‘اک کامل زندگی کی تین جہات’، اس موضوع کو میں خطبہ میں برتنا چاہتا ہوں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں، ہالی وڈ والے بتاتے ہیں کہ کسی بھی فلم کا مکمل ہونا، اُس کا سہ جہاتی [3D] ہونا ہے۔ آج جب میں آپ سے مخاطب ہوں، میں چاہتا ہوں کہ ہم میں سے ہر کوئی اپنی زندگی پر نظر کرے کہ آیا یہ کامل ہے؛ اگر ہاں تو اس کی تین جہات ہونی چاہئیں۔
بہت بہت صدیوں بیشتر ایک آدمی تھا جس کا نام جون (John) تھا۔ وہ پیٹموس (Patmos) نامی ایک تاریک و تنہا جزیرے پر قید ہو گیا۔ اور میں بھی قید میں رہا ہوں اور اچھے سے جانتا ہوں کہ یہ تنہائی کا ایک تجربہ ہے۔ اور جب آپ اس حالت میں مبتلا ہوتے ہیں، آپ ہر قسم کی آزادی سے محروم ہو جاتے ہیں، ماسوائے سوچنے کی آزادی سے، عبادت کی آزادی سے، غور و فکر کی آزادی سے، مراقبے کی آزادی سے۔ اور جب جون اس جزیرے پر تنہا قید تھا، اس نے اپنی نگاہیں آسمان تک بلند کیں اور اس نے فلک سے نازل ہوتے ہوئے، ایک نئی زمین کو دیکھا۔ انجیل کے اکیسویں باب ‘الہام’ [Revelation :انجیل کی آخری کتاب جس میں جون کو مستقبل کے بارے میں ملنے والے الہامات درج ہیں] کا آغاز اس مقولے سے ہوتا ہے، ‘اور میں نے ایک نیا فلک دیکھا اور ایک نئی زمین۔ اور میں جون ہوں، جس نے ایک مقدس شہر دیکھا ایک نیا یروشلم، جو خداوند کے عالم بالا سے نازل ہو رہا تھا۔’
اور خداوند کے اِس عظیم شہر کی عظمتوں میں سے سب سے بڑی عظمت یہ بھی تھی کہ جون نے دیکھا کہ یہ کامل ہے۔ یہ کہیں سے بلند اور کہیں سے پست نہیں تھا بلکہ، اپنی تینوں جہات میں کامل تھا۔ اور اِسی باب میں جب ہم سولہویں آیت کو دیکھتے ہیں، جان کہتا ہے: “اس کے طول، عرض اور بلندی مساوی ہیں۔” بہ اَلفاظ دِیگَر خداوند کا یہ شہرِ نو، مثالی انسانیت کا یہ نیا شہر کوئی غیر متناسب وجود نہیں ہے، بلکہ تمام اطراف سے کامل ہے۔ میں متن اور اس باب میں برتی علامتوں میں جون جو کچھ کہہ رہا اس پر غور وفکر کرتا ہوں ۔ وہ بنیادی طور پر کہہ رہا ہے کہ زندگی کو زندگی ہونا چاہیے اور بہترین زندگی وہ ہے جو تمام اطراف سے کامل ہو۔
اور کسی بھی زندگی کے کامل ہونے کی تین جہات ہیں؛ جس کے لیے ہم مناسب طور پر انھیں تین الفاظ میں بیان کر سکتے ہیں: طول، عرض اور بلندی۔ اب ہم یہاں زندگی کے طول کو کسی کی اپنی بھلائی کے لیے باطنی فکر کہیں گے۔ دیگر الفاظ میں یہ ایک داخلی سعی ہے جو کسی کے آگے بڑھنے کے ذاتی مقاصد اور نصب العین کے حصول کی وجہ بنتی ہے۔ زندگی کے عرض کو ہم یہاں دوسروں کی بھلائی کے لیے خارجی فکر کہیں گے۔ اور زندگی کی بلندی خداوند تک رسائی ہے۔ یعنی تمہیں کامل زندگی پانے کے لیے یہ تینوں جہات درکار ہیں۔
آئیے کچھ دیر کے لیے زندگی کے طول پر نظر کرتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ زندگی کی وہ جہت ہے، جس کا تعلق ہماری داخلی طاقتوں کی بلوغت سے ہے۔ ایک طرح سے یہ زندگی کی ایک خودغرضانہ جہت ہے۔ یہ ایک معقول اور صحت مندانہ مفاد جیسا پہلو ہے۔ ایک عظیم یہودی پیشوا، مرحوم جوشوا لِیب مین [Joshua Leibman] نے کچھ سال پیشتر ‘ذہنی سکون’ [Peace of Mind] کے عنوان سے ایک کتاب لکھی تھی۔ اس میں ایک باب ‘خود سے ڈھنگ سے محبت کرو’ [Love Thyself Properly] کے عنوان سے تھا۔ خلاصتًہ وہ اس باب میں کہتا ہے کہ اس سے پہلے کہ آپ دوسروں سے اچھے سے محبت کر پائیں، آپ کو پہلے اپنے آپ سے ڈھنگ سے محبت کرنی ہو گی۔ آپ جانتے ہیں بہت سے لوگ جو خود سے محبت نہیں کرتے۔ ایسے افراد زندگی میں گہرے اور حسرت ناک جذباتی تصادم سے گزرتے ہیں۔ سو زندگی کا طول یہ ہے کہ آپ لازماً خود سے محبت کریں۔
اور کیا آپ جانتے ہیں کہ خود سے محبت کا اور کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ آپ خود کو قبول کریں۔ بہت سے لوگ کوئی اور بننے کی سعی میں رہتے ہیں۔ خداوند نے ہم سب کو کچھ نہ کچھ خاص وصف عطا کیا ہے۔ اور ہمیں خداوند سے باقاعدگی سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ ہمیں خود اپنے آپ کو قبول کرنے میں مدد دے۔ یہ ہی سب سے اہم پہلو ہے۔ بہت سے نیگروز اپنے وجود پر شرمندہ ہیں، کالے ہونے پر شرمسار ہیں۔ ایک نیگرو کو اٹھ کھڑا ہونا ہے اور اپنی روح کی گہرائی سے کہنا ہو گا کہ، ‘میرا ایک وجود ہے۔ میرا ایک قیمتی، باوقار اور پُرفخر اثاثہ ہے۔ میری تاریخ جتنی بھی استحصال زدہ اور جتنی بھی دردناک رہی ہے؛ میں کالا ہوں۔ بلکہ کالا اور خوب صورت ہوں۔” ہمیں یہی کہنا ہو گا۔ ہمیں خود کو قبول کرنا ہے۔ اور ہمیں دعا کرنی چاہیے، “اے خداوند ہر روز مجھے خود کو قبول کرنے میں میری مدد فرما؛ اپنی صلاحیتوں کو قبول کرنے میں مدد فرما۔”
مجھے یاد ہے کہ جب میں کالج میں تھا، میرا میجر (خصوصی مطالعے کا مضمون) عمرانیات تھا اور تمام عمرانیات میجر والوں کو ایک مضمون پڑھنا پڑتا تھا، جو شماریات کہلاتا تھا۔ اور شماریات کافی مشکل ہو سکتی ہے۔ آپ کے پاس حساب کتاب والا دماغ ہونا چاہیے، اور جیومیٹری کا درست علم، اور مِین، میڈین، موڈ ڈھونڈنا آنا چاہیے۔ میں کبھی نہیں بھولوں گا۔ میں نے یہ مضمون پڑھا اور آپ جانتے ہیں میرا ایک ہم جماعت تھا جو یہ کام فوری کر سکتا تھا۔ اور وہ اپنا کام ایک گھنٹے میں تمام کر لیتا تھا۔ ہم اکثر لیب یا ورکشاپ میں جاتے، وہ صرف ایک گھنٹہ میں اپنا کام کر کے بیٹھ جاتا۔ اس کی دیکھا دیکھی میں اسی جیسا بننے کی کوشش کر رہا تھا۔ اور میں اپنا کام ایک گھنٹہ میں کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اور جتنا میں اس کو ایک گھنٹہ میں نمٹانے کی کوشش کر رہا تھا، اُتنا ہی اس میں مار کھا رہا تھا۔ اور مجھے ایک تلخ نتیجے پر پہنچنا پڑا اور کہنا پڑا: ‘اب سنو مارٹن لوتھر کنگ، لیف کین (Leif Cane) کے پاس تم سے بہتر دماغ ہے۔’ بعض اوقات آپ کو ماننا پڑتا ہے۔ بعض اوقات آپ کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ اور مجھے خود سے یہ کہنا ہی پڑا۔ دیکھو بھلے ہی وہ ایک گھنٹہ میں کام کرنے کے قابل ہے، لیکن مجھے کرنے کے لیے دو یا تین گھنٹے لگیں گے۔” میں اپنے آپ کو قبول کرنے کے لیے رضامند نہ تھا۔ میں اپنے وسائل اور حدود کو قبول کرنے کو تیار نہ تھا۔

لیکن آپ جانتے ہیں کہ زندگی میں ایسا کرنا ہی پڑتا ہے۔ ایک فورڈ [Ford] کار کا کیڈلک [Cadillac] بننا مہمل سی بات ہے۔ لیکن اگر فورڈ یہ قبول کر لے کہ وہ فورڈ ہے، تو وہ بہت کچھ کر سکتی ہے جو کیڈلک کبھی نہیں کر سکتی: وہ پارکنگ کی ایسی جگہوں پر پوری آ سکتی ہے، جہاں کیڈلک کبھی نہیں آ سکتی۔ اور زندگی میں ہم میں سے کچھ فورڈ ہیں اور کچھ کیڈلک۔ “سرسبز چراگاہیں” Green Pastures، [تورات کی کتاب الادعیہ] میں موسیؑ فرماتے ہیں: “خداوند، میں بہت کچھ تو نہیں ہوں، لیکن یہی کچھ ہوں۔” خود کو قبول کرنے کا اصول ہی زندگی کا بنیادی کلیہ ہے۔
اب ہم زندگی کے طول کے بارے مزید بات کرتے ہیں۔ اپنے آپ کو قبول کرنے کے بعد ہمیں یہ دریافت کرنا چاہیے کہ ہمیں کس کام کے لیے تخلیق کیا گیا ہے۔ اور ایک بار جب ہم یہ دریافت کر لیں، تو ہمیں اپنے وجود میں موجود تمام تر طاقت و قوت کے ساتھ وہ کام کرنا چاہیے۔ یہ کھوج لینے کے بعد کہ ہمیں کیا کام کرنا ہے، ہمیں وہ کام اس طریق اور، اس خوبی سے انجام دینا چاہیے کہ کوئی زندہ، کوئی مردہ یا جو ابھی پیدا نہیں ہوا، اِس سے بہتر انجام نہ دے سکے۔ اب اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہر کوئی زندگی کے نام نہاد معروف، بڑے کام کرے گا۔ بہت کم لوگ فنون اور سائنس کی ابقری بلندیوں کو پائیں گے؛ بہت کم اجتماعی طور پر مخصوص شعبوں میں نام کمائیں گے۔ ہم میں سے بیشتر کو راضی بہ رضا کھیتوں میں اور گلیوں میں کام کرنا ہو گا۔ لیکن ہمیں تمام کاموں کو پُروقار نظر سے دیکھنا چاہیے۔
جب میں منٹگمری، الاباما میں تھا، تو میں ‘گورڈن شو شوپ [Gordon Shoe Shop] نامی ایک جوتوں کی دکان میں اکثر جایا کرتا تھا۔ وہاں ایک دوست تھا، جو میرے جوتے چمکایا کرتا تھا۔ اور اِس دوست کو جوتے چمکاتے دیکھنا میرے لیے ایک دلچسپ تجربہ تھا۔ آپ کو بتاتا ہوں، وہ کپڑے کی ایک دھجی یوں اٹھاتا، کہ وہ اس میں سے موسیقی تخلیق کر سکتا تھا۔ اور میں اپنے آپ سے کہتا، “اس شخص کے پاس جوتے چمکانے میں ڈاکٹریٹ ڈگری ہے۔”
اس صبح میں آپ سے جو یہ کہہ رہا ہوں، حتیٰ کہ اگر آپ گلی کے ایک خاکروب ہیں، جائیں اور ایسے گلی کو صاف کریں جیسے مائیکل انجیلو نے مصوری کی ہے، ایسے گلی صاف کریں جیسے ہینڈل(Handel)، بیتھوون(Beethoven) نے موسیقی ترتیب دی، ایسے گلی کو صاف کریں جیسے شیکسپئر نے شاعری کی۔ اتنی اچھی گلی صاف کریں کہ زمین و آسمان کا میزبان بھی اک لمحے کے لیے رُکے اور کہے: ‘یہاں ایک عظیم خاکروب رہتا ہے، جس نے اپنا کام بخوبی انجام دیا۔’
میرے دوستو، آج میں آپ سے یہ کہتا ہوں، حتیٰ کہ اگر آپ گلی کے ایک خاکروب ہیں، جائیں اور ایسے گلی کو صاف کریں جیسے مائیکل انجیلو کی مصوری ہو، یوں گلی چمکائیں جیسے ہینڈل [Handel]، بیتھوون [Beethoven] نے موسیقی کی دُھن مرتب کی، ایسے گلی کو لشکائیں، جیسے شیکسپئر کی شاعرانہ تخلیق۔ اتنی اچھی گلی صاف کریں کہ زمین و آسمان کا میزبان بھی اک لمحے کے لیے رُکے اور کہے: “یہاں ایک عظیم خاکروب رہتا ہے، جس نے اپنا کام بخوبی انجام دیا۔”
گرچہ نہیں بن سکتے تم پہاڑی کا صنوبر
تو وادی کی جھاڑی بنو- لیکن بنو
پہاڑی کے پہلو میں ایک بَڑھیا سی ننھی جھاڑی،
جھاڑی بنو، اگر نہیں بن سکتے پیڑ
اگر شاہراہ بننا ممکن نہیں، تو بہت ہے پگ ڈنڈی ہونا بھی
گر نہیں آفتاب، تو ستارہ بنو؛
بےمعنی ہے کہ تم کامیاب ہو یا ناکام
جو ہو سکو، اس کا بہترین بن جاؤ۔
اور جب آپ ایسا کرتے ہیں، تب آپ زندگی کے طول کے مالک بن جاتے ہیں۔
آگے جا کر زندگی میں خود آسودگی کے احساس کا ختم ہونا، اُس شخص کی زندگی کو ختم کر دیتا ہے۔ اور اب اس مرحلہ پر رُکنا نہیں۔ آپ جانتے ہیں، بہت سے لوگ زندگی میں طول سے زیادہ کچھ حاصل نہیں کر پاتے۔ وہ اپنی داخلی طاقت حاصل کر لیتے ہیں؛ اور وہ اپنی ذمہ داری اچھی طرح نمٹا لیتے ہیں۔ لیکن آپ جانتے ہیں، وہ زندگی ایسے گزارنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے، اُن کے سوا دنیا میں کوئی اور وجود ہی نہیں۔ اور وہ آگے بڑھنے کے لیے ہر ایک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ وہ اپنے علاوہ کسی سے محبت نہیں کرتے۔ اور وہ دوسروں سے محبت کی ایک ہی قسم روا رکھتے ہیں: افادی محبت۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں، وہ صرف لوگوں سے محض اس لیے محبت کرتے ہیں کہ ان کا استعمال کر سکیں۔
بہت سے لوگ زندگی کی پہلی جہت سے پرے نہیں جاتے۔ وہ دوسرے لوگوں کا استعمال محض سیڑھی کے طور پر کرتے ہیں، جن سے وہ اپنے نصب العین اور مقاصد تک پہنچ سکیں۔ ایسے لوگ زندگی میں کوئی اچھا کام نہیں کرتے۔ وہ کچھ حد تک آگے جا سکتے ہیں، وہ سوچتے ہیں کہ وہ صحیح ہیں۔ لیکن ایک قاعدہ ہے۔ طبیعی دنیا میں اس کو کششِ ثقل کا اصول کہتے ہیں۔ اور یہ واقعی کام کرتا ہے، یہ بات حتمی اور کٹھور ہے؛ جو کچھ اوپر اٹھتا ہے، نیچے کو آتا ہے۔ جو بوؤ گے وہی کاٹو گے۔ خداوند نے اس کائنات کو اسی طرح بنایا ہے۔ جو کوئی زندگی میں دوسروں کی پروا کیے بِنا آگے بڑھتا چلا جاتا ہے، اس اصول کا غلام اور شکار بن جاتا ہے۔
ایک دن یسوع مسیحؑ نے ایک حکایت بیان کی۔ آپ کو وہ حکایت یاد ہو گی۔ان کے پاس ایک آدمی سنجیدہ معاملات پر گفتگو کرنے آیا۔ اور آخر میں اُس نے سوال اٹھایا، ‘میرا ہمسایہ کون ہے؟’ یہ آدمی یسوع مسیح سے بحث کرنا چاہتا تھا۔ یہ سوال آسانی سے ایک مذہبی یا فلسفیانہ بحث کی مانند تحلیل ہو سکتا تھا۔ لیکن آپ کو یاد ہے کہ یسوع مسیح نے یہ سوال ہوا ہونے سے روکا۔ اور اِس کو یروشلم(Jerusalem) اور جیریکو (Jericho)کے درمیان خطرناک موڑ پر رکھ دیا۔ انہوں نے ایک آدمی کی بات کی، جو چوروں کے نرغے میں گھِر گیا تھا۔ دو آدمی وہاں سے گزرے اور آگے بڑھتے چلے گئے۔ پھر آخر کار ایک اور آدمی آیا، جو کہ ایک دوسری نسل کا فرد تھا، رُکا اور اس نے مدد کی۔ اور اس حکایت کے آخر میں کہا کہ وہ (Good Samaritan) نیک سامری ایک عظیم انسان تھا، ایک اچھا انسان تھا کہ وہ اپنے علاوہ بھی کسی کے لیے فکرمند تھا۔
آپ جانتے ہیں کہ، اس بارے واقعہ کے توضیح میں کئی آراء موجود ہیں کہ وہ پادری اور لاوی [Levite: عبرانی قبیلہ لاوی کا فرد جو یہودیوں کی عبادت گاہوں میں بطور معاون کام کرتے ہیں] وہاں سے گزرے اور اس آدمی کی مدد کو کیوں نہ رُکے۔ بہت سی آراء ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ گرجا گھرعبادت کے لیے جا رہے تھے، اور ان کو عبادت کے لیے دیری ہو رہی تھی۔ آپ جانتے ہیں کہ چرچ کے کام میں تاخیر نہیں کی جا سکتی، سو وہ آگے بڑھتے رہے، کیونکہ انھیں کنیسہ پہنچنا تھا۔ اور کچھ کہیں گے کہ وہ پادری تھے اور نتیجتاً ایک کلیسائی قانون کے مطابق جو مقدس عبادت کرانے جا رہا ہو، عبادت سے چوبیس گھنٹے پہلے کسی انسانی جسم کو چھو نہیں سکتا۔ ایک اور امکان موجود ہے۔ یہ ممکن ہے کہ وہ جیریکو روڈ امپرومنٹ ایسوسی ایشن کو منظم کرنے، جیریکو جا رہے ہوں۔ ایک امکان یہ ہے کہ وہ وہاں سے بغیر مدد کیے اس لیے گزر گئے ہوں کہ انھیں لگا ہو کہ اِس مسئلہ کو ایک انفرادی شکار کی بجائے عمومی طور سے نمٹانا چاہیے۔ بہرحال امکان تو موجود ہے۔
لیکن آپ کو بتاؤں، جب میں اِس حکایت کے بارے میں سوچتا ہوں، تو میں اپنے تخیل کے زور پر ایک اور امکان کے بارے میں سوچتا ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ افراد خوفزدہ ہوں اور مخالف سمت سے گزرے ہوں۔ آپ کو معلوم ہے کہ جیریکو روڈ ایک خطرناک سڑک ہے۔ میں وہاں سے گزرا ہوں اور مجھے علم ہے۔ اور میں وہ سفر کبھی نہیں بھولوں گا۔ میں اور بیگم کنگ کچھ عرصہ پہلے مقدس سرزمیں کے سفر پر گئے تھے۔ ہم نے ایک کار کرائے پر لی اور یروشلم سے تقریباً سولہ میل تک سڑک پر کار چلائی۔ میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ یہ الل ٹپ، ترچھی گھومتی، چک پھیری سڑک ہے۔ اور ڈاکے کے لیے سازگار سڑک ہے۔ اور میں نے بیگم سے کہا: “اب میں سمجھ سکتا ہوں کہ اس سڑک کے وقوعہ کو یسوع مسیحؑ نے اپنی حکایت کے لیے کیوں استعمال کیا۔” جب آپ یروشلم سے چلنا شروع کرتے ہیں، سطح سمندر سے بائیس سو فٹ بلند ہوتے ہیں، جب آپ سولہ میل نیچے جاتے ہیں – – مطلب یروشلم سے سولہ میل — آپ سطح سمندر سے ہزار فٹ نیچے ہوتے ہیں۔ یسوع مسیحؑ کے زمانے میں یہ سڑک ‘خونی سڑک’ کے طور پر جانی جاتی تھی۔ سو جب میں پادری اور لاوی کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ وہ خوفزدہ تھے۔
وہ میری طرح خوف زدہ تھے۔ میں ایک دن اپنے والد کے گھر اٹلانٹا (Atlanta) جا رہا تھا۔ وہ میرے گھر سے تین چار میل دور رہتے ہیں، اور آپ وہاں ِسمپسن (Simpson) روڈ کے ذریعے جاتے ہیں۔ اور اُس رات جب میں واپس آرہا تھا— اور برادر، میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ سِمپسن روڈ ایک چک پھیری سڑک ہے۔ اور ایک شخص وہاں کھڑا تھا اور مجھے اشارہ دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ اور مجھے محسوس ہوا کہ اُس کو کسی مدد کی ضرورت ہے؛ جانتا تھا کہ اُس کو مدد کی ضرورت ہے۔ لیکن میں یہ نہیں جانتا تھا، میں آپ کو ایمانداری سے بتاؤں گا، میں آگے بڑھتا رہا، میں واقعی خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہیں تھا۔
میں آج آپ کو کہتا ہوں کہ پہلا سوال جو پادری نے پوچھا تھا، وہ سوال اٹلانٹا کی جیریکو روڈ جو سِمپسن روڈ کے نام سے جانی جاتی ہے، پر میں نے پوچھا۔ وہ پہلا سوال جو لاوی نے پوچھا تھا کہ ’اگر میں اس شخص کی مدد کرنے رکتا ہوں تو مجھے کیا ہو گا؟‘ لیکن اچھا سامری جب گزرا تو اس نے سوال الٹ دیا، بجائے اس کے کہ ’اگر میں اس آدمی کی مدد کرنے رکتا ہوں تو میرے ساتھ کیا ہو گا؟‘ اس نے پوچھا ‘اس آدمی کے ساتھ کیا ہو گا اگر میں اِس کی مدد کرنے کے لیے نہیں رکتا؟’ اس لیے وہ شخص اچھا اور عظیم تھا۔ وہ عظیم تھا کیونکہ وہ انسانیت کی خاطر خطرہ مول لینے کے لیے تیار تھا، کہ اس آدمی کے ساتھ کیا ہو گا؟
آج خداوند کو ضرورت ہے، ایسے مرد اور عورتوں کی جو یہ سوال پوچھیں کہ انسانیت کا کیا ہو گا اگر میں مدد نہیں کرتا؟ شہری حقوق کی تحریک کا کیا ہو گا اگر میں حصہ نہیں لیتا؟ میرے شہر کا کیا ہو گا اگر میں ووٹ نہیں دیتا؟ بیمار کا کیا ہو گا اگر میں عیادت نہیں کرتا؟ آخر میں خداوند اسی پر لوگوں کی منصفی کرے گا۔
اور، ایک روز ایسا آئے گا جب یہ سوال نہیں کیا جائے گا، “کہ تم نے اپنی زندگی میں کتنے انعام پائے؟” اُس روز نہیں۔ یہ نہیں پوچھا جائے گا، “کہ تم اپنے معاشرتی حلقے میں کتنے مقبول تھے؟” یہ سوال اس روز نہیں کیا جائے گا۔ یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ “تم نے کتنی اسناد حاصل کیں؟” اس سوال کی اُس روز کوئی اہمیت نہیں ہو گی کہ تم “پی ایچ ڈی، ہو یا نہیں؟” یہ اہم نہیں ہو گا کہ “تمھارے پاس بہت سے گھر تھے یا تم بےگھر تھے؟” یہ سوال نہیں ہو گا “تم نے کتنا پیسہ بنایا؟ تمھارے پاس کتنے سٹاک اور بونڈز ہیں؟” یہ سوال نہیں ہو گا کہ تمھاری گاڑی کون سی تھی؟ اُس روز صرف یہی پوچھا جائے گا کہ، “دوسروں کے لیے تم نے کیا کیا؟”
اب جب میں کسی کو یہ کہتے سنتا ہوں کہ، خداوند، میں نے زندگی میں بہت سارے کام سرانجام دیے۔ میں نے اپنی نوکری اچھے طریقے سے انجام دی؛ دنیا نے مجھے میری نوکری کے لیے عزت دی۔ میں نے بہت سے کام کیے۔ خداوند؛ میں مکتب گیا اور محنت سے پڑھا۔ میں نے بہت سا پیسہ بنایا، خداوند میں نے یہ یہ کچھ کیا۔” لیکن ایسا سنائی دیتا ہے کہ خداوند کہہ رہا ہے، “لیکن میں بھوکا تھا، تم نے مجھے کھانا کھلایا کہ نہیں؛ میں بیمار تھا، تم عیادت کے لیے آئے یا نہیں۔ میرا تن ڈھانپا یا نہیں۔ میں قید میں تھا، تم نے میری فکر نہیں کی۔ سو میری نظروں سے دور ہو جاؤ۔ تم نے دوسروں کے لیے کیا کیا؟” یہ زندگی کا عرض ہے۔
کہیں ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی سیکھنا چاہیے کہ کسی کے لیے کچھ کرنے سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔ اور میں نے اپنے باقی ماندہ ایام گزارنے کے لیے اِسی ڈگر کو اپنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اور اب میری یہی فکر ہے۔ جون، اور برنارڈ، اگر کبھی زندگی میں ایسا لمحہ آتا ہے کہ میں موت کے قریب ہوں، میں چاہتا ہوں کہ آپ ان تک میرا پیام پہنچائیں کہ میری ایک عرض ہے؛ میں تدفین کی لمبی چوڑی رسوم نہیں چاہتا۔ درحقیقت، میں ایک یا دو منٹ سے بڑھ کر اپنی میت پر نوحہ گری نہیں چاہتا۔ مجھے امید ہے کہ میں باقی ماندہ ایام اچھی طرح گزاروں گا— مجھے نہیں پتہ کہ میں کب تک جئیوں گا، اور نہ مجھے اس کی فکر ہے— لیکن میں امید کرتا ہوں کہ میں اتنا اچھا جی سکوں کہ مبلغ کہہ اٹھے، “یہ ایماندار تھا۔” اور بس، یہ کافی ہے۔ اس طرح کی تقریر سننا مجھے پسند ہو گی: “بہت خوب میرے ایماندار خدمت گار۔ تم ایماندار رہے؛ تمھیں دوسروں کی فکر رہی۔” یہ ہی ہے وہ نکتہ جس کے ساتھ میں اپنی باقی ماندہ زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔ “جو تم میں عظیم تر ہے، وہ تمھارا خدمت گار ہو گا۔” میں خدمت گار بننا چاہتا ہوں۔ میں اپنے خداوند کی گواہی چاہتا ہوں، کہ میں نے دوسروں کے لیے کچھ کیا۔
اور دوسروں لے لیے کچھ کرنے میں یہ مت بھولیں کہ آپ کے پاس جو کچھ ہے وہ دوسروں کی بدولت ہے۔ یہ نہ بھولیں ہم اس دنیا میں ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہیں۔ اور کیا آپ سوچ سکتے ہیں، اس صبح جب آپ چرچ کے لیے اٹھے ہوں گے تو آدھی سے زیادہ دنیا پر آپ کا انحصار رہا ہو گا۔ آپ صبح اٹھتے ہیں، باتھ روم جاتے ہیں اور وہاں آپ صابن پکڑتے ہیں جو ایک فرانسیسی نے آپ کو دیا ہے۔ آپ اسفنج اٹھاتے ہیں، وہ ایک تُرک نے آپ کو تھمایا ہے۔ آپ تولیہ کا استعمال کرتے ہیں جو کہ بحرالکاہلی جزیرے کے ایک باشندے کی آپ کو دین ہے۔ ناشتہ کرنے کو جو آپ باورچی خانے کی طرف جاتے ہیں، کافی اٹھاتے ہیں، جو آپ کے کپ میں جنوب امریکی نے انڈیلی ہے۔ اور ہو سکتا ہے کہ اس صبح چائے پینے کا فیصلہ کیا ہو، صرف معلومات کے لیے، وہ آپ کے کپ میں ایک چینی نے انڈیلی ہے۔ اور شاید آپ کو تھوڑا کوکا چاہیے ہو جو آپ کے کپ میں مغربی افریقی نے انڈیلا ہے۔ پھر آپ کو تھوڑی ڈبل روٹی چاہیے اور آپ جو ڈبل روٹی اٹھاتے ہیں جو آپ کے پاس ایک انگریز کسان کے ہاتھوں پہنچی ہے، نانبائی کو نہ بھولیں۔ اس سے پہلے کہ آپ اپنا ناشتہ کریں، آپ کا انحصار آدھی دنیا پر ہے۔ خداوند نے یہ نظام اس طرح بنایا ہے؛ خداوند نے یہ دنیا اسی طرح بنائی ہے۔ سو آئیں ایک دوسرے کی فکر کریں، کیونکہ ہمارے وجود کا انحصار ایک دوجے پر ہے۔
لیکن یہاں بھی نہیں ٹھہر جانا۔ آپ جانتے ہیں کہ بہت سے لوگ زندگی کے طول پر قادر ہو جاتے ہیں، اور وہ عرض پر قدرت حاصل کر لیتے ہیں؛ مگر وہ وہاں رکتے نہیں۔ ہمیں انسانیت سے پرے آگے بڑھنا چاہیے اور اوپر اٹھنا چاہیے، اوپر کائنات کے رب کی طرف، جس کا مقصد آج بھی وہی ہے۔
