زینہ زینہ وقت کی تہہ میں اتر جائیں گے ہم
ایک دن یہ قلزمِ خوں پار کر جائیں گے ہم
یونہی ہر آہٹ پہ گر دیوارِ دل گرتی رہی
دیکھتے رہنا یہی ہوتا رہا تو مر جائیں گے ہم
صاحبو کیا خاک اڑتی ہے سرِ کوئے حیات
عمر کا دامن تو پھر مٹی سے بھر جائیں گے ہم
کوئے بربادی سے آگے دھیان کے سو موڑ ہیں
ہم بھی کہتے تھے کہ لوٹیں گے تو گھر جائیں گے ہم
شاخ سے وابستگی کب تک کہ در پہ ہے صبا
ایک پل لرزیں گے ٹوٹیں گے بکھر جائیں گے ہم
Leave a Reply