم سب ہمجولی جائیں گے۔
ہم سب ہمجولی، بانہوں کو ہار کر کے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *