(کولن ولسن کی کتاب The Outsiderسے متاثر ہو کر لکھا گیا ایک انشائیہ)
تمام آدمیت متحد ہے اس ایک انسان کے خلاف جو ان میں سے نہیں ہے اور اس اتحاد کے سب روپ مقدس مکر ہیں جو کبھی مذہب تو کبھی علم اور کبھی اخلاق کے روپ دھار لیتے ہیں۔ یہ سب اسی ایک مکر کے روپ ہیں۔ وہ مکر جو آدمیت کے اتحاد کا اظہار ہے اس اتحاد کا جو اس انسان کے خلاف ہے جو ان سب میں سے نہیں۔
آدمی! اے سب آدمیوں سے باہر کے آدمی! تیرے پاس کیا ہے؟
اگر تو دیکھ تو تیرے پاس محض تو ہے۔
وہ تو جو نہ مذہب اور نہ ہی علم کا ہے۔
تیرے پاس صرف اور صرف تو ہے۔
تو کیا چاہتا ہے اور اس سے بھی اہم کہ کس سے چاہتا ہے؟
لیکن آدمیت متحد ہے۔ تیرے خلاف بھی اور تیری چاہ کے خلاف بھی۔
وہ کہتے ہیں تو بے حیا ہے۔ تو بد اخلاق ہے اور جب شدید تر ہوتے ہیں تو کہتے ہیں تو بے علم ہے۔
لیکن کیا حیا کہاں کا اخلاق اور کس کا علم؟
وہی حیا وہی اخلاق اور وہی علم جو سب آدمیت کے اتحاد کے رنگ ہیں۔ وہ اتحاد جو صرف تیرے خلاف ان سب کو اکٹھا کرتا ہے۔ وہ سب کہ تو جن میں سے نہیں ہے۔
آدمی! اے سب آدمیوں سے باہر کے آدمی ! بتا اب تیرے پاس کیا ہے؟
ان زنجیروں کو دیکھ۔ ان ملائم زنجیروں کو دوبارہ دیکھ۔ وہ زنجیریں کہ تو ہمیشہ جنہیں اوپر چڑھنے کی رسی سمجھتا آیا ہے۔
یہ مت دیکھ کہ اوپر آخر کیا ہے یہ سوچ کہ کیا یہ اوپر تیرا ہے؟
وہی اوپر جو ان سب انسانوں کا اوپر ہے کہ تو جن میں سے نہیں۔
آدمی! اے سب آدمیوں سے باہر کے آدمی ! پھر تیرے پاس کیا ہے؟
کیا تیرا مقصد بھی تیرا ہے؟ کیا تیرا مقصد آدمیت کی پیمانوں سے گزر کر تجھ تک پہنچا ہے؟ اگر ہاں تو یہ تیرا مقصد نہیں ہے۔ یہ بھی وہی مکر ہے۔ وہی جو ان سب انسانوں نے تیرا ساتھ رچا رکھا ہے۔ وہ سب انسان کہ تو جن میں سے نہیں۔
تو سب کو پیچھے رکھ۔ خود کو دیکھ۔ خود کو اپنی آنکھوں سے دیکھ۔ کیا تیرے رنگ تیرے ہیں؟ یا تو اپنے آپ کو وہی دیکھ پاتا ہے جو تجھے سب بتاتے ہیں کبھی زبان سے تو کبھی مکر سے۔
تیرا کیا ہے؟ آدمی ! اے سب آدمیوں سے باہر کے آدمی؟
تو دوبارہ دیکھ ۔
آدمی! اے سب آدمیوں سے باہر کے آدمی! تیرے پاس کیا ہے؟
اگر تو دیکھ تو تیرے پاس محض تو ہے۔
وہ تو جو نہ مذہب اور نہ ہی علم کا ہے۔
تیرے پاس صرف اور صرف تو ہے۔
تو کیا چاہتا ہے اور اس سے بھی اہم کہ کس سے چاہتا ہے؟
لیکن آدمیت متحد ہے۔ تیرے خلاف بھی اور تیری چاہ کے خلاف بھی۔
وہ کہتے ہیں تو بے حیا ہے۔ تو بد اخلاق ہے اور جب شدید تر ہوتے ہیں تو کہتے ہیں تو بے علم ہے۔
لیکن کیا حیا کہاں کا اخلاق اور کس کا علم؟
وہی حیا وہی اخلاق اور وہی علم جو سب آدمیت کے اتحاد کے رنگ ہیں۔ وہ اتحاد جو صرف تیرے خلاف ان سب کو اکٹھا کرتا ہے۔ وہ سب کہ تو جن میں سے نہیں ہے۔
آدمی! اے سب آدمیوں سے باہر کے آدمی ! بتا اب تیرے پاس کیا ہے؟
ان زنجیروں کو دیکھ۔ ان ملائم زنجیروں کو دوبارہ دیکھ۔ وہ زنجیریں کہ تو ہمیشہ جنہیں اوپر چڑھنے کی رسی سمجھتا آیا ہے۔
یہ مت دیکھ کہ اوپر آخر کیا ہے یہ سوچ کہ کیا یہ اوپر تیرا ہے؟
وہی اوپر جو ان سب انسانوں کا اوپر ہے کہ تو جن میں سے نہیں۔
آدمی! اے سب آدمیوں سے باہر کے آدمی ! پھر تیرے پاس کیا ہے؟
کیا تیرا مقصد بھی تیرا ہے؟ کیا تیرا مقصد آدمیت کی پیمانوں سے گزر کر تجھ تک پہنچا ہے؟ اگر ہاں تو یہ تیرا مقصد نہیں ہے۔ یہ بھی وہی مکر ہے۔ وہی جو ان سب انسانوں نے تیرا ساتھ رچا رکھا ہے۔ وہ سب انسان کہ تو جن میں سے نہیں۔
تو سب کو پیچھے رکھ۔ خود کو دیکھ۔ خود کو اپنی آنکھوں سے دیکھ۔ کیا تیرے رنگ تیرے ہیں؟ یا تو اپنے آپ کو وہی دیکھ پاتا ہے جو تجھے سب بتاتے ہیں کبھی زبان سے تو کبھی مکر سے۔
تیرا کیا ہے؟ آدمی ! اے سب آدمیوں سے باہر کے آدمی؟
تو دوبارہ دیکھ ۔