[blockquote style=”3″]

حسین الحق کا یہ افسانہ اشعر نجمی کی زیر ادارت شائع ہونے والے ادبی رسالے "اثبات” کے شمارہ نمبر چار اور پانچ کا حصہ ہے۔ ہم اشعر نجمی کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے "اثبات” جیسے معیاری رسالے کو آن لائن قارئین تک پہنچانے کی اجازت عنایت کی۔

[/blockquote]
اثبات میں شائع ہونے والی مزید تخلیقات پڑھنے کے لیے کلک کریں۔
تحریر: حسین الحق

جونتیجہ سامنے آیا، یہ غیر متوقع تو نہیں ہے مگر افسوس ناک ضرور ہے۔

جب نیا نیا گھر بنا تو اس وقت عبدالرزاق کی بڑی آؤ بھگت تھی۔ گھر کا ہر فرد گھر کے لیے عبدالرزاق کی قربا نیوں کا معترف تھا۔ عبدالرزاق نے گھر باہر چاروں طرف اپنے ایثار کا سکہ جمالیا تھا۔ حالاں کہ بعض نے دبی زبان سے اپنے باپوں کی قربانی کا بھی تذکرہ کیا مگر نزدیک و دور چاروں طرف تو عبدالرزاق زندہ باد کا نعرہ گونج رہا تھا۔ ایسے میں کسی اور کی بابت کوئی اور کیا سوچ پاتا، کیا کہہ پاتا۔ پس عبدالرزاق کے اردگرد والوں نے جب عبدالرزاق کو ’’سرپرست خانہ‘‘ بنانے کا اعلان کیا تو ذرا دور والے اس اعلان کی مخالفت کی بابت سوچ بھی نہ سکے۔

عبدالرزاق نے سرپرست بننے کے بعد آمدنی، خرچ اور حفاظت اپنے ذمہ رکھ لی اور بقیہ لوگوں کو بقیہ ذمہ داریاں سونپ دیں۔ ’’بات اگر بہت ٹھیک نہیں تو بہت غلط بھی نہیں‘‘۔ یہی سوچ کر سب نے عبدالرزاق کی سرپرستی مان لی بلکہ یہاں تک ہوا کہ ایک چچا زاد جو شروع سے ’’ہم الگ رہیں گے، ہم الگ رہیں گے‘‘ کا شور مچائے ہوئے تھا ، وہ بھی چور اچکوں کے ڈر سے ساتھ ہی رہنے پر آمادہ ہوگیا۔

اس بیان کو آپ قوموں اور ملکوں کی تقدیر سے بھی وابستہ کرسکتے ہیں لیکن بیان کی عمومیت اس بات کی متقاضی ہے کہ اتنی چھوٹی بات کو عالمی جدوجہد سے نتھی کرکے انسانی شرافت و کرامت کے حصول کی کوشش کی تحقیر نہ کی جائے۔

بیان آگے یوں بھی بڑھ سکتا ہے کہ عبدالرزاق چونکہ ایک ہوشیار اور فعال آدمی تھا ، اس لیے اس نے اپنی زندگی تک گھر کے سارے معاملات کچھ اس طرح نپٹائے کہ لوگوں کو بہت زیادہ شکایت نہیں ہوئی اور اسی لیے اس کی موت پر تقریباً سبھی غم زدہ ہوئے۔ عملی طور پر گھر کا نظام کئی دنوں تک گڑبڑا یا سا رہا۔ ایک عجب قسم کا انفعال یا جمود جس میں کوئی آگے بڑھ کر خود سے کچھ کرنے کی پوزیشن میں اپنے آپ کو نہیں پا رہا تھا۔

معاف کیجیے گا، ایک بات اچانک ذہن میں آگئی ہے اس لیے قلم بند کردے رہا ہوں کہ پہلی سطر میں جو بیان درج کیا گیا ، وہ اس زمانے کا نہیں بلکہ امروز فردا کا ہے۔ اور یہ کوئی قول ذریں نہیں بلکہ پچھلے کچھ دنوں سے جاری صورت حال پر میرے دوست روی شنکر بھاردواج کا تبصرہ ہے۔

بہتر ہوگا کہ ہم پھر پچھلی گفتگو کی طرف لوٹیں۔ بات عبدالرزاق کی تھی کہ عبدالرزاق کی موت کے بعد گھر پر ایک جمود سا چھا گیا تھا اور اس جمود کو اس کے بیٹے غیور خاں نے توڑا۔

اب جو بات غیور خاں تک آن ہی پہنچی تو بہتر ہوگا کہ پہلے غیور خاں کا تعارف کرادیا جائے۔ اس سلسلے میں بھی گفتگو عبدالرزاق ہی کی طرف مڑ جاتی ہے جو ایک مرد مخلص کے ساتھ مرد زیرک و دانا بھی تھا۔ پس اس نے اپنی اولاد کی پرورش میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ نتیجتاً اس کے سبھی بیٹے ماشااللہ چندے آفتاب چندے ماہتاب نکلے۔ اور ان سب میں بھی غیور خاں کی آن بان کا کیا کہنا۔ ولایت کا پڑھا ہوا، ہدایت کا پایا ہوا اور عبدالرزاق کی رفاقت سے سنوارا ہوا۔ اسی غیور خاں نے عبدالرزاق کے سوئم اور دسویں کے درمیان آگے بڑھ کر کچھ اتنی تیزی اور دانائی کے ساتھ ’’معاملات خاندان‘‘ کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا کہ بغیر دستار بندی کے وہ ’’ولی عہد بہادر‘‘ بن گیا۔

تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ایسا ہر قدم قومی سطح پر ایک ایسا بورڈم پیدا کرتا ہے جو بظاہر کچھ دنوں تک تو دگر فعال قوتوں کو مضمحل اور منفعل عنصر کی علامت بنا دیتا ہے مگر یہی اضمحلال اور انفعال آگے چل کر پسماندہ طاقتوں کے اشتعال کا سبب بھی بنتا ہے۔

ولی عہد بہادر مرد دانا تو ضرور تھے مگر مرد مخلص بھی تھے یا نہیں۔ یہ معاملہ مشکوک بھی ہے اور متنازعہ فیہ بھی۔ روی شنکر بھاردواج کا کہنا ہے کہ ’’توڑ جوڑ کا سلسلہ کوئی نیا تو نہیں؟‘‘

فرشتہ اور فیروزشاہی سے سیر المتاخرین تک (صفحہ آپ کوئی بھی تصور کرلیجیے) غلام سلطنت سے انگریزوں تک، مثالیں تو بکھری پڑی ہیں۔

مگر اس صورت حال سے غیور خاں کی صحت پر کیا اثر پڑسکتا تھا؟ اس کو تو جو کرنا تھا، وہ کرتا رہا۔ پہلا کام اس نے یہ کیا کہ بہت سے فیصلوں کو تحریری طور پر تو نہیں مگر عملی طور پر سردخانے میں ڈال دیا۔ دوسرا کام یہ کیا کہ جن عزیزوں کو باپ نے اہم ذمہ داریاں سونپی تھیں ، ان سے وہ ذمہ داریاں لے کر دوسروں کو دے دیں۔ تیسر ا کام یہ کیا کہ باپ اہم فیصلے لینے سے اپنے دگر ہم عمر رشتہ داروں سے ایک ملاقات ضرور کرتا تھا اور اسے’’ مختلف جرگوں کے درمیان مشورت‘‘ کا نام دیتا۔ غیور خاں نے یہ رسم اٹھا دی۔ اس نے تو ہم عمر کیا، اپنے بزرگوں سے بھی مشورے کی زحمت گوارا نہیں کی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روی شنکر بھاردواج نے اچانک چینل بدل دیا اور بہت تیکھے لہجے میں بولا ’’یہ بھی دیکھو!‘‘
اسکرین پر مجمع لگا ہوا تھا اور بازی گر تماشہ دکھا رہا تھا۔

بازی گر کی بازی گری کا سلسلہ شہر میں بہت دنوں سے جاری تھا۔ دراصل بازی گروں کا پورا قافلہ شہر میں اترا ہوا تھا۔ ان لوگوں نے شہر کے نسبتاً ایک سنسان علاقے میں اپنا ڈیرا ڈنڈا ڈال رکھا تھا اور ہر روز کسی نہ کسی نئے علاقے میں اپنی بازی گری دکھاتے اور نتیجتاً ان کے ہرروز کھانے پینے کا سامان مہیا ہوجاتا۔

اسمعٰیل اور پرشوتم کالج سے آتے جاتے کسی نہ کسی راستے اور کسی نہ کسی موڑ پر ان بازی گروں کو مصروف کار دیکھتے۔ اسمعٰیل رکنا چاہتا تو پرشوتم اس کارفضول سے اسے روک دیتا اور کبھی پرشوتم اس جانب راغب ہوتا تو اسمعٰیل کسی نہ کسی مصروفیت کا رونا رونے لگتا۔

’’گویا ہم دونوں تماشا دیکھنا بھی چاہتے ہیں اور اپنے آپ کو تماشے سے دور بھی رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘گائے گھاٹ پر بیٹھے بیٹھے گنگا کی پرسکون لہروں کو پیروں کی شرارت سے مضطرب کرتے ہوئے پرشوتم بولا۔اسمعیٰل خاموش رہا اور اردگرد کی ساری فضا پر شام کا سایہ گہرا ہوتا رہا۔

’’یار ہمارا مسئلہ کیا ہے؟‘‘ پرشوتم کے من میں آج جانے کون سی بے چینی کنڈلی مار کے بیٹھی تھی۔ جواب میں اسمعیٰل کان پر ہاتھ رکھ کر الاپا ؂

بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب وروز تماشا مرے آگے

پرشوتم جھنجھلا گیا ’’سالے یہ کھلی دھاندلی ہے۔ اتنا گاڑھا شعر پڑھنے کا پرمیشن تم کو نہیں مل سکتا۔‘‘

اسمعٰیل مسکرایا اور پھر گنگنا اٹھا ؂
یہ کیسا دستور زباں بندی ہے تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری

’’یار پلیز!‘‘ پرشوتم نے ہاتھ جوڑ دیے۔ ’’نہ تو ایموشنل ہونے کی ضرورت ہے، نہ ہی سیدھی سادی بات کو کٹھن بنانے کی ضرورت ہے۔ اصل سوال شاید صرف یہ ہے کہ ضرورت کس بات کی ہے؟‘‘

’’ضرورت مجمع کی، ضرورت مند بازی گر، ضرورت کی تکمیل کا ذریعہ بازی گری‘‘ عقب سے ایک رواں تبصرہ۔

مداری نے کئی قسم کے تماشوں کا انتظام کررکھا تھا۔ میدان میں کچھ لوہے کے گول گول دائروں کے چھڑ پڑے ہوئے تھے۔ ایک طرف دو بڑے اور موٹے بانسوں کے سہارے ایک رسہ تنا ہوا تھا۔ ایک طرف ایک چھرا بھی رکھا ہوا تھا۔ جہاں چھرا رکھا ہوا تھا وہیں پاس میں ایک چھوٹے سے قبر نما تنبو پر چادر ڈھکی ہوئی تھی۔

