ثروت حسین ادبی دنیا کا وہ نام ہے جسے پچھلی تین دہائیوں میں بے انتہا محبوبیت نصیب ہوئی ہے۔ ان کا غیر مدون کلام جو ان کے کسی مجموعے میں نہیں عدنان بشیر نے تحقیق و تدوین کے مراحل سے گزار کر اکٹھا کیا ہے۔ ‘فاتح کا گیت’ کے عنوان سے یہ مجموعہ بہت جلد کولاج پبلی کیشنز لاہور سے شائع کیا جائے گا۔
آپ میں سے جو دوست ایڈوانس بکنگ کرانا چاہیں وہ رابطہ کر سکتے ہیں
03214036980
کولاج، لاہور حماد نیازی
(تعارف اور انتخاب: عدنان بشیر)
اس مجموعہ کلام کا کچھ حصہ لالٹین قارئین کے لیے پیش کرنے کی اجازت دینے پر ہم محترم عدنان بشیر کے شکر گزار ہیں۔
[divider]ثروت حسین(9 نومبر 1949ء تا 9 ستمبر 1996ء)[/divider]
ساٹھ کی دہائی کے آخری برسوں میں جب ثروت حسین کی ادبی زندگی کا آغاز ہوا تو کراچی کی ہنگامہ خیز ادبی دنیا میں سلیم احمد اور قمر جمیل کی محفلیں عروج پر تھیں اور نثری نظم کی تحریک نے سرحد کے دونوں طرف ایک ہنگامہ برپا کیا ہواتھا۔کالج کی طرف سےبین الکلیاتی مقابلوں میں متعدد انعامات حاصل کرنے والے ثروت حسین نے جامعہ کراچی سے ایم۔اے اردو (1971ءتا 1973ء)کیا۔ تب جامعہ کراچی میں پروین شاکر، ایوب خاور، صغیر ملال، عذرا عباس، انور سن رائے اور اقبال فریدی بھی زیرِ تعلیم تھے اور جامعہ کراچی سے باہراحمد ہمیش، رئیس فروغ، احمد جاوید، افضال احمد سید،سید ساجد، شوکت عابد اور سارہ شگفتہ ان کے حلقہ احباب میں شامل تھے جن کے ساتھ پاکستان ریڈیو کراچی کے مشاعروں میں شرکت کا دل چسپ احوال پروین شاکر نے بھی ” آثار” اسلام آباد میں اپنی آپ بیتی میں کیا۔یہ نوجوان شعرا نثری نظم کی تحریک کے ہراول دستے میں شامل تھے۔ثروت حسین کا کلام فنون، سویرا، شب خون، افکار، آج، پہچان، دنیا زاد، تحریر، روایت اور دیگر اہم ادبی رسائل میں ستر اور اسی کی دہائی میں شائع ہو کر سرحد کے دونوں طرف اپنے مقلدین ومتاثرین کی ایک بڑی تعداد بنا چکا تھا۔
؎ موت کے درندے میں اک کشش تو ہے ثروت
لوگ کچھ بھی کہتے ہوں خود کشی کے بارے میں
موت کی اس کشش نے ثروت کو کئی بار اپنی طرف کھینچا، کبھی پانی کے ذریعے، کبھی ریل سے ٹکراتے ہوئے اور کبھی رگوں کو کاٹ کھانے والی ادویات کے ساتھ۔ آگ اور لوہے کے دیو یعنی ریل کا مقابلہ کرنے کرتے ہوئے ستمبر 1993ء میں وہ اپنے دونوں پاؤں سے محروم ہو چکے تھے لیکن تین برس بعد ستمبر 1996ء میں وہ دوبارہ اس سے ٹکرائے تو جانبر نہ ہو سکے۔شاعری کی طرح ان کی خودکشی نے بھی ادبی دنیا میں دور رس اثرات ڈالے۔ذیشان ساحل، عتیق جیلانی، سعید الدین، شوکت عابد، عامر سہیل،ادریس بابر،کاشف مجید،فیصل ہاشمی،دانیال طریر،شمشیر حیدر، سلمان ثروت، احمد جہاں گیر،علی زریون،رحمان فارس،حماد نیازی، تہذیب حافی،عرفان شہود، شاہد بلال،مشتاق احمد،سانی سید،ضیا مذکور،توقیررضا، مدثر عباس، محمد علی منظر، امیر حسین اور راقم کے علاوہ دیگر بہت سے شعرا نے ثروت حسین اور ن کی خودکشی پر بہت سی نظمیں اور اشعار لکھے۔(ثروت حسین پر لکھے گئے کلام کو یکجا کرنے کی ایک کوشش” دوستی کا ہاتھ” زیرِ تکمیل ہے)
اک دوپہر بہار تھی پٹری پہ ریل کی
