چھٹا سبق: زمان، امکان اور بلیک ہولز کی حرارت
کارلو رویلی
ترجمہ: زاہد امروز، فصی ملک
اسی سلسلے کے مزید اسباق پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
پچھلے ابواب میں ہم نے طبعیات کے اہم نظریات پر بحث کی جو کائنات کے بنیادی اجزا کو بیان کرتے ہیں، ان کےعلاوہ طبعیات کا ایک اور بنیادی نظریہ ہے جو دوسرے نظریات سے قدرے مختلف ہے. غیرمتوقع طور پر یہ صرف ایک سادہ سوال سے جنم لیتا ہے کہ "حرارت کیا ہے”؟
انیسویں صدی کے وسط تک طبعیات دانوں نے حرارت کو ایک سیال یا مائع کی صورت میں سمجھنے کی کوشش کی جو کیلوری(Caloric) کہلاتا تھا. کچھ محققین کے نزدیک یہ دو سیال مادے تھے، ایک گرم اورایک ٹھنڈا۔ لیکن یہ مفروضہ غلط ثابت ہوا۔ بالآخر جیمز میکسویل (James Maxwell) اور آسٹریا کے طبعیات دان لڈوگ بولٹزمین (Ludwig Boltzmann) نے اس کی درست تفہیم کی اورجو نتیجہ انہوں نے اخذ کیا وہ انتہائی خوبصورت، حیرت انگیز اورعمیق ہے. یہ ادراک ہمیں ان راستوں پر لے جاتا ہے جو ابھی تک مکمل دریافت نہیں ہو سکے۔
ان دو سائنس دانوں کی تفہیم کے مطابق گرم مادہ (Substance) کوئی سیال شے نہیں جسے کیلوری(Caloric) میں پیمائش کیا جائے بلکہ ایک گرم مادہ اصل میں مادے کی وہ حالت ہے جس میں جوہر(Atoms) نہایت تیزی سے حرکت کرتے ہیں۔ جوہر اور سالمے (Molecules)، جو کہ آپس میں بندھے جوہروں کے جھنڈ ہیں، مسلسل متحرک رہتے ہیں۔ مادے کے جوہر اور سالمے کئی طرح سے حرکت کر سکتے ہیں۔ یہ ایک خط پر سیدھے چل سکتے ہیں، ارتعاش کرسکتے ہیں اور کسی سطح سے ٹکرا کر منعکس ہوسکتے ہیں۔ جب کہ ٹھنڈا مادہ اس کے برعکس مادے کی وہ حالت ہے جس میں جوہر یا سالمے سست روی سے حرکت کرتے ہیں۔ یہ نہایت خوبصورت اور سادہ تصور ہے لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔
ہم جانتے ہیں کہ حرارت ہمیشہ گرم سے ٹھنڈے اجسام کی طرف بہتی ہے۔ایک ٹھنڈا چائے کا چمچ جب گرم کپ میں رکھا جائے تو وہ گرم ہو جاتا ہے۔ ایک سرد دن میں اگر ہم مناسب لباس نہ پہنیں تو ہمارا جسم تیزی سے حرارت کھو کر ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ حرارت ہمیشہ گرم سے ٹھنڈے اجسام کی طرف کیوں جاتی ہےاور اس کی مخالف سمت میں کیوں نہیں؟
یہ ایک نہات اہم سوال ہے. اس کا تعلق وقت کی ماہیت سے ہے۔ مثلاً ہروہ صورتِ حال جس میں دو اجسام کے درمیان حرارت کا تبادلہ نہیں ہوتا یا پھربہت معمولی مقدارمیں ہوتا ہے ایسی صورت میں ان اجسام کی حالتِ مستقبل اور حالتِ ماضی ایک جیسی دکھائی دیتی ہے۔ ان میں کوئی طبعی تبدیلی واقع نہیں ہوتی. مثال کے طور پر نظامِ شمسی میں سیاروں کی حرکت کا مشاہدہ کرتے ہوئےہم حرارت کو تقریباً خارج از بحث (Irrelevant) سمجھتے ہیں. دراصل سیاروں کی یہ حرکت جو ایک مخصوص سمت میں وقوع پذیر ہوتی ہے، طبعیات کے قوانین سے انحراف کیے بغیر مخالف سمت میں بھی وقوع پذیر ہو سکتی ہے۔ جب تک مادے کی حرکت میں حرارت کا عنصر موجود ہے اس کی حالت ِمستقبل اس کی حالت ِ ماضی سے مختلف ہو گی۔ مثال کے طور پر اگر اجسام کے درمیان رگڑ موجود نہ ہو تو سادہ پنڈولم (Pendulum) بغیر رکے ہمیشہ ارتعاش میں رہ سکتا ہے۔ اگر ہم اس پنڈولم کی حرکت کی فلم بنائیں اوراس فلم کو پیچھے کی سمت (Reverse) چلائیں تو ہم ایک غیرمتغیر یکساں حرکت دیکھیں گے جو کلی طور پرممکن ہے۔ لیکن اگررگڑ موجود ہوتو پینڈولم اس رگڑ کی وجہ سے تھوڑا سا گرم ہوگا، اپنی توانائی کھوئے گا اور آہستہ ہو جائے گا۔ رگڑ حرارت پید ا کرتی ہے اور ہم فوراً ہی اس کی مستقبل کی حالت کو(جب پینڈولم آہستہ ہوگا) اس کی ابتدائی حالت (ماضی) سے تفریق کرسکتے ہیں. ہم نے کبھی بھی کوئی ایسا پینڈولم نہیں دیکھا جو ساکن حالت میں ہو اور پھر خود بہ خود حرارت جذب کر کے حرکت کرنے لگے۔ ماضی اور مستقبل کے درمیان تفریق اسی صورت ممکن ہوتی ہے جب حرارت موجود ہو۔ وہ بنیادی مظہر جس سے ہم ماضی اور مستقبل کے درمیان تفریق کرتے ہیں یہ ہے کہ ‘حرارت وقت کے ساتھ گرم اجسام سے ٹھنڈے اجسام کی طرف بہتی ہے’۔
ہم دوبارہ وہی سوال دوہراتے ہیں کہ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے حرارت گرم سے ٹھنڈے اجسام کی طرف کیوں بہتی ہے؟ وہ اس کی مخالف سمت میں کیوں نہیں بہہ سکتی؟ اس کی وجہ بولٹزمین نے دریافت کی اور یہ حیران کن حد تک سادہ ہے۔ اُس کے نزدیک یہ قطعی طورپرایک امکان (Probability) ہے۔
بولٹزمین کا تصورِحرارت کافی سبک ہے اور یہ امکان پر منحصر ہے۔ حرارت گرم سے ٹھنڈی اشیا کی طرف کسی حتمی قانون کے تحت حرکت نہیں کرتی بلکہ یہ ایسا اس لیے کرتی ہے کیوں کہ ایسا ہونے کا امکان باقی امکانات سے زیادہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شماریاتی طور پراس بات کا امکان بہت زیادہ ہے کہ کوئی تیزی سے حرکت کرتا ہوا زیادہ توانائی رکھنے والا جوہراپنے سے کم توانائی رکھنے والے کسی جوہر سے ٹکرائے اور اپنی کچھ توانائی اسے منتقل کردے، نہ کہ اس کے اُلٹ ہو۔ اشیاء کے تصادم میں توانائی کا بقا ہوتا ہے یعنی ٹکراؤ کی وجہ سے توانائی کی ایک جسم سے دوسرے میں منتقلی کے باوجود مجموعی توانائی کی مقدار یکساں رہتی ہے لیکن اگربہت سے اجسام کی ساتھ تصادم ہوتو یہ کم و بیش برابر تقسیم ہو جاتی ہے۔ اس طرح باہم متصل اجسام کا درجہ حررت ایک دوسرے کے برابر ہونے لگتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی گرم جسم کسی ٹھنڈے جسم سے ٹکرا کر مزید گرم نہیں ہو سکتا۔ صرف یہ کہ ایسا ہونے کا امکان نہایت ہی کم ہے۔
امکان (Probability) کو حرارت کی طبعیات کی بنیاد بنا کر توانائی اور حرارت کی حرکیات کی وضاحت کرنے کی کوشش کو شروع میں لا یعنی گمان کیا گیا۔ جیسا کہ اکثرہوتا ہے، بولٹزمین کے تصورات کو کسی نے بھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اس نےدل برداشتہ ہو کر 5 ستمبر 1906ع کو اٹلی کے شہر ٹریسٹے (Trieste) کے قریبی قصبے ڈینو(Duino) میں خود کو پھانسی دے کر خود کشی کر لی. افسوس کہ وہ اپنے ان سائنسی تصورات کے درست ثابت ہونے اور ہمہ گیر قبولیت کو نہ دیکھ سکا۔
دوسرے باب میں میَں نے یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ کیسے کوانٹم میکانیات(Quantum Mechanics) یہ پیش گوئی کرتی ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے اجسام کی حرکات بھی محض امکانات (Probabilities) کے تحت وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ یہ تصورنظریہِ امکانیت کو مرکزی بنا دیتا ہے۔ لیکن امکانیت کا وہ تصورجو بولٹزمین نے پیش کیا اورجو اس کے تصورِحرارت کا بنیادی جزو ہے اس کی ماہیت اوّل الذکر نظریہِ امکانیت سے مختلف ہے اوراس کا کوانٹم میکانیات سے تعلق نہیں۔ جب کہ وہ تصورِامکانیت جو حرارت کی سائنس میں کارفرما ہے وہ کسی حد تک ہماری لاعلمی سے وابستہ ہے۔
یہ ممکن ہے کہ میں کسی چیز کے بارے میں حتمیت سے نہ جان سکوں تاہم پھر بھی میں اس کے ساتھ کم یا زیادہ درجے کا امکان منسلک کرسکتا ہوں۔ مثال کے طور پر میں نہیں جانتا کہ یہاں مارسیلے (Marseilles) میں کل بارش ہو گی، سورج نکلے گا یا پھر برف باری ہوگی۔ لیکن اس چیز کا امکان بہت کم ہے کہ کل یہاں مارسیلے میں(آگست کے مہینے میں) برف باری ہو۔ اسی طرح بیش تر طبعی اجسام کے بارے میں ہم کچھ نہ کچھ علم تورکھتے ہیں لیکن ان کی حالت کا مکمل علم نہیں رکھتے۔ ہم صرف امکانات کی بنیاد پر پیش گوئی ہی کررہے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہوا سے بھرے ایک غبارے کا تصور کریں۔ میں اس کی شکل، حجم، دباؤ اوردرجہ حرارت کی پیمائش کر سکتا ہوں لیکن اس غبارے کے اندر موجود ہوا کے سالمے (Molecules) جوانتہائی تیزی سے ہمہ وقت حرکت کررہے ہوتے ہیں، ہرایک سالمے کا بلکل صحیح مقام متعین نہیں کر سکتا۔ یہ محدودعلمی میرے لیے اس بات کی درست پیش گوئی کرنے میں رکاوٹ ہے کہ غبارہ کیسا برتاؤ کرے گا۔ مثلاً اگر میں اس ہوا بھرے غبارے کی گرہ کھول دوں تو اس کے اندر سے ہوا تیزی سے خارج ہو گی اور وہ کس طرح اِدھر اُدھر اُڑے اورٹکرائے گا جس کی پیش گوئی کرنا میرے لیے ناممکن ہے۔ اس لیے کہ مجھے صرف اس کے شکل، حجم، دباؤ اور درجہ حرارت معلوم ہیں۔ غبارہ اِدھراُدھر اُڑتے ہوئے کن مخصوص مقامات پر ٹکرائے گا اس کا انحصارغبارے میں موجود ہوا کے تمام سالموں کے مقام کے صحیح تعین کر لینے پرہے جو میں نہیں جانتا۔ اگرچہ میں ہر پہلو کی درست پیمائش نہیں کر سکتا لیکن پھر بھی میں اس بارے میں کچھ نہ کچھ پیش گوئی کرسکتا ہوں کہ کیا وقوع پذیر ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ مثال کے طور پر اس کا امکان بہت کم ہو گا کہ غبارہ کھڑکی سے باہر اڑ جائے اور کچھ فاصلے پر موجود لائٹ ہاؤس کا چکر لگا کر میرے ہاتھ میں واپس اسی جگہ پر آجائے جہاں سے اسے چھوڑا گیا تھا۔ ہم اپنے علم اور مشاہدے سے قیاس کر سکتے ہیں کہ کسی چیز کے ایک مخصوص طرح برتاؤ کرنے کے امکانات باقی ممکنات سے زیادہ ہوتے ہیں۔
اس تناظر میں یہ تخمینہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب سالمے آپس میں ٹکرائیں گے تو حرارت گرم سے ٹھنڈے اجسام کی طرف منتقل ہوگی اورنتیجتاً حرارت کا گرم سے ٹھنڈے اجسام کی طرف منتقل ہونے کا امکان بہت زیادہ ہے۔ سائنس کی شاخ جو اس کی تصدیق کرتی ہے شماریاتی طبعیات (Statistical Mechanics) کہلاتی ہے اوراس کی شروعات بولٹزمین (Boltzmann) کے سائنسی کام سے ہوتی ہے جو ہمیں تپش(Heat) اور درجہ حرارت (Temperature) کی امکانی فطرت کی تفہیم کرنےمیں مدد دیتی ہے۔ بالفاظِ دیگر یہ حرَحرکیات(Thermodynamics) کی تفہیم ہے۔
پہلی نظرمیں یہ تصورغیر منطقی لگتا ہے کہ کائنات کی ماہیت کے بارے ناسمجھ آنےوالے عوامل کا تعلق ہماری لاعلمی سے ہے: ٹھنڈے چمچ کا چائے میں گرم ہونا اور ہوا بھرے غبارے کو چھوڑنے پر اس کا اِدھر اُدھراڑنا اس بات سے بے خبر ہیں کہ میں اس بارے میں کیا جانتا ہوں اورکیا نہیں۔ قوانینِ فطرت کا اس سے کیا تعلق کہ میں کیا جانتا ہوں اورکیا نہیں؟ یہ بالکل جائزسوال ہے اور اس کا جواب نہایت لطیف (Subtle) اور باریک ہے۔
چمچ اور غبارہ طبعیات کے قوانین کی پیروی کرتے ہوئے ویسا ہی برتاؤ کرتے ہیں جیسا انہیں کرنا چاہیے اور اس بات سے آزاد رہتے ہیں کہ ہم انسانوں کو اس بارے میں کیا جان کاری ہے اور کیا نہیں۔ ان کے برتاؤ کی پیش گوئی یا نا قابل پیش گوئی کا تعلق ان کی درست حالت سے نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق ان کی طبعی خصوصیات کے اس محدود سیٹ سے ہےجس سے ہم تعامل کرتے ہی۔ خصوصیات کے اس سیٹ کا تعلق اس بات سے ہوتا ہے کہ ہم کس طرح چمچ یا غبارے سے تعامل کرتے ہیں۔ یعنی ہم انہیں کس زاویے اور نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں. کسی مظہر کے واقع ہونے کے امکان کا مطلب بذاتِ خود مادے کا ارتقاء نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق ان چند خصوصیات کے ارتقاء سے ہے جن سے ہم تعامل کرتے ہیں۔ ایک بار پھر وہ عمیق تصورات ابھرتے ہیں جن کے ذریعے ہم دنیا کے مظاہر اور ان کے باہمی تعاملات (Interactions) کی ترتیب و تفہیم کرتے ہیں۔
ایک چمچ چائے میں گرم ہو جاتا ہے. چمچ اور چائے اپنی مائیکرو سطح (Microstate) پر ان گنت متغیرات (Variables) کا تعامل کرتے ہیں جواُن کی طبعی حالت کی مکمل تشریح کرتے ہیں. ہم ان تعاملات میں سے صرف چند مخصوص تعاملات کا مشاہدہ کرسکتے ہیں. ان محدود قابلِ مشاہدہ تغیرات کی بنیاد پر چمچ کی مستقبل کی حالت (ہوا بھرے غبارے کی طرح ) کا مکمل ادراک نہیں کیا جاسکتا. البتہ ان چند معلوم تغیرات کی بنا پر قابل یقین حد تک پیش گوئی کی جاسکتی ہے کہ چائے میں چمچ گرم ہوگا. میں امید کرتا ہوں کہ میں نے اس لطیف مظہرکو بیان کرتے ہوئے قاری کا دھیان نہیں کھویا۔
اب بیسویں صدی میں مظاہرکی تفہیم کے لیے حرحرکیات (Thermodynamics) جو کہ حرارت کی سائنس ہے اور شماریاتی میکانیات (Statistical Mechanics) جو کہ مختلف حرکات کی امکانیت کی سائنس ہے، کو برقناطیسیت (Electromagnetism) اورکوانٹمی مظاہر(Quantum) کی سائنس کے ساتھ ملا دیا گیا ہے۔ تاہم حرارت کی تشریح کرتے ہوئے طبعیات کی مندرجہ بالا شاخوں کا تجاذبی میدان (Gravitational Field) کے ساتھ انسلاک کرنا کافی مشکل ثابت ہوا۔ کیونکہ یہ سوال ہم ابھی تک حل نہیں کر سکے کہ مادے کی گرم حالت میں تجاذبی میدان پر کیا اثر پڑتا ہے۔
ہم بخوبی جانتے ہیں کہ گرم حالت میں برقناطیسی میدان کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر مائیکروویو چولہے (Microwave Oven) میں گرم برقناطیسی شعاعیں ہوتی ہیں جو کھانے کو پکاتی ہیں۔ ہم اس کی تشریح و تفہیم کر سکتے ہیں کہ یہ عمل کیسے ہوتا ہے۔ برقناطیسی شعاعیں ارتعاش کرتی ہیں اور ہرطرف توانائی منتقل کرتی ہیں اور ہم اس کا تصور ضیائیوں/ فوٹونز(Photons) پرمشتمل ایک گیس کی صورت میں کر سکتے ہیں جو ایک گرم غبارے میں موجود سالموں کی طرح بے ترتتب حرکت کرتے ہیں۔ لیکن ایک گرم (Heated) تجاذبی میدان کیسا ہوتا ہے؟
ہم نے پہلے باب میں ذکر کیا کہ تجاذبی میدان بذاتِ خود مکاں (Space) ہے۔ بلکہ زمان و مکان ہے لہٰذا جب تجاذبی میدان میں حرارت کا نفوز ہوتا ہے تو زمان و مکان کو لازمی طور پر مرتعش ہونا چاہیے۔ لیکن ہمیں خود نہیں معلوم کہ اس مظہر کو کیسے بیان کیا جائے۔ ہمارے پاس گرم زمان و مکان کے حرارتی ارتعاش کو بیان کرنے والی مساوتیں نہیں ہیں۔ ارتعاش پذیر وقت یا زمان کیا ہے؟ یہ سوالات ہمیں وقت کے تصور میں موجود مسائل تک لے جاتے ہیں: وقت کے بہاؤ یا زمان کے تسلسل کی اصل حقیقت کیا ہے؟
یہ مسئلہ پہلے سے کلاسیکی طبعیات میں موجود تھا اوراسے انیسویں اور بیسویں صدی کے فلسفیوں نے اجاگر کیا۔ جدید طبعیات میں یہ اور بھی اہمیت اختیارکرگیا ہے۔ فزکس دنیا کو کلیات یا فارمولوں کی شکل میں بیان کرتی ہے جو یہ بتاتے ہیں کہ چیزیں ‘وقت’ کے ساتھ کیسے تبدیل ہوتی ہیں۔ لیکن ہم ایسے کلیات یا فارمولے بھی لکھ سکتے ہیں جو یہ بتائیں کہ چیزیں ‘تبدیلیِ مقام’ کے ساتھ کیسے بدلتی ہیں۔ یا یہ کہ کھانے میں مکھن کی مقدارکو کم یا زیادہ کیا جائے توکھانے کا ذائقہ کیسے بدلتا ہے۔ وقت بہتا ہوا دکھائی دیتا ہے جب کہ سپیس میں "مکھن کی مقدار” یا "مقام” نہیں بہتے۔ یہ فرق کہاں سے آتا ہے؟
