[divider]یہ کوئی نظم نہیں ہے[/divider]
رات کہتی ہے
—–عورتیں محبت مانگتی ہیں
کنواں کہتا ہے
—–انسان مینڈک ہے
درخت کہتا ہے
—–کلہاڑی شیطان کی ایجاد ہے
نظم کہتی ہے
—–آدمی استعاروں میں زندہ ہے
صحرا نورد کہتا ہے
—–زندگی طویل سفر مانگتی ہے
سمندر کہتا ہے
—–آدمی عرشے پر کھڑا بھلا لگتا ہے
کرسی کہتی ہے
—–تھکن کا کوئی نعم البدل نہیں
سرخ نوٹ کہتا ہے
—–عورت کے سینے سے نرم کوئی جگہ نہیں
خواب کہتا ہے
—–آدمی کی شلوار سیلن زدہ رہتی ہے
اندھیرا کہتا ہے
—–خوف انسان کا دیوتا ہے
زمین کہتی ہے
—–چلنے سے تم رندے کی طرح گھستے رہتے ہو
اور بستر کہتا ہے
—–آدمی مباشرت کے لئے زندہ ہے
[divider]میں تمہاری سمت غروب ہونا چاہتا ہوں[/divider]
جب انگلیاں دو زانو ہو کر
تمہارے جسم کا طواف کرتی ہیں
ہمسایوں کی کھڑکیاں ہمارے خلاف
ایک دوسرے کے کانوں میں
نفرت کی سرگوشیاں کررہی ہوتی ہیں
جب تمہارے جسم کی سرحد کو چومتے ہوئے
محبت کی موسیقی ترتیب دے رہا ہوتا ہوں
شہر اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونسے
معنویت سے خالی باتیں اگل رہا ہوتا ہے
رد کئے ہوئے لمحوں میں
جب میں خود کو جمع کر رہا ہوتا ہوں
چوک میں کھڑے میلے کچیلے ہاتھ
خوابوں کی بھیگ مانگ رہے ہوتے ہیں
جب کاربن سے اٹے مزدور اپنے چہرے کو
بچوں کی چیخوں سے صاف کر رہے ہوتے ہیں
میں تمہارے ہونٹوں پر تیرتی ہنسی کو
چھونے کی ریاضت کر رہا ہوتا ہوں
حب ریستوران سایوں کے شور سے بھر جاتے ہیں
اور سڑکوں پر بے چہرہ لوگ
آپس میں ٹکرا ریے ہوتے ہیں
تم میری بانہوں میں مرجھا چکی ہوتی ہو
اور میں قطرہ قطرہ
تمہارے جسم کے کسی خانے میں
محفوظ ہوجانا چاہتا ہوں
[divider]بارش ہر کسی کو مصروف کر دیتی ہے[/divider]
چاند بارش میں بھیگ رہا ہے
گراموفون موت کا گیت گا رہا ہے
آدمی عرشے سے
ریت میں دھنسی عورت کی تصویر کشی کر رہا ہے
مالی امرود کے درخت کے پہلو میں سو رہا ہے
اسے پھولوں میں سوئی لڑکی کے خواب آ رہے ہیں
اداسی کیکٹس کے پھولوں سے
پول میں مشت زنی کرتے لڑکے کو جھانک رہی ہے
آدمی بے موسمی پھل اگانے کی کوشش میں
کئی موسم ضائع کر رہا ہے
چوک میں کھڑے ریڑھی بان
قہقہے ہانک رہے ہیں
بچے نیند کے فیڈر پیتے ہوئے
دو سمتوں میں سفر کررہے ہیں
کلاک کا پینڈولم تھکتا ہی نہیں ہے
شہر کے حاکم کو آٹھ راتوں سے
امرد پرستی کے خواب آ رہے ہیں
شام بادلوں کے پیچھے تیر رہی ہے
میں اسے بھیگتے ہوئے دیکھ رہا ہوں
[divider]آنسوؤں میں بٹی زندگی[/divider]
ہماری آنکھیں