انجن نے آ کے پھول ہمارے کچل دیے
سوئے ہوئے تھے گھاس میں تارے کچل دیے
تتلی کے پر، دلوں کے کنارے کچل دیے
ایسا لگا کہ گیت بھی سارے کچل دیے
لیکن کسی کو چیخ سنائی نہ دے سکی
تصویر زندگی کی دکھائی نہ دے سکی
سبزے سے پھول خاک کی آغوش میں گیا
پانی کا شور وادئ خاموش میں گیا
ٹکڑوں میں خواب ہم سے سجایا نہ جا سکا
گلدستۂ بہار بچایا نہ جا سکا
(ذی شان ساحل)
اردو ادب میں خودکشی کی روایت کا سراغ انیسویں صدی سے ملتا ہےجب 25 اپریل 1886ء کو رونق بنارسی نے اپنے ہی لکھے ہوئے ڈرامے “عاشق کا خون” میں اداکاری کرتے ہوئے سٹیج پر ہی اپنے گلے پہ استرا پھیرلیا۔شکیب جلالی، سارہ شگفتہ،ساغر دہلوی، شبیر شاہد،مقبول تنویر، احسن فارقلیط، آنس معین، قمر بشیر احمد،زوار فاطمی اور اسامہ جمشید کے نام بھی بدقسمتی سےثروت حسین کے ساتھ اسی فہرست میں شامل ہیں۔
؎ شکیب و ثروت و سارا و آنس و عدنان
جو دیوِ آہن و آتش سے جنگ جیت گئے
ثروت حسین کی پہلی کتاب “آدھے سیارے پر ” قوسین لاہور سے 1987ء میں ان کی زندگی میں ہی شائع ہونے والی واحد کتاب ہے۔ان کی موت کے ایک سال بعد خود ان کی طرف سے ترتیب دی گئی دوسری کتاب”خاکدان” دوست پبلی کیشنز اسلام آباد سے 1997ء میں شائع ہوئی۔”ایک کٹورا پانی کا” دوست پبلی کیشنز اسلام آباد سے 2012ء میں اور “کلیاتِ ثروت حسین ” آج پبلی کیشنز کراچی سے 2015ءمیں شائع ہوئی۔
ثروت حسین اپنا کلام پاک و ہند کے رسائل میں تواتر سے بھیجتے رہتے تھے۔ان رسائل میں بہت سا کلام ایسا ملا جو کلیات میں شامل نہ ہو سکا تھا۔ستر کے قریب یہ تخلیقات کولاج پبلی کیشنز لاہور سے ” فاتح کا گیت” کے عنوان تلے کتابی صورت میں سامنے آ رہی ہیں۔ان تخلیقات میں غزلیں، نظمیں، حکایتیں، بچوں کے لیے نظمیں، دو خاکے اور ایک ناول کا خاکہ شامل ہیں۔کلام کے بعد فہرست کے نمبر شمار کے مطابق تمام تخلیقات کے حوالہ جات اور ماخذ کو بھی کتاب میں شامل کیا گیا ہے تاکہ کسی بھی کلام کے استناد پر اٹھنے والے سوال کا جواب موجود ہو۔
کسی ادیب کے کیے ہوئے کام کو یکجا کرتے ہوئے ملنے والے تمام آثار کو یکجا کر دینا ہی اصل مقصد ہوتا ہے۔ ان میں شاعر، ادیب کے طرزِ احساس سے یکسر مختلف تخلیقات بھی شامل ہو سکتی ہیں لیکن ثروت حسین کے غلام حسین ساجد کو لکھے گئے خط کے ایک اقتباس کے مطابق اسے شاعر انہ کل کا ایک جزو ہی جان لینا چاہیے۔
“زندگی کے ہزار رنگ ہیں اور ہزار ذائقے، کہیں آمیز اور کہیں الگ الگ۔ اور پھر یہ مختلف رنگ اور ذائقے سب کے لیے یکساں کشش نہیں رکھتے۔۔۔کیا ہم صرف پھولوں اور پتیوں کو درخت کہہ سکتے ہیں، کھردری چھال، ٹہنیاں، کانٹے اور بد ہئیت جڑیں اور برگ و بار یہ سب مل کر ایک کُل بناتے ہیں۔ سو تم ان غزلوں کو میرے شاعرانہ کُل کا ایک جزو جانو، پھول نہ سہی، ٹہنیوں کے پر خراش ہاتھ سہی۔”(ثروت حسین)
نگار خانے میں بیل
نگار خانے میں بیل ہے اور سورماؤں کے پاؤں پتھر کے ہوگئے ہیں
کوئی نہیں ہے
کوئی نہیں ہے جو رنگ و الواح کی صدا پر مبارزت کا چراغ لے کر ہوا میں نکلے
ہوا میں نکلے کہ رات گہری ہے بیل بپھرا ہوا ہے
اطراف کی صفوں کو پیوندِ خاک کرتا گزر رہا ہے