یہی سوال ایک دوسرے طریقے سے بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ خود سے پوچھا جائے کہ ہمارےلیے”زمانہ حال” کیا ہے؟ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ صرف حال کی چیزیں وجود رکھتی ہیں۔ جیسے اسی لمحےکا مشاہدہ کریں. ایک لمحہ گزرتے ہی ماضی کا وجود ختم ہو گیا اور مستقبل ابھی آیا نہیں۔ لیکن فزکس میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو "اب” سے نسبت رکھتی ہو۔ مقام کے تناظر میں "اب” کا "یہاں” سے موازنہ کریں۔ مثلاً "یہاں” اُس جگہ کو ظاہر کرتا ہے جہاں ایک مدرس یا مقرر ہوتا ہے۔ دو مختلف مقررین کے لیے "یہاں” سے مراد دو مختلف مقامات ہوں گے۔ نتیجتاً "یہاں” ایک ایسا لفظ ہے جس کا مطلب اس پر منحصر ہو گا کہ وہ کہاں بولا گیا ہے۔اس طرح کے بول چال کے لیے ایک اصطلاح "اشاریتی” (Indexical) استعمال کی جاتی ہے۔”اب” بھی اس لمحے کی طرف اشارہ کرتا ہے جب کوئی لفظ بولا جائے اوراس کی گروہ بندی بھی اشاریتی کی جا سکتی ہے۔ لیکن کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ جو چیزیں ‘یہاں’ ہیں وہ وجود رکھتی ہیں اور جو ‘یہاں’ نہیں ہیں وہ وجود نہیں رکھتیں۔ تو پھر ہم کیوں کہتے ہیں کہ جو چیزیں "اب ” ہیں وہ وجود رکھتی ہیں اور باقی چیزیں وجود نہیں رکھتیں؟ کیا "حال” اس دنیا میں کوئی معروضی (Objective) شے ہے جو مسلسل بہتا ہے اور چیزوں کو وجود بخشتا ہے؟ یا یہ بھی "یہاں” کی طرح موضوعی (Subjective) ہے؟
ممکن ہے کہ یہ ایک ناقابلِ فہم دماغی مسئلے کی طرح لگے لیکن جدید طبعیات نے اسے ایک اہم مسئلہ (Burning Issue) بنا لیا ہے کیوں کہ خصوصی اضافیت (Special Relativity) نے ہمیں دکھایا ہے کہ ‘حال’ بھی موضوعی ہے۔ طبعیات دان اور فلسفی اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ تصورِحال جو کہ ساری کائنات میں مشترک ہے ایک فریب ہے اور وقت کا ہمہ گیر بہاؤ ایک ایسی تعمیم ہے جو درست نہیں۔ جب آئن شٹائن کے عظیم دوست مشیل بیسو (Michele Besso) کا انتقال ہوا تو اس نے بیسو کی بہن کو ایک نہایت ہی دل گداز خط لکھا۔ "مشیل اس دنیا کو مجھ سے تھوڑا پہلے چھوڑ گیا ہے۔ یہ لایعنی ہے۔ ہم جیسے لوگ جو طبعیات پر یقین رکھتے ہیں یہ جانتے ہیں کہ ماضی، حال اور مستقبل کے درمیان بنائی گئی تفریق ایک فریبِ مسلسل کے سوا کچھ نہیں”۔
وقت کا تصورایک فریب ہے یا نہیں، اس سے قطع نظر اس امر کا تعین کون کرتا ہے کہ کیا وقت ہمارے لیے گزرتا ہے، دوڑتا ہے یا بہتا ہے؟ وقت کا گزرنا ہم سب پرعیاں ہے۔ ہماری سوچیں، ہمارے خیالات اور ہماری تقاریر وقت میں وجود رکھتی ہیں۔ زبان کی ساخت قائم کرنےکے لیے بھی وقت درکار ہے۔ ایک چیز "ہے” یا "تھی” یا ” ہوگی”۔ رنگوں یا مادے کے بغیر حتٰی کہ سپیس کے بغیر دنیا کا تصور کیا جاسکتا ہے لیکن وقت کے بغیر دنیا کا تصور کرنا مشکل ہے۔ جرمن فلسفی مارٹن ہائیڈگر (Martin Heidegger) نے ہمارے "وقت میں قیام” (Dwelling in Time) پر زور دیا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ وقت کا بہاؤ جس کو ہائیڈگر بنیادی تصور کرتا ہے ہماری دنیا کی ساخت (Description) میں موجود ہی نہ ہو؟
