Laaltain

ہم زندہ رہتے ہیں (ساحر شفیق)

ہم زندہ رہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔۔۔ مر جاتے ہیں ہم نے کبھی سمندری سفر نہیں کیا ہوتا باغیوں کے کسی گروہ کے ممبر نہیں بنتے کسی مداری کو زندہ سانپ کھاتے ہوئے نہیں دیکھا ہوتا ہم اس کے باوجود مر جاتے ہیں ہمارے پاس ایک دن ہوتا ہے جسے ہم سو کر گزار دیتے ہیں اور […]

اِک نظم ابھی ابھی الماری کے اک کونے سے ملی ہے دبک کر بیٹھی پچھلے برس کی کھوئی یہ نظم کب سے میں ڈھونڈ رہی تھی اس نظم میں مَیں بھی تھی تم بھی تھے ہم دونوں کی باتیں تھیں دروازے پہ ٹھہری اک دستک تھی گہرے نیلے رنگ کے پردے تھے اِک اکلوتی پینٹنگ […]

نزار قبانی: جب مجھے کسی عورت سے محبت ہوتی ہے تو تمام درخت میری طرف ننگے پائوں دوڑنے لگتے ہیں
سید کاشف رضا: اور وہ ایسی جیت تھی جس کی یاد میں زمین پر کوئی لاٹھ گاڑی جا سکتی تھی
صفیہ حیات: ہم سب جھوٹے ہیں ایک ہی رشتہ سے بندھے عمر بتاتے ہیں بھلا رشتہ اور پھول بھی کبھی سدا بہار ہوئے۔۔۔؟
ثروت زہرا: مجھے تماری سماعتوں سے محبت ہے جو ہزار گدلے خیالات کے دریاؤں کو سمندروں کی طرح خود میں جگہ دے کے تازہ دم کردیتی ہے
ثروت زہرا: تمھارے گھیروں میں آجانے کے بعد مجھے ایسا کیوں لگتا ہے جیسے پوری کائنات مجھ میں سما رہی ہو
رفعت ناہید: بڑا دریا اپنا راستہ بدل چکا ہے ہواؤں نے رہنے کے لیے کوئی اور درخت منتخب کر لیے ہیں اور دریا کے کناروں پر بڑی بڑی دراڑوں میں زہریلی بوٹیاں اگ آئی ہیں
سید کاشف رضا: ہمارے لیے تو یہی ہے تمہارا جلوس جب شاہراہ سے گزرے تو تم اپنی انگلیوں کی تتلیاں ہماری جانب اڑاؤ
سوئپنل تیواری: تبھی سے تعاقب میں ہوں تتلیوں کے کئے جا رہا ہوں انہیں جمع ہر دم کہ اک روز ان سے دوبارہ میں تخلیق اس کو کروں گا جو خوشبو بدن تھی