تمام آئینے، موقلم، رنگ کے پیالے
جو آج سینگو ں کی نوک پر ہیں
دعا تھے، آواز تھے،بدن تھے
مگر یہ کرچیں
مگر یہ کرچیں جو میری آنکھوں میں،میرے ہاتھوں میں
۔ ۔ ۔ میرے تلووں میں چبھ رہی ہیں
حروف و اشکال کے جہنم گواہ رہنا
گواہ رہنا کہ کس کے نیزے کی نوک چمکی تھی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کس کے سینے کی ڈھال دیوار بن گئی تھی
٭٭٭
[divider]وہ تین تھے[/divider]
وہ تین تھے
۔ ۔ ۔ اور صبح ہو رہی تھی
وہ تین تھے
۔ ۔ ۔ اور عدالت کی سیڑھیوں پر صبح ہو رہی تھی
وہ تین تھے
۔ ۔ ۔ اور ان کے پیر ننگے تھے
وہ تین تھے
۔ ۔ ۔ اور لوگ گزر رہے تھے
مذہب‘ سیاست اور گھریلوقضیے
عورت کی چوٹیاں
صبر اور انتقام سے گندھی ہوئیں
بچہ عورت کو دیکھ رہاتھا
عورت اپنے مرد کو
مرد کی آنکھیں عدالت کے دروازے پر
وہ تین تھے
۔ ۔ ۔ اور دوپہربیچ عدالت کی عمارت خالی ہو رہی تھی
مجسمے سیڑھیوں پر رکھے تھے
وہ تین تھے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور عدالت کی سیڑھیوں سے رات اتر رہی تھی
٭٭٭
[divider]بچپن[/divider]
جنوب کے ساحلی علاقوں میں دور بچپن کی تاب ناکی
کے ریت ذرے دمک رہے ہیں، ہزار ہا خوش گوار یادیں
ہمارا دامان کھینچتی ہیں، سفید اور ملگجے پرندے
جھلک دکھا کر فضا میں روپوش ہو گئے ہیں، زمیں کے اوپر
وہ بیر شہتوت کے جزیرے، گیاہ سر سبز جیسے پانی
کہ پھوار بن کر برس رہی ہے اوائلِ عمر کی کہانی
[divider]دوپہر[/divider]
تیز جھکڑ میں ہلتی ہوئی جھاڑیوں پر
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سپاہی کے ملبوس کی دھجیاں
اور سفر۔۔۔دھوپ دیوار ہے
۔ ۔ ۔ ناخنوں سے کھرچتے ہوئے بیت جانے میں لذت نہیں
بارشیں، ٹہنیاں، پھول، بادل، پرندے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہرے کوس، چٹیل
پون چکیوں کے پروں پر ابھرتے، بگڑتے مناظر کے اس پار
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ندی کے پھیلاؤ میں کشتیاں ریت ہیں
اگر کسی روز۔۔۔
اگر کسی روز یہ سمندر
ہماری بستی پہ پاﺅں رکھ دے
تو کاٹھ گودام اور گلیاں
عدالتیں اور دھوپ گھڑیاں
سپاس ناموں، معاہدوں سے بنے ہوئے یہ تمام منظر
ہمارے جسموں پہ آر ہیں گے
[divider]بھکشا پارتر[/divider]
اب سیارے پر شام ہوئی
سورج کے پروں کی چھایا ہے
اک ان دیکھی تنہائی نے
پوجا کا اگر سلگایا ہے
اے دیوی تیری چوکھٹ پر
یہ کون مسافر آیا ہے
میں بادل ہوں میں سایا ہوں
اور تیرے در پر آیا ہوں
اے دیوی آن کے دیکھ ذرا
یہ بھکشا پاتر خالی ہے
اور نگر نگر دیوالی ہے
٭٭٭
[divider]وائی[/divider]
۔ ۔ ۔ آیا ہوں لاڑ سے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھ مجھے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھ مجھے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منہدی کی باڑ سے
۔ ۔ ۔ ہاتھوں سے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گر پڑی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سورج کی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پنکھڑی
دیکھ مجھے! ۔ ۔ ۔ دیکھ مجھے!!