بہت سے لوگوں نے اس تیسری جہت کو نظرانداز کیا۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ بہت لوگ انجانے میں اس پہلو کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ان کی مصروفیتوں کا محور اور چیزیں ہوتی ہیں۔ آپ کو بتاتا چلوں کہ الحاد پرستی دو طرح کی ہوتی ہے۔ الحاد کا نظریہ ہے کہ خداوند کا کوئی وجود نہیں۔ ایک قسم نظریاتی ہے، جہاں آدمی بیٹھ کر اس بابت سوچنا شروع کرتا ہے اور پھر اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ خداوند کا کوئی وجود نہیں۔ دوسری قسم عملی الحاد پرستی کی ہے اور وہ ایسی طرزِ حیات اپنانا ہے، کہ جیسے خداوند کا کوئی وجود نہ ہو۔ اور آپ جانتے ہیں کہ کثیر تعداد میں ایسے لوگ ہیں جو زبان سے تو خداوند کے وجود کا اقرار کرتے ہیں، لیکن اپنے اعمال سے، یا اپنی طرزِ حیات سے اس وجود کے منکر ہیں۔ آپ کی ملاقات ایسے لوگوں سے ہوئی ہو گی، جنھیں عقیدے کا ہائی بلڈ پریشر اور اعمال کا انیمیا لاحق ہے۔ وہ اپنی زندگی میں خداوند کے وجود سے انکاری ہوتے ہیں اور وہ دوسرے کاموں میں بہت مصروف ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے بینک کے اثاثے بڑھانے میں مگن ہو جاتے ہیں۔ وہ خوبصورت گھر کے حصول میں مست ہو جاتے ہیں جو ہم نے خود پر لازم کر لیا ہے۔ وہ خوبصورت گاڑی حاصل کرنے میں اتنا مصروف ہو جاتے ہیں کہ لاشعوری طور پر خداوند کو بھول جاتے ہیں۔ اور کچھ ایسے بھی ہیں جو شہر میں انسان کی تخلیق کی ہوئی بستیوں کو دیکھنے میں اس قدر محو ہو جاتے ہیں کہ وہ لاشعوری طور پر آسمان کی طرف نگاہیں اٹھانا اور کائنات کی عظیم روشنی کی جانب نظر کرنا اور اس کے بارے میں سوچنا بھول جاتے ہیں — وہ روشنی جو ہر صبح مشرقی افق سے نمودار ہوتی ہے اور نیلگوں آسمان پر ایک تھرکتی دھن اور اپنے بےشمار رنگ بکھیر دیتی ہے — ایسی روشنی جس کو تخلیق کرنا انسان کے بس میں نہیں۔ وہ فلک بوس لوپ آف شکاگو یا ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ آف نیویارک کو دیکھنے میں اس قدر مصروف ہو جاتے ہیں کہ وہ لاشعوری طور پر دیو پیکر پہاڑوں کے بارے میں سوچنا بھول جاتے ہیں، جن کی چوٹیاں آسماں سے باتیں کرتی ہیں، جیسے کہ نیلی جھیل میں نہا رہی ہوں — ایسی چیز جو ایک انسان کبھی نہیں بنا سکتا۔ وہ ریڈار اور اپنے ٹیلی ویژن کے بارے میں سوچنے میں اتنا کھبے ہیں کہ وہ لاشعوری طور پر اس بام ثریا کی بابت سوچنا بھول جاتے ہیں، جو آسمانوں کو اس طرح مزین کیے ہوئے ہیں، جیسے دوام کی لالٹینیں لٹکی ہوں، وہ ستارے اتنے آبدار ہیں جیسے ایک پُرشکوہ گدے میں کھُبی ہوئی سیمیں سوئیاں۔ وہ انسانی ترقی کے بارے میں سوچنے میں اتنا محو ہیں، کہ خداوند کی طاقت کی ضرورت کے بارے میں سوچنا بھول جاتے ہیں کہ تاریخ میں اس کی ضرورت ہمیشہ رہی ہے۔ آخرکار وہ دنوں کے دن گزار دیتے ہیں یہ جانے بغیر کے خداوند ان کے ساتھ نہیں ہے۔
میں آج آپ کو یہ بتاتا ہوں کہ ہمیں خداوند کی ضرورت ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جدید انسان بہت کچھ جانتا ہو، لیکن اس کا علم خداوند کو مٹا نہیں سکتا۔ اور آج میں آپ کو کہتا ہوں کہ خداوند ہمیشہ رہے گا۔ چند عالمِ دینیات یہ کہنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ خداوند مر چکا ہے۔ اور میں ان سے اس بارے میں پوچھتا رہا ہوں، کیونکہ یہ معلومات مجھے پریشان کرتی ہیں کہ خداوند مر چکا ہے، اور مجھے اس کی آخری رسوم میں شرکت کا موقع نہیں ملا۔ اور یہ عالم مجھے ابھی تک یہ بتانے میں ناکام رہے ہیں کہ اس کی تاریخ وفات کیا ہے، اور ابھی تک مجھے ان سے یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ اس کی آخری رسوم کس نے ادا کیں یا کس نے اس کی موت کا اعلان کیا۔
آپ دیکھتے ہیں جب میں خداوند کے بارے میں سوچتا ہوں، میں اس کا اسم جانتا ہوں۔ عہد نامہ قدیم میں کسی جگہ وہ فرماتا ہے: “موسیٰ میں چاہتا ہوں کہ تم اپنی قوم میں جاؤ اور اُن تک میرا پیغام پہنچا دو کہ ”میں ہوں” میں نے تمھیں بھیجا ہے۔” خداوند نے صرف یہ واضح کرنے کے لیے کہا، وہ جان لیں کہ “میرا اسمِ آخر بھی اول کی طرح ہے، “جو میں ہوں، میں ہوں۔” یہ واضح کر دو کہ میں ہوں۔”
اس کائنات میں واحد خداوند ہی ایسی ہستی ہے جس کو یہ کہنا زیبا دیتا ہے کہ ‘میں ہوں’ اور مزید کوئی حجت نہیں۔ ہم میں سے ہر کوئی جو یہاں موجود ہے اُس کو کہنا پڑتا ہے، “میں اپنے والدین کی وجہ سے ہوں؛ میں مخصوص ماحولیاتی حالات کی وجہ سے ہوں؛ میں مخصوص وراثتی حالات کی وجہ سے ہوں؛ میں خداوند کی وجہ سے ہوں۔ صرف خداوند ایسی واحد ہستی ہے جو کہ کہہ سکتا ہے، “میں ہوں۔” اور بات ختم۔ “جو میں ہوں، میں ہوں۔” اور بس۔ کسی کو ہمیں یہ محسوس نہ کرانے دیں ہمیں خداوند کی ضرورت نہیں۔
اس صبح جب آپ سے مخاطب ہوں، تو میں آپ سے کہوں گا کہ میں تواس نتیجہ پر پہنچا ہوں، کہ ہمیں اس کی تلاش کرنی چاہیے۔ ہم خداوند کے لیے بنائے گئے تھے اور تب تک بےچین رہیں گے جب تک اُس میں امان نہیں پاتے۔ اور آپ سے کہتا ہوں کہ یہ ذاتی یقین ہے، جو ہاتھ پکڑ کرمجھے آگے بڑھاتا گیا ہے۔ میں مستقبل کے بارے میں فکرمند نہیں ہوں۔ میں کہتا ہوں کہ میں اس نسل پرستی کے معاملے میں بھی پریشان نہیں ہوں۔ میں پچھلے دنوں الاباما میں تھا، اور میں ریاست الاباما کے بارے میں سوچنے لگا جہاں ہم نے بہت محنت کی اور وہاں شاید والیسز[Wallaces] منتخب ہوتا رہے۔ اور ریاست جارجیا میں، جہاں میرا گھر ہے، لیسٹر میڈکس [Lester Maddox] نامی ایک بیمار ذہن گورنر موجود ہے۔ یہ تمام باتیں آپ کو پراگندہ کر سکتی ہیں۔ لیکن مجھے پریشان نہیں کرتیں، کیونکہ وہ خداوند جس کی میں عبادت کرتا ہوں، بادشاہوں حتیٰ کہ گورنروں کے لیے بھی فرماتا ہے؛ ”صبر رکھو، میں جانتا ہوں کہ میں خداوند ہوں۔” خداوند نے ابھی تک اس کائنات سے لیسٹر میڈکس اور لرلین والس [Lurleen Wallace] کو بےدخل نہیں کیا۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ”زمین خداوند کی ہے اور اسی لیے آباد ہے۔” اور میں آگے بڑھتا جا رہا ہوں، کیونکہ مجھے اُس پر یقین ہے۔ میں نہیں جانتا کہ مستقبل میں کیا رکھا ہے۔ لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ مستقبل کس کے ہاتھ میں ہے۔ اگر وہ ہمیں راستہ دکھا دے اور ہمارا ہاتھ پکڑتا ہے، تو ہم آگے بڑھتے جائیں گے۔
مجھے منٹگمری، الابامہ کا ایک تجربہ یاد ہے، جو میں آپ کو بتانا چاہوں گا۔ جب ہم بس بائیکاٹ کر رہے تھے۔ ہمارے درمیان ایک حیرت انگیز خاتون موجود تھیں، جن کو ہم پیار سے سسٹر پولارڈ [Pollard] پکارا کرتے تھے۔ وہ ایک بہتر سالہ زبردست خاتون تھیں اور اس عمر میں بھی کام کر رہی تھیں۔ بس بائیکاٹ کے دوران وہ کام پر روزانہ پیدل آتی جاتی تھیں۔ صرف وہی تھیں جن کو ایک دن کسی نے روکا اور پوچھا، “آپ بس میں سوار ہونا پسند نہیں کریں گی؟” اور انھوں نے کہا، “نہیں۔” اور پھر ڈرائیور آگے بڑھ گیا، اور وہ رُکا اور توقف کیا، اور تھوڑا پیچھے آیا اور اس نے سسٹر پولارڈ سے پوچھا، “آپ تھکی نہیں؟” انھوں نے کہا، “ہاں، میرے پیر تھک گئے ہیں، مگر میری روح پُرسکون ہے۔”

وہ ایک حیرت انگیز خاتون تھیں اور مجھے یاد ہے کہ وہ ایک ہفتہ میرے لیے بہت کٹھن تھا۔ اُس سے ایک روز پہلے سارا دن ساری رات دھمکی آمیز فون کالز آئی تھیں، اور میں نے ڈگمگانا اور اندر سے کمزور پڑنا اور اپنی جرات کھونا شروع کر دیا تھا۔ اور میں کبھی نہیں بھولوں گا، کہ میں پیر کی اس رات کے جلسے میں بہت پست ہمت اور خوف کے ساتھ گیا تھا اور سوچ وچار کر رہا تھا کہ آیا ہم یہ جدوجہد جیت پائیں گے؟ اور میں اُس رات اپنی تقریر کرنے کھڑا ہوا، لیکن وہ تقریر پرزور اور قوت کے ساتھ نہیں کی۔ سسٹر پولارڈ جلسے کے بعد میرے پاس آئیں اور کہا، “بیٹا تمھیں کیا پریشانی ہے؟”
اور میں نے کہا، “کچھ بھی نہیں، سسٹر پولارڈ، میں ٹھیک ہوں۔” انھوں نے کہا، “تم مجھے بیوقوف نہیں بنا سکتے، تمھارے ساتھ کچھ تو گڑبڑ ہے۔” پھر انھوں نے یہ کہا، “گورے تمھارے ساتھ کچھ ایسا کر رہے ہیں جو تمھیں پسند نہیں؟”
میں نے کہا، “سسٹر پولارڈ سب ٹھیک ہو جائے گا۔” پھر انھوں نے کہا، “میرے پاس آؤ اور مجھے دوبارہ کہنے دو، میں چاہتی ہوں کہ تم دھیان سے سنو۔” انھوں نے کہا، “میں پہلے بھی تم کو بتا چکی ہوں کہ ہم تمھارے ساتھ ہیں۔” انھوں نے کہا، “اور ہم بھی تمھارے ساتھ نہ ہوں تو خداوند تمھارے ساتھ ہے۔”
اور انہوں نے یہ کہتے ہوئے اپنی بات ختم کی، ‘“خداوند تمھاری مدد فرمائے گا۔” میں نے اس روز سے بہت ساری چیزیں دیکھی ہیں، منٹگمری الابامہ میں اس رات سے میں بہت سے تجربات سے گزرا ہوں۔ اُس دوران سسٹر پولارڈ وفات پا گئیں۔ تب سے میں اٹھارہ سے زیادہ بار جیل میں رہا ہوں۔ اُس وقت سے اب تک میں ایک خطرناک حد تک خبطی نیگرو خاتون کے ہاتھوں موت کے منھ میں جا چکا ہوں، تب سے سے میں نے اپنے گھر پر تین بار بمب گرتے دیکھا ہے۔ اس وقت سے مجھے ہر دن موت کے خطرے میں گھرے جینا پڑا ہے، اس وقت سے میں نے بےشمار ناآسودہ اور سٹ پٹائی راتیں گزاری ہیں، لیکن میں سسٹر پولارڈ کے الفاظ ابھی بھی سُن سکتا ہوں: “خداوند تمہاری حفاظت کرے گا۔” سو آج میں کسی بھی مرد و زن کا مقابلہ کر سکتا ہوں اور سربلند ہو کر سکتا ہوں۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ جب آپ حق پر ہوں تو خداوند آپ کی جنگ لڑے گا۔