مداری کھیل دکھا رہا تھا۔ پہلے اس نے دو بچوں کو بلایا۔ دونوں بچوں نے لوہے کے گول گول دائروں والے چھڑ کو پہلے سر میں پہنا، پھر گردن بازو پیٹ سے گذارتے ہوئے پیر سے نکالا۔ یہ انتہائی حیرت ناک عمل تھا ۔ جس گول چھڑ کا سر سے نیچے آنا مشکل ہو رہا تھا، اسے ان بچوں نے پورے بدن سے گذار دیا۔ پھر دوسرا حیرت ناک کھیل شروع ہوا۔ ایک لڑکی دو بانسوں کے سہارے تنے ہوئے رسے پر چڑھ گئی۔ اس لڑکی نے اپنے سر ایک دو نہیں تین گھڑے تلے اوپر سجا رکھے تھے۔ وہ لڑکی تلے اوپر سجے ہوئے تینوں گھڑوں کے ساتھ تنے ہوئے رسے پر چلنے لگی۔ دیکھنے والوں کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ مداری اپنی ڈھولک کی تھاپ تیز سے تیز تر کرتا چلا گیا، لڑکی تنے ہوئے رسے پر چلتی چلی گئی اور یوں دوسرے کنارے تک پہنچ گئی۔ پھر ایک لڑکا اس چھوٹے سے قبر نما تنبو میں چلاگیا جس کو چادر سے ڈھک دیا گیا تھا۔ تنبو اتنا چھوٹا تھا کہ یقیناًاس لڑکے کے تنبو کے اندر جانے کے بعد دائیں بائیں کوئی جگہ نہ بچی ہوگی۔ جب وہ لڑکا پورے کا پورا اندر چلا گیا تو مداری نے چھرا اٹھایا اور اس تنبو کے بیچوں بیچ پوری طاقت سے گھونپ دیا۔ کھچ کی آواز صاف سنائی دی، تنبو کے اندر سے خون بہہ کر آتا بھی صاف دکھائی دیا۔ مداری نے چھرا باہر نکالا تو چھرا بھی خون میں لتھڑا ہوا تھا۔ پھر کچھ دیر بعد مداری نے تنبو اٹھایا تو تنبو کے اندر خون ہی خون تھا مگر تنبو بالکل خالی تھا…لڑکا غائب تھا۔

’’کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘ اسمعٰیل نے ٹی۔وی آف کرتے ہوئے روی شنکر بھاردواج سے پوچھا۔

’’بازی گری فن ضرور ہے مگر اس کی بنیادی حیثیت معاشی اور افادی ہے۔ مزید بر آں یہ کہ افادی فن میں بھی اگر مہارت نہ ہو تو فن کا مظاہرہ ناممکن ہے۔‘‘ روی شنکر کھیلوں کے مبصرین کی زبان بول رہا تھا۔

’’مگر اس سلسلے میں ایک بنیادی بات تم بھول رہے ہو۔‘‘ اسمعٰیل بھی روی شنکر کے لہجے میں بولا ’’ڈیووشن کے بغیر مہارت کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکتی۔‘‘

گویا فن اور اس کی افادی اہمیت کے پس منظر میں افراد کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے کہ مہارت اور ڈیووشن کا تناسب کس کے یہاں کتنا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عبدالرزاق اور غیور خاں کے درمیان کم از کم ۲۵ برس کی طویل مدت حائل ہے۔ اس درمیان بے درودیوار کے اس قلعہ نما گھر میں کچھ بوڑھے مرے مگر ان سے دوگنا بچے پیدا ہوئے اور عبدالرزاق کی خوش انتظامی کے سبب یا اس کی مخالفت میں کوئی آواز نہ اٹھنے کے سبب جہاں دوردراز کے رشتہ دار بھی اس گھر کا حصہ بن گئے وہیں ضرورت کے تحت عبدالرزاق نے گھر کے رقبے کو اور پھیلا بھی دیا۔ غیور خاں کے جس زمانے کا ذکر مقصود ہے، اس وقت یہ گھر محلہ بن چکا تھا جس کے ٹھنڈے سائے میں بہت سے خاندان آباد ہوگئے تھے اور ہر گھر اندر اندر چھوٹی چھوٹی کھڑکیوں کے سبب ایک دوسرے سے جڑا ہوا تھا اور اس مشترکہ گھر کی مجموعی آبادی جہاں اس علاقے میں مچھر مکھی کی طرح پھیلی ہوئی تھی وہیں آہستہ آہستہ ’’آنندی ‘‘ والی صورت حال پیدا ہونے لگی۔