ظ۔ ۔ ۔ تیشوں سے
ظ۔ ۔ ۔ کٹ جائیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رستے سے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہٹ جائیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دن یہ پہاڑ سے
دیکھ مجھے!دیکھ مجھے !!
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منہدی کی باڑ سے
[divider]حکایت[/divider]
میرے پاس دو ہاتھ ہیں لیکن چیزیں جو میرے ہاتھ میں ہیں وہ چار ہیں: قلم، جس سے میں شاعری لکھتا ہوں، تیشہ جس سے میں پہاڑ کاٹتا ہوں، چپو جس سے میں سمندر کاٹتا ہوں اور یہ آخری چیز تلوار میرے حکمران ہونے کی دلیل ہے اور جو حکمران ہے اسے ہی زیب دیتا ہے خوش پوشاک ہونا اور کہنا کہ تم نے اتنی دیر کہاں لگادی اور جو ملاح ہے وہ چاہتا ہے سمندر کی طرف جانا جہاں ایک جل پری مونگے کی چٹان پر بیٹھی اس کا انتظار کر رہی ہے۔ مرجان کا ایک پنکھا اس کے ہاتھ میں ہے اور اس کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہیں۔ جس کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہیں وہ انتظار کر سکتی ہے یہاں تک کہ ملاح آئے اور اس کا نصف بدن جو مچھلی کا ہے عورت میں بدل جائے اور جو تیشہ بدست ہے وہ زمین ایک روزن بنانا چاہتا ہے، روزن جس سے وہ دیکھ سکے۔ پاتال کو اور اس کے خزانوں کو اور کھینچ سکے خوشیاں جو زمین کی تہہ میں اس کے لیے رکھ دی گئی ہیں اور جو شاعر ہے وہ کچھ نہیں چاہتا سوائے ایک سفید کاغذ کے جو ایک ازلی انتظار ہے اور انتظار تو کبھی ختم نہیں ہوتا۔ وہ خدا ہے اور خدا وہ ہے جو انسانوں کے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں میں موجزن ہے اور جو موجزن ہے اسے سمندر تک پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
٭٭٭
[divider]متفرقات[/divider]
اے جنگل! ان گلیوں، ان بازاروں کو
چھوڑ آئے ہیں تیرے ایک اشارے پر
بہنے والی کشتی کو معلوم نہیں
دو آنکھیں جلتی ہیں دور کنارے پر
٭٭٭
بہتے بادل کیسے دیکھیں کیسے جانیں
جلتی دیواروں کا باطن، گزر گیا دن
خوابوں کی آواز پہ جھاگ اڑاتے جائیں
شام سبھا میں سب کچھ ممکن گزر گیا دن
٭٭٭
باغوں چراغوں میں جلتا ہے کون
گیتوں کی گلیوں میں چلتا ہے کون
جلتی ہوئی مشعلوں سے پرے
سبز آئنوں میں پگھلتا ہے کون
٭٭٭
مفتوح ستارے مٹی میں
جیتا ہوا لشکر آگ میں ہے
میں اپنے گماں میں زندہ ہوں
وہ اپنی میسر آگ میں ہے
کیا بیس برس، کیا تیس برس
اک شخص برابر آگ میں ہے
٭٭٭
دیکھ یہ دن پھر نہیں چڑھے گا، ایسی شام نہیں ہوگی
اے مری دوست، مری محبوبہ جاگیروں سے باہر آ
گرم زمیں پر سایہ کرنا مذہب گھنے درختوں کا