رات جتنی بھی سیاہ ہو
جنگ جتنی بھی کٹھور ہو،
اپنے حق کے لیے ڈٹے رہو۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اِس صبح بھی میں ایک ایسی آواز کو سن سکتا ہوں جو ہم سب سے کہہ رہی ہے، “اپنے حق کے لیے کھڑے ہو جاؤ۔ انصاف کے لیے کھڑے ہو جاؤ۔ دیکھو، میں تمھارا ساتھ دوں گا دنیا کے انت تک۔” ‘ہاں میں نے بجلی کو چمکتے دیکھا ہے، بادلوں کو گرجتے سنا ہے۔ میں نے بدی کی طاقتوں کو چمکتے محسوس کیا ہے، جو میری روح کو مغلوب کرنا چاہتی ہیں، اور مغلوب کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، لیکن میں نے یسوع مسیح کی آواز سنی ہے، جو کہہ رہے ہیں کہ لڑتے رہو! انھوں نے مجھے کبھی نہ چھوڑنے کا وعدہ کیا ہے، کبھی اکیلے نہ چھوڑنے کا۔ اور میں اس پر یقین رکھتا ہوں۔ میں آگے بڑھتا ہوں اور زندگی کی وسعت کو پا لیتا ہوں۔

ہو سکتا ہے کہ آپ خداوند کو فلسفیانہ اصطلاحات میں بیان کرنے کے قابل نہ ہوں۔ لوگوں نے عہد ہا عہد اس پر بحث کرنے کی کوشش کی ہے۔ افلاطون نے کہا، وہ تعمیراتی علم کا ماہر ہے۔ ارسطو نے کہا خداوند حرکت میں آئے بنا کائنات کو الٹنے، پلٹنے پر قادر ہے۔ ہیگل نے اسے مطلق کہا ہے۔ پھر ایک شخص پال ٹیلِک [Paul Tillich] نے خداوند کو یکتا کہا ہے۔ ہمیں ان تمام بھاری بھرکم اصطلاحات کے جاننے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم اسے جانتے ہوں اور کسی اور راہ اسے دریافت کر سکیں۔ اس کی معرفت کسی اور راستے پر چل کر کر سکیں۔ ایک دن آپ کو رکنا چاہیے اور کہنا چاہیے، “میں خداوندواند کو جانتا ہوں، کیونکہ وہ وادی کا سوسن ہے، وہ صبح کا روشن ستارہ ہے، شیرون کا پھول ہے، بابل و نینوا کی وقتوں کی گلہری ہے۔” اور کہیں آپ کو کہنا چاہیے، “وہ میرا سب کچھ ہے، وہ میری ماں ہے وہ باپ ہے، وہ میری بہن ہے، بھائی ہے۔ وہ بے دوستوں کا دوست ہے۔” پوری کائنات کا خداوند ہے اور اگر تم اس پر ایمان رکھتے ہو اور اس کی عبادت کرتے ہو تو تمھاری زندگی میں کچھ اچھا ہو گا۔ تم اس وقت مسکراؤ گے، جب باقی سب تمھارے ارد گرد رو رہے ہوں گے۔ یہی خداوند کی طاقت ہے۔
تو جاؤ! اس صبح، اپنے آپ سے محبت کرو اور اس کا مطلب ہے معقول اور صحت مندانہ خود غرضی۔ آپ کو ایسا کرنے کا حکم ہے۔ یہ زندگی کا طول ہے۔ پھر اس کے بعد اپنے ہمسائیوں سے محبت کرو جیسا کہ تم خود سے کرتے ہو۔ یہ زندگی کا عرض ہے۔ اور میں اب اپنی نشست پر براجمان ہونے سے پہلے یہ بتلا دوں کہ سب سے بڑا اور اولین حکم یہ ہے کہ: “اپنے خداوند سے محبت کرو۔ اپنے خداوند سے پورے دل کے ساتھ، اپنی پوری روح کے ساتھ اور پوری طاقت کے ساتھ۔” میرا خیال ہے کہ ایک ماہرِ نفسیات کے الفاظ میں، اپنی پوری شخصیت کے ساتھ۔ اور جب تم یہ کرتے ہو تو زندگی کی بلندی پا لیتے ہو۔ اور جب تم یہ تینوں حاصل کر لیتے ہو، تو تم چل سکتے ہو، کبھی نہ تھکتے ہوئے۔ اور آپ دیکھ سکتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ صبح کے ستارے مل کر، اور خداوند کے بیٹے مل کر خوشی سے شور مچا رہے ہیں۔
جب آپ زندگی میں اِن تینوں چیزوں سے کام لیتے ہیں، انصاف باراں کی طرح برسے گا اور راست بازی ایک ندی کی طرح۔ جب آپ ان تینوں چیزوں کو باہم حاصل کر لیں گے تو شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پیئں گے۔
جب آپ ان تینوں چیزوں کو باہم حاصل کر لیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ ہر وادی ارفع ہو جائے گی، اور ہر چٹان اورہر پہاڑ جُھک جائے گا۔ ناہموار میدان ہموار ہو جائیں گے۔ ٹیڑھی ترچھی راہیں سیدھی ہو جائیں گی: اور خداوند کی عظمت عیاں ہو جائے گی اور تمام مخلوقات مل کر اس کا نظارہ دیکھیں گی۔
جب آپ ان تینوں عناصر کو تصرف میں لاتے ہیں، تو آپ دوسروں کے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے ساتھ ہو۔ جب آپ ان تینوں کو باہم حاصل کر لیتے ہیں تو آپ یہ پہچان لیتے ہیں کہ خداوند نے اس کرہ ارض پر رہنے والے تمام انسانوں کو ایک ہی خون سے بنایا ہے۔