آگے کا حال احوال کچھ یوں ہے کہ اندر اندر غیور خاں سے لوگ بہت مطمئن نہیں تھے۔ اس کی کارکردگی اطمینان بخش نہیں تھی۔ اس کا رویہ دوستانہ کیا مساویانہ بھی نہیں تھا۔ آمدنی خرچ اور حفاظت کا خود مالک بن کر ایک طرح سے وہ اس پورے جرگے کا بے تاج بادشاہ بن گیا تھا اور یہ بات بہت لوگوں کو ناپسند تھی۔ لوگ اپنی اپنی نجی محفلوں میں، شام کی بیٹھکوں میں اور چغل خوری کی ہر گنجائش کا فائدہ اٹھا کر اس کے غلط کاموں کا تذکرہ بار بار کرتے۔

غیور خاں کی اصل بد نصیبی یہ تھی کہ اس کے جوتھوڑے بہت اچھے کام تھے، وہ کسی کو یاد نہ تھے۔

’’اگر اقتدار کے صرف اچھے کارنامے یاد کیے جاتے رہیں اور خلق خدا کے سامنے اقتدار کی خامیاں نہ گنائی جائیں تو پھر حزب مخالف کو توتیل چاول کی دوکان کھول لینی چاہیے، وہ سیاست کیوں کرے؟‘‘ روی شنکر بھاردواج کا سوال۔

بھاردواج کا یہ سوال فی الحال وقت کے کولڈ اسٹوریج میں محفوظ کرکے آگے بڑھا جائے اور دیکھا جائے کہ غیور خاں کا کیا ہوا؟

تو اس بابت اطلاع یہ ہے کہ غیور خاں کچھ دنوں تک تو سرداری کی خودساختہ گاڑی کسی طرح کھینچتا رہا مگر آخر کار اس کے خلاف کھلی بغاوت ہوگئی۔ جرگہ متفقہ طور پر اس کے خلاف ہوگیا اور جرگے کی چوپال میں کھلے عام اس پر اعتراضات کی بھرمار ہوگئی۔ اور جب غیور خاں اپنا دفاع نہ کرسکا تو اس نے اپنے گرگوں کے ذریعہ خوف و دہشت کا ماحول گرم کردیا۔

مگر اس کے باوجود جرگے والوں نے ہمت کرکے غیور خاں کے ایک نانہالی عزیز کو جرگے کی دیکھ ریکھ کی ذمہ داری سونپ دی اور وہ عزیز بھی چونکہ ’’سورما‘‘ قسم کی چیز تھا ، اس لیے اس نے ڈنکے کی چوٹ پر غیور خاں سے لوہا لینے کا اعلان کردیا۔

’’حزب اختلاف کبھی بھی اپنے بل پر بغاوت کا بگل نہیں بجاتا۔‘‘

اگر میں روی شنکر بھاردواج کے اس خیال کو فی الحال پرے بھی پھینک دوں تب بھی اس حقیقت کا اعتراف تو کرنا ہی ہوگا کہ غیور خاں سے لوہا لینے والے بھی اپنے نانہالی عزیز وں یعنی اپنے علاقے کے باہر کے افراد کی مدد لینے پر مجبور ہوگئے تھے۔ اور اب اس کے بعد کی صورت حال خاصی گنجلک ہے….یعنی حزب اختلاف نے کمر کسی، پھر باہر والوں کی مدد سے جرگے کا مالک بنا پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر۔۔۔۔۔۔۔

’’حسب دستور روایات و خصوصیات امم سابقہ۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
جی نہیں یہ روی شنکر بھاردواج کا تبصرہ نہیں ۔ یہ تو اچانک کسی کتاب کی کوئی سطر یاد آگئی۔