اے مرے شاعر، اے مرے ساتھی تحریروں سے باہر آ
٭٭٭
تم کہاں اس کنجِ آزار میں کھوئی ہوئی ہو
تم کو تو میرے بچے کی ماں ہونا تھا
آئینے کو سبز کیا میری آنکھوں نے
مجھ سے ہی یہ کارِ شیشہ گراں ہونا تھا
٭٭٭
دوری ہے بس ایک فیصلے کی
پتوار چنوں کہ پر بناؤں
بہتی ہوئی آگ سے پرندہ
بانہوں میں سمیٹ کر بناؤں
٭٭٭
زندہ رکھتا ہوں اپنے ساتھ اسے
اپنے دشمن کو تھام رکھتا ہوں
آگ ہوں اور اس اندھیرے میں
آئنے سے کلام رکھتا ہوں
٭٭٭
شبِ ستارہ و ساحل کو خیر باد کہو
کہ اس سے پہلے سمندر نے یوں بلایا نہ تھا
٭٭٭
کوئی صورت نئی دیکھوں تو یہ وحشت کم ہو
تیری کھینچی ہوئی دیوار میں در چاہتا ہوں
مجھ سے ناراض بہت ہیں یہ خدایانِ زمیں
جرم اتنا ہے کہ حصے کو ثمر چاہتا ہوں
٭٭٭
یا آئینہ جھوٹ کہہ رہا ہے
یا میں ہی عجیب ہو گیا ہوں
چاہت میں کسی کرن کی ثروت
سورج سے قریب ہو گیا ہوں
٭٭٭
لہلہاتی خواہشوں کے رنگ دھیمے پڑ گئے
بادلوں کے شور سے دیوار ہی کالی نہیں
کچھ تو ہم بھی جھومتے رہتے ہیں ان کے دھیان میں
اور کچھ وہ لڑکیاں بھی بھولنے والی نہیں
٭٭٭
یہ موج موج تلاطم، یہ شورِ ہم نفساں
اب اس ہجوم میں کیا ہم سا کم سخن اُترے
٭٭٭
اُس دستِ ناز پر کبھی بیعت نہ کر سکے
اپنے سوا کسی سے محبت نہ کر سکے
ہفت آسمان سیر کیے اور کنجِ دل
اک حرف تھا کہ جس کو حکایت نہ کر سکے
٭٭٭
زوالِ زردمیں رہتا ہوں اور سوچتا ہوں
یہ میرے چار طرف عہدِ ابتلا کیا ہے
٭٭٭
ہم اس کو بھول گئے تھے کہ ناگہاں کل پھر
ہوئی جو شام تو یاد آ گیا وہ کاجل پھر
٭٭٭
جہانِ تیرگی میں شاعری کا نام لیتا ہوں
یہ میری روشنی ہے روشنی سے کام لیتا ہوں
٭٭٭
ردائے سقفِ آسماں بچھانے والے ہاتھ نے
کہیں کہیں پہ روزنِ دعا رکھاہے کس لیے
٭٭٭
زمین بیٹھتی جاتی ہے اور اک حصہ
جہاں پہ پاؤں ہیں میرے وہاں سے اونچا ہے
٭٭٭
اگرچہ سر پہ کڑی دھوپ تھی مگر ثروت
کسی کے قرب کا سایہ بہت گھنیرا تھا
٭٭٭
میری ادائیں وہی اور وہی دشت وبن
آج بھی سایہ فگن، خوف ہیں مجھ پر ترے
راحت و رنجش وہی اور وہی بارشیں
خشت و خرابات میں خوش ہیں گداگر ترے
٭٭٭
آشنائے لب و رخسارہوں مجھ سے پوچھو
وہ پری گھر میں اتر آئے تو کیا لگتی ہے
٭٭٭٭
طاق، اندھیرا اور سیارے رہ جائیں گے
جائے نماز پہ میرا سایہ پھر نہیں ہوگا
٭٭٭
یہ کیا کہ آج بڑھے آ رہی ہے میری سمت
ہر ایک موجِ سب گام سیلِ آب لیے
٭٭٭
جلتے ہیں اب بھی ہونٹ دھڑکتا ہے اب بھی دل
ثروت وہ ایک رات تو کب کی گزر گئی
٭٭٭
جھلک اٹھا ہے کنارِ شفق سے تا بہ افق
ابد کنار ہوا خون رائیگاں نہ گیا
٭٭٭
گریہ و گرد کا ہنگام نہیں
دل دھڑکنے کی صدا آتی ہے
٭٭٭