کچھ فلسفی جن میں ہائیڈگر کے پیروکار شامل ہیں یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ طبعیات حقیقت کے سب سے بنیادی مظہر کو بیان کرنے سے قاصر ہے. اس بنا پر وہ اسے علم کی گمراہ کن شاخ کہہ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ لیکن ہم نے ماضی میں کئی بار دیکھا ہے کہ ہمارے عام جبلی خیالات غلط ثابت ہوئے ہیں۔ اگر ہم ابھی تک ان سطحی الہامی تصورات سے جڑے ہوتے تو آج ہم بھی یہی عقیدہ رکھتے کہ زمین مستوی یا چپٹی ہے اور سورج اس کے گرد چکر لگاتا ہے۔ دراصل ہمارا وجدان ہمارے محدود تجربات اور مشاہدات سے ہی جنم لیتا ہے۔ جب ہم مزید تھوڑا آگے دیکھتے ہیں تو دریافت کرتے ہیں کہ دنیا ایسی نہیں ہے جیسی بظاہر نظر آتی ہے۔ زمین گول ہے اور اس گولے پر ہمارے لحاظ سے کیپ ٹاؤن (Cape Town) میں بسنے والوں کے سر نیچے اور پاؤں اوپر ہیں۔ ایک محتاط، عقلی اور مکمل علمی جائزے کی بجائے محض روزمرہ کے سطحی جبلی مشاہدوں پر یقین رکھنا دانائی نہیں ہے: یہ اس بوڑھے شخص کی موہوم سوچ کی طرح ہے جو یہ ماننے سے انکار کر دیتا ہے کہ اس کے گاؤں کے باہر جو دنیا ہے وہ اس دنیا سے مختلف ہے جس کو وہ ہمیشہ سے جانتا ہے۔
وقت کے واضح نظر آنے اوراس کے گزرنے کے احساس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وقت حقیقت کے کسی بنیادی پہلو کا اظہار ہے۔ اگر یہ بنیادی نہیں ہے تو پھر یہ کہاں سے آتا ہے؟ وقت کے گزرنے کا واضح احساس کیوں ہوتا ہے؟
میرے خیال سے اس کا جواب حرارت اور وقت کے درمیان گہرے تعلق میں موجود ہے۔ ماضی اور مستقبل میں ایک قابلِ پیمائش فرق اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب حرارت کا بہاؤ ہو۔ حرارت امکان (Probability) سے وابستہ ہے اور امکان کا تعلق اس امر سے ہے کہ ہمارے ارد گرد پھیلی دنیا اور ہمارے درمیان ہونے والے تعامل کے دوران حقیقت کے تمام تر پہلو اپنی مکمل تفصیل کے ساتھ عیاں نہیں ہوتے۔ لہٰذا وقت کے بہاؤ کا ظہورعلمی سطح پرطبعیات میں تو ہوتا ہے لیکن چیزوں کی اصل حقیقت کےتناظرمیں نہیں ہوتا۔ بجائے اس کے یہ شماریات اور حرحرکیات کے زمرے میں ظاہر ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ عمیق تصور وقت کی رمز کو کھولنے کی کُنجی ہو۔ لمحہِ حال کا تصور(زمان) بھی اتنا ہی غیرمعروضی ہو جاتا ہے جتنا کہ "یہاں” (مکان) کا تصور۔ لیکن اس دنیا میں مائیکروسکوپک سطح کے تعاملات (Microscopic Interactions) کسی نظام کے اندر (مثال کے طور پر ہمارے اندر) جو بے شمار متغیرات (Variables) کے ذریعے تعامل کرتا ہے) زمانی مظہر(Temporal Phenomena) کا موجب بنتے ہیں.
ہماری یاداشت اور شعوراِن شماریاتی مظاہر (Statistical Phenomena) پرتعمیر ہوتے ہیں۔ ایک بالائے احساس فرضی وجود کے لیے ‘وقت کا بہاؤ’ لایعنی ہوگا۔ کائنات میں ماضی، حال اور مستقبل یکجا ہوں گے۔ لیکن ہمارے شعور کی محدودیت کی وجہ سے ہم اس کا محض دھندلا سا نظارہ ہی دیکھتے ہیں اور وقت (زمان) میں رہتے ہیں۔ اپنے اطالوی مدیر کے الفاظ میں "جو غیر ظاہر ہے وہ اس سے بہت زیادہ وسیع ہے جو ظاہر ہے”۔ اس محدود، دھندلے مرکز ِنگاہ سے ہم اپنے وقت کے گزرنے کا احساس کرتے ہیں۔ کیا وقت کا یہ احساس واضح اورمکمل ہے؟ نہیں یہ نہیں ہے۔ اس کا مکمل ادراک حاصل کرنے کے لیے ابھی بہت کچھ جاننا باقی ہے۔
وقت ان گنجلک مسائل کا مرکز ہے جو کوانٹم میکانیات، حرحرکیات اور تجاذب کے چوراہے پر پیدا ہوتے ہیں۔ مسائل کا ایسا گنجل جہاں ابھی ہم اندھیرے میں ہیں۔ اگرچہ ہم کوانٹم تجاذبیت (Quantum Gravity) کے بارے میں کچھ کچھ سمجھنے لگے ہیں جو اس پہیلی کے تین میں سے دو ٹکڑوں کو جوڑتی ہے پھر بھی ہمارے پاس ابھی ایسا کوئی نظریہ نہیں ہے جو دنیا کے بنیادی علوم کے ان تینوں ٹکڑوں کو یکجا کر سکے۔
حل کی طرف ایک چھوٹا سا اشارہ ان حسابات (Calculations) سے ملتا ہے جو سٹیفن ہاکنگ (Stephen Hawking) نے لگائے ہیں۔ ہاکنگ وہ طبعیات دان ہے جو اپنی طبّی حالت کی وجہ سے وہیل چیئر تک محدود رہا اورایک میکانیاتی کمک کے سوا بول بھی نہیں سکتا تھا۔ لیکن پھر بھی مسلسل شاندار فزکس پیدا کرتا رہا۔
کوانٹم میکانیات کو استعمال کرکے ہاکنگ نے یہ ثابت کیا کہ بلیک ہول ہمیشہ گرم ہوتے ہیں۔ وہ چولہے کی طرح حرارت خارج کرتے رہتے ہیں۔ یہ گرم مکاں (Hot Space) کی ماہیت کا پہلا ٹھوس اشارہ ہے۔ کسی نے اس حرارت کا براہ راست مشاہدہ نہیں کیا کیوں کہ یہ ان بلیک ہولوں میں بہت مدہم ہے جن کا ابھی تک مشاہدہ کیا گیا ہے۔ لیکن ہاکنگ کے حسابات قابلِ اعتبارہیں اوران کو بہت سے طریقوں سے دوہرایا گیا ہے۔ اوراب بلیک ہول کی حرارت کی حقیقت کوعمومی طور پر قبول کر لیا گیا ہے۔
بلیک ہول کی حرارت ایک ایسے جسم (بلیک ہول) پرکوانٹمی اثر ہے جو اپنی فطرت میں تجاذبی ہے۔ یہ سپیس کا انفرادی ذرّہ / کوانٹا (Quanta) ہے یعنی سپیس کے بنیادی ذرّے یا مرتعش ‘سالمے’ جو اپنے ارتعاش سے بلیک ہول کی سطح کو گرم کردیتے ہیں. یہ مسلسل پیدا ہوتی ہوئی گرمائش بلیک ہول کی حرارت کہلاتی ہیں۔ یہ مظہر اس مسئلے کے تینوں پہلوؤں کو شامل کرتا ہے۔ یعنی کوانٹم میکانیات، عمومی اضافیت اور حرارت کی سائنس۔ بلیک ہول کی حرارت طبعیات کےحجرِرشید (Rosetta Stone) کی طرح ہے جو تین زبانوں کے امتزاج کی صورت میں لکھا ہوا ہے جو کوانٹمی، تجاذبی اور حرحرکیاتی ہیں اور ابھی تک انتظار میں ہیں کہ کوئی ان کی تعبیرکرکے وقت کی اصل حقیقت کوعیاں کرسکے۔
Leave a Reply