صرف تھوکے ہوئے منظر
یا بس کے پیچھے
لٹکتے ہوئے آدمی کو دیکھ سکتی ہیں
مگر میں نے اپنی آنکھیں
ہم دونوں کے درمیان حائل فاصلہ
ماپتے ہوۓ ضائع کیں
ہمارے کان
گیت اور دعا سے پہلے
آنسوؤں کا ترانہ سننے کے عادی ہیں
اور انگلیاں
مٹی کا بوجھ اٹھانے کی وجہ سے
لکڑی کی شکل میں تبدیل ہو چکی ہیں
یہ تو صرف ایک ماں ہی بتا سکتی ہے
کہ مٹی میں آنسو جلدی جذب ہوتے ہیں
یا پھر پسینہ؟
میں ہر رات
کشتی بنانے کے منصوبے ترتیب دیتا ہوں
تاکہ چپوؤں سے
سمندر کی گہرائی معلوم کرتے وقت
مچھلی سے پوچھا جاسکے
کہ سمندر کا پانی زیادہ میٹھا ہوتا ہے
یا پھر آدمی کے آنسوؤں کا؟
شاید میں اب
ایک چپو بھی نہیں بنا سکتا
کیو نکہ جوۓ کی بازی میں
رات کی بچائی ہوئی
آدھی روٹی بھی ہار چکا ہوں
میرے پاس اب صرف دل بچا ہے
جس کے ذریعے
میں ایک چھینی ہوئی محبت کرسکتا ہوں
[divider]تم کھڑکی کھول کر نہیں دیکھتی[/divider]
تمہارے کمرے کی کھڑکی
سمندر کی طرف کھلتی ہے
تم آسانی سے
بادلوں کو چھو سکتی ہو
مگر میرے پیغام کا جواب دینے کی بجائے
طویل انتظار
میسج میں رکھ کر بھیج دیتی ہو
تم نیند کے ساحل پر
خوابوں کا بادبان اوڑھے سوئی رہتی ہو
تمہیں اس وقت کی خبر نہیں ہوتی
جب کوئی سیاح
تمہاری خوشبو سونگھ کر مچل جاتا ہے
اور سانسوں کے رستے سے
تم میں داخل ہوجانا چاہتا ہے
بارش کی شاموں میں
تم برہنہ بستر کا لباس بنی رہتی ہو
تمہارے کمرے کے آتشدان سے نکلتا دھواں
آسمان میں شگاف کردیتا ہے
خود لذتی کے دوران
آوازیں نکالتے ہوئے
جب تم دیواروں کے کان
بند کر رہی ہوتی ہو
کوئی شہوت کا مارا
تمہارے کمرے کی دیواروں میں
کسی درز کو تلاش کررہا ہوتا ہے
مگر تم کھڑکی کھول کر نہیں دیکھتی
[divider]شناخت[/divider]
جب وہ پیدا ہوا
گھر والوں نے اس کا نام جمال الدین رکھا
سکول کے رجسٹر میں اس کا نام
محمد جمال الدین درج ہوا
جب بچپن کو بیچ کر
اس نے بلوغت کمائی
اور داڑھی رکھنا شروع کردی
تو محلے والے اسے مولوی پکارنے لگے
عمر کے درمیانی حصے میں
جب وہ شہر میں چپڑاسی بھرتی ہوا
بڑے صاحب نے اس کا نام
بگاڑ کر “جالو “رکھ دیا
مگر وہ خوش تھا
کہ پہچان تو چہروں سے ہوتی ہے
جن دنوں سرکاری معلومات
کمپیوٹر میں محفوظ کی جارہی تھی
ایک چیک پوسٹ پر
تلاشی لینے کے بہانے
اس کے اعضاء کو بکھیر دیا گیا
یوں اپنے اصل نام کے ساتھ
وہ کہیں بھی درج نہ ہو سکا
جب ٹی وی اسکرین پر
اس کی موت کی خبر نشر ہوئی
تو گھر والے خوش تھے
کہ اس کے نام کی بجائے
مسخ شدہ چہرے کے ساتھ
صرف شہید لکھا ہوا تھا