Laaltain

طنز کا موسم اور دوسری نظمیں (نظم گو: آنیے رِیس، مترجم: ادریس بابر)

18 نومبر، 2020
Picture of ادریس بابر

ادریس بابر

نارویجن شاعرہ آنیے رِیس 1927میں پیدا ہُوئیں۔اپنی نسل کے دیگر ممتاز شعرا کے بر عکس آنیے نے اپنے اشاعتی سفر کا آغازقدرے تاخیر کے ساتھ 1975 میں کیا۔ ‘ساتُرا‘، اُن کی پہلی کتاب تھی۔ چار برس بعد، دوسرا شعری مجمو عہ ‘ بلند اشجار کے مابین‘ شائع ہُوا۔ اِس اِنعام یافتہ کتاب نے اُنہیں لکھنے والوں کی صف میں نمایاں جگہ دِلوادی۔ مترجم سے اُن کا غائبانہ تعارف اتّفاق سے اُن کی اِنہی اوّلین کاوشوں کے وسیلے سے ہُوا۔ پیش کیے گئے تراجم شاعرہ کے نقشِ اوّل سے ماخوذ ہیں۔

چوتھائی صدی سے زیادہ عرصہ میں آنیے رِیس کی نظموں کی چھ مزید جلدیں شائع ہُوئیں۔ ہر عمر کے بچّوں کے لئے لکھی گئی آٹھ کہانی کتابیں اِس کے علاوہ ہیں۔ آنیے کی تحریریں اِس دوران متعدّد انتخابوں، درسی اور معاون نصابوں میں شامل کی جاتی رہیں۔اچھّی طرح یاد ہے جبان کے تاحال آخری مطبوعہ دیوان، ‘آسماں فولاد کا‘ پر اُنہیں ایک بڑا ادبی اعزاز پیش کیا گیاتھا۔

[divider]طنز کا موسم[/divider]

سیل ِآب، زلزلہ
زمین کی جڑیں ہلا چکا
آسماں کو خاک میں ملا چکا
بستیاں، اور اُن کی باہمی حدیں مِٹا چکا
پہاڑ ڈھا چکا

پانی چل کھڑے
نئی ڈھلانوں، وادیوں کی سمت
جزیرے، با دلِ نخواستہ بہے
نئے سمندروں کی سمت

یہ سب ہُوا، یہی ہُوا
تو لازمی ہُوا
کوئی ہنسے
ہنسے کوئی بہت

نئے پرانے والوں پر
آزمودہ نقشوں کو آزمانے والوں پر
ریت میں کشتیاں چلانے والوں پر
پتھروں میں غوطے کھانے والوں پر
پانیوں میں سیڑھیاں لگانے والوں پر

ہنسے کوئی بہت شدید
سب یہ جان مان لیں

نئے بنانے ہوں گے
رکھنا ہوں گے اپنے پاس سب
نقشے، زاویے، ستارے، کمپاس سب

[divider]شعریات[/divider]

محاورے کے بطن میں
قید میں پڑا ہے لفظ
تہ بہ تہ بہ تہ
جیسے بے طرح اسیر ہو کنویں کی تہ میں
بیچ صندوق اک
ایک زخمی دل سکون پا رہا

ہمیں یہ صندوق کھینچ لانا ہو گا
محاورے کی قید سے
چُھڑانا ہو گا
لفظ کو،
خود اپنے پاؤں پر کھڑا ہو،
لڑکھڑائے بھاگ کر دکھائے
اِسے یہ سب سِکھانا ہو گا
لفظ پھر بنانا ہو گا

[divider]بِنتی[/divider]

سمے کی کھڈّی پر کَتا
رخنوں، درزوں سے اَٹا
یہ قالین،
اِس کی ایک سطح پر
ابھی گُلاب کھِل رہے ہیں

ابھی کنارے سے لگی ہے
ناؤ تمہاری

دریچے کی سنو بھری سِل پر
ہاتھ رکھے دل پر
میں زرا جھُکوں
تو دیکھ لوں

تمہارے بال، سمندری ہوا
میں لہریے بناتے بال
چمکتے سرخ ہیں
جڑوں کے پاس

[divider]شکریہ[/divider]

کبھی نہیں پہنچنے کا
سفید گھوڑے پر سوار
شہسوار

مگر پہنچ رہی تو ہے، صدا تمہاری
روح کو اُٹھا رہی
بدن کی سطح سے ورا
میرے سنگ تنگ دل وجود کو
بدل رہی، کھِلا رہی

جواب میں یہ
نرم گرم ریشمی، سکوں دہ، اضطراب بخش
لفظ، بھیج دوں؟

کہیں بھٹک نہ جائیں
بادلوں کو احتیاطاً اِن کے ساتھ کر دیا ہے
عنایتوں کا شکریہ ادا کریں گے

[divider]شجرہ عصب[/divider]

بابا جانی
خیر سے وزیرِ مملکت
بھائی جان
سلامت باشد، طبیبِ اعلے
خاوند صاحب
نامدار اُستادِ الاساتذہ
بیٹا جی
آنکھوں کے تارے فرم کے مالک

رُک کر اُس نے کچھ یاد کیا۔۔

اور وہ،
ہمجولی کے بھائی کا دوست
وہ تو سیدھا فوج میں جنرل!

کہہ کر اُس نے ٹھنڈی سانس بھری۔

[divider]مان[/divider]

بات مان جا!
خود فریفتہ
ہو لے! دیکھ، آ
گھُس بیٹھ آنکھوں میں

اِن کو خود تلک
راستہ دِکھا
چیز، تُو جو ہے
سب پہ دے جتا

آبلہ، انا
اب، نہیں تو، کچھ
پھُوٹے گا ضرور

اک دراڑ سی
پڑکے رہے گی
زرہ بکتروں میں

[divider]ملاقات[/divider]

دھیان میں تو لا!
اک بدن زرا
تیرا ذاتی جسم
روح جس میں جھانک لے تو
ہو کے مست
کہہ اٹھے

بہت خوشی ہوئی!
(بہت بہت بہت
بہت خوشی ہوئی)
آپ سے تومل کے
لطف
آ گیا، جناب!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *