محمد حمید شاہد:منشایاد کی مٹھی میں جو مٹی تھی وہ جگنو بن کر چمکتی تھی۔ ان سورجوں کی طرح جن کے مقابل آکر نئے عہد کی صارفیت زدہ مجہول حسیت کے چراغ منہ چھپانے لگتے ہیں۔
محمد حمید شاہد: بسین کے اِس معصوم اور بے ضرر حوالے کوبعد ازاں وقوع پذیر ہونے والے سانحوں نے ثانوی بنادیا تھا۔ اب تو اُس کی یادوں میں بسین کے اَندر بپھرے پانیوں کا شراٹا بہہ رہا تھا اور وہ ایک ایک منظر پوری جزئیات کے ساتھ دیکھتا تھا۔
محمد حمید شاہد: بیدی نے انسانی نفسیات کو سمجھنے اور انسانی بطون میں اتر کراس کے گنجھل کھولے ہیں، انتہائی ضبط اور پورے خلوص کے ساتھ ،اور یہ کوئی معمولی اور کم اہم واقعہ نہیں ہے
محمد حمید شاہد: قرۃ العین حیدر کے تخلیقی قرینے اور مزاج کو سمجھنے کی نیت ہو تو” میرے بھی صنم خانے” کے آغاز ہی میں وہ ہمارے لیے اشارے فراہم کر نا شروع کر دیتی ہے۔
محمد حمید شاہد: اِس عادت نے شائستہ کے بَدن میں کسمساہٹ – بے قراری اور اِضطراب کی موجیں رَکھ دِی تھیں۔ وہ سارے گھر میں اِدھر اُدھر بکھرے تعطل کو باہر دھکیلتی رہتی
محمد حمید شاہد: "دیکھو قوم اور بھیڑ میں بڑا فرق ہوتا ہے"۔۔۔۔اس کی شہادت کی انگلی میرے کندھے کو کاٹ رہی تھی۔"قوم منظم ہوتی ہے۔۔۔۔ ایک" اس کی انگلی اب اوپر فلک کو اٹھ رہی تھی اور۔۔۔۔ اور۔۔۔۔ بات آگے بڑھانے سے پہلے ہی اس کی ساری انگلیاں پھیل کر ہوا میں بھٹکنے لگیں۔۔۔
محمد حمید شاہد: بس ایک ساعت کے لیے اس کا چہرہ اور اس پر برستے یقین کے رنگوں کو دیکھ سکا۔ اور پھر اس کی جانب کٹے ہوے شجر کی طرح یوں گرا جیسے سجدہ سہو کر رہا ہو۔
محمد حمید شاہد: اور اُس نے وہ خط جو کئی دِن سے اُس کے ٹیبل پر بند پڑا تھا ‘اِن دو دِنوں میں کئی بار پڑھ ڈالا تھا۔ اور جب وہ اَڑھائی بجے والی بس سے ایک طویل عرصے بعد اپنے گاﺅں ویک اینڈ گزارنے جا رہا تھا تو سب تعجب کا اِظہار کررہے تھے۔
محمد حمید شاہد: زندہ رہ جانے والوں کو اپنی موت تک زندہ رہنے کے جتن کرنا ہوتے ہیں،اسی حیلے کو بروئے کار لا کر وہ اپنے دلوں سے گہرے دُکھ کا وہ بوجھ ایک طرف لڑھکانے میں کامیاب ہو ہی گئے تھے