پھر جرگے والوں اور نانہالی عزیزوں میں مارا ماری شروع ہوگئی۔ اب جو لوگ جرگے کے کرتادھرتا بن گئے تھے، انھوں نے اپنا اقتدار بچانے کے لیے اِدھر اُدھر نگا ہ کی، اور آپ جانتے ہی ہیں کہ دو ملا میں مرغی حرام ہوجاتی ہے اور بندر جب بٹوارہ کرتا ہے تو ساری روٹی خود کھا جاتا ہے۔ تو ایسا ہی کچھ جرگے والوں کے ساتھ بھی ہونے لگا کیوں کہ انھوں نے نانہالی عزیزوں سے بچنے کے لیے اِدھر اُدھر جو ’’پیغامبر‘‘ بھیجے اور کچھ مدد حاصل کی، اس کے نتیجے میں نانہال والے تو کنارے پڑگئے مگر ’’اِدھر اُدھر کے لوگ‘‘ اب معاملات میں اس طرح دخیل ہوگئے کہ خود جرگے والوں کو اپنی جان چھڑانی ’’ایک کار مشکل و عظیم ‘‘ ہوگیا۔

بالآخر منظر کچھ یوں کھلا کہ چاروں طرف ڈھشم ڈھشم شروع ہوگیا۔ پہاڑوں کی چٹانیں گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونجتی رہیں ، زمین پر ہر گلی کوچہ خوں سے سرخ ہوتا رہتا، عورتیں بھیڑ بکریوں کی طرح ہنکائی جاتی رہیں۔ لوگوں سے زبردستی عبادت بھی کرائی جاتی رہی اور زبردستی رقص بھی کرایا جاتا رہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روی شنکر نے پھر ٹی وی آن کردیا تھا۔

ولایت کا کوئی علاقہ تھا۔ وہاں خلق خدا کی کثرت دکھائی دی۔ یہ خلق خدا ولایتی فرنگی نہیں تھی۔ یہ اسی عبدالرزاق اور غیور خاں کے علاقے کی مخلوق تھی جن کی داستان رزم و بزم اوپر بیان کی گئی۔ ان کے چہرے ستے ہوئے، سپاٹ اور جذبے سے عاری تھے۔ اور یہ سپاٹ چہرے والی مخلوق ، اجنبی سرزمین پر بے یقینی کا درد جھیلتے ہوئے کوہستانی یوں نظر آئے جیسے انھوں نے اپنی کشتیاں جلا ڈالی ہوں۔

’’کیا معاملہ ہے؟‘‘ میں نے روی شنکر سے پوچھا۔

’’یہ جھنڈ کا جھنڈ اس علاقے سے بھاگ نکلا اور اب اس علاقے سے جڑنے کی کوشش کا عذاب سہہ رہا ہے۔‘‘

انسانی تاریخ میں نظام سے بے زاری کا ایسا نمونہ شاید چشم دہر نے پہلے کبھی نہ دیکھا ہوگا۔

یہ جملہ بھی اس تحریر میں فٹ ہوتا نظر نہیں آتا مگر میں نے صرف اس لیے درج کردیا تاکہ قارئین کو بوقت ضرورت دشواری نہ ہو۔ دوسری خاص بات یہ کہ یہ جملہ روی شنکر بھاردواج کا نہیں ہے۔ روی شنکر بھاردواج کا جملہ یا تبصرہ صرف اتنا ہے کہ ’’جو نتیجہ سامنے آیا یہ غیر متوقع تو نہیں مگر افسوس ناک ضرور ہے۔‘‘ بعد میں اندازہ ہوا کہ یہ خیال صرف روی شنکر کا نہیں ، اس کے بزرگوں، دوستوں اور عزیزوں کا بھی ہے۔

ناچیز راقم الحروف نے روی شنکر بھاردواج کے اس تبصرے پر کہنا چاہا تھا کہ ’’نظام سے بے زاری تو ہم سب نے دیکھا مگر نظام سے زنا بالجبر کا جو مجموعی نمونہ مسلسل پیش نظر ہے اور اس کا جو نمونہ بالعموم سامنے آتا ہے، روی شنکر بھاردواج کے لیے وہ بھی متوقع ہے یا نہیں؟؟‘‘

میں نے یہ کہنا چاہا تھا مگر کہا نہیں۔
دراصل میں نے یہ سوال فی الحال محفوظ کررکھا ہے۔
شاید روی شنکر بھاردواج کے اندر یہ سوال خود ہی سر اٹھائے!
Image: Jitish Kallat

Leave a Reply